Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1434ھ

ہ رسالہ

8 - 18
قرض چندضروری احکام
مفتی ثناء الله خان ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اور ہمارا معاشرہ جس نہج پہ چل رہا ہے کہ اسلامی اقدار کی وقعت دلوں سے رفتہ رفتہ کم ہو تی جارہی ہے اور آج ہمارے دلوں سے محاسبے کا خوف معدوم ہوتا جارہا ہے،آج اگر کسی کو اپنے آپ کودین دار بنانے کی فکر لاحق ہو تی ہے،تو وہ صرف نماز،روزہ وغیرہ عبادات کو ادا کر نے کی کوشش شروع کرتا ہے،اس سے کسی کومغالطہ نہ ہوکہ نماز،روزہ ہی صرف عبادات ہیں،بلکہ مطلب یہ ہے،کہ دین میں جس طرح یہ عبادات اہم ہیں،اسی طرح دِین صرف ان عبادات ہی کا نام نہیں،بلکہ شریعت مطہرہ میں اور بھی احکام ہیں، جن کی طرف یا تو ہماری نظر اورفکر جاتی ہی نہیں،یا اگر ہمیں ان چیزوں کا شعور ہو بھی جاتا ہے کہ یہ بھی دین کا حصہ ہیں، تب بھی ان کی بجا آوری میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں،حالاں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرآن مجید میں مسلمانوں سے خطاب ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّة﴾․(سورة البقرة:208)
ترجمعہ:اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ ۔

اور معاملات کی درستگی کی اہمیت کا احساس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے بخوبی ہو جاتا ہے،چناں چہ صاحب ہدایہ رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے ایک معاملے کا ذکر فرمایا ہے،جو درست نہیں تھا،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس معاملے کا علم ہواتو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:أبْلغِی زیْد ابْنَ أرقم اِنَّ اللہ أبْطَل حجَّہ وجِھَادَہ مَعَ رَسُولِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وسلم اِنْ لَمْ یَتُبْ․(الھدایہ ،کتاب البیوع،3/59)

یعنی حضرت زید بن ارقم کو اطلاع پہنچادو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے حج اور جہاد ،جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیے ہیں، باطل کردے گا ،اگر انہوں نے (اس معاملہ سے )توبہ نہیں کی ۔

اتنے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے سترہ غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی ۔(الاِصابہ فی تمییز الصحابہ،1/560 )ان کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد!!!تو ہم نے کبھی اس طرف توجہ کی،ہم تو ویسے بھی خالی ہاتھ ہیں،اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں پورے دین کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے ۔(آمین)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی معاشرے میں کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو غریب ،تا کہ یہ نظام کائنات چلتا رہے،چناں چہ اللہ تبارک وتعالٰی کا فرمان ہے ۔

﴿َنَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً﴾․(سورة الزخرف:32)
ہم نے ان کے درمیان والی زندگی میں ان کی معیشت تقسیم کر رکھی ہے اور ہم نے بعض کو بعض پر درجات کے اعتبار سے فوقیت دی ہے،تا کہ ان میں سے ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔

چناں چہ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو ایسی ضرورت پیش آسکتی ہے ، جس کے اسباب انسان کے پاس اس وقت موجود نہ ہوں تو انسان اس وقتی ضرورت کو فی الفور پورا کرنے کے لیے دوسرے انسان کے تعاون کا محتاج ہوتا ہے، تا کہ وہ وقتی ضرورت کو پورا کرے اور بعد میں جب اللہ تعالٰی وسعت دے دے تو تعاون کرنے والے نے جتنا تعاون کیا ہے،اس کو واپس کردے۔اس کو قرض کہتے ہیں۔

ضرورت کے وقت قرض لینے میں حرج نہیں
اگر انسان کو واقعتا ضرورت ہے ،تو انسان قرض لے سکتا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرض لیتے تھے،چناں چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے:أنَّ النَّبِیَّ صلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ اشْتَرَی طَعَاماًمِنَ یَّھُوْدِیٍّ اِلٰی أَجَلٍ وَرَھَنَہ دِرْعاً مِنْ حَدِیْدٍ۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب من اشتری بالدین ولیس عندہ ثمنہ،رقم الحدیث:2386)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک کے لیے غلہ خریدا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھ دی۔

