Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1434ھ

ہ رسالہ

16 - 18
سونے کا مومنانہ وصحت مندانہ انداز
محترم محمد عبدالله صدیقی

تعلیمات نبی صلی الله علیہ وسلم کا کمال
نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا ہر شعبہ اور ہر لمحہ مسلمانوں کے لیے نمونہٴ عمل اور شاہ راہِ زندگی پر چلتے رہنے کا بہترین طریقہ اور عافیت کا راستہ ہے۔ انسان کی زندگی گو ناگوں اعمال وافعال اور مصروفیات ومشغولیات سے مزین ہے۔ صبح وشام کے معمولات وعادات میں صحت کو برقرار رکھنے کے لیے آرام کرنا اور نیند کے پر سکون اوقات سے مستفید ہونا بھی از بس ضروری ہے، سرور کونین صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ذاتی عمل اور قول وفعل سے نیند لینے اور سونے کے اوقات کو بھی ہمارے لیے خیر وعافیت کا اور صحت مند رہنے کا نمونہ بنا کر پیش کیا ہے ، پس #
        نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
        الله سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

د ا ہنی کروٹ
حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم جس وقت آرام (نیند) فرماتے تو اپنا داہنا ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھتے ( منھ کعبة الله کی طرف فرمالیتے) داہنی کروٹ کو اختیار فرماتے اورزبان مبارک سے یوں دعا پڑھا کرتے: ”رب قنی عذابک یوم تبعث عبادک“․ ( اے الله قیامت کے دن مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھیے۔) دوسری روایت میں یوم تجمع عبادک بھی آیا ہے۔ ایک اور دعا بھی آپ سے ثابت ہے : بسم الله اللھم اموت واحیا پہلی دعا میں اس طرف توجہ دلائی کہ میدان محشر میں الله تعالیٰ سے درخواست کی جارہی ہے کہ وہ عذاب نار اور عذاب حشر سے محفوظ رکھّے اور ساتھ ہی رسوائی سے محفوظ فرما دے جب مخلوق خدا جمع کی جائے گی۔ دوسری دعا: بسم… میں یاد دلایا جارہا ہے کہ دیکھو! نیند جہاں الله تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت، رحمت اور سرور حاصل کرنے اور تھکن دور کرنے کا بڑا صحت افزا طریقہ ہے، وہیں نیند موت کی بہن بھی ہے ۔ نیند میں آدمی کے حواس اور قویٰ بدنیہ معطل سے ہو جاتے ہیں اور نیند بخارات کے ذریعہ دماغ تک سرائیت کر جاتی ہے، اسی لیے دعا مانگی جارہی ہے کہ کہ گویا (نیند حاصل کرنے کی حالت میں ) میں مر رہا ہوں اور پھر الله تعالیٰ ہی اپنے فضل وکرم سے میرے اعضا وجوارح اور محسوسات وقوائے بدنی کو بیدار ہونے کے وقت دوبارہ اصلی اور فطری Normal حالت میں لوٹانے والے ہیں، لہٰذا اسی رب ذوالجلال والاکرام کے نام پر امید زندگی رکھتے ہوئے سونے جارہا ہوں اور پھر اسی سے یہ لو لگارہا ہوں کہ وہ مجھے مرنے کے بعد میدان محشر اور قیامت کے عذاب سے بھی محفوظ فرما لیں گے (ان شاء الله) اور اب ( نیند والی موت) کے بعد بیدار فرماکر مجھے ( نئی اور تازہ) زندگی بھی عطا فرمائیں گے، نیند کرنے کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ سونے سے پہلے وضو بھی کر لیا جائے۔ متفق علیہ روایت میں ارشاد ہے:

جب تو سونا چاہے تو پھر نماز جیسا وضو کر لیا کر۔ ( اتحافات) حضورصلی الله علیہ وسلم کا ارشادیوں بھی ہے کہ اگر وضو کی ہوئی حالت میں ( مسلمان مردوعورت) کو موت آجائے تو اسے شہادت کا درجہ عطا کیا جاتا ہے ۔ (اوکما قال علیہ الصلوٰة والسلام)

سوتے وقت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا معمولِ مبارک
آپ صلی الله علیہ وسلم دائیں رخسار کے نیچے ہتھیلی مبارک رکھتے تھے۔ قبلہ رو ہو کر یہ اقوی بھی ہے اور اس میں تیامن بھی ہے اور یہی اولیٰ بھی ہے، گویا دائیں کروٹ لیٹنا، دائیں رخسار کے نیچے ہتھیلی رکھنا آپ کا معمول اور عادت بھی اور ویسے بھی ہر پاکیزہ کام میں تیامن۔ داہنی طرف کا خیال رکھنا۔ آپ کا معمول تھا اور یہ داہنی طرف کو ترجیح دینا گویا امت کو تعلیم دینا بھی مقصود تھا ،اس لیے داہنی کروٹ پر رخسار کے نیچے ہتھیلی رکھ کر سونا امت کے لیے مستحب ہے۔

چت لیٹنا اوندھا یا بائیں کروٹ پر سونا
امت کے لیے ( بقول علمائے کرام اور محدثین عظام) چت لیٹنا، بائیں کروٹ پر لیٹنا یا الٹا لیٹنا مکروہ ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں ”لیکن چت لیٹ کر سونا ردی اور نکما سونا ہے اور اس سے زیادہ خراب اور ردی الٹا لیٹ کر سونا ہے“ اورابن ماجہ نے ایک او رروایت ذکر کی ہے کہ جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم الٹے لیٹے ہوئے شخص پر مسجد میں گزرے تو اسے پاؤں سے حرکت دیتے ہوئے فرمایا کہ (اٹھو) کھڑے ہو جاؤ یا فرمایا کہ (اٹھ کے) بیٹھ جاؤ، یہ جہنمی سونا ہے۔“

