Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1434ھ

ہ رسالہ

12 - 18
توہین علماء کا فتنہ
مولانا سید احمد ومیض ندوی

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جہاں کتابیں نازل فرمائیں وہیں پیغمبروں کی شکل میں اپنے منتخب بندوں کو بھی مبعوث فرمایا، انسانیت کی راہ نمائی کے لیے صرف کتابوں پر اکتفا نہیں کیا گیا، ہر کتاب کے ساتھ ایک رسول بھی بھیجا گیا، نبوت کی تاریخ میں ایسا بارہا ہوا کہ صرف نبی کی بعثت پر اکتفا کیا گیا اور اس پر کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی یا رسول کے بغیر صرف کتاب پر اکتفا کیا گیا ہو، یہی وجہ ہے کہ انبیا کی تعداد تو ایک لاکھ سے متجاوز ہے، لیکن مشہور آسمانی کتابیں صرف چار ہیں اور ان کے علاوہ چند صحیفے تھے، جو بعض پیغمبروں پر نازل کیے گئے، اس طرح انبیا کی ایک بڑی تعدادایسی تھی جن پر مستقل کتاب نازل نہیں کی گئی، اللہ تعالیٰ کی اس عمومی سنت سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ بشری ہدایت اور اصلاحِ عالم کے لیے آسمانی ہدایت ناموں کے ساتھ خدا کے ان رجالِ خاص کی ضرورت ہے، جو انسانوں کے سامنے ربانی ہدایات کا عملی نمونہ پیش کرسکتے ہوں اور اپنی زندگی کے ذریعہ وحی الٰہی کی تشریح وتوضیح کرسکیں، خود قرآن مجید میں جگہ جگہ اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے: ”اور آپ پر بھی یہ قرآن ہم نے اتارا ہے، تاکہ جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کو آپ ان سے ظاہر کردیں اور تاکہ وہ لوگ فکر کیا کریں“ ۔(النحل: 44)

حضرات انبیائے کرام کی تشریح اور عملی نمونے کے بغیر آسمانی کتابوں سے استفادہ ناممکن ہے، ہدایت واصلاح ہی نہیں، بلکہ کسی بھی فن یاعلم کے حصول کا یہی ضابطہ ہوتا ہے، موجودہ دور میں علم وفن اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ ہرفن کی کتابیں دنیا کی تقریباً مشہور زبانوں میں پائی جاتی ہیں، اگر کوئی کسی فن کے حصول کے لیے استاذ کے بغیر صرف کتابوں پر اکتفا کرنا چاہے تو اس کے لیے اس فن کا حصول ممکن نہیں، فن طب کی ہزاروں کتابیں اس وقت بازار میں دست یاب ہیں، اگر کوئی صرف کتابوں کے مطالعہ سے علاج ومعالجہ شروع کرے تو ظاہر ہے کہ وہ قبرستان آباد کرنے لگے گا، جب تک ماہر اطباء کی صحبت میں ایک عرصہ نہیں گذارے گا اور ان سے راہ نمائی حاصل نہیں کرے گا، نہ اسے ڈاکٹری کی ڈگری دی جائے گی اور نہ ہی علاج کی اجازت دی جائے گی، فن طب تو بہت آگے کی چیز ہے، بغیر استاذ کی راہ نمائی کے آدمی معمولی قسم کا پکوان بھی نہیں تیار کرسکتا، کتاب کا مطالعہ کر کے چھوٹی سی ڈش بھی نہیں بنائی جاسکتی۔