بلا ضرورت قرض نہ لینے کی ترغیب
انسان کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ اس کو دوسرے سے قرض لینے کی نوبت نہ آئے ،اس لیے کہ قرض لینا شریعت میں کوئی مستحن کام نہیں، بلکہ انتہائی مجبوری کی حالت میں انسان قرض لے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرض سے پناہ مانگتے تھے۔

أنَّ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُوْ فِی الصَّلاَةِ، وَیَقُوْلُ:اللہُمَّ اِنِّی أعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأثَم وَالْمَغْرَم،فَقَال قَائِلٌ:ما أکثر مَا تَسْتَعِیْذُ یَا رَسُوْلَ اللہ مِنَ الْمَغْرَم؟ قال:اِنَّ الرَّجُل اِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ، وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب من استعاذ من الدَین،رقم الحدیث:2397)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا مانگتے تو فرماتے :اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ!کیا بات ہے کہ آپ قرض سے اکثر پناہ مانگتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آدمی جب قرض دار ہوتا ہے تو بات کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے ،وعدہ کرتا ہے اور اس کے خلاف کرتا ہے۔

اور سنن النسائی کی روایت ہے:
عن النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الْکُفْرِ وَالَدَّیْن․ فَقَالَ رَجُلٌ:تَعْدِلُ الدَّیْنَ بالکفُرْ؟فَقَالَ:نَعَم․(سنن النسائی، کتاب الاستعاذہ،2/315،قدیمی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں،کفر سے اور قرض سے ۔تو ایک آدمی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ،آپ قرض کو کفر کے برابر فرمارہے ہیں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں ۔

اس حدیث کے حاشیے میں علامہ سندھی فرماتے ہیں کہ قرض کو کفر کے برابر کہنے کی وجہ یہ ہے،کہ مدیون(قرض لینے والا)وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے،جو منافق کی صفات ہیں اور انسان کا فقر قریب ہے کہ اس کو کفر تک پہنچا دے۔(حاشیة السندی علی حواشی سنن النسائی ،کتاب الاستعاذہ،2/315،قدیمی)

چناں چہ ہر انسان کو کسی نہ کسی درجے میں اس بات کا تجربہ ہے کہ جب کوئی قرض لیتا ہے اور اس کی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔اور مزید مہلت حاصل کرنے کے لیے قسما قسم جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

قرض تعلقات کے لیے زہر قاتل
قرض ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں اگر شرعی اصول کی پاس داری نہ ہو،تو یہ تعلقات کی خرابی کا سبب ہے۔

چناں چہ شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک بزرگ کا واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ایک مرید نے اپنے شیخ سے اس بات کی شکایت کی کہ اس کے پاس لوگ بکثرت آتے رہتے ہیں،جس کی وجہ سے ان کے اوقات میں بہت خلل پڑتا ہے۔تو اس بزرگ نے اس مرید کو نصیحت کی کہ جو لوگ تمہارے پاس آتے ہیں،ان میں جو غریب ہیں،ان کو قرض دواور جو مال دار آتے ہیں ان سے قرض مانگو ،ان شاء اللہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔(گلستان،ص:97)

آنکھوں دیکھا واقعہ
ایک نہیں ،کئی واقعات ایسے دیکھے ہیں کہ آپس میں بہت بہترین تعلقات ہوتے ہیں،لیکن آپس میں قرض کا معاملہ کیا،تو صرف یہ نہیں کہ وہ تعلقات خراب ہوگئے،بلکہ بات دشمنی تک پہنچ گئی، اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے قرض سے پناہ مانگنی چاہیے اور اپنے حوائج کی تکمیل کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں درخواست کرنی چاہیے ۔تاہم انسان کو کبھی قرض لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور اس میں اگر شرعی حدود کی پاس داری کی جائے ،تو اللہ تبارک وتعالیٰ معاملہ آسان فرماتے ہیں۔

