Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1434ھ

ہ رسالہ

14 - 18
تعلیم اور تربیت، دونوں ضروری
مولانا اسرار الحق قاسمی

اولاد اللہ کی جانب سے یقینا والدین کے لیے بڑی نعمت ہیں، جس کا تقاضا ہے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کے شکر گذار ہوں اور اپنی اولاد کی اچھے انداز میں پرورش وتربیت کریں۔ عام طور سے والدین اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کے سبب حتی الوسع ان کی سہولیات کا خیال کرتے ہیں اوربہت سے لوگ ان کی تعلیم وتربیت پر بھی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کام یاب ہوں اور ان کے بہترین وارث بنیں۔لیکن موجودہ زمانہ کا المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنی اولاد کی پرورش و تربیت اس طور پر کرنے لگے ہیں جو بظاہر ان کے حق میں بہتر دکھائی دیتی ہے، مگر فی الواقع وہ حقیقی کام یابی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔مثلا بہت سے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ بہت زیادہ پیار کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ہر طرح کے تعیشات کی اشیا فراہم کرتے ہیں ، ان کے خرچ کے لیے بڑی رقمیں دیتے ہیں، جہاں وہ گھومنے کے لیے جانا چاہتے ہیں انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں، جس طرح کے کپڑوں کی خواہش کا وہ اظہار کرتے ہیں، مہیا کرتے ہیں۔آگے چل کرجس کایہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غلط راہوں میں بھٹکنے لگتے ہیں ۔اگر شروع سے ان کی صحیح خطوط پر پرورش کی جاتی ہے ، انہیں بے جاآزادی نہیں دی جاتی اور ان کی تمام خواہشات کو پورا کرنے کی بجائے یہ سوچا جاتا کہ کیاان کے حق میں بہتر ہے اور کیاغلط؟ تویہ صورت حال سامنے نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی پرورش بہتر طور پر محتاط انداز میں کریں۔

عصر حاضر میں یہ صورت حال بھی سامنے آرہی ہے کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کے لیے ایسی تعلیم کا بندوبست کر رہے ہیں جس کے مادی فوائد تو نظر آتے ہیں، لیکن روحانی واخلاقی اعتبار سے بچے کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے ۔مگر چوں کہ آج کل ہر چیز کو مادیت کے پیمانے پر تولا جارہا ہے ، اس لیے تعلیم دیتے ہوئے بھی اس چیز کو پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ مادی لحاظ سے اس تعلیم کا کیا فائدہ ہے؟ یاد رکھنا چاہیے کہ مال ودولت کا حصول حقیقی کام یابی نہیں ہے، اس سے دنیوی زندگی میں قدرے سہولیات تو حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی حقیقی کام یابی بھی حاصل ہوسکے۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنی اولاد کے لیے ایسی تعلیم وتربیت کا بندوبست کیاجائے جو اسے حقیقی کام یابی سے ہم کنار کرنے والی ہو۔ والدین کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی اولاد کے لیے اس بات کی فکر کریں کہ وہ جہنم کی آگ سے خلاصی پاجائیں ۔ کیوں کہ جہنم ایسا براٹھکانہ ہے جس کا ایندھن انسان ہوں گے۔ اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے: ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ“۔(تحریم 6)

اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کو ایسی تعلیم و تربیت دیں جوانہیں جہنم کی آگ سے محفوظ رکھ سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔ کیوں کہ اس کا مقصد ہی انسان کو سیدھا راستہ دکھانا ، اللہ کی وحدانیت پر لوگوں کے یقین کو پختہ بنانا اور اس بات کوواضح کرنا ہے کہ ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے ، محض اللہ کی ذات باقی رہنے والی ہے ، اس نے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے ، وہی رازق ومالک ہے ، اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چناں چہ وہی عبادت کے لائق ہے ، اس کے احکام کی پیروی لازمی ہے اور اس کے مبعوث کیے ہوئے دین پر چلنے میں ہی فلاح یابی ہے اور ہر انسان کو بالآخر اس کی طرف لو ٹنا ہے۔ رب کائنات پر مضبوط یقین اور اس کے بھیجے ہوئے انبیاء ورسل پر اعتقاد کامل کے بعد انسان کی فلاح کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں اور وہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے لگتا ہے ۔ اس کے برعکس مادی علوم و فنون کے بارے میں پورے طور سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی ۔ خاص طور سے وہ نظام جو لینن، مارکس ، ڈارون ، فرائڈجیسے لوگوں نے پیش کیے ، وہ انسان کو اس کے حقیقی مقصدسے ہٹاکر محض مادیت پسند بناتے ہیں۔

