ہے تو اپنے مال کو مال نہیں سمجھتا تو اس کو آپ نہیں کہہ سکتے کہ یہ غلط محبت ہے۔ بیوی کی محبت کا حق ادا کرتا ہے، لیکن جب دینی تقاضے ہوتے ہیں، مسجد کی اذان ہوتی ہے تو فوراً مسجد پہنچ جاتا ہے لہٰذا دنیا کی محبت شدید بھی جائز ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی محبت اشد ہو، کچھ ڈگری زیادہ ہو۔ اس کا پتا جب چلے گا جب اس کا امتحان ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص جارہا ہے کہ ایک حسین لڑکی سامنے آگئی یا تاجر ہے اور ایک گاہک دکان پر آگئی یا جہاز پر بیٹھ رہا ہے اور ایئرہوسٹس آئی، اس وقت پتا چلے گا کہ اس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہے یا دنیا کی زیادہ ہے۔ اگر نظر بچالیتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اس پر غالب ہے اور اگر نظر کو خراب کرتا ہے تو سمجھ لو کہ یہ اپنے نفس کا غلام ہے، اس کی عبدیت کامل نہیں ہے،یہ اللہ تعالیٰ کا صحیح غلام نہیں ہے۔ خواجہ صاحب کا یہ شعر بڑے درد سے پڑھتا ہوں جو کل بھی پڑھا تھا ؎
بہت گو ولولے دل کے ہمیں مجبور کرتے ہیں
تری خاطر گلے کا گھونٹنا منظور کرتے ہیں
کیا ہر شخص تارکِ سلطنتِ بلخ ہوسکتا ہے؟
کتنا ہی دل چاہے کسی حسین کو دیکھنے کے لیے یہاں تک کہ اس کے دل میں یہ وسوسہ آجائے کہ اے خدا! اگر تو مجھے سلطنت دیتا تو میں اس حسین پر فدا کرکے اس کو حاصل کرلیتا لیکن میں تیرے خوف سے اپنی نظر کو بچاتا ہوں تو قیامت کے دن سلطان ابراہیم ابنِ ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کا حشر ہوگا کیونکہ اس نے اس شکل کو جو اس کے قلب میں سلطنتِ بلخ کے متبادل تھی ترک کردیا، اللہ تعالیٰ کے خوف سے اپنی نظر کو بچایا۔ اپنے قلب و جاں کو بچاکر،اپنے ایمان کو بچاکر فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ6؎ ہوا، غیراللہ سے بھاگا۔ان شاءاللہ دیکھنا کہ ایسے لوگوں کے درجے قیامت کے دن سلطان ابراہیم ابنِ ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے برابر ہوں گے کیونکہ سلطنتِ بلخ تو نہیں دی کہ بے چارہ مولوی ہے ، طالبِ علم ہے، صوفی ہے سلطنت کہاں سے لائے گا لیکن سلطنتِ بلخ کی متبادل صورتوں سے اس نے اپنی نظر کو بچایا ہے
_____________________________________________
6؎ الذّٰاریات: 50