Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1434ھ

ہ رسالہ

6 - 18
عصمت انبیا پر استدلال
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿ولا تشتروا بایتی ثمناً قلیلاً…﴾ علمائے بنی اسرائیل اس بات سے خوف زدہ تھے کہ نئے دین کو قبول کرنے کی صورت میں ان کے مذہبی اقتدار کا خاتمہ اور نذرانوں کا چلتا ہوا کاروبار بند ہو جائے گا، اس لیے ان کی مکمل کوشش ہوتی کہ عوام الناس ان صفات وکمالات پر مطلع نہ ہونے پائیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے متعلق توریت میں مذکور ہیں، توریت کی ان آیات وصفحات کو چھپاتے، اگر کوئی مطلع ہو جاتا تو اسے ورغلاتے، غلط سلط تاویلیں کرکے اسے بہکاتے اور غلط فہمی میں ڈال دیتے ، اس طرح ان کے نذرانوں کی آمد بھی جاری رہتی اور عقیدت مندوں کا جھرمٹ بھی چھایارہتا۔

واضح رہے کہ ﴿ولا تشتروا بایتی ثمناً قلیلاً﴾ ( اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا) کا یہ مطلب نہیں کہ اگر منھ مانگے دام مل رہے ہوں تو حق بیچ دو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں دنیا کے تمام خزانے او رسکے کھوٹے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ لہٰذا حق کا غلغلہ حق نیت کے ساتھ حق طریقے کے ساتھ ہمیشہ بلند ہی رکھنا چاہیے۔

خدمات دینیہ پر اجرت لینے کا شرعی حکم
جو افراد دینی خدمات میں مصروف ہوں اور امامت، اذان، کتبِ دینیہ اور قرآن کریم کی تعلیم دینے پراجرت وصول کرتے ہوں ، ان کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ، ان کے لییتنخواہ لینا بلاشبہ جائز ہے، کیوں کہ اگر امت کا یہ طبقہ محنت مزدوری، تجارت وزراعت میں لگ جائے تو دینی علوم کا سلسلہ یکسر بند ہو جائے گا، مساجد ویران ہو جائیں گی ، حلال وحرام بتانے والا کوئی نہ رہے گا ۔

جو لوگ ان دینی خدام پر انگلیاں اٹھا کر انہیں ﴿ولاتشتروا بایتی ثمناً قلیلاً ﴾کا مصداق ٹھہراتے ہیں وہ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں ،کیوں کہ اس آیت کریمہ کے مصداق تو وہ لوگ ہیں جو نذرانوں کی وصول یابی کی طمع میں حق کو چھپاتے ہیں یا اس میں ردو بدل کرکے دین حق کو عوامی خواہش کے مطابق ڈھال کر دنیا کے مفاد حاصل کرتے ہیں ۔

ذیل میں خدمات دینیہ پر اجرت کے جواز میں چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
1... خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں ان حضرات کے لیے وظائف اور تنخواہیں مقرر فرمائیں۔ ( قال الامام الزیلعی رحمہ الله تعالیٰ وقد روی عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ أنہ کان یرزق المعلمین، ثم اسند عن ابراہیم بن سعد عن ابیہ ان عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ کتب إلی بعض عمالہ ان اعط الناس علی تعلیم القرآن نصب الرایة․ وقال الامام ابویوسف رحمہ الله تعالیٰ ولم تزل الخلفاء تجری للقضاة الأرزاق من بیت مال المسلمین ( کتاب الخراج لأبی یوسف ، ص:187)

خلفائے راشدین کا یہ فعل ہمارے لیے حجت کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین․ (شرح معانی الاثار: باب المسح علی الخفین، رقم الحدیث:468) ” کہ تم پر میری اور خلفاء راشدین کے طریقے کی ابتاع لازم ہے۔“

2... ائمہ ثلاثہ امام احمد بن حنبل ،امام مالک، امام شافعی رحمہم الله اور متأخرین فقہائے احناف کے نزدیک یہ اجرت بلاشبہ جائز ہے۔ ( وقال الامام النووی رحمہ الله تعالی: (قولہ صلی الله علیہ وسلم خذوامنھم، واضربوا لی بسھم معکم) ھذا تصریح بجواز أخذ الأجرة علی الرقیة بالفاتحة والذکر، وإنہ حلال لا کراہیة فیھا، وکذا الأجرة علی تعلیم القرآن وہذا مذہب الشافعی ومالک واحمد وإسحاق، و أبی ثور وأخرین من السلف․ (شرح مسلم للنووی:2/224) وقال العلامة ابن نجیم رحمہ الله تعالی: أما المختار للفتوی فی زماننا: یجوز أخذ الاجر للإمام والمؤذن والمعلم، والمفتی کما صرحوابہ فی کتاب الإجارات․ (البحرالرائق)

