عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
خون کے رشتوں میں کون لوگ شامل ہیں؟ اب سنیے اَرْحَامْ یعنی خون کے رشتوں سے کیا مراد ہے؟ یہ بات جہاں بھی بڑے بڑے علماء کے سامنے میں نے بیان کی، سب نے کہا کہ آج زندگی میں پہلی دفعہ ہم نے یہ بات سنی ہے، ہمارے علم میں آج اضافہ ہوا۔ ہم لوگ رحم کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ، بہن بھائی، دادادادی، نانا نانی، خالہ پھوپھی وغیرہ صرف یہ خون کے رشتے ہیں،لیکن علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمۃاللہ علیہ روح المعانی میں اَرْحَامْ کی تفسیر فرماتے ہیں کہ اَلْمُرَادُ بِالْاَرْحَامِ الْاَقْرِبَاءُ مِنْ جِھَۃِ النَّسَبِ وَمِنْ جِھَۃِ النِّسَآءِ 8؎یعنی ارحام سے مرادوہ رشتے ہیں جو نسب یعنی خاندان سے بنتے ہیں جیسے ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور وہ رشتے بھی ہیں جو بیویوں کی طرف سے بنتے ہیں جیسے ساس سُسر، برادرِ نسبتی وغیرہ یہ سب بھی خون کے رشتوں میں شامل ہیں، ان کا حق ویسا ہی ہے جیسے اپنے ماں باپ کا، ان کا ادب و اِکرام بھی ویسا ہی ہے۔ سُسرالی رشتوں کی حق تلفیاں وہ پال کر آپ کو اپنی بیٹی دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ بیٹی پال کر وہ آپ کو دے دیں تو ہر وقت مونچھوں پر تاؤ دے رہے ہیں کہ گویا ساس سُسر کا اب اپنی بیٹی پر کوئی حق نہیں رہا۔ ذرا ذرا سی بات پر ساس سُسر سے جنگ چل رہی ہے، ان کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ ماں اگر بیمار ہوگئی اور اس نے کہا کہ بھیا! ذرا دو دن میری بیٹی کو اور رہنے دو، میری خدمت کرے گی، تو کہتے ہیں کہ میرا حق ہے، اب میں اس کا مالک ہوں اس کا کان پکڑ کر لے جاؤں گا۔ ارے جاہلو! اللہ سے ڈرو۔ تمہارے اوپر بھی یہ وقت آسکتا ہے۔ اور ملّاعلی قاری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں نَسَبًا وَّصِھْرًا 9؎ فرمایا، تو نسب کہتے ہیں خاندانی رشتوں کو اور صِہْرًا سے مراد _____________________________________________ 8؎روح المعانی:185/4 ، النسآء(1)، داراحیاء التراث، بیروت 9؎الفرقان:54