Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1434ھ

ہ رسالہ

13 - 18
امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے مختصر حالات زندگی
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
نام ونسب
نام عبد الشکور، والد ماجد کا نام مولوی حافظ ناظر علی ہے اور فاروقی خاندان سے تعلق ہے، اسی وجہ سے آپ کو فاروقی کہا جاتا ہے اور اکتیس(31) واسطوں کے بعد سلسلہ نسب حضرت فاروق سے جا ملتا ہے ۔

ولادت باسعادت
مولانا عبد الشکور صاحب  لکھنو سے 11 کلو میٹر دور” اودھ“ کے تاریخی اورمردم خیز قصبہ” کاکوری “ضلع لکھنو میں 23 ذی الحجہ 1293ھ بمطابق 1874ء میں بوقت صبح صادق مولوی حافظ ناظر علی کے گھر میں پیدا ہوئے ،آپ کی پیدائش کی خوش خبری حضرت مولانا عبد السلام ہنسوی صاحب (المتوفی1881ھ)نے پہلے ہی آپ کے والد ماجد کو دے دی تھی اور فرمادیا تھا کہ ان شاء اللہ تم کو ایک نیک فرزند عطا ہوگا، جس سے تمہارے گھر میں خیروبرکت ہوگی ۔عقیقہ کے بعد حضرت شاہ صاحب ہنسوی نے اس بچہ پر باطنی توجہ بھی فرمائی اور کہا کہ بیج ڈال دیا گیا ہے اور ان شاء اللہ بار آور ہوگا۔ ان مبشرات کے ساتھ آپ کا بچپن گزرا،کم سنی کا زمانہ ختم ہوا اور سنِ شعور کو پہنچے تو والد ماجد نے اپنے پیر ومرشد حضرت شا ہ عبد السلام صاحب سے آپ کی بسم اللہ کرائی، اس موقع پر حضرت شاہ صاحب نے آپ کے لیے یہ دعا بھی فرمائی تھی ” خدا تعالی برخور داررااز علومِ نا فعہ بہرہ و رگرداند“ ۔

ابتدائی تعلیم وتربیت
آپ کی ابتدائی تعلیم ضلع فتح پور میں ہوئی، قاعدہ بغدادی،پارہ عم،اور فارسی کی چندابتدائی کتابیں مو لوی عبد الوہاب ساکن ہنسوہ ضلع فتح پور سے پڑھیں ،اس کے بعد فارسی کی باقی کتب درسیہ مولانا سید مظہر حسین، متوطن کوڑ ا جہاں آبادضلع فتح پور، سے پڑھیں، انہوں نے بڑی توجہ اور دل سوزی سے پڑھایا اور فارسی لکھنے اور بولنے کی مشق بھی کرائی ۔فارسی سے فراغت پانے کے بعد میزان،پنج گنج وزبدہ وغیرہ بھی وہیں پڑھیں، دوسری کتابیں مولوی سید تعشق حسین صاحب کوڑوی اور مولوی محمد یاسین خان صاحب ،ساکن گتنی ضلع پرتاب گڑھ سے تحصیل کوڑا اور فتح پور میں پڑھیں، اس کے بعد کچھ کتابیں فصول اکبری،شرح جامی،قطبی میرتک، فقہ میں شرح وقایہ اولین و ہدایہ آخرین، اصول فقہ میں اصول شاشی اور نور الانوار وغیرہ مختلف اساتذہ منجملہ مولا نا سید مظہر حسین صاحب سے ضلع فتح پور اور دیگر مقامات میں پڑھیں ۔