اگر قرآن وحدیث میں اس کی ممانعت کی تصریح ہوتی تو حضرات خلفائے راشدین، حضرت ائمہ ثلاثہ رحمہم الله، جمہور علمائے کرام، متاخرین فقہائے احناف رحمہم الله تعالی ان کے خلاف کبھی جواز کا فتوی صادر نہ فرماتے او رجن احادیث سے اجرت کے ناجائز ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے ان میں اکثر احادیث ضعیف ہیں، اگر کچھ روایات صحیح بھی ہوں تو وہ مؤول ہیں یا منسوخ۔ (قال العلامة الزیلعی رحمہ الله تعالی تحت حدیث ابی بن کعب رضی الله تعالیٰ عنہ: قال: علمت رجلاً القرآن فأھدی إلی قوساً، فذکرت ذلک للنبی صلی الله علیہ وسلم: إن اخذتھا أخذت قوساً من نارقال فرددتھا․ قال البیہقی فی المعرفة فی کتاب النکاح: ھذا حدیث اختلف فیہ علی عبادة بن نسی، قیل عنہ عن جنادة ابن ابی امیہ عن عبادة بن الصامت، وقیل عنہ عن الاسود بن ثعلبة عن عبادة، وقیل عن عطیة بن قیس عن ابی بن کعب، ثم ان ظاہرہ متروک عندنا وعندھم، فإنہ لو قبل الھدیة، وکانت غیر مشروطة، لم یتسحق ھذا الوعید، ویشبہ ان یکون منسوخاً بحدیث ابن عباس وحدیث الخدری رضی الله عنہما، وابو سعید الاصطخری من اصحابنا ذھب إلی جواز الأخذ فیہ علی مالا یتعین فرضہ علی معلمہ ومنعہ فیما یتعین علیہ تعلیمہ، وحمل علی ذلک اختلاف الاثار، وقدروی عن عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ أنہ کان یرزق المعلمین․ ثم اسند عن ابراہیم بن سعد عن ابیہ ان عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ کتب إلی بعض عمالہ ان اعط الناس علی تعلیم القرآن․ نصب الرأیة:2/137) البتہ ان لوگوں کے لیے اجرت ممنوع ہے جن کا مقصد امور دینیہ سے دنیا کمانا ہو۔

3... نیز یہ تعلیم وتدریس کا معاوضہ نہیں، بلکہ حبسِ اوقات کا معاوضہ ہے، جو جائز ہے۔ ( قال العلامة ابن نجیم رحمہ الله تعالیٰ (ورزق القاضی) یعنی وحل رزق القاضی من بیت المال، لأن بیت المال أعد لمصالح المسلمین، ورزق القاضی منھم: لأنہ حبس نفسہ لنفع المسلمین وفرض النبی صلی الله علیہ وسلم لعلی رضی الله عنہ لما بعثہ إلی الیمن، وکذا الخلفاء من بعدہ، ھذا اذا کان بیت المال جمع من حل، فإن جمع من حرام وباطل لم یحل، لأنہ مال الغیر یجب ردہ علی أربابہ، ثم إذا کان القاضی محتاجاً فلہ ان یأخذ لیستوسل إلی اقامة حقوق المسلمین، لانہ لواشتغل بالکسب لما تفرغ لذالک وإن کان غنیاً فلہ أن یأخذ وھو الأصح لما ذکرنا من العلة، ونظراً لمن یأتی بعدہ من المحتاجین ولأن رزق القاضی إذا قطع فی زمان یقطع الولاة بعد ذلک لمن یتولی بعدہ․“ (تکملة البحرالرائق،8/208)

