ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2002 |
اكستان |
|
یہ سفاکی ،بے دردی اور ستم آرائی بلکہ خونخواری اور درندگی عیسائیوں کی طرف سے ہوئی جن کے پیغمبرنے یہ تعلیم دی تھی کہ جوتیرے داہنے گال پر تھپڑمارے تو اس کے سامنے اپنا بایاں گال بھی پھیر دے ،جو تجھ کو ایک میل بیگار لے جائے تو اس کے ساتھ دو میل جا ،جو تیرا کوٹ مانگے تو اس کو اپنا کرتہ بھی دے دے ،کیا عیسائیوں اور ان کے فرماں روائوں نے بلکہ ان کے مذہبی پیشوائوں نے اس پر کبھی عمل کیا ؟ان کی تاریخ نویسی کا طلسم سامری بھی ان کے ان جرائم پرپردہ نہیں ڈال سکتا ۔مگر وہ اب عیسائی مذہب کے پیروکب رہے ،انھوں نے اپنی بظاہر چمکدار زندگی کے جو روزمرہ اصول بنا لیے ہیں،یا اپنی مصنوعی تہذیب کے جو ضابطے مقرر کر لیے ہیںیا اپنی عیاشیانہ زندگی کی تسکین کے لیے جو رسم و رواج رائج کر لیے ہیں ان ہی کی پابندی کرنا ان کی شریعت ہے یہی حال ان کی پاپائیت کا ہے جو کلیسامیں بیٹھ کر اپنے ظاہر ی کروفر سے دنیا کو تو مرعوب کر لیتی ہے ،مگر اپنے پیرووں کو وہ مذہبی زندگی بسرکرنے پر آمادہ نہیں کرسکتی جس کی تعلیم حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دی تھی ،اسی لیے یہ پاپائیت بھی اسی فطری کج روی میں مبتلا ہے جس میں عیسائی اور عیسائی حکمراں رہے ہیں۔ ٭