مولانا سید عین القضا ةصاحب  سے شرف تلمذ
آپ کے والد ماجد صاحب کو یہ بڑی تمنا تھی کہ آپ کو مسندِوقت علامہ ابو الحسنات ، مولانا عبد الحئی فرنگی محلی صاحب رحمة اللہ علیہ کی شاگردی میں دے دیں مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا ،چناں چہ1310ھ بمطابق1892ء میں جب آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنو پہنچے تو اس وقت حضرت مولانا فرنگی محلی صاحب رحمة اللہ علیہ وفات پاچکے تھے، لہذا ان کے شاگردِ رشید اور جانشین حضرت مولانا سید عین القضا ةصاحب رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں آپ کی حاضری ہوئی ،اس طرح آپ اپنے اصلی مربی و استاد خصوصی مولانا سید عین القضاةصاحب کے حلقہٴ درس میں داخل کر دیے گئے، اس سلسلہ میں لکھنوی صاحب خود تحریر فرماتے ہیں :

”اس وقت حضرت مرحوم نے پڑھانے کا سلسلہ بہت کم بلکہ قریب قریب ترک کردیا تھا اور فر مایا کرتے تھے کہ اب دماغ بھی بہت ضعیف ہو گیا ہے اور طلبہ کی حالت دیکھ کر، نہ مطالعہ میں محنت کرتے ہیں، نہ ہی کتاب کو سمجھنے و یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،لہٰذا پڑھانے کو دل نہیں چاہتا۔ اس جواب نے مجھے مایوس تو بہت کیا ،مگر میں نے حاضری کا سلسلہ برابر قائم رکھا، تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ ایک صاحب نے علم الفرائض شروع کیا ہے، اگر آپ کا جی چاہے تو شریک ہوجائیں۔چناں چہ میں نے شرکت شروع کردی، دوسرے ہی دن جب آپ نے دیکھا کہ وہ صاحب، جو اصل سبق پڑھنے والے تھے سبق یاد کرنے میں مجھ سے پیچھے رہ گئے، آپ نے میری طرف خصوصی نظر التفات مبذول کی، جو یوماًفیوماً بڑھتی گئی “۔

مولانا عین القضاةصاحب کی خدمت میں علوم وفنون کی تکمیل
اس طرح مولانا عین القضاةصاحب کی خدمت میں رہ کر مسلسل سات سال تک آپ نے با ضابطہ بقیہ علوم وفنون کی تکمیل فرمائی ۔آپ نے یہاں حسبِ ذیل کتبِ درسیہ پڑھیں: علم الفرائض،حمد اللہ ،حواشی میرزاہد برملا جلال، رسالہ میر زاہد ،قاضی مبارک ،تحقیقات مرضیہ ،میبذی،شمس بازغہ، صدرا، میر زاہد ،شرح شرح مواقف،خیالی مع حاشیہ عبد الکریم ،مسلم الثبوت، ریاضی میں شرح الملخص للعلامہ چغمینی اور اقلیدس ،حدیث میں مشکوٰة ،سنن ترمذی اورصحیح بخاری اور اصولِ حدیث میں شرح نخبة الفکر وغیرہ، ان ساری کتابوں میں سوائے ترمذی اور شمس بازغہ کے ساری کتابوں کی اول سے آخر تک استاد کے سامنے خود قرأت کرتے تھے ۔

مولانا عین القضاةصاحب کا انداز تدریس
استادِ محترم کا قاعدہ یہ تھا کہ جو طالبِ علم غلط عبارت پڑھتا، یا صَرف و نحو میں ا س کی اچھی استعداد نہ ہوتی تو اس کو قرأت کی اجازت نہ دیتے تھے چوں کہ لکھنوی صاحب شروع ہی سے ذہین اور محنتی تھے اور علمی استعداد بھی پختہ تھی اس لیے اپنے معاصرین اور ہم سبقوں میں قرأت کا شرف بھی انہیں کو حاصل ہوتا رہا اور مولانا سید عین القضاة صاحبسے پڑھنے کا سلسلہ 1317ھ میں ختم ہوا اورآپ مکمل طور پر فارغ التحصیل ہوگئے۔