ایک شبہہ اور اس کا ازالہ
امام نووی ودیگر بہت سے فقہائے کرام رحمہم الله تعالیٰ نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله سے تعلیم قرآن اور درس وتدریس پر اجرت لینا مکروہ وممنوع نقل فرمایا ہے۔ (ومنعھا ابوحنیفة رحمہ الله تعالی ٰ فی تعلیم القرآن وأجازھا فی الرقیة)․(شرح مسلم للنووی رحمہ الله تعالی:2/224) پھر احناف کے لیے یہ معاوضہ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممانعت اس وقت ہے جب بیت المال سے ان کے وظائف مقرر ہوں، اب جب بیت المال کا نظام درہم برہم ہو گیا تو فقہائے احناف رحمہم الله تعالیٰ میں سے متاخرین حضرات نے ائمہ ثلاثہ رحمہم الله کی طرح جواز کا فتوی دیا ہے ۔ ( قال الإمام قاضی خان رحمہ الله تعالی: وان استاجر رجلاً لتعلیم القرآن لا تصح الإجارة عند المتقدمین، ولا اجر لہ، بین لذلک وقتاً أو لم یبین، ومشایخ بلخ رحمہم الله تعالی جوزوا ھذہ الاجارة حتی حکی عن محمد بن سلام رحمہ الله تعالی أنہ قال: اقضی بتسمیر باب الوالد بأجرة المعلم، وقال الشیخ الإمام ابوبکر محمد بن فضل رحمہ الله تعالی: إنما کرہ المتقدمون الاستکجار لتعلیم القرآن وکرھو أخذ الأجر علی ذلک، لانہ کان للمعلمین عطیات فی بیت المال فی ذلک الزمان، وکان لھم زیادہ رغبة فی أمر الدین واقامة الحسبة، وفی زماننا انقطعت عطیاتھم، وانقضت رغائب الناس فی أمر الأخرة، فلو اشتغلوا بالتعلیم مع الحاجة إلی مصالح المعاش لاختل معاشھم، فقلنا بصحة الاجارة ووجوب الاجرة للمعلم بحیث لو امتنع الوالد عن اعطاء الاجر حبس فیہ․ ( الخانیہ علی ھامش الھندیة، الاجارة: 2/325)

علاوہ ازیں آپ رحمہ الله تعالی کی طرف سے ممانعت کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔
1... آپ نے کمال تقوی کی وجہ سے امور دینیہ پر اجرت لینے کو منع فرمایا۔
2... مال دار اور صاحب حیثیت لوگوں کے لیے مکروہ فرمایا ہو ۔
3... جو لوگ دینی کاموں پر اجرت لینے کو مقصود بالذات سمجھیں ان کے لیے مکروہ وممنوع ہے۔
4... چوں کہ خیر القرون میں مفلس خدام دین کو بیت المال سے باقاعدہ تنخواہیں اور وظیفے ملتے تھے اس لیے ان کو الگ اجرت لینا مکروہ ہے۔ (احسن الفتاوی، الاجارہ:7280)

ایصال ثواب کے لیے ختم قرآن پر اجرت لینا بالاتفاق ناجائز ہے
دینی تعلیم کا فروغ او راس کی نشرو اشاعت کا اہتمام کرنا ایک ایسی اہم دینی ضرورت ہے جس کی بقا کے لیے علماء نے اس پر اجرت لینے کے جواز پر فتوی دیا، لہٰذا اس جواز کا دائرہ کار اس ضرورت تک ہی محدود رہے گا ۔ مُردوں کے ایصال ثواب وغیرہ کے لیے ختم قرآن کا اہتمام کوئی دینی ضرورت نہیں، جس کے لیے اجرت لے کر قرآن کریم پڑھا جائے ۔ لہٰذا اس موقع پر اجرت لینا حرام ہے ، دینے اور لینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے ، جب اجرت ہی حرام ہے تو مردے کو ثواب کیا پہنچے گا؟ (ولا سیما إذا کان فی الورثة صغار أغائب ، مع قطع النظر عما یحصل عند ذلک غالباً من المنکرات الکثیرة کایقاد الشموع والقنادیل التی توجد فی الأفراح، وکدق الطبول، والغناء بالأصوات… وأخذ الأجرة علی الذکر وقراء ة القرآن وغیر ذلک مما ھو مشاھد فی ھذہ الأزمان، وما کان کذلک فلاشک فی حرمتہ وبطلان الوصیة بہ، ولاحول ولا قوة الا بالله العظیم․ ( ردالمحتار:1/841)

