ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا عرض کیا کہ حضرت دعاء فرمادیجئے کہ میں صاحب نسبت ہوجاؤں فرمایا کہ صاحب نسبت تو ہو لیکن اصلاح کراو اور وہ بھی اپنے ماموں سے ( میں مراد ہوں ) تب مولوی ظفر احمد نے اس طرف رجوع کیا تو آخر با وجود صاحب نسبت ہونے کے جو پھر اصلاح کی طرف توجہ دلائی وہ اصلاح کیا ہے مراد اس سے وہی انسانیت ہے مگر لوگ اس کو بھال کر اپنی ہی بگھاتے پھرتے ہیں - ( ملفوظ 261 ) فکر میں اعتدال کی ضرورت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب تک آدمی فکر سے کام نہیں لیتا اکثر غلطیوں کا شکار بنا رہتا ہے فکر سے کام لینے میں غلطیوں کا بہت کم صدور ہوتا ہے مگر فکر میں بھی غلو نہ ہو ایسے فکر سے بھی اللہ بچائے - ایک حافظ صاحب تھے ان میں بے فکری کا مرض زیادہ تھا ان سے میں نے کہا کہ سوش کر کام کیا کرو اور سوچ کر بات کہا کرو لیکن جب گھر کی ہی عقل نہ ہو تو کوئی دوسرا ساتھ ساتھ تھوڑا ہی پھرے گا آپ نے اول بسم اللہ فکر اور سوچ کی ریل سے شروع کی - یہاں سے روانگی ہوئی بیوی بچے ساتھ جب ان کو ریل میں سوار کر چکے چنوں کو جی چاہا ریل سے اتر کر چنے خریدنے کا ارادہ کیا - اب کھڑے سوچ رہے ہیں کہ منشا اس خریدنے کا حظ نفس تو نہیں خریدوں یا نہ خریدوں اسی میں ریل نے سیٹی چلنے کی دیدی لیکن ان کا مراقبہ ختم نہ ہوا تھا حتی کہ ریل چلدی اب یہ اسٹیشن پر اور بیوے بچے ریل میں سخت پریشانی مجھ کو یہ قصہ معلوم ہوا میں نے کہا کہ عقل مند یہ مراقبہ اس طرح کرنا چاہئے تھا کہ چنے خرید کر اور ریل میں بیٹھ کر سوچتے کہ داعی اس کی ضرورت ہے کا محض حظ نفس سبب ہے اگر ضرورت نہ سمجھتے تو کسی کو دیدیتے یا بیوی بچوں کو ہی دیدیتے سو اس طرح کی فکر غلو ہے اسی طرح ہر فکر میں اعتدال چایئے مثلا بعضے لوگ اخلاص کی فکر میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ اصل عمل ہی رہ جاتا ہے اسی پر حضرت حاجی صاحب رحمتہ للہ علیہ فرمایا