مندرجہ بالا بیان سے یہ بات متعین ہوگئی کہ مولانالکھنوی صاحب کو حضرت مولانا سید عین القضاة صاحب کے ذریعے سے بیک واسطہ استاذ الاساتذہ مو لانا عبد الحئی فرنگی محلی صاحب سے تلمذکا فخر حاصل تھا اور مولانا فرنگی محلی کو بہ طرق کثیرہ شاہ عبد الغنی محدث دہلو ی صاحب اور شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی صاحب سے شرفِ اسناد حاصل تھا ،حضرت کو اس سلسلة الذہب کے علاوہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیسے بھی بیک واسطہ رشتہ شاگردی حاصل تھا، اس کے علاوہ آپ نے علمِ طب میں حکیم عبد الولی صاحب سے (جو مولانا عبد الحئی فرنگی محلی اور سید عین القضاة صاحب کے انتہائی معتقدین میں سے تھے ) طب کی تعلیم حاصل کی ۔

حفظ قرآن اوردرس و تدریس
آپ بچپن سے حافظ نہ تھے، بلکہ تحریک ِمدح صحابہ کے دنوں میں جب بار بار آپ کوجیل جانا پڑا تو ان دنوں میں آپ نے جیل کی تنہائی کو ایک غنیمت کاموقع جان کر حفظ قرآن کریم کی دولت حاصل کرلی ۔درس وتدریس کا آغاز آپ نے سب سے پہلے دار العلوم ندوة العلماء لکھنو سے کیا، حضرت مولانا محمد علی مونگیری صاحب  اس وقت ناظم تھے، انہی کی خواہش پر آپ نے بحیثیت مدرس کا م کرنا قبول کیا تھا ،مولانا سید سلیمان ندویصاحب اس دور میں وہاں طالب علم تھے ،کم وبیش ایک سال کی تدریس کے بعد آپ نے وہاں سے از خود استعفیٰ دے کر سبک دوشی حاصل کرلی ،1902ء سے 1915ء آپ اپنے استادِ محترم مولانا عین القضاة صاحب کے مدرسے عالیہ فرقانیہ لکھنو سے وابستہ رہے اور اس وقت سے لے کر1909ء تک آپ اپنے استاد علیہ الرحمة کے ساتھ معاون مدرس کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔1909ء سے 1911 ء آپ نے مدرس عربی و فارسی کی حیثیت سے بھی کام کیا ،مدرسہ کی زیادہ تر ذمہ داری آپ ہی کے سپرد تھی ،1921ء سے 1923 تک مدرسہ عالیہ عربیہ امر وہہ کے آپ صدر مدرس رہے۔

تصنیف و تالیف و دیگر دینی خدمات
مولانا لکھنوی صاحب کو تصنیف و تالیف سے بچپن ہی سے مناسبت تھی، چناں چہ زمانہ طالب ہی میں آپ نے لکھنو کے مشہورمجتہد مولوی حامد حسین کی کتاب ”استقصاء الافہام“کے بعض حصوں کے جواب میں ایک رسالہ فارسی میں” انتصار الاسلام “ بجواب ”استقصاء الافہام“ تحریر کیا تھا۔ اپنے اس فطری ذوق کی بنا پر آپ نے 1899 ء تعلیم سے فراغت کے بعد فوراًتدریسی مشاغل کے ساتھ ساتھ ایک ماہوار علمی رسالہ ”علم الفقہ “کے نام سے لکھنو میں جاری کیا، جو پورے چھ سال تک پابندی سے نکلتا رہا ،یہ رسالہ خالص فقہی مضامین پر مشتمل ہو تا تھا ۔

ماہنامہ النجم کا اجراء
1902ء میں شیعوں کی طرف سے لکھنو میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی مذموم کوششیں ہونے لگی ،شیعہ واعظ مقبول دہلوی کی شعلہ فشانیوں اور مناظرے کے چیلنج نے ہر طرف کشیدگی پیدا کر دی تھی اور ملک کے مختلف حصوں میں شیعہ اخبارات و رسائل نے مذہبی چھیڑ چھاڑ کا بازار گرم کر رکھا تھا، اہلِ سنت عقائد کی تردید اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر( العیاذباللہ)کھل کر تبراکیا جاتا تھا، ان حالات میں مولانا لکھنو ی صاحب نے مسلمان عوام کو گم راہی ،شکوک شبہات میں مبتلا ہونے سے بچانے اور روافض کی تردید میں7رمضان المبارک 1322ھ بمطابق 24ء اکتوبر1902کو ”النجم “ کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار لکھنو سے جاری کیا اور یہ اخبار کم وبیش 33سال تک شائع ہوتا رہااور مولانا لکھنوی صاحب کی جتنی تصانیف ،تالیفات اورتراجم ہیں وہ سب النجم کے ذریعے ہی منصہ شہود پر آئی ہیں ۔