وقال العلامة بدرالدین العینی رحمہ الله تعالی: قولہ: ولاتاکلوا بہ أی بالقرآن مثل أن یستاجر الرجل لیقرأ علی رأس قبر قیل ہذا القراء ة لا یستحق بھا الثواب لا للمیت ولا للقاری، قالہ تاج الشریعة رحمہ الله تعالی․ ( البنایة شرح الھدایة:9/339)

﴿وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّکَاةَ وَارْکَعُواْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ، أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ، وَاسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْنَ، الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُوا رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ إِلَیْْہِ رَاجِعُون﴾․ (البقرة:43 تا46)
اور قائم رکھو نماز اور دیا کرو زکوٰة اور جھکو نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ، کیا حکم کرتے ہو لوگوں کو نیک کام کا اور بھولتے ہو اپنے آپ کو اور تم پڑھتے ہو کتاب؟ پھر کیوں نہیں سوچتے ہو؟ اورمدد چاہو صبر سے اور نماز سے اور البتہ وہ بھاری ہے، مگر انہیں عاجزوں پر، جن کو خیال ہے کہ وہ روبرو ہونے والے ہیں اپنے رب کے اور یہ کہ ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

ربط
گزشتہ آیات میں اسلام کے بنیادی ارکان کفر سے توبہ کرکے ایمان لانے کا حکم دیا جارہا ہے، اب ان آیات میں اسلام کی فروعات نماز، زکوٰة وغیرہ کی تلقین کی جارہی ہے۔

تفسیر
بنی اسرائیل کو نماز، زکوٰة کی ادائیگی اور اہل رکوع کی معیت اختیار کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ، نماز کا تعلق بدنی عبادت سے اور زکوٰة کا تعلق مالی عبادت سے ہے ۔ خشوع اور خضوع ایک باطنی کیفیت ہے، جو اہل تواضع کی صحبت سے نصیب ہوتی ہے، اس باطنی کیفیت کے حصول کے لیے اہل رکوع کی معیت کا حکم دیا گیا، یہ درحقیقت بنی اسرائیل کے قومی مرض کا علاج تھا، جس میں یہ ایک عرصے سے مبتلا تھے، نماز سے حب جاہ کم ہو گی، زکوٰة سے حب مال اور بخل کا علاج ہو گا اور تواضع سے حسد کی جڑیں ختم ہوں گے۔

بے عمل عالم پر زجر الہی:﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِر…﴾

یہودی علماء اور اکابر اپنے مسلمان عزیزوں کو پس پردہ اطمینان دلاتے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیغمبر حق ہیں ، ہم لوگ تو کسی مصلحت کے پیش نظر اسلام کے دامن سے وابستہ نہیں ہو سکتے، لیکن تم اس دین حق پر جمے رہو ۔ الله تعالیٰ نے ان کو اس دو رخی پالیسی سے منع فرمایا کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کرتے ہوئے اپنے آ پ کو بھول جاتے ہو ۔ اس مقام پر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ الله لکھتے ہیں ”مسئلہ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ بے عمل کو واعظ بننا جائز نہیں، بلکہ یہ نکلتا ہے کہ واعظ کو بے عمل بننا جائز نہیں، ان دونوں باتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔“ (بیان القرآن،البقرة آیہ رقم:44)

حب جاہ ومال کا علاج
﴿وَاسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ…﴾ یہودی علماء کو اپنی سیادت وقیادت سے دست کش ہو کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا ، اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے الله تعالیٰ نے انہیں صبر اورنماز سے مدد لینے کا حکم دیا ، صبر سے مال کی محبت کم ہوتی ہے ، کیوں کہ مال اس بنا پر محبوب ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے خواہشات ولذات کا حصول ممکن ہوتا ہے، جب اس کے ترک کرنے پر کمر باندھ لی جا ئے تو مال بھی محبوب نہ رہے گا ۔ نماز سے حب جاہ کم ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی ہر ادا سے عاجزی اور پستی جھلکتی ہے ، اقامت صلوٰة کا اہتمام حب جاہ کا بہترین علاج ہے، جب یہ فاسد مادہ ختم ہو گا تو ایمان لانے میں کوئی مشکل نہ رہے گی۔

