ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2007 |
اكستان |
|
دُوسرے ضرورت مندوں پر خرچ کرتا رہے اور خدا سے ثواب کی اُمید رکھے یہ ہے تعلیم۔ مزید بہتر : اور ایک اِس سے بھی بہتر طریقہ اسلام نے بتایا ہے ایثار یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَة دُوسروں کو اپنے اُوپر ترجیح دیتے ہیں چاہے اپنے آپ اُس کی شدید ضرورت ہو جس چیز کی خود کو شدید ضرورت ہے اُسے دُوسروں کو دیتے ہیں اور یہ ایسا تھا کہ اِس عادت نے پوری طرح رواج پایا اور یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ یہ صرف خلفاء راشدین کے دَور تک یا اُس سے پہلے جناب ِ رسول اللہ ۖ کے زمانے تک رہا ہے نہیں بلکہ بعد تک رہا ہے اِس کی مثالیں ہرزمانے میں اور شہداء میں بھی ملتی ہیں تو اُس میں ایک قصہ یہ ہے کہ پانی مانگا ایک زخمی نے تو اُس کے پاس لے کر پانی پہنچے ہیں تو دُوسرے نے مانگا اِس نے کہا کہ اُسے دو اُس کے پاس گئے تو اُس نے آواز سُنی کسی اور کی تو اِس نے کہا کہ اُسے دو اُس کے پاس گئے تو انتقال ہوگیا اُس کا پھر جب دُوسرے کے پاس آئے تو اِس کا بھی تیسرے کے پاس واپس لوٹ کے گئے تو اُس کا بھی انتقال ہوگیا۔ اِس میں دو چیزیں ہیں بیک وقت ایک ایثار دُوسرے اپنے درجے کی بلندی کہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ وہ زخمی جسے (زخمی ہونے کے بعد) کسی قسم کی سہولت نہ مل سکی ہو اُس کا درجہ اللہ کے یہاں زیادہ بلند ہے تو یہ اپنے درجے کی کمی نہیں چاہتے تھے اُس وقت بھی جبکہ اُن کی یہ حالت ہو کہ شہید ہورہے ہیں دَم نہیں نکل رہا ہے زخمی ہیں اُنہیں اپنے درجے کا خدا کے قرب کا خیال تھا تو دُوسروں کو ترجیح دینا اِیثار ہے یہ اِسلام کی تعلیم ہے۔ تو زُہد ہوا یعنی دُنیا کی محبت نہ ہو چاہے کتنا بھی مال ہو کسی کے پاس آتا رہے مال آتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا زُہد پر۔ نبی علیہ السلام کی دُعا اور مال کی کثرت : یہ قدرتی طور پر ایسے ہی ہے ایک صحابی تھے اُن کو لے گئیں اُن کی خالہ اور دُعاء کے لیے درخواست کی اور کہا کہ اِسے بیعت کرلیجیے آپ ۖ نے فرمایا یہ بہت چھوٹا ہے پھر حضور ۖ نے سر پر ہاتھ پھیردیا اور دُعاء دے دی برکت کی کہ اللہ برکت دے اُن کا یہ حال رہا ہے کہ وہ جاتے تھے منڈی میں بازاروں میں خرید و فروخت کرتے تھے جانوروں ہی کی خرید و فروخت اگر کرتے تھے تو اِتنا بچ جاتا تھا کہ ایک اُونٹ پورا اُن کو بچت ہوجاتی تھی وہ بھر لیتے تھے تو حضرتِ عبد اللہ ابن ِ عمر، حضرتِ عبد اللہ ابن ِ زبیر یہ دونوں جب اُنہیں کہیں