Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1434ھ

ہ رسالہ

4 - 18
چند غلط فہمیوں کا ازالہ
کیا عمل کے لیے ”صحیح حدیث “ہی ضروری ہے؟
مولانا محمد احمد پڑتا پ گڑھی
اب(1)  یعنی حضور صلی الله علیہ وسلم کے اقوال کو لیجیے !حضور صلی الله علیہ وسلم جب بات کرتے تھے ؛تو صحابہ کبھی کم ہوتے ؛تو کبھی ان کا اژدہام اورمجمع ہوتا ،چناں چہ بعض صحابہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم کی باتوں کودور تک پہنچانے کے لیے بطور ”مکبر ‘ ‘ کے بھی الفاظ دہراتے؛ جس کی وجہ سے ایک صحابی کوبات اگرمکمل پہنچتی؛ توکبھی دوسرے صحابی کو ناقص۔اورروایت دونوں نے کی ؛جس کی وجہ سے روایت میں اختلاف ہوگیا۔ایسے ہی (2) یعنی افعال نبی صلی الله علیہ وسلم کو لیجیے! صحابہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو کچھ کرتے ہوئے دیکھا،تواس کام کے طریقے اورانداز کو اپنے اپنے الفاظ میں ڈھال کربیان کردیا۔بعض مرتبہ اس طرز بیان میں اختلاف ہوگیا ؛چوں کہ ایک صحابی نے ایک تعبیر استعمال کی ؛مگر دوسرے نے دوسری تعبیر استعمال کردی ؛حتی کہ تعبیرکا یہ اختلاف معانی تک پہنچ گیا۔اسی طرح بعض اعمال حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھے ؛مثلا نو بیویوں کو نکاح میں رکھنا؛صوم وصال رکھنا، تہجدکافرض ہونا وغیرہ وغیرہ ۔ اب اگر کوئی فقیہ تمام روایا ت کو جمع کرکے خلاصہ نکالتا ہے اور تحقیق وتفتیش کے بعد اصل مسئلہ حل کرنے کے لیے اُن صحابہ کے عمل کا بھی سہارا لیتاہے؛جو حضور صلی الله علیہ وسلم کے آخری دور میں آپ کے ساتھ تھے اوراس طرح حدیث کا ایک معنی متعین کردیتا ہے؛ پھر عام مسلمان (جن کی رسائی ذخیرہ احادیث پر اس درجہ نہیں) وہ اسی فقیہ کی تحقیق پر؛اللہ کے حکم :﴿ فَاسْئَلُو ا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُون﴾َ(اگر تم نہیں جانتے ؛تو جاننے والوں سے معلو م کرلو) کی بنا پرعمل کرلیتا ہے ؛تو اس گروپ کے نزدیک ایسا مسلمان اللہ اور رسول کے مقابلے میں اس فقیہ کو معبود ٹھہرنے والا شمار ہوتا ہے۔اور وہ فقیہ جس نے اپنی پوری عمر اس مسئلہ کو حل کرنے اوراس گتھی کو سلجھانے میں صرف کی ہے ؛وہ ان لوگوں کے گما ن میں اللہ کے مقابلے میں اپنی الوہیت اور معبودیت کا دعوے دار ہے۔تبھی تو یہ لو گ عوام سے کہتے ہیں کہ اللہ اوررسول کی مانوگے یاکہ ابو حنیفہ ،مالک ،شافعی اور احمد کی؟ان کے نزدیک اللہ اوررسول کا حکم کچھ اور ہے اورائمہ کے فتاوے کچھ اور ہیں۔

