ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
نخوت میں محض بدنام ہی بدنام ہیں - البتہ ہماری قوم شیخ ذادے ضرور ایسے ہیں کہ یہ کسی کے معتقد مشکل سے ہوتے ہیں - کثرت سے واقعات اس کے شاہد ہیں - ( ملفوظ 199 ) آج کل حقیقی ادب مفقود ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل استادوں کا ادب اور احترام بالکل ہی جاتا رہا تو ویسی ہی علم میں خیر و برکت رہ گئی - عادۃ اللہ یہ ہے کہ استاد خوش اور راضی نہ ہو علم نہیں آسکتا اور استاد ہی کی کیا تخصیص ہے اب تو وہ زمانہ ہے ْ کہ نہ باپ کا ادب ہے نہ پیر کا ادب ہے اور اگر ہے بھی تو رسمی ادب باقی حقیقی ادب کا نام و نشان نہیں - اور یہ بھی یاد رکھو کہ تعظیم کا نام ادب نہیں ادب نام ہے راحت رسانی کا - اس میں عوام تو کیا خواص تک کو ابتلاہے میں ایسی ہی باتوں پرمتنبہ کرتا ہوں تو مجھ سے خفا ہوتے ہیں - مزاحا فرمایا کہ اگر میں بھی اوروں کی طرح خفا رکھتا حقائق کو ظاہر نہ کرتا تو مجھ سے بھی خوش رہتے لیکن اس وقت میرا یہ فعل ان کی رضا کے واسطے ہوتا خدا کی رضا کے واسطے نہ ہوتا نیز اصلاح نہ ہوتی - اگر طبیب مریض کے لئے اس کی مرضی کے موافق نسخہ لکھے محض اس خیال سے کہ یہ خوش اور راضی رہے تو بس مرض جاچکا اور تندرست ہوچکا بلکہ ایسا طبیب خائن ہے اور ایسا مریض احمق مجھ میں بحمد اللہ رسمی باتوں کا نام و نشان نہیں اور یہ میں فخر سے نہیں کہتا بلکہ اس کو ایک نعمت خداوندی اور اور فضل ایزدی سمجھ کر اس کا اظہار کرتا ہوں جس پر بھی حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے فضل فرماویں - ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشا ء واللہ ذو الفضل العظیم استادوں کے ادب پر یاد آیا فلاں مولانا میرے ابتدائی کتابوں کے استاد تھے ایک دفعہ مجھ کو زیادہ مارا اس پر خاندان اور قصبہ میں بہت کچھ قصہ ہوا مگر انقیاد کا یہ اثر ہوا کہ بعد فراغ درسیات ایک روز مولانا نے مجھ سے بایں عنوان معافی چاہی کہ ہم تم ایک مدت تک ساتھ رہے ہیں ایسی حالت میں کچھ حقوق میں کوتاہی