ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2007 |
اكستان |
|
کا دل تو دُنیا میں لگا ہوا ہے خدا کی طرف نہیں ہے۔ اور ایک شخص جو دُنیا کے کاموں میں لگا ہوا ہے لیکن اُس کا خدا سے تعلق ہو چاہے وہ پوری دُنیا کا بادشاہ ہو اور یہ اُس کے تابع ہو، مخلوقات جو غائب ہیں وہ بھی تابع ہوں لیکن تعلق خدا سے ہو تو وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی مثال ہے وہ زاہد بھی تھے زاہد سے بھی آگے نبی تھے نبوت خدا نے اُن کو عطاء فرمائی تھی تو نبی تو زاہد سے بھی بہت آگے ہوتا ہے اُس کو تو سوائے خدا کے کسی سے تعلق ہوتا ہی نہیں تو زُہد کا لفظ یہاں آیا حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی زاہد تھے سفر بھی فرماتے رہے سب کچھ کرتے رہے اور اپنے پاس کبھی کچھ نہیں جمع کرتے تھے۔ حضرت ابوذر مال جمع کرنے سے روکتے تھے اُس کی گردش سے نہیں : حضرتِ ابوذر رضی اللہ عنہ کا جو مسلک تھا وہ یہ تھا کہ روپیہ پیسہ یہ جمع کرنے کی چیز نہیں ہے یہ گردش کی چیز ہے ہر وقت کام میں آنا چاہیے کسی نہ کسی۔ ادنٰی درجہ تو یہ ہے کہ کسی کی ضرورت پوری ہوجائے کھانے پینے پہننے اُس سے اُوپر کا درجہ یہ ہے کہ قومی ضرورت مُلکی ضرورت پوری ہو تجارت میںلگا رہے اور مال کے محفوظ رہنے کا جو معاملہ ہے اُس کا تعلق بیت المال سے ہے اگر جمع رہ سکتا ہے تو وہاں رہ سکتا ہے لوگ اپنے پاس جمع نہ رکھیں کیونکہ بیت المال سے غرباء میں تقسیم ہوتا ہے اور اُن کے کام آکر پھر سے گردش میں آجاتا ہے۔ نبی علیہ السلام کی تعلیم … مال اور گردش : رسول اللہ ۖ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں بھی یہی سبق دیا ہے ایک دن عصر کی نماز پڑھائی ہے پھر جنابِ رسول اللہ ۖ اچانک ایک دم تشریف لے گئے لوگوں کو تشویش ہوئی کہ یہ خلافِ عادت ایسے ایک دم اُٹھ کر جانا یہ کیسے ہوا؟ تو تشریف لائے پھر فرمایا لوگوں کے اِستفساری چہروں سے اَنداز فرمایا کہ یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں بتلایا کہ بات یہ ہوئی کہ مجھے خیال آیا کہ ہمارے پاس جو کچھ مال تھا وہ تقسیم کردیا مگر ایک '' تِبْر' ' یعنی ٹکڑا سونے کا وہ میرے ذہن میں آیا کہ وہ رہ گیا تو میری طبیعت میں خیال آیا کہ اَب رات ہوجائے گی تو رات کو بھی میرے پاس رہے گا تو میں نے چاہا کہ وہ تقسیم کردوں یہی حال اَزواجِ مطہرات کا بھی تھا اُن کو بہت کچھ ملتا تھا مگر سب تقسیم کردیتی تھیں جو ضرورت مند آیا ضرورت کا اِظہار کیا اُس کو اُنہوں نے دے دیا۔ غلاموں کو آزاد کرانا وغیرہ وغیرہ۔