Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1434ھ

ہ رسالہ

6 - 16
سلام کے احکام
مفتی ثناء الله خان
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
	
امام ابو داوٴد رحمہ اللہ تعالیٰ سمندر کے کنارے کھڑے ہیں اور لوگ دوسرے ملک سفر کرنے کے لیے بحری جہاز میں، جو ساحل سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا ہے،سوار ہو رہے ہیں کہ اس دوران جہاز میں موجود ایک آدمی کو چھینک آتی ہے اور وہ بلند آواز سے ”الحمداللہ “کہتا ہے اور شریعت کا مسئلہ ہے کہ چھینک والے کا جواب”یرحمک اللہ “ کے ساتھ دینا چاہیے۔(الدر مع الرد ،5 /294)

چناں چہ امام ابو داوٴد رحمہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کو جواب دینے کے لیے تین درھم میں کشتی کرایے پر لیتے ہیں ،اور جہاز کے قریب پہنچ کر اس آدمی کو ”یرحمک اللہ“سے جواب دیتے ہیں اور اسی کشتی میں واپس ہو جاتے ہیں، امام ابو داوٴد رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس فعل پر اس وقت کے بعض تاریک خیال لوگوں کو یقینابہت تعجب ہوا ہو گا ،لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایسے موقع پر بھی بجالانے پر یہ انعام عطافرماتے ہیں کہ رات کو جب امام ابو داوٴد رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے معمولات سے فارغ ہو کر محو خواب ہوتے ہیں ،تو ایک آواز سنتے ہیں کہ اے ابو داوٴد! تم نے تین درھم کے بدلے جنت خریدلی ۔جب اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور ان کے طریقوں سے محبت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو امت کے لیے اسوہ حِسنہ قرار دیااور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی محبت کے حصول کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کی اتباع کو شرط قرار دیا، تو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو اپنائیں گے ،وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے محبوب ومقرب کیسے نہ بنیں گے؟

انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ موجود ہے،انسانی معاشرے میں ہر انسان کو دوسرے انسان سے واسطہ پڑتا ہے، اورہر دن کئی لوگوں سے ملتا ہے، ایسے موقعہ پر دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس کارواج ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں ،تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہار محبت کے لیے کہیں ،لیکن ایسے موقع پر اسلا م میں جو کلمہ ہے ،وہ سلام ہے اور اسلام کا سلام اتنا جامع ہے کہ اس جیساکوئی اور نہیں ،کیوں کہ اس میں صرف اظہار محبت ہی نہیں ،بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے سلامت رکھیں،اسی کے ساتھ اس کا بھی اظہار ہے،کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ،اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ کلمہ ایک عبادت بھی ہے،اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھی کو تمام آفات اور تکلیف سے محفوظ فرمادے ،تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ بھی کررہا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان ،مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں ۔

ابن العربی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ”احکام القرآن“میں امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے:”أتَدْرِیْ مَا السَّلَامُ ؟یَقُوْلُ أنْتَ اٰمِنُ مِنِّی“․یعنی تم جانتے ہو کہ سلام کیا چیز ہے؟سلام کرنے والا یہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون ہو۔ (احکام القرآن لابن العربی ،سورةالنساء :86،1/592،دارالکتب)

خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی سلام ایک عالمگیر جامعیت رکھتا ہے،اس میں اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے ،اپنے مسلمان بھائی سے اظہار تعلق ومحبت بھی، اس کے لیے بہترین دعا بھی اور اس سے یہ معاہدہ بھی کہ میرے ہاتھ اور زبان سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی ۔

کاش !مسلمان اس کلمہ کو عام لوگوں کی رسم کی طرح ادانہ کرے، بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کرلے ،تو شاید پوری قوم کی اصلاح کے لیے یہی کافی ہو جائے۔