لیکن اقامت صلوٰة کا اہتمام بھی ایک دشوار اور مشکل معاملہ ہے ، اس کا حل کیا ہے ؟ اس کے متعلق فرماتے ﴿وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْن﴾ کہ بے شک نماز دشوار ضرور ہے، مگر جن کے دلوں میں خشوع ہو ان پر کچھ بھی دشوار نہیں ۔ جب دلوں میں آخرت کی فکر چھا جائے اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا یقین پیداہو جائے تو نیکی کا ہر راستہ آسان ہو جاتا ہے۔

﴿یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ، وَاتَّقُواْ یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْْئاً وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَةٌ وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَلاَ ہُمْ یُنصَرُون﴾․ (البقرة:47۔48)
اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے احسان جو میں نے تم پر کیے اور اس کو کہ میں نے تم کو بڑائی دی تمام عالم پر اور ڈرو اس دن سے کہ کام نہ آئے کوئی شخص کسی کے کچھ بھی اور قبول نہ ہو اس کی طرف سے سفارش اور نہ لیا جائے اس کی طرف سے بدلہ اور نہ ان کو مدد پہنچے۔

ربط
بنی اسرائیل پر انعامات او رترغیب وترہیب سے اجمالی تذکرے کے بعد اب تفصیلی ذکر آرہا ہے۔

تفسیر
﴿وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْن﴾ سے بنی اسرائیل کے آباء واجداد، انبیائے کرام، علمائے دین وصلحائے امت مراد ہیں، جنہیں الله تعالیٰ نے انسانیت کی راہ نمائی کا منصب عطا فرماکر اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت بخشی اور یہ برگزیدہ بندے اپنے منصب کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے رہے،لیکن ان کی ناخلف اولاد اس منصب کی ذمے داریاں نہ سنبھال سکی، انبیاء کی تکذیب ، دعوت حق سے اعراض، آسمانی کتاب میں تحریف وتاویل کی راہیں کھول کر اپنی فضیلت کے منارے کو خود اپنے ہاتھوں سے مسمار کر دیا۔

اب اس فضیلت کا تاج امت مسلمہ کے سر پررکھ دیا گیا ہے، جسے الله تعالیٰ نے خیر امت کنتم خیر امة کے لقب سے نواز کر بھٹکے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا فریضہ سونپ دیا ہے۔

﴿وَاتَّقُواْ یَوْماً لاَّ تَجْزِی﴾ دنیا میں ایک مجرم کی رہائی کے لیے جتنے طریقے کارگر ہو سکتے ہیں اس آیت میں ان سب کی نفی ہو رہی ہے ، نیز اس آیت سے بنی اسرائیل کے اس غلط عقیدے کی بھی تردید ہو رہی ہے جو انبیاء کی اولاد ہونے کے ناطے ان میں پھیل چکا تھا کہ کافرانہ عقائد اور فاسقانہ اعمال کے باوجود بزرگوں سے نسبت اور ان کی شفاعت کی بدولت وہ خلد بریں کے مزے لوٹیں گے۔ حالاں کہ دخول جنت کا دار ومدار ایمان اور اعمال صالحہ ہیں،حسب ونسب کے ہوائی قلعے بنا کر خلد بریں کے مزے نہیں لوٹے جاسکتے۔

کفار کی سفارش قبول نہیں کی جائے گی
بروز قیامت کسی کافر کی سفارش نہیں ہو گی، چہ جائیکہ قبول کی جائے۔ تمام مفسرین کااجماع ہے کہ آیت کریمہ ﴿لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْْئاً وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَةٌ﴾ میں ”نفس“ سے مراد کافر ہے، نہ کہ ہر نفس ( تفسیر القرطبی، البقرة، تحت آیہ رقم:48) کیوں کہ استحقاق شفاعت کے لیے مومن ہونا ضروری ہے۔