النجم کے خاص نمبر
النجم نے بہت سارے خاص نمبر شائع کیے ،جن میں سے چند یہ ہیں :خلافت نمبر، رسالت نمبر ، عاشورا نمبر،خاتون نمبر ،صحابہ نمبر ،ذبیح اللہ نمبر، شہدانمبر ،ہجرت نمبر ،مدح صحابہ نمبر،ناموس اسلام نمبر ،احتجاج نمبر ، امامت نمبر ،استقلال نمبر ،تحریک نمبر ،کربلا نمبر ،عتیق نمبر ،کمیشن نمبر۔

النجم ماہنامہ القاسم دیوبند کی نظر میں
ماہنامہ القاسم دیوبند نے جمادی الاولی 1345ھ کی اشاعت میں النجم کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:”النجم اس ذات مقدس (مولانا عبد الشکور لکھنوی صاحب )کے علمی مذہبی برکات و فیوض کا ترجمان ہے اور ہندوستان بھر میں صرف یہی ایک جریدہ ہے جو دشمنان ِ اسلام کے مقابلے میں سینہ سپر بنا ہوا ہے کہ جس کی تجلی نے عالمِ تشیع پر ایک عام بجلی گرا رکھی ہے، ہم افراد و قوم سے یہ پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مجلہ کی توسیع و اشاعت میں ہر ممکن سعی سے دریغ نہ فرمائیں “۔

دار المبلغین کا قیام
لکھنو شہر کے مخصوص سنی شیعہ حالات کے پیشِ نظروہاں کے عمائدین کے اصرار پر 2ذیقعدہ1351ھ بمطابق1932ء دار المبلغین کے نام سے ایک دینی ادارہ قیامِ عمل میں لایا،تا کہ اسلام کی تبلیغ کے ساتھ مسلک اہلِسنت والجماعت کے عقائد حقہ کی نشر واشاعت اور فرق باطلہ کے الزامات کی تردید بھی خصوصی طور پر کی جائے ،تا حیات آپ نے اس ادارے کا انتظام وانصرام بڑے اہتمام سے کیا ۔

علامہ لکھنوی صاحب کے چند مشہور تلامذہ
امام اہل سنت علامہ لکھنوی صاحب کے تلامذہ کی ایک لمبی فہرست ہے ،ہم یہا ں ان میں سے چند کا نام ذکر کرتے ہیں:مولانا عبد السلام فاروقی صاحب،مولانا عبدالرحیم فاروقی صاحب،(صاحب زادگان) مولانا مصطفی حسن صاحب، رکن شوریٰ دار العلوم دیوبند واستاد عربی لکھنو یونیورسٹی ،مولانا مغیث الدین الہ آبادی ،مولانا عبد الحق صاحب بلیاوی،مولانا عبد الحق خان صاحب فتح پوری مولف اشرف السوانح، مولانا محمد اسباط صاحب استاد مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنو،مولانا انصار الحق امروہی ،مولانا عبد السلام زید پوری،مولانا محمد یحییٰ صاحب مبارک پوری وغیرہ ۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے آپ کے تلامذہ، جنہوں نے آپ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا ان میں مولانا عبد الستار تونسوی صاحب مشہور مناظر ردِ رافضیت مولانا سیدنور الحسن بخاری صاحب، مولانا احمد حسین بخاری صاحب ،مولانا لال حسین اختر صاحب مشہور منا ظر ختمِ نبوت ،مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی صاحب برادرِ اصغر ،مولانا سرفراز خان صفدر صاحب ،مولانا اللہ یار خان صاحب ،مولانا مجید الدین اثری زبیری صاحب وغیرہ۔