قرض لیتے وقت ادا کرنے کی نیت ہو
انسان جب قرض لے تو اس کو وقت پر ادا کرنے کی نیت ہو، دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کی نیت نہ ہو،جب انسان کا ارادہ ہوکہ ان شاء اللہ وقت پر ادا کروں گا،تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے قرض کی ادائیگی میں مدد شامل حال ہوتی ہے، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
”عن أبِیْ ھُرَیْرَة رَضِی اللہ تعالیٰ عَنْہ عَنِ النَّبِیّ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ أَداَءَ ھَا أَدَّی اللہ عَنْہ، وَمَنْ أَخَذَ یُرِیْدُ اِتْلافَھَا أَتْلَفَہ اللّٰہ“․(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب من اخذ اموال الناس یرید اداء ھا أو اتلافھا، رقم الحدیث:2387)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے لوگوں کا مال اس کے ادا کرنے کی نیت سے لیاتو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی طرف سے ادا کردیتا ہے اور جو شخص اس کو ضائع کرنے کی نیت سے لے تو اللہ اس کو تباہ کردیتا ہے۔

قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے بچنا چاہیے
جب انسان کسی سے قرض لے اور دوسرے نے قرض دے دیاتو اس کو احسان سمجھنا چاہیے کہ اس نے میری ضرورت پوری کی اور وقت پر قرض کی ادائیگی کی کوشش ہواوراس کے طلب کرنے سے پہلے خود ہی اس کے پاس جا کر ادا کردے،نہ یہ کہ اس کو آج کل پر ٹالتا رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ظلم فرمایا ہے،چناں چہ ارشاد ہے۔

مَطْلُ الغَنِیّ ظُلْم۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب مطل الغنی ظلم، رقم الحدیث:2400)

مظلوم کی بد دعا سے بچنا چاہیے
ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے قرض لیااور قرض لینے کے بعد ادائیگی پر قدرت کے باوجود قرض ادا نہیں کرتااور بار بار چکر لگواتا رہتا ہے،اس بیچارے نے احسان کیا،لیکن اسے احسان کا بدلہ یہ ملاکہ وہ اپنی چیز کو حاصل کرنے میں سر گرداں ہے،اس طرز عمل سے بچنا چاہیے، اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس پریشانی میں بد دعا دے دے ،جس کی قبولیت میں شک نہیں۔

چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّھَا لَیْسَ بَیْنَھَا و بَیْنَ اللہ حِجَاب․ (الجامع الصحیح للبخاری،کتاب المظالم، باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم، رقم الحدیث:2448)
مظلوم کی بد دعا سے ڈرو،اس لیے کہ اس کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

دنیا کے حق کے بدلے آخرت میں نیکیاں لی جائیں گی
اگر کوئی قرض لے کر ہڑپ کرجاتا ہے اور قرض دینے والا اس سے قرض کی وصول یابی کی قدرت نہیں رکھتاتو آخرت میں نیکیوں کی صورت میں اس سے وصول کرے گا،چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

مَنْ کَانَتْ لَہ مَظْلِمَة لِأَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہِ أَوْ شَیٴ فَلْیَتَحلَّلْہ مَنْہ الْیَوْم قَبْلَ أنْ لَا یَکُوْن دِیْنَارٌ وَلَا دِرْھَمٌ، اِنْ کَانَ لَہ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْہ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِہ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَّہ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّاٰتِ صَاحِبِہ، فَحُمِلَ عَلَیْہ․(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب المظالم،باب من کانت لہ مظلمة عند الرجل فحللھا لہ، رقم الحدیث:2449)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس شخص نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر ظلم کیا ہو تو اسے آج ہی معاف کرالے،اس سے پہلے کہ وہ دن آئے، جب کہ نہ دینار ہوں گے اور نہ درہم،اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس پر ڈالی جائیں گی۔