تعلیم کے ساتھ تربیت کی افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جہاں محض تعلیم ہے ، مگر تربیت کا فقدان ہے ، وہاں تعلیم کے پورے نتائج سامنے نہیں آپاتے ۔ اگر تربیت بچپن سے ہی کی جائے تو اور زیادہ بہتر ہے۔ تربیت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ادارہ میں ہی کی جائے اور گھر پر بچہ کو آزاد چھوڑ دیا جائے ، بلکہ وہ تربیت جو گھر پر کی جاتی ہے ، عام طور سے زیادہ موثر و مضبوط ہوتی ہے پھر گھر پر تربیت کرنا زیادہ آسان بھی ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ والدین سب سے پہلے خود نیک ہوں اورجس چیز کی تربیت اولاد کودیں پہلے اس پر خود عامل ہوں ، بچے بہت سی باتیں اپنے والدین کی نقل وحرکت اور ان کے کاموں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب والدین کھانا سلیقہ سے کھاتے ہیں ، لقمہ بناتے ہیں ، اپنے آگے سے کھاتے ہیں ، بسم اللہ پڑھ کر کھاتے ہیں تو بچے بھی ویسے ہی کرتے نظر آتے ہیں ، والدین لباس پہنتے ہیں اور بچوں کو بھی وہی لباس پہناتے ہیں تو بچے بخوشی اسے پہن لیتے ہیں ۔ اگر والدین نماز پڑھتے ہیں تو وہ بھی نماز پڑھتے ہیں ۔ اگر بچپن میں والدین اپنے بچوں کو سلام کی عادت ڈلواتے ہیں، کلمے سکھاتے ہیں ، اچھے اچھے طریقہ بتاتے ہیں تو وہ بہت حد تک اپنے والدین کی باتوں اور ان کے ماحول کو اختیار کر لیتے ہیں ۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرہ کے بہت سے گھرانوں کا ماحول اس قدر آزاد ہوگیا ہے کہ اولاد پر اس کا اچھا اثر مرتب ہوتا نظرنہیں آتا ۔ والدین رات کو دیر تک جاگتے ہیں اور دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ بچوں کی بھی عادت اسی طرح کی پڑنے لگتی ہے ۔دن بھر گھروں میں ٹی وی چلتا رہتا ہے ، جسے والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ چھوٹے بچوں کو بھی ٹی وی دیکھنے کی عادت پڑجاتی ہے۔ ایک تو اس سے ضیاع وقت ہوتا ہے، دوسرے اس پربہت سی منفی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بہت سے والدین قسم قسم کے فیشن کے کپڑے خود بھی پہنتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی پہناتے ہیں ۔ بعض جگہ خواتین کے بے جا میک اپ اور ان کے فیشن سے بچے متاثر ہوتے ہیں اور بچیاں انتہائی کم عمر “میں میک اپ کرنے لگتی ہیں، جس کا نتیجہ بعد میں اچھا نہیں نکلتا ۔ اس لیے والدین کو تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں بہت زیادہ سنجیدہ و حساس ہونے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” باپ کا اپنے اولاد کے لیے بہترین تحفہ یہی ہے کہ بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کرے“۔

اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے بھی دعا کریں ۔ ارشاد باری ہے ” اور میری اولاد میں صلا ح وتقوی دے “۔(احقاف15)”تقوی “انتہائی اہم چیز ہے، جس سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے ، اس سے انسان کی افضلیت بڑھتی ہے ۔ ارشاد باری ہے ”بلاشبہ تم میں زیادہ مکرم اللہ کے نزدیک وہ ہے جو متقی ہے “حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اولاد سے بے انتہا محبت کر تے ہیں ، ان کے لیے اعلی سہولیات مہیا کرتے ہیں، ان کے لیے گاڑیاں خریدتے ہیں ، زمینیں خریدتے ہیں اور کشادہ مکانات بناتے ہیں ۔ تاکہ اولاد پریشان نہ ہو اور وہ آرام کی زندگی بسر کریں، مگر ان کی تعلیم کا بہتر بندوبست نہیں کرتے یا ایسی تعلیم دلانے میں عار محسوس کرتے ہیں جو ان کی دنیا و آخرت دونوں جہاں کی کا م یابی کے لیے ضروری ہے ۔

اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ والدین ایسا کردار پیش کریں کہ نئی نسل کامیاب و بامراد ہو۔ نئی نسل کے تحفظ اور اور ان کی کام یابی کے لیے دین اسلام کس قدر زور دیتا ہے ،اس کا اندازہ اس آیت سے لگا یا جاسکتا ہے ، جس میں پروردگار نے ارشاد فرما یا ” اور اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ نسل کشی بہت ہی بڑا گنا ہ ہے “۔(بنی اسرائیل 31) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نسل کشی گناہ عظیم ہے اور اولاد کے قتل کی تمام شکلیں ناجائز ہیں ۔موجودہ دور میں والدین کے ہاتھوں اپنے بچوں کے قتل کے واقعات کی شرح فیصد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو ، مگر اولاد کی پیدائش روکنے کے لیے جوکوششیں چل رہی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں شریعت اسلامی ان کی اجازت نہیں دیتی۔ 
Flag Counter