بیعت و ارشاد
حضرت لکھنوی صاحب اوائل عمر ہی سے نقشبندی سلسلہ کے مختلف بزر گوں سے منسلک رہے، جن میں مولانا عبد السلام ہنسوی ،مولانا عین القضاة صاحب،مولانا شاہ ابو الخیر صاحب دہلوی اور اپنے والد مولانا ناظر علی صاحب، 1921 ء میں خانقاہ عالی جاہ مجددیہ میں حضرت مولانا شاہ ابو احمد صاحب بھوپال سے بیعت کی سعادت حاصل کی ۔حضرت لکھنوی صاحب اپنے شیخ سے بے حد لگاؤ رکھتے تھے، ان کا حد درجہ ادب و ااحترا م کیا کر تے تھے ،حضرت شاہ صاحب نے کاکوری کے ایک سفر میں حضر ت لکھنوی صاحب کو خلافت واجازت بھی عطا فرمائی، حضرت لکھنوی صاحب عمر بھرسلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے بزرگوں کے مقرر کردہ وظائف واوراد کے پابند رہے اور اپنے متوسلین کو بھی اس کی پابندی کی تلقین فرمایا کر تے تھے ۔

تحریکِ مدح صحابہ
لکھنو کے مخصوص شیعہ و سنی ماحول میں مقبول دہلوی شیعی کی آمد نے مزید گرمائش پیدا کر دی تھی، مجا لسِ عزا میں اعلانیہ صحابہ کرام  پر تبرا کیا جاتا تھا(العیاذ باللہ) ازواج مطہرات پر طر ح طرح کی بے بنیادتہمتیں تراشی جاتی تھیں، مقبول دہلوی کے علاوہ معروف شیعہ علماء بھی لکھنو میں شیعہ سنی منافرت پھیلانے میں پیش پیش تھے ،جن میں مولوی ناصر حسین مجتہد ،مولوی نجم الحسن مجتہد ،مولوی مہدی حسین مجتہد ،ڈپٹی راحت علی ،مرزا محمد عباس ،حکیم نذیر حسین، وکیل شہنشاہ حسین ،بیرسٹر یوسف حسین ،راجہ علی محمد محمود آباد وغیر ہ قابلِ ذکر ہیں ،جو شیعوں کی مذہبی زندگی کے محرک تھے ۔

لکھنو آمد اور امام اہلِ سنت کا خطاب
جب لکھنو میں حالات بہت زیادہ کشید ہ ہونے لگے اور اہلِسنت کو آئے دن تنگ کیا جانے لگا تو اس وقت علماء کے سر خیل مولانا عین القضاة صاحب، جو علامہ ابو الحسنات عبد الحئی لکھنئوی صاحب کے جا نشین تھے ،آپ نے اہلِ سنت کی طرف سے مدافعت کا بیڑ ا اٹھا یااور علمائے وقت کو اس نازک مسئلہ کی طرف متوجہ کیا اورہر طرح سے اہلِ سنت کے معتقدات و مفادات کی حفاظت پر کمر بستہ ہوگئے ۔جب آپ نے دیکھا کہ یہ معاملات مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں اور فریق ِ مخالف کی طرف سے برابر مناظروں کا چیلنج دیا جانے لگا ہے تو آپ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ حضرت مولانا عبد الشکور صاحب  لکھنوی کو دہلی سے لکھنو بلایا جائے اور ان کو سنیوں کی طرف سے مناظروں کی جواب دہی کے لیے آمادہ کیا جائے، اس وقت لکھنوی صاحب دہلی میں مرزا حیرت کے مطبع میں بحیثیت موٴلف و مصنف کام کر رہے تھے ۔