سلام کرنا فرمان خداوندی ہے
قرآن کریم میں ہے :﴿وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا﴾ترجمہ:اور جب تم کو کوئی دعا(سلام )دے وے ،تو تم بھی دعا دو، اس سے بہتر یا وہی کہوالٹ کر․(سورة النساء:86)

اسی طرح ایک اور آیت ہے:﴿یَا یُّھَاالَّذِیْن اٰمَنُوا لَا تَدْ خُلُوا بُیُوْتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتیّٰ تَسْتَاِنسُوْا وَتُسَلِمُوْا عَلٰی أَھْلِھَا ﴾․

اے ایمان والو !اپنے گھروں کے علاوہ کسی گھر میں داخل نہ ہو، جب تک کہ تم اجازت نہ لے لو اور گھر کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو۔(سورة النور :27)

سلام کی ابتداکب ہوئی ؟
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی اپنی صورت پر پیدا کیا،ان کی لمبائی ساٹھ گز تھی ،جب اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا تو کہا کہ جاوٴ اور ملائکہ کی اس جماعت کو جو بیٹھی ہوئی ہے سلام کرو اور سنو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ،یہی تمہارااور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا ،چناں چہ انہوں نے کہا السلام علیکم ،تو فرشتوں نے جواب دیا ۔ السلام علیکم ورحمةاللہ ․ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الاستیذان ،باب بدء السلام ،رقم الحدیث :6227)

سلام کا رائج کرنا
شریعت مطہرہ کی تعلیم یہ ہے،کہ ”سلام“اسلامی معاشرے میں پھیلا ہوا ہواور جیسے آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق واجب ہوتے ہیں،ان کی ادائیگی کا آپ صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا،اسی طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ اِفشاء سلام کا بھی حکم دیا۔

چناچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ،مریض کی عیادت کرنا ،جنازے کے پیچھے چلنا، چھینکنے والے کا جواب دینا، کمزور کی مدد کرنا، مظلوم کی حمایت کرنا ،سلام کارائج کرنا۔(الجامع الصحیح للبخاری ،کتاب الاستیذان ،باب افشاء السلام،رقم الحدیث :6235)

پہچان یا غیر پہچان کے لوگوں کو سلام کرنا
سلام ہر مسلمان کو کرنا چاہیے ،چاہے آپس میں جان پہچان ہو ،یانہ ہو، صرف ان کو سلام کرنا جن کو انسان پہچانے یا جن سے کوئی کام ہو،مناسب نہیں، بلکہ ہر ایک کو کرنا چاہیے ،چناں چہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایایہ کہ تو کھانا کھلائے اور توسلام کرے ،اس کو جس کو تو پہچانے یانہ پہچانے۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستیذان، باب السلام للمعرفة وغیر المعرفة، رقم الحدیث :6236)

افشائے سلام باہمی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ
آج معاشرہ جس حد تک بگڑ چکا ہے کہ جس پر اسلامی معاشرہ کا اطلاق تو شاید ممکن نہ ہو ،کسی مسلمان کی جان ،مال،عزت آبرو محفوظ نہیں،ہر ایک دوسرے سے خوف کا شکار ہے اور ہر ایک دوسرے کے لیے گڑھے کھود رہاہے،آپس کی باہمی محبت ، اخوت، جو شریعت کو مطلوب ہے،اس کا فقدان ہے،اس باہمی محبت کو پیدا کرنے کا ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افشائے سلام فرمایا۔

چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”والذی نفسی بیدہ․ لا تدخلوا الجنة حتیٰ تومنوا ولا تومنوا حتیٰ تحابوا،اَفلا أدلکم علیٰ عملٍ اِذا عملتموہ تحاببتم، قالوا:بلیٰ یارسول اللہ!قال:افشواالسلام بینکم․“(سنن ابی داوٴد،کتاب الادب،باب افشاء السلام ،رقم الحدیث:5193)

آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے،جب تک ایمان نہ لاوٴاور تمہاراایمان مکمل نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو ،کیا میں تمہیں وہ عمل نہ توبتلادوں کہ اگر تم اسے کرو تو تمہارے مابین محبت پیدا ہو جائے؟لوگوں نے عرض کیا،ضرور بتلائیے ،آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :سلام کو رواج دو۔