دنیا کے کسی حقیر علم یا فن کے حصول کے لیے جب ماہر فن کی راہ نمائی ناگزیر ہے تو بھلا اخروی ہدایت اور مقصدِ حیات کے تعین کا مسئلہ بغیر راہ نما اور معاون کے کیسے حل ہوسکتا ہے؟ انسانی ہدایت کے سلسلہ میں رجال اللہ کی اہمیت کو قرآن مجید میں مختلف انداز سے واضح کیا گیا ہے، قرآن کریم نے رجال اللہ کو ہدایت وگم راہی کی کسوٹی کے طور پر پیش کیا ہے، چناں چہ سورہٴ فاتحہ میں بندوں کو جہاں اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت مانگنے کی تلقین کی گئی ہے، وہیں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ صراطِ مستقیم کونسا راستہ ہے، صراطِ مستقیم کی توضیح کرتے ہوئے کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا گیا، بلکہ رجال اللہ کا حوالہ دیا گیا﴿صِرَاط الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ﴾․ان لوگوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا۔ ان انعام یافتہ رجال اللہ کی نشان دہی سورہ نساء میں کی گئی ہے، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے:﴿فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ﴾․(النساء: 69) اور جو شخص اللہ اور او ررسول کا کہا مانے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صلحا اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں، سورہ فاتحہ کی ان آیات کی تفسیر کے ضمن میں حضرت مفتی محمدشفیع صاحب فرماتے ہیں: ”یہاں ایک بات قابل غور ہے اور اس میں غور کرنے سے ایک بڑے علم کا دروازہ کھلتا ہے، وہ یہ کہ صراطِ مستقیم کی تعیین کے لیے بظاہر صاف بات یہ تھی کہ صراط الرسول یاصراط القرآن فرمادیا جاتا، جو مختصر بھی تھا اور واضح بھی، کیوں کہ پورا قرآن درحقیقت صراطِ مستقیم کی تشریح ہے اور پوری تعلیماتِ رسول صلی الله علیہ وسلم اس کی تفصیل، لیکن قرآن کی اس مختصر سورت میں اختصار اور وضاحت کے اس پہلو کو چھوڑ کر صراطِ مستقیم کی تعیین کے لیے اللہ تعالیٰ نے مستقل دو آیتوں میں ایجابی اور سلبی پہلووٴں سے صراطِ مستقیم کو اس طرح متعین فرمایا کہ اگر سیدھا راستہ چاہتے ہو تو ان لوگوں کو تلاش کرو اور ان کے طریق کو اختیار کرو، قرآن کریم نے اس جگہ نہ یہ فرمایا کہ قرآن کا راستہ اختیار کرو، کیوں کہ محض کتاب انسانی تربیت کے لیے کافی نہیں اور نہ یہ فرمایا کہ رسول کا طریقہ اختیار کرو، کیوں کہ رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کی بقا ہمارے درمیان دائمی نہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلمکے بعد کوئی دوسرا رسول اور نبی نہیں، اس لیے صراطِ مستقیم جن لوگوں کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے ان میں نبیین کے علاوہ ایسے حضرات بھی شامل کردیے گئے جو تاقیامت ان کے لیے موجود رہیں گے،مثلاً صدیقین، شہدا اور صالحین، خلاصہ یہ کہ سیدھا راستہ معلوم کرنے کے لیے حق تعالیٰ نے کچھ رجال اور انسانوں کا پتہ دیا، کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا ۔(معارف القرآن: 1/39)

قرآن کریم نے ایسے معیاری رجال کا تذکرہ انتہائی والہانہ انداز میں بار بار کیا ہے، سورہٴ مریم میں مختلف انبیا کا ذکر کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ انہیں یاد کرو، یہ سلسلہ حضرت زکریا سے شروع ہو کر حضرت ادریس پر ختم ہوتا ہے، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿ذِکْرُ رَحْمَةِ رَبِّکَ عَبْدَہ زَکَرِیَا﴾․ (مریم:4) حضرت مریم کے سلسلہ میں فرمایا گیا: ﴿وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ مَرْیَم﴾ (مریم:16) حضرت یحییٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں فرمایا گیا: ﴿یَایَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاہ الْحُکْمَ صَبِیًّا، وَحَنَاناً مِّنْ لَّدُنَّا وَزَکٰوةً وَکَانَ تَقِیَّا، وَبَرّا بِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّاراً عَصِیًّا، وَسَلَامٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا﴾․(مریم: 12۔ 15) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہوا: ﴿وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّہ کَانَ صِدِیّْقًا نَّبِیًّا﴾(مریم::41) حضرت ادریس پر سلسلہ کو ختم کرتے ہوئے فرمایا گیا:﴿ اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ علیہم مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ آدَمَ﴾․یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا ہے آدم کی اولاد سے نبیوں میں سے۔ سورہٴ انعام میں حضرت ابراہیم، اسحاق، یعقوب، نوح، داوٴد، سلیمان، ایوب ، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، الیاس، اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط علیہم السلام جیسے مختلف پیغمبروں اور ان کے آبا واجداد کا ذکر کرنے کے بعد اخیر میں فرمایا گیا: ”اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ“․(الانعام:90)یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے، آپ ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔

