ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
آنکھوں مشاہدہ کر رہے ہیں مگر جو زبان ایک دفعہ نکل گیا ہے قیامت آجائے مگر اس سے نہ ہٹیں اس قدر نفس پروری کا زمانہ ہے کہ تجربہ ہوگیا مشاہدہ ہوگیا لیکن آڑے ہوئے ہیں - ( ملفوظ 298 ) اکابرین کی بے نفسی ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اپنے بزرگوں کو دیکھا کیسی کیسی ہستیاں تھیں اس قدر بے نفسی اللہ اکبر اپنے مو بالکل مٹائے ہوئے اور فنا کئے ہوئے تھے اکسی فعل اور کسی قول سے یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ کچھ ہیں یا کچھ جانتے ہیں ان حضرات کو اب آنکھیں ڈھونڈتی ہیں وہ حضرات سب کچھ تھے اور اپنے کو کچھ نہ سمجھتے تھے اور آجکل یہ حالت ہے کہ کچھ نہیں اور اپنے کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہیں اور اس کے متمنی ہیں کہ دوسرے بھی ہم کو کچھ سمجھیں - اسی کی ایک شاخ یہ مرض ہے جو عام بلا کی طرح پھیلا ہے کہ اپنے لئے لمبے چوڑے القاب تجویز ہونے لگے - کوئی امام التفسیر کہلاتے ہیں کوئی امام الشریعت کہلاتے ہیں - کوئی امام الھند بنے ہیں ہوئی شیخ الحدیث یہ سب نئی فضا سے ناشی ہیں - ایک لقب ان میں پرانا ہے شیخ الاسلام یہ تو ناگوار نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ سب میں وہی جدت کی جھلک ہے مجھ کو تو سن سن کر وحشت ہوتی ہے کہ اللہ ایک دم کا یا پلٹ ہوگئی کہ کس قدر زبر دست انقلاب ہوا ہے اور یہ اس قدر جلدی انقلاب ان تحریکات کے اثر سے ہوا ورنہ انقلاب ہونے کے لئے بھی ایک وقت کی ضرورت ہوا کرتی تھی ہم نے تو یہ دیکھا کہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ اپنے شاگردوں اور مریدوں کے سامنے فرمایا کرتے تھے - کہ بھائی میں ادھورا ہوں اور میں نے ان دونوں سے کئی مرتبہ کہا کہ بھائی مجھ کو بھی کچھ بتادو مگر دونوں نے بخل سے کام لیا مراد دونوں سے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر میں ایسا ہوتا جیسے کہ یہ دونوں تو بالدیوں ( یعنی مواشی چرانے والوں ) کو ایسا بنا