سلام کرنا نیکیاں کمانے کا ذریعہ
جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے،تو اس کے لیے حسب الالفاظ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

چناں چہ” سنن ابی داوٴد“کی روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کہا :”السلام علیکم “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کے لیے دس نیکیاں ہیں ۔دوسرا شخص آیااوراس نے السلام علیکم ورحمة الله کہا ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فر مایا :اس کے لیے بیس نیکیاں ہیں۔تیسرے شخص نے ”السلا م علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“کہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے تیس نیکیوں کی خوش خبری سنائی۔(سنن ابی داوٴد، کتاب الادب،باب کیف السلام ؟رقم الحدیث:5195)

سلام ،گھر میں خیرو برکت کا ذریعہ
انسان گھر میں داخل ہوتاہے،تو بجائے اس کے کہ ہیلو ،ہائے جیسے لغو الفاظ بول کر داخل ہو،”السلام علیکم“کہنے سے ایک سنت پر بھی عمل ہو جائے گا اور گھر میں خیر و برکت کا باعث بھی ہوگا۔

چناں چہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔

قال لي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یا بُنَیَّ، اذا دخلت علی أھلک فسلم یکون برکة علیک وعلیٰ أھل بیتک․(الجامعة الصحیح للترمذی،کتاب الاستیذان،باب ماجاء فی التسلیم اذا دخل بیتہ، رقم الحدیث:2698)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پیارے بچے!جب تو اپنے گھر والوں کے پاس جائے ،تو سلام کر،یہ سلام تیرے لیے اور تیرے گھر والوں کے لیے باعث برکت ہے۔

سلام کن الفاظ کے ساتھ کیا جائے؟
سلام کرنے والا یہ الفاظ کہے،”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“اور اسی طرح جواب دینے والا”وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ“کہے۔ (الدرمع الرد،کتاب الحظر والا باحة،فصل فی البیع،5/293،رشیدیہ)

اور ان الفاظ پر مزید زیادتی صحیح نہیں۔(حوالہ سابقہ)

البتہ”سنن ابی داؤد“کی روایت میں”وبرکاتہ“کے بعد”مغفرتہ“ کا بھی اضافہ ہے۔(سنن ابی داؤد،کتاب الادب ،باب کیف السلام؟رقم :5196)

لیکن ”شعب الایمان للبیہقی“میں ہے کہ ایک آدمی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیااور کہا،”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ“تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حسبک اذا انتہیت الیٰ”وبرکاتہ‘یعنی صرف”وبرکاتہ“تک اضافہ کرنا چاہیے۔(شعب الایمان للبیہقی،فصل فی کیفیةالسلام وکیفیة الرد،رقم الحدیث :8880،6/456)

اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے،
”ان لکل شیء منتہی وان منتہی السلام وبرکاتہ“․

کہ بے شک ہر چیز انتہا کی ہوتی ہے اور سلام کی انتہا ”وبرکاتہ“ ہے۔(شعب الایمان للبیہقی،فصل فی کیفیةالسلام،رقم الحدیث: 8879، 6/456 دار الکتب)

سلام کرنے کا غلط طریقہ
سلام کرنے میں بعض لوگ صرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہیں،یاسر ہلاتے ہیں اور اس کو کافی سمجھتے ہیں ،حالاں کہ یہ طریقہ غلط ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لا تشبھوا بالیھود ولا بالنصاریٰ، فان تسلیم الیھود الا شارة بالاصابع، وتسلیم النصاریٰ الاشارة بالاکف․

یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار مت کرو،اس لیے کہ یہود انگلیوں کے اشارے سے اور نصاریٰ ہتھیلیوں کے اشارے سے سلام کرتے ہیں۔ (جامع ترمذی ،کتاب الاستیذان،باب ماجاء فی کراھیةاشارہ الیدفی السلام ،رقم الحدیث:2695)