اہلسنت والجماعةکے نزدیک شفاعت کا مفہوم
اہلسنت والجماعة کے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کے گناہ معاف کیے جانے کی سفارش کرنے کا نام شفاعت ہے ۔ قیامت کے دن جب اہل کبائر اپنے فاسقانہ اعمال کی وجہ سے مصائب والآم کی گھڑیوں سے گزر رہے ہوں گے تو انبیائے کرام ، علمائے دین، شہدا وصلحا ئے امت بارگاہ الہی میں ان کے گناہوں کے معاف کیے جانے کی سفارش فرمائیں گے، جسے الله تعالیٰ منظور فرماکر ان کی مغفرت کا اعلان فرما دیں گے، یہ اہلسنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے۔ ( … ماعلم قطعا من ثبوت شفاعة نبینا علیہ الصلاة والسلام تواتراً واجماعاً من الأمة․ (التمیز لما أودعہ الزمخشری من الاعتزال فی تفسیر الکتاب العزیز، البقرة تحت آلایة رقم:48)” وقد جاء ت الآثار التی بلغت بمجموعہا التواتر بصحة الشفاعة فی الآخرة، وأجمع السلف الصالح ومن بعدھم من أھل السنة علیھا، ومنعت الخوارج وبعض المعتزلة“․ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، باب الحوض والشفاعة تحت رقم الحدیث:5598) ”والشفاعة ثابتة للرسل، والأخیار فی حق اھل الکبائر بالمستفیض من الأخبار“․ ( شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، ص:160)

اہلسنت کا مسلک قرآن کریم کی روشنی میں
الله تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾․(سورہٴ محمد:19) (اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اورایمان دار مردوں اور عورتوں کے لیے) اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے اہل ایمان کے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا ہے ، اسی طلب مغفرت کا نام شفاعت ہے ، پھر چوں کہ آیت کریمہ میں لفظ”ذنب“ صغائرو کبائر دونوں کو شامل ہے، اس لیے تمام گناہوں کے بارے میں شفاعت ثابت ہو گئی۔ نبی کی ذات چوں کہ معصوم ہوتی ہے، اس لیے ان کے حق میں لفظ”ذنب“ سے ترک اولیٰ یا ایسا صغیرہ مراد ہے جو سہواً صادر ہو اہو۔ (والشفاعة ثابتة للرسل… لنا قولہ تعالی: ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾․(شرح العقائد للنسفی)

﴿فَمَا تَنفَعُہُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِیْن﴾․(المدثر:48) (پھر کام نہ آئے گی ان کے ( حق میں ) سفارش سفارش کرنے والوں کی )

اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ قیامت کے دن کافروں کی بد حالی اور مایوسی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں کہ اس روز ان کے حق میں کوئی سفارش بھی سود مند نہ ہو گی ، جب کسی کی بد حالی بیان کرنا مقصود ہو تو وہی حال اورکیفیت بیان کی جاتی ہے جو اس کے ساتھ خاص ہو ، معلوم ہوا کہ شفاعت کا سود مند نہ ہونا کفار کے ساتھ خاص ہے ،رہے مؤمنین تو ان کے حق میں سفارش سود مند ہو گی ۔

مذکورہ استدلال پر ایک شبہہ اور اس کا ازالہ
ہر عبارت میں دو طرح کے مفہوم ہوتے ہیں ۔
1. مفہوم موافق  2.  مفہوم مخالف، مفہوم موافق اس حکم کو کہتے ہیں جو اس عبارت میں مذکور ہو ، مفہوم مخالف اس حکم کو کہتے ہیں جو عبارت میں ذکر کردہ حکم کے برعکس ہو اور عبارت اس حکم کے متعلق بالکل خاموش ہو، مثلاً ایک حدیث شریف میں ہے فی الغنم السائمة زکوٰة کہ ”سائمہ“ چراگاہوں میں چرنے والی بکریوں میں زکوٰة ہے۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جوبکریاں ” غیر سائمة“ ہوں، یعنی چراگاہوں میں پیٹ بھرنے کے بجائے گھاس وغیرہ خرید کر انہیں کھلایا جاتا ہو تو ان بکریوں میں زکوٰة نہیں ہے۔ یہ حکم حدیث مبارکہ کے مفہوم مخالف سے سمجھا گیا ہے، مفہوم مخالف شوافع کے ہاں تو حجت ہے، لیکن احناف کے ہاں قرآن وحدیث میں یہ حجت نہیں ۔ اس تمہید کے بعد اب سمجھیے کہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آیت شفاعت میں کافروں کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے کی نفی کی گئی ہے، مؤمنین کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے یا نہ ہونے کے متعلق آیت بالکل خاموش ہے، لیکن تم اسی آیت سے اہل ایمان کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے کو ثابت کرتے ہو، یہ تو مفہوم مخالف سے استدلال ہوا جو معتزلہ کے علاوہ خود احناف کے نزدیک بھی حجت نہیں تو معتزلہ کے خلاف حجت کیسے ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ استدلال مفہوم مخالف سے نہیں، بلکہ کلام کے اسلوب بیان سے ہے۔ (قولہ تعالیٰ: فما تنفعھم شفاعة الشافعین، فإن اسلوب ھذا الکلام یدل علی ثبوت الشفاعة فی الجملة، وإلا فما کان لنفی نفعھا عن الکافرین عند القصد إلی تقبیح حالھم وتحقیق بأسہم معنی، لأن مثل ھذا المقام یقتضی أن یوسموا بما یخصھم، لا بما یعمھم وغیرہم، ولیس المراد ان تعلیق الحکم بالکفر یدل علی نفیہ عماعداہ، حتی یرد علیہ انہ إنما یقوم حجة علی من یقول بمفہوم المخالفة“․ (شرح العقائد للنسفي،ص:116)

