عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
ہیں،لہٰذا میرے حق کےبعد اُن کا حق ہے۔ اور ایک دُعا اور سکھائی: رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا 15؎اے میرے رب! میرے ماں باپ پراس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے اور جس طرح بچپن میں اُنہوں نے میرے اوپر رحم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا بچپن یاددلارہے ہیں۔ ہم پچپن سال کے ہوجاتے ہیں تو اپنا بچپن بھول جاتے ہیں۔ جوانی اور طاقت میں بوڑھے ماں باپ سے انسان گستاخیاں کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ بس اب برداشت نہیں ہورہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسی دُعا سکھائی جس میں ہمیں ہمارا بچپن یاد دلایا اور ماں باپ کے احسانا ت بھی یاد دلائے کہ ان احسانات کے بدلے میں مجھ سے یوں دُعا کرو: رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا اے میرے رب! میرے ماں باپ پر رحمت نازل فرما کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا۔ والدین کے ساتھ اساتذہ و مشایخ کے لیے دعا مانگنے کا استنباط اس آیت کے ذیل میں حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے تفسیر بیان القرآ ن کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اساتذہ اور مشایخ جن سے انسان اصلاحِ نفس کرائے اور ان سے دین سیکھے ان کے لیے بھی دعا گو رہنا چاہیے۔ جب ماں باپ کے لیے دعا مانگے تو اپنے استاد اور شیخ کے لیے بھی دعا مانگے ۔ حضرت نے لکھا ہے کہ ربوبیت کے معنیٰ ہیں پرورش۔ پس جنہوں نے بھی پرورش کی ہے، خواہ جسمانی یا روحانی اُن کے لیے بھی دُعا مانگنا چاہیے۔ ماں باپ جسمانی پرورش کرتے ہیں، شیخ روحانی پرورش کرتا ہے، لہٰذا ماں باپ کے ساتھ شیخ کے لیے بھی دُعا کرنی چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات والدین کے حقوق کے سلسلے میں اس وقت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی _____________________________________________ 15؎بنی اسرآءِیل:24