ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد اول )------------------------------------------------------------- 139 ( 94 ) احوال قابل التفات نہیں ، اصل چیز اتباع شریعت ہے : فرمایا کہ کیفیات دو قسم کی ہیں ۔ ایک کیفیات روحانیہ ، دوسری کیفیات نفسانیہ ، کیفیات روحانیہ مشاہدہ اور غلبہ ذکر ہے جس کے آثار سہولت اطاعت اور شوق فرمانبرداری ہے اور اس پر رضائے باری موعود ہے ۔ کیفیات نفسانیہ احوال کہلاتے ہیں ۔ مثلا شدت شوق ہیجان وارفتگی یہ امور مطلوب نہیں ہیں ، اسی لئے کملاء کبھی ان کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ بلکہ کبھی کبھی احوال سے ضرر بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ مثلا جو شخص شدت شوق میں مبتلا ہے ان حالات میں سے ایک حالت اس کو ضرور پیش آئے گی ، یا تو لقاء نصیب نہ ہونے سے مایوسی یا غلبہ و ہیجان سے مرض و ہلاک یا اغوائے شیطان سے عجب و کبر اور یا غایت ادلال سے گستاخی ۔ یہ سب حالتیں مذموم اور مبعد عن الحق ہیں اور اسی سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ بعض لوگ جو مستجاب الدعوات ہونے کے متمنی ہوتے ہیں اور اس کو کمال سمجھتے ہیں یہ غلطی ہے ، کیونکہ اجابت دعا بھی احوال میں سے ہے اور بعض اوقات مضر ہوتا ہے اور نیز جو شخص مستجاب الدعاء ہو گیا ہے وہ اجابت دعا کے وقت غور کر لے اور دیکھے کہ اس سے قرب خداوندی میں کچھ بیشی بھی ہوئی یا نہیں ۔ اگر قلب نفی میں جواب دے ( اور ضرور ایسا ہو گا ) تو سمجھ لے کہ مستجاب الدعا ہو جانا کوئی کمال نہیں ۔ اس کے بعد دیکھے کہ اگر میں ایک مرتبہ سبحان اللہ کہتا ہوں تو اس سے کچھ قرب حاصل ہوتا ہے یا نہیں ۔ اگر شریعت و طریقت از دیاد قرب کا فتوی دے تو یقین کر لے کہ مستجاب الدعا ہو جانا ذکر لسانی سے بھی متاخر المرتبہ ہے ۔ پس اس سے یہ بات خوب واضح ہو گئی کہ احوال قابل التفات و توجہ نہیں ۔ ہاں مواہب خداوندی ہیں کہ حاصل ہو جائیں تو اس کا فضل ہے ، نہ حاصل ہوں تو نجات و قرب خداوندی میں کچھ خلل نہیں آتا ۔ اور اس کی تائید کہ احوال بذاتہا مطلوب نہیں اس حدیث سے ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی اسئلک شوقا الی لقائک من غیر