جس و قت مولانا عین القضاة صاحب نے حضرت لکھنوی صاحب کو لکھنو آنے کی دعوت دی اس وقت بعض معاصرین نے استادِ محترم سے کہا کہ ہم خدام تو ہر حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہیں ، لہذا دہلی سے مولانا عبد الشکور صاحب کو بلانے کی کیا ضرورت ہے؟مولانا اس پر سخت چیں بہ جبیں ہوئے اور فرمایا :
”ہاں!میں نے اسی کام کے لیے انہیں بلایا ہے، وہ اس معاملے میں ہم اہلِ سنت کے امام ہیں “ ۔ مولانا کا یہی جملہ مستقبل میں ایک تاریخی حیثیت بن گیا اور برِصغیر کے تما م علماء، عوام و خواص نے آپ کوامام اہلِ سنت کا لقب دے دیا، آپ کو اسی لقب کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔

شیعوں کی دل آزار حرکتیں
مقبول د ہلوی شیعی کی دیکھا دیکھی دوسرے شیعہ واعظین بھی مسلسل اشتعال انگیزیاں پھیلانے لگے، ان کی دل آ زار و مذموم حرکتیں تو زیادہ ہیں، بطورِ مثال درج ذیل حرکتیں باعث ِ عبرت ہیں،جو تقریباً کسی نہ کسی شکل میںآ ج بھی جاری ہیں اورملکِ پاکستان میں بھی ہو رہی ہیں ۔

1... ”صحبتِ قدیمانہ “کے عنوان سے شہر بھر میں تبرائی مجالس منعقد کرتے ،جس میں سوائے خلفائے ثلاثہ اور ازواج ِمطہرات رضی اللہ عنہم اجمعین پر، العیاذباللہ، تبرا کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا ۔
2... ”بزمِ فیروزی“کے نام سے سیدنا عمر فارو ق رضی الله عنہ کے قاتل ملعون مجوسی کی مدح و تعریف اور اس واقعہ شہادت کی یاد تازہ کرنے کے لیے محفلیں منعقد کی جاتی تھیں ۔
3... سنیوں کو مزید اشتعال دلانے کے لیے اذان میں حضرت علی کا نام اور ” خلیفة النبی بلا فصل“ کے بے اصل جملوں کا اضافہ کیا، جو کہ خود بتصریح کتبِ شیعہ اذان کا جز نہیں ،مزید برآں” عیدِ غدیر “ کو جوش وخروش کے ساتھ علی الاعلان منا یا جانے لگا ۔
4... شیعہ شعراء، خاص کر میاں شیر لکھنو ی وغیرہ، نے اشعار کے ذریعے اکابرِ اہلِ سنت اور بزرگانِ دین کا مضحکہ اڑانا شروع کر دیا ،اس کے لیے نہایت رکیک اور فحش اور تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کرکے اشتعال انگیزی میں اضافہ کرنے لگے ۔
5... ”انجمن امامیہ ‘ ‘کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیااور سنی و شیعہ علیحد گی پر مستقل قوانین وضع کیے اور حکام سے نافذبھی کروادیا، اس طرح کے قوانین کے نفاذ پر سنیوں نے13 فروری 1908 ء کو احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں حکام نے تبرائی جلوسوں پر پابندی لگادی، شیعوں نے 1908 میں ہی انگریز حکام کو درخواست دی کہ سنیوں کے ” مدح صحابہ“ پر بھی پابندی عائد کی جائے ،جو فی الوقت تو بے اثر ہوگئی، لیکن اہلِ سنت کو یقین ہو گیا کہ ان کے مذہبی معاملات میں بے جا دخل اندازی کی جا رہی ہے ،لہٰذا انہوں نے اپنے دفاع کے لیے سوچنا شروع کیا،یوں انتہائی مجبوری واضطرار کی حالت میں تحریکِ مدح صحابہ کا آغاز ہوا اور مسلسل34 سال تک یہ تحریک چلی ،جس میں حکو مت کی طرف سے کئی کمیشن اور کمیٹیاں بھی بنائی گئیں،لیکن حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑنے لگے، بالآخر سول نافرمانی کی تحریک چلائی گئی ۔ (جاری)
Flag Counter