ایسے ہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حدیثیں کسی نہ کسی واسطے اورذریعہ ہی سے ہمارے پاس آئی ہیں اور وہ ذرائع محدثین کی کتابیں ہیں۔ ہر محدث نے کیف ما اتفق احادیث کو جمع نہیں کیا ہے ؛بلکہ بعض نے ابواب فقہیہ کے حساب سے حدیثیں جمع کی ہیں؛تو بعض نے مسندات صحابہ وغیرہ کے اعتبار سے۔صحاحِ ستہ :بخاری ،مسلم ،ترمذی ،ابوداؤد ،نسائی ،ابن ماجہ اورموطامالک وغیرہ ابواب فقہیہ پر جمع ہیں۔ امام بخاری احادیث کو لانے سے پہلے ،اس حدیث سے نکلنے والے مسئلہ کو سمجھانے کے لیے صحابہ اورتابعین یا تبع تابعین کے اقوال و اعمال ا ورفتاوی کو بھی تعلیق(یعنی تمہید) میں نقل کردیتے ہیں،پھر احادیث کو ذکر کرتے ہیں؛تاکہ حدیث کے سمجھنے میں اگرکسی طرح کا خلجان ہو ؛ تو وہ دور ہوجائے اورحدیث کا واضح ترین مطلب سامنے آجائے ۔ مثلا امام بخاری نے جہاں ”دونوں ہاتھوں“ سے مصافحہ کا باب باندھا ہے ؛وہاں حدیث نقل کرنے سے پہلے تعلیق میں یہ بھی لکھا ہے : وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ وَاِبْنُ الْمُبَارَکِ بِیَدَیْہِ (حماد بن زید اورعبد اللہ بن المبارک نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا ۔)(بخاری2/926)

اب اگر کوئی مسلمان امام بخاری کے بیان کردہ معانی کے مطابق عمل کرتاہے ؛تو اس گروپ کے نزدیک وہ مشرک اور مرتد ہے ؛چوں کہ ان کے خیال میں وہ حدیث پر عمل کرنے والا نہیں ہے ۔تبھی تو عوام سے جاکر یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اللہ اورر سول کو مانوگے یاکہ ائمہ کو؟ان کے نزدیک حدیث اورقرآن کی تفسیر وتوضیح کرنا ،اپنی نبوت کا دعوی کرنا ہے ۔اسی وجہ سے زنانی اورزنانہ والی تقسیم سامنے لاتے ہیں اوربتانا چاہتے ہیں کہ فقہاء اور محدثین اللہ اوررسول کے دین کے دشمن ہیں،اللہ اوررسول کی باتیں کچھ اورہوتی ہیں اور یہ لوگ بیان کچھ اورکرتے ہیں۔

بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک صحابی ابتدائے اسلام میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور چلے گئے ۔انھوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کوجو کچھ کرتے ہوئے دیکھا یا کہتے ہوئے سناتھا؛اسی کوبیان کرتے رہے۔ حالاں کہ بعد میں وہ حکم منسوخ بھی ہوگیا ؛مگران صحابی کو اس کی منسوخیت کاعلم نہیں ہوا ۔البتہ جن صحابہ کو اس کا علم تھا؛وہ اس کے خلاف حدیث بیان کرنے لگے۔اب یہ دوطرح کی روایتیں سامنے آئیں ؛جو بالکل مدمقابل کی ہیں کہ اگر ایک پر عمل کیاجائے ؛تو یقینا دوسری کو ترک کرنا پڑے گا۔ بڑی مشکل ہوئی،اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ان ائمہ پر کہ انھوں نے دونوں روایتوں کو دیکھا ؛مگر فتوی اس روایت کے مطابق دیا ؛جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے آخری ایام میں آپ کے پاس رہنے والے صحابہ کے عمل سے موید پائی اورپہلی والی روایت کے منسو خ یامرجوح ہونے کا فیصلہ کردیا۔اس طرح امت کے لیے سنت (یعنی حضور صلی الله علیہ وسلم کے آخری معمول)پرچلنا آسان ہوگیا ۔لیکن اس گروپ کے نزدیک اگر مسلمان ان فقہاء کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق شریعت پر کار بند ہوتے ہیں ؛تو وہ مرتد اور مشرک ہیں۔تبھی توعوام سے پوچھتے ہیں کہ اللہ اور رسول کی مانوگے یا کہ ائمہ کی ؟ان کے نزدیک فقہاء کا یہ عمل الوہیت اور نبوت کا دعوی ہے۔یہ فقہاء اوران کے ماننے والے سب کے سب مرتد اور مشرک ہیں۔

