اظہارِ مسرت اور اسلامی ہدایات
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
خوشی وغم، رنج وملال، فرحت وشادمانی انسانی زندگی کا لازمہ ہے، انسانی زندگی میں ایسے مواقع میسر آتے ہیں، مومنِ حقیقی وہی ہے جو ان مواقع پر خدائی فرمان کی پاس دار ی کرے، غیر شرعی امور سے مجتنب رہے، عموماً خوشی کے میسر آنے پر مسرت کا اظہار انسان کا فطری حق ہے، اگر اظہارِ مسرت میں اعتدال ہو تو بے شمار فوائد ہیں، بجائے اعتدال کے باطل کی آمیزش ہو تو یہی خوشی کا موقعہ انسان کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔
آج اظہارِ خوشی کا جو طریقہٴ کار امتِ مسلمہ میں رائج ہے کیا یہ وہی طرز عمل ہے جو دورِ اول کے مسلمانوں سے میل کھاتا ہے؟ آج بے شمار مسلمان ایسے ہیں جو اسلامی دعویٰ کے ساتھ ایسے ایسے اعمال وافعال مسرت کا اظہار کررہے ہیں جو غیروں کے طریقوں میں داخل ہیں، خوشی کے موقع پر غیر ثابت شدہ رسوم کا الحاق اہلِ اسلام کا خاص وطیرہ بنتا جارہا ہے، ذیل میں اظہارِ مسرت کے اسلامی طریقہٴ کار کا کچھ جائزہ لیں۔
کعب بن مالک کا واقعہ
حضرت کعب مشہور صحابیِ رسول ہیں، انہیں کئی غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل رہی ، لیکن غزوہٴ تبوک میں پہنچنے سے قاصر رہے ، اس غیر حاضری کے سبب ان پرآپ صلی الله علیہ وسلم کی خفگی ظاہر ہوئی ، کعب بن مالک کے ساتھ کلامی مقاطعہ کیا گیا، ان پر اس مقاطعہ کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ زندگی اجیرن ہوگئی، جس کو قرآن حکیم نے اپنے بلیغ انداز میں یوں تعبیر کیاہے: ﴿وضاقت علیہم الارض بما رحبت﴾ (الآیة) کہ ان پر زمین اپنی وسعت وکشادگی کے باوجود تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگی، وہ زمین پر چلتے پھرتے تھے، لیکن زمین پر انہیں کوئی اپنا نظر نہ آتا تھا، ان ایام میں کوئی ان کی خبر گیری کرنے والا نہ تھا، اسی سے شہ پاکر دشمنِ اسلام نے حضرت کعب کو اپنی جانب راغب کرنے کی ناکام کوشش کی ، ایک مدت کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ان کی سچی توبہ قبول فرمالی، ان سے اہلِ اسلام کا غصہ فرو ہوا اور ان افراد کی شان میں سورہٴ توبہ کی آیات کا نزول ہوا تو حضرت کعب کے بیان کو مفسر ابن کثیر دمشقی ( متوفی: 774ھ) نے یوں بیان کیا ہے: میں نے ایک منادی کی آواز جبلِ سلع سے سنی، وہ اپنی بلند آواز سے گویا ہے کہ اے کعب بن مالک خوش خبری ہو۔ یہ سنتے ہی میں سجدہ ریز ہوا، مجھے محسوس ہوا کہ تو بہ کی قبولیت پر اللہ کی جانب سے کشادگی آئی ہے ، لہٰذا جیسے ہی خوش خبری دینے والا آیا ، میں نے اپنے کپڑے اتار کر اس مبشر کو عطا کردئے ، (ابن کثیر521/2بیروت)نیز مفتی شفیع صاحب (متوفی:1396ھ) رقم طراز ہیں: قبولیتِ توبہ کے بعد حضرت کعب بن مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے مال ومتاع سے نکل جاوٴں کہ سب کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ا نکار کیا، پھر میں نے ایک تہائی مال کی اجازت مانگی تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے اسے قبول فرمالیا۔ (معارف القرآن 483/4) قبولیتِ توبہ حضرت کعب کے لیے خوشی ومسرت کا موقعہ تھا ، اس موقعہ پر کپڑے بھی عطا کر دیے ، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر مال بھی صدقہ کردیا، لہٰذا خوشی کے مواقع پر بالخصوص صدقہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔
خوشی کے موقعہ پر سجدہٴ شکر
عید خوشی ومسرت کا عنوان ہے، عمدہ عمدہ لباس زیب تن کیے جاتے ہیں ، اچھے سے اچھے کھانے کا اہتمام ہوتا ہے، لیکن اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد کی بر قراری کے لیے تکبیر ، نماز ، خطبہ وغیرہ مشروع کیاہے، اسی طرح خوشی میں دوگانہ بطورِ شکر بھی ادا کیا جاتا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ خوشی کے موقعہ پر خدائے وحدہ ذوالجلال کو نہ بھولتے ہوئے اس کی بار گاہ میں سجدہٴ شکر بجالائے ، مصائب وتکالیف کے دفعیہ میں سجدہٴ شکر بجالائے، نیز سابق میں مذکور حضرت کعب نے بھی سجدہٴ شکر اپنایا، اسی لیے علامہ طحطاوی (متوفی:1231ھ) رقم طراز ہیں: جنگِ یمامہ میں فتح کے موقعہ پر اسی طرح مسیلمہ کذاب کے قتل کے بعد حضرت ابوبکر کا سجدہ کرنا، اسی طرح حضرت عمر کا یرموک کی فتح کے بعد سجدہ کرنا ، اسی طرح حضرت علی کا سجدہٴ شکر بجالانا، یہ تمام تصریحات اس بات پر دال ہیں کہ نعمت کی خوشی کے موقعہ پر سجدہٴ شکر انجام دینا جائز ہے اور یہ سجدہٴ شکر استحباب سے خارج نہیں ہے۔ (طحطاوی علی المراقی: 408کراچی)
خوشی میں غیروں کی مشابہت
اسلامی تعلیمات پر عمل آوری ، اسلامی طریقہٴ کار سے خواہی نخواہی وابستگی ، اسلامی طرزِ زندگی پر مکمل کار بند ہونے کے لیے اسلامی معاشرہ کا وجود انتہائی ضروری ہے، ایک انسان اگر چہ وہ کتنا ہی دین دار کیوں نہ ہو ، لیکن بعض مواقع پر وہ رسوم ورواج کے آگے سُپر ڈالتا ہے ، نیز بذاتِ خود بادِلِ نخواستہ ان رسوم کا شکار ہوجا تا ہے، جس کی وہ بزبانِ خود انتہائی شدو مد سے مذمت کرتا ہے، یہ اس لیے کہ معاشرہ اسلامی طرزِ حیات سے معمور نہیں؛ بلکہ جاہلانہ رسوم وعادات کا شکار ہے، جس قدر ہم نے عبادات کے اہتمام پر توجہ کی، اس قدر رسوم ورواج مٹانے کی ہم نے کوشش نہ کی، نیز ان رسوم ورواج کے تئیں ہم نے مجرمانہ غفلت برتی، جس بناء پر ہم ہی اس آفت سے دو چار ہیں، الغرض جہاں زندگی کے اور شعبہ جات میں غیروں کا طرز اپنایا ہے، وہیں ہم نے غیروں کے طرزِ عمل کو خوشی کے باب میں بھی جگہ دی ہے، رنگ ڈالنا، آتش بازی، دولہے پر چاول نچھاور کرنا ، سہرے کا استعمال ، یہ اور اس جیسے بے شمار امور بھی اہلِ اسلا م میں رائج ہیں ، حیرت تواس بات پر ہے کہ جو امور غیروں کی مذہبی رسوم کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو غیروں کے تہوار کا ایک حصہ ہیں، انہیں مسلمان اپناتے ہوئے کوئی عار ہی محسوس نہیں کرتے، حالاں کہ احادیثِ مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے: ”من تشبہ بقوم فہو منہم“․ (مشکوٰة :375) کہ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے۔ نیزارشادِ نبوی ہے: خالفوا الیہود والنصاریٰ والمشرکین․ (الحدیث) کہ اہلِ کتاب یہود ونصاریٰ نیز مشرکین کی بھی مخالفت کرو، اپنی وضع قطع ہیئت وغیرہ میں ان سے اپنے آپ کو بالکل مختلف رکھو، چناں چہ علامہ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں: اہلِ کفر کی بعض فروعات میں موافقت کفر کے بعض امور میں موافقت کے مانند ہے، بالخصوص عید وغیرہ کے مواقع تو وہ ہیں جس میں ادیان ممتاز ہوتے ہیں اور یہ مواقع وہ ہوتے ہیں جن میں خصوصی شعائر کا اظہار کیا جاتاہے، لہٰذا ان امور میں موافقت کفر کی خاص جہت میں اتفاق کے مماثل ہے، اس طرح کی موافقت سے کفر تک پہنچنے کے اندیشے بھی ہوتے ہیں۔ (اقتضاء الصراط المستقیم 471/1) نیز ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: اس طرح ادیانِ باطلہ کے خصوصی شعائر کے اختیار کرنے سے انہیں ایک قسم کی خوشی ومسرت بھی ہوتی ہے اور دینِ اسلام کی صحیح تصویر ان کے سامنے نہیںآ پاتی ۔(اقتضاء 486/1)