قرآنِ مجید شروع سے اخیر تک رجال اللہ کے تذکرہ سے بھرا ہوا ہے، کتنی سورتیں ایسی ہیں جن میں صرف انبیا کے حالات بیان کیے گئے ہیں، سورہٴ شعراء سورہٴ انبیاء اور سورہٴ یوسف وغیرہ وہ سورتیں ہیں جن میں خالصتاً رجال اللہ کا ذکر ہے، بہت سی سورتوں کو انبیا کے نام سے موسوم کیا گیا، جن میں سورہ یونس، سورہ ابراہیم، سورہ یوسف، قابل ذکر ہیں، رجال اللہ کے ذکر کا اس قدر اہتمام کیا گیا کہ جو رجال، انبیا نہیں ہیں انہیں بھی اہتمام سے یاد کیا گیا، چناں چہ اصحابِ کہف کا تفصیلی واقعہ، اسی طرح حضرت لقمان، حضرت خضر، حضرت مریم علیہم السلام وغیرہم کا والہانہ تذکرہ ملتا ہے۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بھی اپنے عمل اور ارشادات کے ذریعہ رجالِ خاص کی اہمیت کو واضح فرمایا ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو جہاں اپنے طریقہ کو لازم کرلینے کی تاکید فرمائی وہیں خلفائے راشدین کے طریقہ کا بھی ذکر فرمایا، چناں چہ ارشادِ نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:”علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ“․(مشکوٰة شریف:30) ”تم میرے طریقہ کو اورمیرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کو لازم پکڑو، اسے دانتوں سے دبائے رکھو“۔ اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کے 73فرقوں میں بٹنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ سب کے سب جہنمی ہیں، سوائے ایک فرقہ کے اور اس جنتی اور حق فرقہ کی نشانی یہ بتائی کہ وہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوگا ”اصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم“․ (مشکوٰة:554) میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاوٴ گے۔

امت ِ محمدیہ کے لیے ایسے رجال اللہ اور حاملین علم نبوت کی اہمیت ایک دوسرے زاویہ سے بھی ہے اور وہ یوں کہ محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء قرار دے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد نبوت کے سلسلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا، نتیجتاً قیامت تک کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کی شریعت نافذ العمل رہے گی اور کتاب وسنت ہی کے ذریعہ قیامت تک کے مسائل کا حل نکالا جائے گا، جب زمانہ کے تغیر کے ساتھ نت نئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے تو یہ رجالِ خاص اور حاملینِ علوم شریعت ہی امت کی راہ نمائی فرماتے رہیں گے، اس طرح حاملین علوم نبوت ختم نبوت کے بعد ذمہ داریوں کے لحاظ سے نبوت کی جگہ کھڑے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے علما کو انبیا کا وارث قرار دیا ہے، چناں چہ ارشادِ نبوی صلی الله علیہ و سلم ہے: ”العلماءُ ورثة الأنبیاء والأنبیاء، لم یورّثوا دینارا ولادرھماً، إنّما ورّثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر“․(مشکوٰة:34) علما انبیا کے وارث ہیں اور انبیا نے درہم ودینار کا ورثہ نہیں چھوڑا، بلکہ علم الٰہی کا ورثہ چھوڑا ہے۔ علما کو انبیا کا جانشین قرار دے کر انہیں امت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا کہ وہ ختم نبوت کے بعد نبیوں کی طرح امت کی راہ نمائی کریں ، قرآن وسنت میں قیامت تک پیدا ہونے والے سارے مسائل کے ہر جزیئے کو بیان نہیں کیا گیا، بلکہ کلی اور اصولی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان اصولی قواعد کے ذریعہ مسائل کا حل نکالنا حاملین علوم شریعت کی ذمہ داری ہے، اس لحاظ سے امت قیامت تک علمائے حق اور حاملینِ علوم نبوت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی، ہردور میں علم نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں علمائے امت کے اس کردار کی طرف رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بارہا اشارہ فرمایا ہے، چناں چہ ایک موقع سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ، ینفون عنہ تحریف الغالین، وانتحال المبطلین، وتاویل الجاھلین“․(مشکوٰة شریف:36)

اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلمنے یہ بھی بتادیا کہ جب امت کے درمیان سے علما ایک ایک کر کے اٹھتے چلے جائیں گے تو علما کی قلت کی وجہ سے لوگوں پر دینی لحاظ سے اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟ اور کس طرح امت گم راہی کی طرف چلی جائے گی؟ چناں چہ ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے اسے کھینچ لے، بلکہ علم کے اٹھائے جانے کی یہ صورت ہوگی کہ علما اٹھالیے جائیں گے، یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا بنالیں گے اور ان سے دینی معاملات میں سوال کیا جانے لگے گا اور وہ پیشوا علم کی کمی کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گم راہ کردیں گے۔“ (مشکوٰة)

اس حدیث میں جہاں امت کے درمیان سے علما کے اٹھ جانے کے انتہائی خطرناک نتائج سے آگاہ کیا گیاہے وہیں دَرپردہ یہ پیغام دیا گیاہے کہ امت علما کی جماعت کو غنیمت سمجھے اور ان کی قدر کرے، علمائے امت نے ہردور میں حفاظتِ دین کا فریضہ انجام دیا ہے، صحابہ کے دور میں تمام صحابہ علم وفقہ میں یکساں نہ تھے،مسائل میں چند ہی صحابہسے دوسرے لوگ رجوع ہوتے تھے، تابعین، تبعِ تابعین اور فقہائے کرام کے زمانہ میں بھی علم وفقہ کا کمال سب کو حاصل نہ تھا، علما ہی کی جماعت کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، فقہ اسلامی کی شکل میں علما نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ قیامت تک امت کی راہ نمائی کرتا رہے گا، تاریخ کے مختلف ادوار میں نئے نئے فتنوں نے سراٹھائے، دشمنانِ اسلام نے مختلف سازشوں کے ذریعہ مسلمانوں سے دین وایمان کی دولت چھین لینی چاہی، مگر علمائے امت نے ہرفتنہ کا مقابلہ کیا اور امت کے دینی تشخص کی حفاظت کی، ہندوستان ہی کو لیجیے، آزادی کے وقت یہاں کیسے نازک حالات تھے؟ مسلمانوں کے ملی تشخص کو ختم کرنے کے لیے ہرطرح کی کوشش کی گئی، حضرات علماء ہی نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی نیابت اور حقِ وراثت ادا کرتے ہوئے ملت کے تحفظ کا بھرپور سامان کیا، ذرا غور کیجیے! اگر ہندوستان میں علما کی یہ جماعت نہ ہوتی تو آج ہمارا کیا حال ہوتا؟ مسجدوں کو امام نہ ملتے، تحریکوں کو راہ نما نہ ملتے اور باطل افکار کا ہرطرف غلبہ ہوتا، اسلامی تہذیب وتمدن کا صفایا کیا جاچکا ہوتا، علما کی جماعت معمولی اسباب، سادہ زندگی، محدود وسائل اور ہرطرح کی مشکلات ومصائب کا سامنا کرتے ہوئے علم ِدین کی شمع روشن کرتی رہی۔

