Deobandi Books

تکمیل معرفت

ہم نوٹ :

17 - 34
رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ انہو ں نے کہا کہ تمہاری اس تقریر پر میری بیوی نے کہا ہے کہ کل اس مولوی کو انڈے اور پراٹھے کا ناشتہ کراؤں گی، تم اتنے بڑے عالم ہو لیکن تم نے کبھی یہ بات مجھے نہیں سنائی۔ تو مولانا رومی فرماتے ہیں؎
زلف  جعد  و  مشک  بار  و  عقل  بر
جو نامحرم ہیں ان سے دل مت لگاؤ، چاہے ان کے گھونگھریالے بالوں سے کتنی ہی مشک کی خوشبو آرہی ہو اور تمہاری عقل اُڑا رہی ہو کیونکہ ایک دن ایسا آئے گا؎
آخر   او    دم    زشت     پیرِ    خر
جب یہ سڑکوں والیاں بڈھی ہوجائیں گی تو ان کی چٹیا بڈھے گدھے کی دُم معلوم ہوگی۔ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا نے بڈھے گدھے کی دُم سے کیوں تشبیہ دی؟ میں نے کہا کہ مولانا نے زلفوں کو بڈھے گدھے کی دُم سے اس لیے تشبیہ دی ہے کہ جوانی ہر کسی کی اچھی معلوم ہوتی ہے، مولانا ماہرِ نفسیات تھے، ہوسکتا تھا کہ جوان گدھے کی دُم سے تشبیہ دینے سے بعض لوگوں کے نفس کو حسن فانی سے کچھ رغبت باقی رہتی، اس لیے بڈھے گدھے کی دُم سے تشبیہ دی تاکہ نفس کو بالکل ہی نفرت ہوجائے۔ فنائیتِ حسن پر میرا بھی ایک شعر ہے جو آپ کو سنایا بھی تھا؎ 
کمر   جھک   کے   مثل   کمانی    ہوئی
کوئی    نانا    ہوا    کوئی   نانی     ہوئی
ان  کے بالوں  پہ  غالب سفیدی ہوئی
کوئی   دادا   ہوا    کوئی   دادی   ہوئی
ایک دن ایسا ہوگا یا نہیں؟ لہٰذا ایمان مت ضایع کیجیے۔ زندگی ایک دفعہ ملی ہے، اسی میں ہم اللہ کے ولی بن سکتے ہیں، بار بار دنیا میں نہیں آنا ہے۔ تقویٰ کی زندگی اختیار کرکے اگر ہم اللہ کے ولی بن جائیں تو سارے جہاں کی لذتیں بصورت کیپسول قلب و روح میں ان شاء اللہ تعالیٰ   اُتر جائیں گی، پھر ایک سجدہ میں ان شاء اللہ دو سو سلطنت سے زیادہ مزا آئے گا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں؎
Flag Counter