کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
غیر مسلم ممالک سے درآمد شدہ گوشت اور غذائی مصنوعات کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام ان مسائل کے بارے میں:اگر کوئی مسلمان کسی اسلامی ملک میں کسی غیر اسلامی ملک مثلاً: برازیل ، نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا سے مرغی کا گوشت خریدے یا درآمد کرے جب کہ اس پر حلال کی مہر لگی ہوئی ہو تو کیا اس مسلمان درآمد کنندہ کے ذمے یہ تحقیق لازم ہے کہ یہ مشینی ذبیحہ ہے یا نہیں؟ جب کہ یہ بات معروف ہے کہ وہاں کی اسلامک کونسل جو حلال سر ٹیفکیٹ کا اجرا کرتی ہیں، ان کے یہاں مشینی ذبیحہ کے جواز کا قول ہے او ران کے نزدیک ہر ہر جانور پر تسمیہ پڑھنا ضروری نہیں، اور بنابر ضرورت اور عمومِ بلوی کے مشینی ذبیحہ کو جائز قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں کام کرنے والی اکثر غیر ملکی غذائی کمپنیاں جو مرغی کے گوشت سے بنی ہوئی مختلف اقسام کی اشیاء فروخت کرتی ہیں ان میں سے اکثر اور بعض مرغی سے بنی ہوئی کچھ غذائی اشیاء غیر اسلامی ملک سے درآمد کرتی ہیں اور بسا اوقات ان کے پاس حلال سر ٹیفکیٹ بھی نہیں ہوتا جو وہ صارف کو دکھا سکیں، اب کیا اس صورت میں کوئی مسلمان جس کو اس بات کا علم ہو کہ یہ غیر ملکی درآمد شدہ غذائی اشیاء ہیں تو وہ مسلمان یہ غذائی اشیاء خریدتے وقت اس تحقیق کا مکلف ہے کہ یہ مشینی ذبیحہ ہے یا نہیں؟ یا اسلامی ملک میں یہ حکومتِ وقت کی ذمے داری ہے اور عام مسلمان اس تحقیق سے بری ہے ۔ کیوں کہ اگر ان غذائی کمپنیوں سے نہیں پوچھا جائے گا جیسا کہ اب تک ہو رہا ہے تو اس کا شیوع بڑھنے کا امکان ہے ، جو تقریباً حقیقت میں تبدیل ہو چکا ہے، اب تک کوئی ان غیر ملکی فوڈچین سے حلال سر ٹیفکیٹ کا مطالبہ بھی نہیں کرتا او رنہ ہی یہ اس کے حصول کی کوشش کرتی ہیں او رحکومت کی طرف سے فی الوقت کوئی قانونی ہدایات واضح معیار کی صورت میں موجود نہیں ہیں ، ایسی صورت میں ایک دین دار مسلمان کی کیا ذمے داری ہے؟
جواب…غیر مسلم ممالک سے درآمد کیا جانے والا گوشت مسلمانوں کے لیے اس وقت حلال ہو گا جب وہ لوگ ذبح کی شرعی شرائط کی رعایت کریں ، جب تک ان شرائط کی رعایت کا یقین نہ ہو جائے ، اس وقت تک ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے اگر چہ اس پر حلال کی مہر لگی ہو ، کیوں کہ یہ شہادت قابلِ اعتماد نہیں ہے ، نیز یہی حکم مرغی کے گوشت سے بنی ہوئی ان غذائی اشیاء کا بھی ہے جو ان غیر مسلم ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔
رہی یہ بات کہ اس درآمد شدہ گوشت کے بارے میں مشینی یا غیر مشینی، حلال یا حرام کی تحقیق کا مکلف کون ہے ؟ ایک عام مسلمان یا حکومت وقت؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تو مسلم ہے کہ یہ عام طور پر مشینی ذبیحہ ہوتا ہے جس میں ذبح کے شرعی اصولوں کی رعایت نہیں رکھی جاتی تاہم یہ حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ ان کمپنیوں کے ذمے داروں سے اس بات کا مطالبہ کرے کہ وہ ذبح میں شریعتِ اسلامیہ کے احکام کے موافق طریقہ اختیار کریں او رپھر مستند علماء کرام وماہرین کے ذریعے ان کے طریقہ کار کی جانچ پڑتال کروائے ، لیکن بہ ظاہر حکومت وقت کو اس اہم ترین فریضہ کی فرصت کہاں، اس لیے علماء کرام کو اپنے طور پر اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے یا ان ممالک میں آباد علماء کی توجہ اس طرف مبذول کروانے میں حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے ، البتہ ایک عام مسلمان کے لیے حکم یہ ہے کہ جب تک اس گوشت کی حلت کا یقین نہ ہو اسے استعمال نہ کرے۔
ٹورنامنٹ منعقد کرنے اور اس کے لیے اسپورٹس سینٹر کرایہ پر لینے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں !
مسئلہ کی نوعیت کچھ یوں ہے کہ کسی اسپورٹس سینٹر کے کچھ نوجوانوں نے ٹورنا منٹ کے انعقاد کی ذمے داری اپنے سرلے لی اوراسپورٹس سنیٹر کے سامنے یہ بات رکھی کہ وہ اس ٹورنا منٹ کے تمام اخراجات برداشت کریں گے جس کے لیے وہ اسپورٹس کلب کی رسید بک کا استعمال کرتے ہوئے وصولی وغیرہ کریں گے ، وصولی جس مقدار میں بھی ہو جائے چاہے وصولی کم ہو اور ٹورنامنٹ کے اخراجات زیادہ ہوں یا اس کے برعکس ہو بہرصورت وہ اس اسپورٹس سینٹر کو دس ہزار روپے دیں گے ، چوں کہ جس اسپورٹس سینٹر کے سامنے یہ بات رکھی گئی اس اسپورٹس سینٹر کو اپنے سابقہ ٹورنامنٹس کے انعقاد میں ہمیشہ خسارہ ہی ہوا ہے ، اس لیے اسپورٹس سینٹر کے ذمے داروں نے اسپورٹس سینٹر کے لیے اس دس ہزار کی بچت کو اسپورٹس کے لیے نفع تصور کرتے ہوئے نو جوانوں کو اس کی منظوری دے دی، لیکن حاشاوکلا شرعی نقطہ نظر سے اس شکل کی کیا حیثیت ہو گی؟ ان کے ذہن ودماغ میں یہ بات اس وقت ہر گز ہر گز نہیں تھی ، اب اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ کہیں اس میں شریعت کی خلاف ورزی تو نہیں ہور ہی ہے ، اس لیے اس مسئلہ کی تفصیلی وضاحت ہو جائے تو نوازش ہو گی کہ مندرجہ بالاشکل جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز نہیں ہے تو ایسا کوئی طریقہ یا بدل بتائیں کہ اس گناہ سے بچا جاسکے۔
براہِ کرم اس مسئلہ کا مدلل جواب مرحمت فرما کر ممنون ومشکور فرمائیں۔
جواب…آپ نے جو نوعیت بیان کی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسپورٹس سینٹر والے دس ہزار روپے کرایہ کے عوض اپنا سینٹر ان نوجوانوں کے حوالے کریں گے جس میں وہ نوجوان ٹورنا منٹ کا انعقاد کریں گے، ” اگر سوال میں مذکورہ تفصیل کے مطابق معاملہ کیا جائے اور دونوں طرف سے معاملہ کرنے والوں کے درمیان آپس میں کرایہ ، وقت، ٹورنامنٹ کی نوعیت کی تعیین ہو جائے تو اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے البتہ اس بات کااہتمام ضروری ہے کہ کسی قسم کا خلافِ شرع کام اس ٹورنا منٹ میں نہ کیا جائے ، نمازوں کی پابندی کی جائے، وقت کا ضیاع نہ ہو اور ایسے کھیلوں کے انعقاد سے اجتناب کیا جائے جو شریعت میں جائز نہیں، ورنہ اس قسم کا ٹورنا منٹ کرانا اور اس کے لیے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز نہ ہو گا۔
یہ بات بھی مدنظر رہے کہ جواز کی گنجائش اس وقت ہے جب لوگوں کی طرف سے دی گئی وصولی تعاون کی مدمیں ہو ورنہ اگر ٹورنا منٹ میں شرکت کے لے ہر ٹیم سے فیس وصول کی جائے تو اس میں اکثر صورتیں جوا اورقمار پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں، لہٰذا جب تک اس بات کی وضاحت نہ ہو جا ئے اس وقت تک ٹورنامنٹ کے جواز وعدم جواز او راس کے لیے اس طرح کا معاملہ کرنے کا فتویٰ نہیں دیا سکتا۔
ٹی وی پر تلاوت، خبرنامے اور ویڈیو بیانات دیکھنا کیسا ہے؟