مقروض شہید بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک قرض ادا نہ ہو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدکی جان ہے ۔اگر ایک آدمی اللہ کے راستے میں شہید ہو،پھر زندہ ہو،پھر شہید ہو،پھر زندہ ہواور اس پر قرض ہو ،تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اس کا قرض ادا کر لیا جائے۔(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل،کتاب القرض، باب التشدید علی المدین، رقم:297،15/90)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقروض کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار
جب کوئی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنازہ کے لیے لائی جاتی اور اس پر قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے ؟کہ اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ مال وغیرہ چھوڑا ہے؟تو اگر عرض کیا جاتا کہ جی ہاں!مال چھوڑاہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھادیتے،وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرماتے:تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ (الجامع الصحیح للبخاری،کتاب النفقات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :من ترک کلاًّ أوضَیَاعاً فَاِلَیَّ، رقم الحدیث:5371)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدیون (جس پر قرض ہو)کی نماز جنازہ پڑھنے سے رک جانا،اس کی محدثین حضرات نے چند وجوہات بیان فرمائی ہیں:
1... ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدیون پر نماز جنازہ اس وجہ سے نہیں پڑھتے تھے، تاکہ لوگ بلاوجہ قرض نہ لیں۔
2... ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ٹال مٹول پر تنبیہ کرتے ہوئے،یعنی تاکہ کوئی شخص قرض ادا کرنے پر قدرت کے باوجود ٹال مٹول نہ کرے۔
3... ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے نماز جنازہ پڑھنے سے رک جاتے ،تاکہ میت کے ذمے جو مظلوم کا حق ہے،اس کی وجہ سے دعاموقوف نہ کردی جائے۔(عمدةالقاری،کتاب النفقات،21/38،دارالکتب)

لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوحات کے دروازے کھول دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں مسلمانوں سے خود ان کی جان سے بھی قریب ہوں،اب اگر کوئی مومن مرجائے اور قرضہ چھوڑجائے،تو اس کا قرض میرے ذمہ ہے۔(الجامع الصحیح للبخاری ،کتاب النفقات ،رقم الحدیث:5317)

میت کے ترکہ میں سب سے پہلے قرض ادا کیا جائے
اگر کوئی فوت ہوگیااور اس کے ذمہ لوگوں کے قرض ہیں تو اس میت نے جو مال چھوڑا ہے ،اس میں سے اس کے کفن دفن کے انتظام کے بعد سب سے پہلے لوگوں کے قرض ادا کیے جائیں گے۔(الدر مع الرد،کتاب الفرائض،5/536، رشیدیہ)

تم میں بہتر وہ ہے،جو اچھی طرح قرض ادا کرے
جب انسان قرض لے تو اس کو اچھی طرح سے ادا کرے ،یہ نہیں کہ اس کو خوب تنگ کرکے قرض ادا کرے ،بلکہ بہتر یہ ہے کہ وقت پر خود جا کر قرض ادا کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے طریقے سے قرض ادا کرنے والوں کی تعریف فرمائی ، چناں چہ ارشاد ہے:اِنَّ خِیَارَکُمْ أَحْسَنُکُمْ قَضَاءً․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الاستقراض، باب حسن القضاء، رقم الحدیث:2393)تم میں بہتر وہ شخص ہے،جو قرض اچھی طرح ادا کرے۔

قرض ادا کرتے وقت تھوڑا زیادہ دے دے
جب انسان قرض لے تو اس وقت تو زیادتی کی شرط صحیح نہیں اور یہ سود ہے،مثلاً قرض دینے والا دیتے وقت یہ شرط لگائے کہ واپسی اس سے زیادہ دوگے،تو یہ جائز نہیں،لیکن اگر یہ شرط نہیں تھی اور مدیون قرض واپس کرتے وقت اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دے،تو یہ جائز ہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔

عَنْ جَابِرٍرَضَی اللہ عَنْہ،کَانَ لِیْ عَلَی النَّبِیّ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ دَیْنٌ، فَقَضَالِیْ وَزَادَنِیْ․(الجامع الصحیح للبخاری، باب الافلاس والانظار، الفصل الثالث،ص:253،قدیمی)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ قرض تھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا قرض ادا کیااور زیادہ دیا۔بلکہ زیادہ دینا مستحن ہے۔(مرقاةالمفاتیح،باب الافلاس والانظار،6/117،رشیدیہ)

قرض ادا کرتے وقت شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے
جب آدمی قرض ادا کرے توساتھ ساتھ شکریہ بھی ادا کرے،ایک غزوہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے قرض لیااور واپسی پر اس کو ادا کر لیااوراس سے فرمایا:”بَارَکَ اللہ فَیْ أَھْلِکَ وَمَالِکَ“․آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قرض کا بدلہ پورا ادا کرنااور تعریف شکریہ ہے۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الصدقات ،باب حسن القضاء،رقم الحدیث:2424)