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چِت لیٹے ہوئے آدمی کو مشابہت تو ایک مرے ہوئے ( لیٹے ہوئے) آدمی سے ہے کہ کوئی مردہ لیٹا ہوا ہے ۔ الله تعالیٰ تو زندگی ایسی نعمت عطا فرما کر آسائشوں سے نوازیں او رہم اپنی ہئیت کذائی ایک مردہ سے مشابہت والی بنالیں، کسی صورت زیب نہیں دیتا، اُلٹا یا اوندھا لیٹنا گویا زندہ رہتے ہوئے اپنی کیفیت وہیت جہنمی جیسی بنالیں، یہ بھی کتنی معیوب بات ہے کہ جہنمیوں کو اوندھا کرکے ہاتھوں سے گھیسٹ کر جہنم میں ڈالا جائے گا، دوسری وجہ بے حیائی، بے پردگی او راعضائے مستورہ کے واضح ہو جانے کی ہے کہ بدن کے وہ اعضا جن کی ساخت پر داخت کو چھپانا چاہیے اور ستر پوشی کو اختیار کیے رہنا چاہیے اوندھا لیٹنے سے بدن اور جسم کے پچھلے حصہ کی کماحقہ ستر پوشی باقی نہیں رہتی او رایسی صورت میں کسی کی نظر پڑ جائے تو بڑے شرم کا مقام ہے ،لیجیے بقول ملا علی قاری اوندھے اور اُلٹے لیٹے رہنے والے کا سونا گویا مشابہ ہے لوطی شخص کے سونے کے ،جو کسی (بد اخلاق وبد کردار) دیکھنے والے کی قوت شہوانیہ کو اس فعل بد پر محرک ہو گا۔ خصوصاً اس بد نما انداز اور بدن کے نشیب وفراز کو نہ چھپا کر سونے والا اگر امرد انثی ہے یا حسین خوب صورت ہے پھر تو گویا وہ گندی اور غلیظ ذہنیت رکھنے والوں کو گناہ کی سوچ کی طرف ( کم از کم) مائل تو کر رہا ہے او راس طرح آفت کا پر کالا بنا ہوا ہے، دعوت گناہ دے رہا ہے ۔” اللھم احفظنا“ انہیں اندیشوں کے تحت زور دیا گیا ہے کہ سوتے وقت اور آرام کے لیے لیٹنے کے وقت بھی ستر پوشی کا خاص خیال رکھا جائے اور اعضائے مستورہ کو ڈھکے رہنے کی ہر کوشش کی جائے (Joint Family) سسٹم والوں کے لیے تو زیادہ ہی احتیاط کی ضرورت ہے یا جہاں جگہ کم اور افراد زیادہ ہوں، جس کے سبب فاصلے کم ہوں۔

بائیں کروٹ سونے کی عادت سے بھی بچنا چاہیے
جیسا کہ معلوم ہوا کہ دائیں کروٹ سونا مستحب بھی ہے اور اس میں ایک خاص مصلحت اور حکمت بھی ہے، وہ یہ کہ آدمی کا دل چوں کہ سینہ کی بائیں جانب ہوتا ہے، اس لیے دائیں کروٹ سونے سے وہ اوپر رہتا ہے اور گہری استغراق والی نیند نہیں آتی، بلکہ آدمی سوتے وقت بھی چوکنا رہتا ہے۔ او راگر بائیں کروٹ پر سوتا ہے تو دل نیچے کی جانب ہوتا ہے اور اس صورت میں نیند بہت گہری ( غافل کر دینے والی ) آتی ہے ۔ اسی وجہ سے بعض اطبا نے بائیں جانب سونے کو اچھا بھی بتایا تو ہے کہ نیند بہت گہری آجاتی ہے اور ہضم بھی کچھ بہتر ہو جاتا ہے اور یہ کسی قدر صحیح بھی ہے، مگر ایک بڑی مضرت بھی ہے (کاش کہ اس طرف بھی خیال آجاتا) وہ یہ کہ جب دل نیچے کی جانب ہو گا تو تمام بدن کا زو راس پڑ ے گا اور بدن کا مواد بھی ( خدانخواستہ) اس پر اثر کرے گا۔

دل اعضاءِ رئیسہ میں اہم ترین عضو ہے، اس پر مواد کا تھوڑا سا اثر ہونا بھی بہت سے امراض کا سبب بن سکتا ہے ۔ اس لیے بائیں کروٹ لیٹنے میں اگر ایک طبی مصلحت ہے تو ایک طبی ( جسمانی) مضرت بھی ہے او رمضرت سے بچنا بہرحال زیادہ ضروری ہے، اس لیے طبی حیثیت سے بھی دائیں کروٹ پر سونا بہت بہتر ہے، علاوہ اس کے دائیں کروٹ لیٹنا موت کے بعد قبر میں لیٹنے کی یاد کو تازہ کرتا ہے اور موت کو یاد رکھنے کا مسلمان کو حکم بھی دیا گیا ہے اور دینی دنیوی بہت سے فوائد موت کو یاد کرنے سے حاصل ہوتے ہیں، لذتوں کو ختم کر دینے والی موت کو کثرت سے یاد کرنے کو کہا گیا ہے اور حق تو یہ ہے کہ جس کا مزا ہر جان دار کو چکھنا ہے اسے کیسے بھول جائیں ؟”کل نفس ذائقة الموت، ان اجل الله لأت“․
Flag Counter