امتِ مسلمہ ایک ایسی امت ہے جو کسی لمحہ علما سے بے نیاز نہیں رہ سکتی، اس لیے کہ وہ جس دین کی حامل ہے وہ علم کا دین ہے، اسلام پر عمل کرنے کے لیے آدمی کو ہرقدم پر علم کی ضرورت ہوتی ہے، ایک نماز ہی کو لے لیجیے، اس کی ادائیگی کے لیے آدمی کو سیکڑوں مسائل کا جاننا ہوتا ہے، پھر دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی کچھ کم تفصیلات نہیں، معاشرت، معاملات، اخلاقیات، ہرشعبہ میں ایک مسلمان کے لیے اسلامی تعلیمات سے واقفیت ضروری ہے، غور کیجیے کہ مسجد کا احترام اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں نماز جیسی عبادت انجام دی جاتی ہے، کعبة اللہ کے احترام کا سبب یہ ہے کہ وہ الله تعالیٰ کا گھر اور اہل اسلام کا قبلہ ہے اور اس سے حج کی عبادت کا تعلق ہے، رمضان قابل قدر اس لیے ہے کہ اس سے روزہ کی عبادت وابستہ ہے، ان تمام محترم چیزوں سے صرف ایک عبادت وابستہ ہے، جب کہ علما کا تعلق تمام عبادات اور دین کے تمام شعبوں سے ہے، پھر کیسے ان کی بے احترامی کی جاسکتی ہے؟!

اس وقت ایک منظم سازش کے ذریعہ علمائے امت پرسے اعتماد ختم کیا جارہا ہے اور امت میں توہین ِعلما کا فتنہ زورپکڑرہا ہے،دشمنانِ اسلام طویل تجربات کے بعد اس نتیجہ کو پہنچے کہ مسلمانوں میں روح پھونکنے والی اصل جماعت علما کی ہے، انہیں کے ذریعہ سارے مسلمانوں میں ایمانی جوش منتقل ہو رہا ہے، اس لیے اب ان کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ عام مسلمان علما سے بدظن ہوجائیں اور ان سے اپنا ناطہ توڑلیں، چناں چہ عالمی سطح پر علما کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، کہیں کہیں یہ کام عمل بالحدیث اور قرآن وسنت کے حسین عنوان کی آڑ میں انجام پارہا ہے، ائمہٴ امت اور فقہائے اسلام کے بارے میں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ وہ قرآن وحدیث سے دور تھے، ان کا قول وعمل قرآن وحدیث کے صریح حکم سے ٹکراتا ہے، اگر یہ فکر اسی طرح جڑ پکڑتی گئی تو مستقبل میں سنگین نتائج پیدا ہوسکتے ہیں، دنیا کے جس جس خطہ سے اسلام کا صفایا کیا گیا اس کی ابتدا اس طرح کی گئی کہ پہلے مسلمانوں کو علما سے بدظن کیا گیا، پھر مسلمانوں سے دین کھرچ لیا گیا، روس میں اسلام کو مٹانے کے لیے پہلے انہیں کو نشانہ بنایا گیا اور علما وعوام میں دراڑ پیدا کی گئی، پھر ایک ایک کر کے اسلامی آثار کا خاتمہ کیا گیا۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ علما ہر طرح کے نقائص سے پاک ہیں، وہ بھی انسان ہیں،ان میں بھی خامیاں ہوسکتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک آدھ واقعہ کو بنیاد بناکر علما کی کردار کشی کی مہم چلائی جائے، لوگ انجینئر سے تعمیر کا کام لیتے ہیں، ڈاکٹر سے علاج کراتے ہیں، اسی طرح مختلف ماہرین سے ضرورت پوری کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہ دیکھا ہوگا کہ انجینئر سے اس کے ذاتی عیوب کی وجہ سے تعمیری کام میں راہ نمائی سے اجتناب کیا گیا ہو یا ڈاکٹر سے محض اس لیے علاج نہ کرایا جارہا ہو کہ اس کا کیریکڑ صحیح نہیں، یہ صحیح ہے کہ ایک عالم دین کا مسئلہ انجینئروں اور ڈاکٹروں سے مختلف ہے، اسے کردار واخلاق کی بلند چوٹی پر ہونا چاہیے، لیکن بہرِحال وہ انسان ہے، اس سے بھی کوتاہی ہوسکتی ہے، چند ایک واقعات کو بنیاد بناکر ساری جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا، جیسا کہ آج بعض لوگوں کا مزاج بن چکا ہے، غلط ہے۔