خوشی میں اسراف
آج امتِ مسلمہ مالی قلت کا شکار نہیں ، مالی حالات سے دو چار نہیں، بلکہ مال دار موجودہ مال کے صحیح استعمال سے عاجز وقاصر ہیں ، مال کا مصارف سے زیادہ بے جا استعمال انتہائی مہلک ترین مرض بن چکا ہے، اس مرض کا اظہار اس وقت شباب پر ہوتا ہے جب مال دار طبقہ خوشی سے سرشار ہو ، یہ طبقہ مالی نشہ میں کئی قبائح کا مرتکب ہوجاتاہے، مثلاً خوشی کے مواقع پر اسراف ، فخر وتکبر ، ریاکاری وغیرہ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ (اسراء) ان مواقع پر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس طرح حرام کمائی ممنوعات کی قبیل سے ہے، اسی طرح غلط طریقہ پر خرچ کرنا بھی نا پسندیدہ اور ممنوع ہے، مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی نے ابنِ خلکان وابن اثیر کے حوالے سے مامون کی شادی اور اس میں ہونے والے خرچ کا اجمالاً تذکرہ کیاہے: مامون مع خاندان ِ شاہی وارکانِ دولت وکل فوج وتمام افسران و خدام حسن بن سہل ( وزیر اعظم جس کی لڑکی سے مامون کی شادی ہورہی تھی) کا مہمان ہوا ، اور برابر انیس دن تک اس عظیم الشان بارات کی ایسی فیاضانہ حوصلہ سے مہمان داری کی گئی کہ ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی نے بھی چند روز کے لیے امیرانہ زندگی بسر کرلی، خاندانِ ہاشم وافسرانِ فوج اور تمام عہدیدارانِ سلطنت پر مُشک وعنبر کی ہزاروں گولیاں نثار کی گئیں، جن پر کاغذ لپٹے ہوئے تھے اورہر کاغذ پر نقدی ، لونڈی ، غلام، املاک ، خلعت، اسپِ خاصہ،جاگیر وغیرہ کی ایک خاص تعداد لکھی ہوئی تھی ، نثار کی عام لوٹ میں یہ فیاضانہ حکم تھا کہ جس کے حصہ میں جو گولی آئے اس میں جو کچھ لکھا ہو اسی وقت وکیل المخزن سے لے کر دے دیا جائے، عام آدمیوں پر مشک وعنبر کی گولیاں اور د رہم ودینار نثار کیے گئے ، مامون کے لیے نہایت مکلّف فرش بچھایا گیا، جو سونے کے تاروں سے بنایا گیا تھااور گوہر ویاقوت سے مرصع تھا، مامون جب اس پر جلوہ افروز ہوا تو بیش قیمت موتی اس کے قدم پر نثار کیے گئے۔ جوزریں فرش پر بکھر کر نہایت دل آویز سماں دکھا تے تھے۔ (تاریخ دعوت عزیمت 70/1)
یہ بیت المال کے اموال کا ناجائز استحصال تھا، جب کسی کی عقل پر غفلت کے پردے پڑ جاتے ہیں تو صرف اسے اپنی آرائش وآسائش کی فکر لاحق ہوتی ہے، اس بات کی ہرگز فکر دامن گیر نہیں ہوتی کہ کس کا مال کہاں سے کیسے آیا اور کہاں صرف کیا جارہا ہے؟ اسی طر ح کا کچھ طرزِ عمل دور حاضر کے حکم رانوں کا بھی ہے، نیز مال داروں کے اس طرح اسراف سے غرباء پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ حسرت و یاس کے عالم میں منہ تکتے رہتے ہیں، الغرض غم وغصہ کی حالت ہو یا خوشی ومسرت کی، ہرحال میں اسلامی واخلاقی حدود کی رعایت بے حد ضروری ہے ، مواقعِ مسرت میں شرعی حدود کی پامالی ، نفسانیت وشیطانی راہوں کو جگہ دینا انتہائی بددیانتی وبے عقلی ہے ، اللہ تعالیٰ اظہارِ مسرت کے لیے صحیح طریقہٴ کار اپنانے کی توفیق عطافرمائے، آمین!