اہلسنت کا مسلک حدیث مبارکہ کی روشنی میں
گناہ گار مسلمانوں کے حق میں شفاعت کا مضمون احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ ( وقد جاء ت الاثار التی بلغت بمجموعہا التواتر بصحة الشفاعة فی الآخرة لمذنبي المؤمنین، واجمع السلف والخلف ومن بعدھم من أھل السنن علیھا․ شرح مسلم للنووی رحمہ الله 3/31) ”بل الأحادیث فی باب الشفاعة متواترة․“ (شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، ص:159)

1... حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت امت کے اہل کبائر کے حق میں ہو گی ۔ (جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2435)

2... حضرت عبدالله بن ابی الجدعا ء رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کے ایک آدمی کی سفارش سے قبیلہ بنو تمیم کے افراد سے زیادہ افراد جنت میں داخل ہوں گے۔ ( جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2438)

3... حضرت عوف بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اختیار دیا کہ آدھی امت کے دخول جنت پر، جسے چاہوں منتخب کر لوں میں نے شفاعت کاانتخاب کیا اور یہ شفاعت ہر اس مسلمان کے لیے ہے جس کو موت اس حال میں آئی ہو کہ وہ الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ رکھتا ہو ۔( جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2441)

شفاعت کی اقسام
شفاعت کی پانچ قسمیں ہیں۔
1... میدان حشرکی ہو لناکیوں سے چھٹکارا پانے اور حساب وکتاب جلدی شروع کرنے کی شفاعت۔ جب انبیاء علیہم الصلاة والسلام پر بھی نفسی نفسی کا عالم طاری ہو گا، اس وقت نبی اکرم ، شفیع اعظم، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فداہ ابی وامی دربار الہٰی میں تعجیل حساب کی سفارش فرمائیں گے۔ یہ شفاعت آپ علیہ الصلاہ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے ۔
2... امت کی ایک بہت بڑی جماعت کے لیے حساب وکتاب کے بغیر جنت میں داخل کرنے کی سفارش ۔یہ شفاعت بھی آپ علیہ الصلاة والسلام کی خصوصیات میں سے ہے ۔
3... امت کے بہت سے افراد کو جہنم سے بچانے کی سفارش حالاں کہ ان پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی ۔
4... جو گناہ گار مسلمان جہنم کے عذاب میں مبتلاہوں گے ،ان کو جہنم کے عذاب سے نکال کر جنت میں داخل کرانے کی سفارش۔
5... اہل جنت کے حق میں رفع درجات کی سفارش۔

(والشفاعة خمسة اقسام: اولھا: مختصة بنبینا علیہ الصلاة والسلام، وھی الإراحة من ھول الموقف وتعجیل الحساب۔
الثانیة: فی داخل قوم الجنة بغیر حساب، وھذہ وردت فی نبینا علیہ الصلاة والسلام․
الثالثة: الشفاعة لقوم استوجبوا النار، فیشفع فیھم نبینا علیہ الصلاة والسلام ومن یشاء الله تعالی․
الرابعة: الشفاعة فیمن دخل النار من المذنبین․
الخامسة: الشفاعة فی زیادة الدرجات فی الجنة لأھلھا، وھذہ لاننکرھا أیضاً)․ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، باب الحوض والشفاعة، تحت رقم الحدیث:5598) (جاری) 
Flag Counter