موجودہ مسلم معاشرے میں علم دین اور علما کی بے احترامی مختلف شکلوں میں ظاہر ہو رہی ہے، مساجد میں ائمہ اور موٴذّنین کو تنگ کیا جاتا ہے، کسی مسجد کے امام کا مطلب اب یہ ہوگیا ہے کہ وہ سارے محلہ والوں کی باتیں سہتارہے، محلہ کا معمولی فرد بھی امام کو کچھ نہ کچھ کہنے کا حق رکھتا ہے، گویا یہ اس کے بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک حق ہے، ائمہ اور منصبِ امامت کا کیا مرتبہ ہے اس کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا، مسجد کی کمیٹی اور متولیان کے نزدیک امام وموٴذّن جیسے ان کے غلام ہیں، بار بار خدمت سے سبک دوش کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، کمیٹی کے ہرفرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ امام اس کے تابع فرمان رہے، ارکان کے آپسی اختلافات میں امام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، امت میں علما وائمہ کے احترام کا اندازہ ان کی تنخواہوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، امت جس شخص کو اپنا دینی راہ نما سمجھتی ہے اس کے نزدیک اس کی قیمت ہزار بارہ سو سے زیادہ کی نہیں، موٴذّنوں کے ساتھ جو بدسلوکی کی جاتی ہے وہ بیان سے باہر ہے، تھوڑی سی غفلت سے سارے لوگوں کا غضب نازل ہو جاتا ہے۔

مدارس کے ذمہ دار علما پر کیچڑ اچھالنا اور ان کے بارے میں بے بنیاد تبصرے کرنا تو اب بعض لوگو ں کا محبوب ترین مشغلہ بن گیا ہے، ابتدا میں مدرسہ کا بانی کن قربانیو ں سے گذرتا ہے اسے تو کوئی نہیں جانتا، لیکن جب مدرسہ کی پختہ عمارت بن جاتی ہے تو پھر وہ ہرشخص کی نگاہ میں کھٹکنے لگتا ہے، اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ علما کے بھیس میں ایسے افراد بھی ہوں جو مالی خیانت کے مرتکب ہوں، ایسے افراد کی غلط حرکتوں کو کسی طرح سندِ جواز نہیں دی جاسکتی، لیکن ان کی وجہ سے سارے ہی مدارس کو مورد الزام ٹھہرانا کتنا بڑا ظلم ہے؟ اب تو یہ بات اس قدر جڑپکڑ چکی ہے کہ اس طرح کی ذہنیت کے لوگ مرحومین تک کو نہیں بخش رہے ہیں۔

اسی طرح مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں قوم کا ایک انتہائی کمزور طبقہ تصورکیا جاتاہے، جو قوم پر بوجھ بنا ہوا ہے، دین کے عنوان سے بھی آج لوگ علما سے کٹتے جارہے ہیں، کسی دینی تحریک سے وابستگی پر چند دن گذرتے نہیں کہ علما سے بدظنی پیدا ہونے لگتی ہے، مدارس کے کام کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور جو کام وہ کر رہے ہیں، اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں، ایسے لوگ بسااوقات اہل ِ علم پر طعن وتشنیع سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اکابر علما کی بے احترامی کی ایک شکل وہ ہے جو ائمہ سلف اور فقہائے امت پر سب وشتم کی شکل میں پائی جارہی ہے، ساری امت کے محسن فقہا کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور لوگو ں میں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔

یہ مہم آج امت میں بڑی تیزی سے جاری ہے، علما پر سے عوام کا اعتماد ختم کرنا اسلام دشمنوں کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے، اس پر فوری قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں اس کے سنگین نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔یہ ایک فتنہ ہے جس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ 
Flag Counter