قرض اور غم دورکرنے کی دعا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو نماز کے وقت کے علاوہ میں مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتو حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ غموں اور قرضے سے پریشان ہوکر بیٹھاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تجھے ایسی دعا نہ سکھلاوٴں ،جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے غم دور کردے اور قرضہ ادا کردے؟حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،کیوں نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دعا پڑھو۔
أللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْن، وَأَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعجْزِ وِالْکسْل، وَأَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْن وَالْبُخْل، وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَال“․

ایسی دعا جس کی برکت سے پہاڑ کے بقدر قرض بھی اتر جائے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیااور اپنی پریشانی کا ذکر کر کے تعاون کی درخواست کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایاکہ کیا میں آپ کو ایسے کلمات نہ سکھاوٴں ،جومجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائے ہیں،اگر تمہارے ذمے ایک بڑے پہاڑ کے بقدر بھی قرض ہو،تواللہ تعالیٰ ادافرمائیں گے۔تو کہہ:”أللّٰھُمَّ أَکفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکْ، وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاک“․ (مشکوٰةالمصابیح،ص:215،قدیمی)

اگر ضرورت مند قرض طلب کرے تو دے دینا چاہیے
دوسری جانب اگر کوئی ضرورت مند ہے اور وہ قرض طلب کر رہا ہے تو شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اس کی ضرورت پوری کردی جائے۔اس لیے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک مسلمان اگر کمزور ہوتو دوسرا مسلمان اس کو قوت پہنچاتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”الْمُوٴْ مِن لِلْمُوٴْمَنْ کَالْبُنْیانِ، یَشُدُّ بَعْضُہ بَعْضاً، وَشَبَّکَ بَیْن أَصَابِعِہ“․(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب المظالم، باب نصر المظلوم، رقم الحدیث:2446)

ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہے اور اپنی انگلیوں کا ملا کربتایا۔

جو مسلمان کی حاجت روائی کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرتاہے
أَنِّ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسْلِمْ، لَا یَظْلِمُہ وَلَا یُسْلِمُہ، وَمَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ أَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہ،وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلَمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہ کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہ اللّٰہ یَوْمَ الْقِیٰمَة۔(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم، ولا یُسلمہ،رقم الحدیث:2442)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ تو اس پر ظلم کرے اور نہ اس کو ظالم کے حوالے کرے اورجو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کی فکر میں ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے اور جوشخص مسلمان سے کسی مصیبت کودور کرے،اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتیں اس سے دور کرے گااور جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی عیب پوشی کرے گا۔

قرض دے کر مہلت دینے سے ہر دن صدقہ کا ثواب ملتا ہے
قرض دینا بھی ایک طرح کا صدقہ ہے،اگر چہ بعد میں وصول ہوجائے اور مہلت بھی صدقہ کرنے میں شامل ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دے دی تو اس کو روزانہ اس قدر صدقہ دینے کا ثواب ہوگا، جتناقرض اس نے کسی کو دیا ہے، یہ ثواب ادائیگی دین کا مقررہ وقت آنے سے پہلے ملتا ہے،پھر مقررہ وقت آنے کے بعد مہلت دے،تو روزانہ اتنے مال کا دوگنا صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے جتنا اس نے قرض دیا ہے۔(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد، کتاب القرض، باب فضل من انظر معسرا،15/97)

قرض دے کر معاف کرنے ،یا مہلت دینے والا عرش کے سایہ میں
قَالَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ: مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِراً أَوْ وَضَعَ لَہ، أَظَلَّہ اللہ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِہ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَُہ۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب البیوع، باب ماجاء فی اِنظار المعسر والرفق بہ، رقم الحدیث:1306)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے تنگ دست کو مہلت دی،یا معاف کردیا،تواللہ تبارک وتعالیٰ اس کو قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ میں رکھیں گے،جس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔

بنی اسرائیل کے ایک گناہ گار کی مغفرت کا واقعہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک گناہ گار کا واقعہ بیان فرمایا کہ جس کے پاس نیکیاں نہیں تھی، جب وہ فوت ہو گیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تیرے پاس کوئی نیکی ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خریدوفروخت کا معاملہ کرتا تھا، تو مال داروں کو مہلت دیتا تھا اور تنگ دستوں کو معاف کر دیتا تھا، چناں چہ ( اس عمل کی وجہ سے) وہ بخش دیا گیا۔(جاری) 
Flag Counter