سوال…1.کیا فرماتے علماء کرام دین متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ٹی وی پر تلاوت، خبرنامے، ویڈیو بیانات اسی طرح تاریخی مقامات اورکرکٹ دیکھنا کیسا ہے ؟اور مشہور ہے کہ اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے اور اگر کوئی اس سے منع کرتا رہے، لیکن وہ گھر کا سربراہ نہ ہو ( یعنی بڑا نہ ہو بلکہ مثلاً باپ کا بڑا بیٹاہو ) اور نہیں مانا جاتا تو اس صورت میں وہ کیا کرے؟ آپ حضرات کی طرف سے جواب ملنے کی اشد ضرورت ہے۔
طلبہ سے لیے گئے بقیہ پیسوں کا حکم
سوال…2. اسی طرح ایک طالب علم اپنے طالب علمی کے زمانے میں بعض طالب علموں کے لیے FA او رمیٹرک کے داخلے کرتے تھے اور وہ طلباء اس کو پیسے دیتے تھے لیکن داخلے کرانے کے بعد اس کے پاس ان کے کچھ پیسے بچ جاتے اور وہ طالب علم اس بچے ہوئے پیسوں سے اپنا کرایہ او رکھانا وغیرہ کی ضرورت پوری کرتے ،اور ابھی طالب علم کو معلوم نہیں کہ کس کس طالبِ علم سے پیسے لیے تھے، اب اس کا ادا کرنا کیسے ہو گا ، حالانکہ طالبِ علم اس کے ادا کرنے پر قادر نہیں ہے، اب وہ کیا کرے؟ تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔
جواب…1. ٹی وی کا دیکھنا بہت سے مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ، ان مفاسد میں سے ایک بڑا مفسدہ تصویر ہے اور جاندار کی تصویر کا حرام ہونا واضح ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر لعنت فرمائی ہے اور ملائکہ سے دوری کی وضاحت تو آپ نے خود کر دی ، لہٰذاجس چیز کو آپ صلی الله علیہ وسلم حرام اور ملعون فرمارہے ہوں اسے دیکھنا یا اسے نیک کام کا ذریعہ بنانا جائز نہیں۔
جہاں تک بڑے بیٹے کا تعلق ہے تو یہ بات واضح رہے کہ کسی بھی شر اور گناہ کے کام سے تنبیہ کرنا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے ، لہٰذا بڑے بیٹے کو چاہیے کہپیار ومحبت او رحکمت کے ساتھ والد صاحب کو ٹی وی کے نقصانات ، آپ علیہ الصلاة والسلام کے ارشادات او راسلامی تعلیمات سے آگاہ کرے، سختی والا لہجہ اپنانے سے اجتناب کیا جائے، گھر میں دینی فضا قائم کی جائے اوراس کے ساتھ ساتھ الله جل شانہ کے حضور میں دعا بھی کی جائے کہ والد صاحب کے دل سے اس کا شوق ختم ہو جائے ، ان شاء الله گھر میں اگر دینی ماحول کی فضاء بن جائے گی تو والد کی طبیعت پر بھی اثر ہو گا اور ٹی وی کی محبت دل سے نکل جائے گی۔
جواب…2. اگر اس طالب علم نے اپنے اس عمل کے لیے پیسے مقرر کر رکھے ہوں کہ وہ فی داخلہ اتنے پیسے لیتا ہے تو داخلہ فیس کے علاوہ جو پیسے ہوں گے وہ اس کے اس عمل کی اجرت ہو گی، لہٰذا ان بچے ہوئے پیسوں کا اپنی ذاتی ضرورتوں میں خرچ کرنا اس کے لیے جائز ہے ، البتہ اگر وہ اپنے اس عمل کی اجرت نہ لیتا ہو اور لڑکوں کا کام احساناً کرتا ہو یا مقرر کردہ پیسوں سے زائد اس نے لیے ہوں اور وہ بچ گئے ہوں تو ایسی صورت میں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچ جانے والے پیسے ان لڑکوں کو واپس کرے، اور اگر اسے یاد