یہ باتیں جو پیش کی گئی ہیں ؛یہ کوئی انوکھی اور نادر باتیں نہیں ہیں کہ اہل علم اس سے ناواقف ونا بلد ہوں؛اسے تو ہر وہ مسلمان بخوبی جانتاہے ؛جسے ادنی درجہ میں بھی علوم اسلامیہ کی ہوا لگی ہے؛لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب چیزوں کے باوجود یہ گروہ کیوں کر ائمہ اورسلف صالحین کے راستے سے عوام کو برگشتہ اور بدگمان کرنے پرتُلاہواہے اور اس سلسلے میں ایسی ایسی کوششیں اورجدوجہد کررہا ہے ؛جیسے مسلمان اسلام کو پھیلانے کے لیے کرتے ہیں؟ تومعلوم ہونا چاہیے کہ اس کا جواب خود جنا ب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آج سے چودہ سوسال پہلے دے چکے ہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اِنَّ مِنْ عَلَامَاتِ السَّاعَةِ اَن یَّلْعَنَ آخِرُہٰذِہ الاُّمَّةِ اَوَّلَہَا․
ترجمہ:قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس امت کے آخرکے لوگ پہلے کے لوگوں پر لعن طعن کریں گے۔(ترمذی کتاب الفتن )

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے محدثین لکھتے ہیں کہ لعن طعن سے مراد غلط انداز سے ان کو یاد کرنا اور اعمال صالحہ میں ان کے طریقے سے ہٹ کرالگ راہ بنانا ہے۔ (طیبی شرح مشکوٰة)

یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مسلمان سلف صالحین کے راستہ کو چھوڑ کرخود ان کے بنائے ہوئے طریقے کو اپنا لیں،حالاں کہ یہ غلط ہے، چوں کہ قیامت تک کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نمازمیں صحابہ،ائمہ اورمحدثین کی راہ پر چلنے کی دعاکریں اور کہیں :﴿اِہْدِنَالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ﴾․
ترجمہ:اے اللہ! ہمیں سیدھے اوراپنے انعام یافتہ بندوں (یعنی صحابہ ؛تابعین اور تبع تابعین وغیرہ)کی راہ پر چلائیے!

اور اگر کوئی شخص ان حضرا ت کی راہوں سے ہٹتا ہے اور اعراض کرناچاہتا ہے ؛تو اللہ اوررسول کی دھمکی بھی سن لیجیے! :﴿وَمَن یَّتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُومِنِیْنِ نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہ جَہَنَّمَ﴾․
ترجمہ:اور جو شخص مسلمانوں (یعنی صحابہ وغیرہ)کی راہ سے ہٹ کر(کسی اور کی راہ پر )چلے گا؛تو ہم حوالہ کردیں گے اس کے وہی ؛ جو اس نے اختیار کیا ہے اور اس کو جہنم میں پھینک دیں گے ۔(سورہٴ نساء )

د و اہم سوالات
اگر کوئی یہ کہے کہ امام بخاری ہی کو کیوں نہ امام الائمہ تسلیم کرکے تمام مسلمانو ں کوایک پلیٹ فارم پر متحد کرلیاجائے؟توسوال ہے کہ امام بخاری کی کتاب” بخاری شریف“ کو قرآن کے بعد سب سے اچھی کتاب تسلیم کس نے کیا؟جواب ہوگا: امت نے ۔پھر سوال ہوتاہے کہ کیا امت نے امام بخاری کوامام مجتہد بھی تسلیم کیا ہے ؟تو جواب ملتاہے کہ امت تو کیا کرتی ؟ خود حضرت کے شاگر دوں نے ان کو مجتہد تسلیم نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی اپنی کتاب کے اندر جہاں فقہاء ومجتہدین کے مذاہب نقل کرتے ہیں؛وہاں اپنے استاذ امام بخاری کے مسلک کونقل نہیں کرتے ، حالاں کہ وہ ان کے بہت ہی چہیتے شاگرد ہیں،البتہ اسی امت، جس نے بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ تسلیم کیا ہے؛اسی نے ابوحنیفہ ،مالک ،شافعی اور احمد کو بطورمجتہد کے قبول کیا ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ امام بخاری کی اصل نظر راویوں کے کمزور اور ضعیف ہو نے پر رہتی ہے،روایتیں جمع کرنے سے ان کا مقصدفتوی دینا نہیں ہوتاہے ؛تبھی تو وہ منسوخ روایات کو بھی اپنی کتاب میں جگہ دیتے ہیں؛حالاں کہ عمل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔

دوسری بات:ہرامام کے مسلک میں کچھ نہ کچھ فتاوی ایسے ضرور ہیں؛جو احادیث کے خلاف معلوم ہوتے ہیں ؛لہٰذا کیوں نہ ایک ایسے نئے مسلک کی بنیاد ڈال دی جائے؛جو اس طرح کی کمیوں اورکمزوریوں سے پاک ہوں؟جواب یہ ہے کہ ان کمیوں کے قائل تو مسلمان روز اول ہی سے ہیں؛چوں کہ غیر نبی معصوم نہیں ہوتا،غلطیاں اس سے سرزد ہونا بشریت کالازمہ ہے ؛اسی وجہ سے تو ہرمسلک کے علماء شروع سے یہ کام کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان کے ائمہ سے اگر کسی مسئلہ میں کوئی فروگزاشت ہوگئی ہے اور وہ مسئلہ حدیث اور قرآن سے ٹکراتاہے ؛تو تحقیق اور تفتیش کے بعد اصول وضوابط کے دائرے میں رہ کر اس فتوی کو تبدیل کردیتے ہیں۔چناں چہ چاروں ائمہ کے مسالک والوں میں دیکھا جاتاہے کہ امام کا مسلک کچھ ہوتاہے ؛مگران کے مقلدین کا عمل کسی اور فتوی پرہوتاہے۔بات یہ ہے کہ ابتدامیں مسالک بہت تھے؛مگرشروع سے اس طرح سے تنقیح و تہذ یب انہی چار مسالک کی ہوتی رہی ہے؛اسی وجہ سے کہاجاتاہے کہ یہ چاروں مسالک منقّہ اورمنزّہ ہیں،غیر مجتہد کے عمل کے لیے ان سے بہتر کوئی اور مذہب (امام مہدی سے قبل )ہوہی نہیں سکتا ۔

اور اس زمانہ میں جن لوگوں نے ان مذاہب حقہ سے بغاوت کرکے الگ سے ایک نئے مسلک کی بنیاد رکھنی چاہی ہے ؛انھوں نے منھ کی کھائی ہے ۔ان کے فتاوے کو دیکھیے اورسر پیٹیے کہ کس طرح ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول پر بہتان باندھا اورکتنی ڈھٹائی اوردلیری سے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کردہ اشیا کو حرام ٹھہرایا۔بتایئے! اپنے عمل کے خلاف پائی جانے والی احادیث کو ضعیف کہہ کران کا انکارکون کرتاہے؟ (دانستہ یا نادانستہ طور پر شریعت کو ناقص کرنیکے لیے) بخاری اورمسلم کے علاوہ تمام احادیث کی کتابوں سے دست بردا ر ہونے کی مہم امت میں کون چلا رہا ہے ؟ تمام صحابہ کو بدعتی کون کہتا ہے؟ بیوی کے ساتھ لواطت کے جواز کا فتوی کون دیتاہے ؟زمانہ حیض میں عورتوں کوتلاوت قرآن کی اجازت کو ن دیتا ہے ؟ عورتوں کی چھاتی سے نامحرم مردوں کو دودھ پینے کی اجازت کس نے دی؟ان تمام کرتوتوں کا سہرا اسی گروپ کے سرجاتاہے؛جو مسالک قدیمہ سے بغاوت کرکے ایک نئے مسلک کی بات کرتا ہے اورعوام سے جاکر کہتاہے کہ اللہ اور رسول کو مانو گے یا کہ ابوحنیفہ ،شافعی ،مالک اوراحمد رحمہم اللہ کو؟۔اللہ ہم سب کی اس فتنہ سے حفاظت فرمائے !
Flag Counter