نہیں کہ کن لڑکوں سے پیسے لیے ہیں تو اپنی طرف سے ان لڑکوں کا پتہ کروانے کی پوری کوشش کرے، اعلان کروائے اور اگر پھر بھی پتہ نہ چل سکے تواس زائد رقم کا حساب لگا کر صدقہ کر دے ، یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر بعد میں کوئی لڑکا آکر اپنی رقم کا مطالبہ کرے اور صدقہ کی ادائیگی کو تسلیم نہ کرے تو اس کے پیسوں کی ادائیگی اس طالب علم کے ذمے لازم ہو گی۔
صحابہ ورسول الله صلی علیہ وسلم کے گستاخ کی سزا
سوال…کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ گستاخِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رصحابہ رضی الله تعالیٰ عہنم کی گستاخِی کرنے والے کی کیاکیا سزائیں ہیں؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
جواب… حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والا شخص مرتد وکافر ہے، اگر توبہ نہ کرے تو اسلامی حکومت کی ذمے داری ہے کہ ایسے شخص کو قتل کر دیا جائے ، البتہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کی گستاخی کرنے والا شخص بڑا بدبخت اور گناہ گار ہے ، تادیباً اور تعزیراً اسلامی حکومت جو مناسب سمجھے اسے سزا دے دے سکتی ہے۔
ٹارگٹ کِلنگ میں مرنے والوں کی شہادت کا حکم
سوال… آج کل جو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اس میں مارے جانے والے بے گناہ لوگ شہید کے حکم میں آئیں گے یا نہیں؟ ۔
جواب…جو شخص ظلماً قتل کیا جائے، وہ شہید ہے ، البتہ یہ بات واضح رہے کہ شہید کی دو قسمیں ہیں: حقیقی۔ معنوی، حقیقی شہید وہ ہے جو دشمن کے مقابلے میں میدانِ جنگ میں شہید ہو یا ڈاکووں یا کسی مسلمان کے ہاتھوں ظلماً قتل کیا گیا ہو ، اس قتل پر ابتداءً قصاص واجب ہوتا ہو ، اسی طرح اسے کہیں اور منتقل کرنے کا موقع بھی نہ ملا ہو تو ایسا شخص حقیقی شہید ہے اور اسے بغیر کفن اور غسل کے دفنایا جائے گا، البتہ اگر کوئی شخص ظلماً تو قتل کیا جائے لیکن اس کی موت اس جگہ سے منتقلی کے بعد واقع ہوئی ہو ، اسی طرح اس قتل پر ابتداءً قصاص نہیں بلکہ دیت واجب ہو تو ایسا شخص بھی شہید ہے لیکن اسے حقیقی نہیں بلکہ معنوی شہید کہا جائے گا، روزِ قیامت میں یہ شخص بھی شہیدوں کی فہرست میں شمار ہو گا ، لیکن دنیا میں اس کے ساتھ عام لوگوں والا معاملہ کیا جائے گا اور اسے کفن اور غسل دینے کے بعد دفنایا جائے گا۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے بے گناہ شہری بہرحال شہید ہیں، البتہ ان پر حقیقی یامعنوی شہادت کا اطلاق ان کی حالت دیکھنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔
رسم مہندی، مائیوں اور لڑکی کو قرآن کریم کے سائے میں رخصت کرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ:(1) شادی کے موقع پر مہندی کی رسم کرنا او راس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
(2) شادی سے ایک دو دن قبل مائیوں میں ( لڑکی کو) بٹھایا جاتا ہے جس میں سات عورتیں ( شادی شدہ) لڑکی کے سر میں یکے بعدد یگرے تیل لگاتی ہیں او رایسا نہ کرنے والوں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، رسم مائیوں کا اسلام میں حکم، اس میں شرکت کا حکم او راس رسم میں شرکت نہ کرنے والوں کو نگاہِ حقارت سے دیکھنا کیسا ہے؟
(3) رخصتی کے موقع پر ”لڑکے اور لڑکی“ (دولہا اور لہن) کے سر پر قرآن کریم رکھناا( لڑکی کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنا) کیسا ہے ؟
ازراہِ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
جواب…(1) عام حالات میں عورت کے لیے اگرچہ مہندی لگانا فی نفسہ جائزدرست ہے ، لیکن بطورِ رسم لگانا، اس کے لیے لوگوں کو دعوت دینا،نکاح سے پہلے اس کو ضروری خیال کرنا، نہ کرنے والے کو بنظرِ حقارت دیکھنا اور طعنے دینا، اجنبی مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہونا اور خصوصاً دولہا کے ہاتھوں پر مہندی لگانا تو مذکورہ مفاسد کے ساتھ ساتھ عورتوں کے ساتھ مشابہت آنے کی بناء پربھی ناجائز ہے، او راس رسم سے اجتناب بہر حال لازم وضروری ہے۔
(2) مائیوں کی رسم تو خالصةً ہندوانہ رسم ہونے کی بناء پر ویسے ہی ناجائز ہے او رجب مذکورہ مفاسد بھی اس میں پائے جائیں تو اس کی قباحت وشناعت مزید بڑھ جاتی ہے۔
(3) دولہا ودلہن کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنا یہ بھی ایک غیر ضروری چیز کو ضروری قرار دینے کے مترادف ہے اور جتنے مفاسد نمبر ایک میں پائے جاتے ہیں وہ یہاں بھی پائے جاتے ہیں، لہٰذا یہ بھی ناجائز ہے۔
باقی رہی یہ بات کہ ان مجالس ورسوم میں کسی مسلمان کا شرکت کرنا سو یہ کسی بھی طور سے جائز نہیں، او رشرکت نہ کرنے والوں کو بنظر حقارت دیکھنا اوراس پر ان کو عار دلانا تو بہت سخت گناہ ہے، بلکہ وہ تو اس بات پر قابل تعریف ہیں کہ وہ ان فضولیات سے بچ گئے نہ کہ قابلِ تنقیص۔
نافرماں والدہ سے قطع تعلقی جائز نہیں
سوال… ایک عورت کو شوہر کے انتقال کے بعد اس کے اپنے ہی بچوں کی گواہی کے بعد اس کی بدچلنی کے سبب میکے بھیج دیا جاتا ہے ۔ عورت نے اپنی عیاشی پر بچوں(4 لڑکیاں13,12,10,8 سال اور 2 لڑکے7 اور9 سال کے) کو چھوڑ کر جانا گوارا کر لیا بجائے نیکی کی راہ اختیار کرنے کے، چوں کہ اس کا میکہ بھی کرپٹ تھا لہٰذا وہاں پر عیاشی کے پورے پورے کھلے مواقع میسر تھے دوسری طرف بچوں کی پرورش اور ان کی شادیاں پھوپھوں نے کیں۔
سب سے بڑی بیٹی کے شوہر کے حادثہ کے بعد اس کی بڑی بیٹی بھی اپنی ماں کے نقش قدم پر چل نکلی، اس کو سب نے بہت سمجھایا کہ راہ راست پر آجا ؤ مگر وہ نہ مانی ، پھر اس نے اپنی تمام بہنوں اور پھوپھیوں سے ناتہ توڑ لیا اور اپنی ماں سے ناتہ جوڑ لیا، کچھ عرصہ بعد اس کے بھائی نے بھی ( جو اپنی اس بہن سے ملتا تھا) ماں سے ناتہ جوڑ لیا اور اپنی دوھیال سے ناتہ توڑ لیا۔
ان دونوں بہن بھائی کا کہنا ہے کہ ماں بہت عظیم ہستی ہوتی ہے ، لہٰذا ہمیں ماں سے او راپنی کرپٹ ننھیال سے ملنا ہو گا۔
وہ ماں جس نے اپنی بدچلنی کو برقرار رکھنے کے لیے معصوم بچوں کو لات مار دی، اور جب وہ بڑھیا ہو گئی جسم میں دم خم کچھ باقی نہ بچا تو اسے اپنے شادی شدہ بچوں والے بچے یاد آئے، او راس ماں نے آج تک اپنے گناہوں کا اقرار تک نہیں کیا اور نہ اپنے کیے پر نادم اور شرمسار ہے، بلکہ الٹا پھوپھیوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے کہ انہوں نے اس پر جھوٹے الزام لگائے۔
باپ کے مرنے کے بعد معصوم بچوں کو جب ماں کی ممتا کی شدید ضرورت تھی اس کڑے وقت میں بچوں کو تنہا چھوڑ کر رنگ رلیاں منارہی تھی۔
برائے مہربانی دین اسلام کی روشنی میں ہماری راہ نمائی فرمائیے کہ کیا ہم بھی اپنی کرپٹ ننھیال او رماں سے ناتہ جوڑ کر اپنے او راپنی اولاد کو گمراہی کے رستے پر چلنے کے خطرے میں ڈال دیں؟
جواب… واضح رہے کہ والدین کی نافرمانی او ران سے قطع تعلقی کسی صورت میں اولاد کے لیے جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ جب وہ کسی گناہ کا حکم دیں تو اس صورت میں ان کا کہنا نہ مانا جائے، کیوں کہ جہاں خالق کے حکم کی نافرمانی لازم آرہی ہو وہاں مخلوق کے حکم کا شریعت میں کوئی اعتبار نہ ہو گا۔
چناں چہ قرآن کریم میں جہاں خالق کائنات نے اپنی عبادت اور توحید کا ذکر فرمایا وہیں والدین سے حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم بھی فرمایا ہے، اور دوسرے مقام پر فرمایا:” تم میرا او راپنے الدین کا شکر ادا کرتے رہو“ جس سے والدین کے مقام اور رتبہ کا خوب اندازہ اور وضاحت ہو جاتی ہے۔
ایک حدیث شریف میں آقائے نام دار صلی الله علیہ وسلم نے والدین کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:” اس شخص کا چہرہ خاک آلود ہو ، اس شخص کا چہرہ خاک آلود ہو ، اس شخص کا چہرہ خاک آلود ہو ، صحابہ کرام رضوان الله علہیم اجمعین نے دریافت فرمایا کہ کس شخص کا اے الله کے رسول ؟ آپ نے فرمایا: اس شخص کا کہ جس نے اپنے والدین میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا او رپھر بھی جنت میں داخل نہ ہوسکا“ دوسری حدیث میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایسے شخص کے لیے بدعا فرمائی کہ ”ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے اپنے والدین میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا ہو اور ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہو سکا ہو ، اس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے آمین کہا“ کتنی سخت وعید ہے۔
لہٰذا آپ کو بہرحال اپنی والدہ محترمہ کی خدمت، اطاعت او راُن کے ساتھ حسنِ سلوک او رحسنِ اخلاق کا برتاؤ رکھنا چاہیے او ران سے اپنے تعلق کو برقرار رکھ کر ان کی نرمی وشفقت کے ساتھ اصلاح کی کوشش او ران کے لیے خوب دعا کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، الله تعالیٰ آپ کو ثابت قدم رکھے۔ آمین۔