البتہ اگر جس کو سلام کر رہا ہے،وہ دورہے،تو ایسی صورت میں زبان سے ”سلام“کے الفاط کہہ کر ہاتھ سے یاسر سے اشارہ کر لیا،تاکہ جس کو سلام کررہاہے،اس کو پتہ چل جائے،تو ایسی صورت میں حرج نہیں،لیکن صرف ہاتھ کا اشارہ صحیح نہیں۔

سلام کلام سے پہلے ہو
اگر آدمی کسی سے ملاقات کرے،یا کسی مجلس میں جائے ،تو پہلے سلام کرے،بعد میں کلام،سلام سے پہلے کلام صحیح نہیں ہے۔

اور اگر کوئی سلام سے پہلے کلام کرے،تو اس کو جواب نہ دے۔ (الدر مع الرد ،کتاب الحظر والا باحة،فصل فی البیع،5/293،رشیدیہ)

چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

”السلام قبل الکلام“․یعنی بات چیت سے پہلے سلام ہے۔(جامع ترمذی ،ابواب الاستیذان ،باب ماجاء فی السلام قبل الکلام ،رقم الحدیث:2699)

سلام میں پہل کون کرے؟
اگر ایک آدمی جا رہا ہے اور پیچھے سے دوسرا آدمی اس تک پہنچ گیا، تو اب اس دوسرے آدمی کا حق بنتا ہے کہ وہ اس کو سلام کرے ۔ (الدرمع الرد ،کتاب الحظر والاباحة،فصل فی البیع ،5/295،رشید یہ)

اسی طرح پیدل چلنے والابیٹھے ہوئے کواور سوار پیدل چلنے والے کواور چھوٹا بڑے کو سلام کر ے اور قلیل جماعت بڑی جماعت کو سلام کر ے۔ (الدرمع الرد ،کتاب الحظر والا باحة ،فصل فی البیع ،5 /295،رشید یہ)

چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ”یسلم الصغیرعلی الکبیر، والمار علی القاعد، والقلیل علی الکتیر“․

یعنی آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، اور گزرے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔(الجامع الصحیح للبخاری ،کتاب الاستیذان ،باب تسلیم القلیل علی الکثیر، رقم الحدیث:6231)

ایک دوسری روایت میں ہے :”یسلم الراکب علی الماشی والماشی علی القاعد والقکیل علی الکثیر“․

یعنی سوار پیدل چلنے والے کواور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔(حوالہ بالارقم الحدیث:2632)۔

سلام کرنے میں پہل کرنے والاافضل ہے
اگر دو آدمی مثلاًپیدل جارہے ہوں اور ملاقات ہو جائے،تو جو سلام میں پہل کرے، وہ افضل ہے۔ (الدر مع الرد، کتاب الحظر والا باحة،فصل فی البیع،5/295،رشیدیہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ان اولی الناس باللہ تعالیٰ من بدأھم بالسلام“․(سنن ابی داؤد ،کتاب الادب،باب فی فضل من بدأبالسلام ،رقم الحدیث: 5197)

لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب وہ ہے،جو سلام میں پہل کرے۔

اگر بار بار ملاقات ہو،تب بھی سلام کرنا چاہیے
اگر کسی سے بار بار ملاقات کی نوبت آرہی ہے،تو ہر بار سلام کرنا چاہیے۔

چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”اذا لقی احدکم اخاہ فلیسلم علیہ،فان حالت بینھما شجرة او جدار او حجر ثم لقیہ فلیسلم علیہ ایضاً“․

یعنی جب تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس پر سلام کرے، پھر اگران دونوں کے بیچ درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہواور پھر دوبارہ ملاقات ہو،تو بھی اسے سلام کرے۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الادب،باب فی الرجل یفارق الرجل ثم یلقاہ أیسلم علیہ ؟رقم الحدیث:5200)

خط،پیغام کے ذریعے ملنے والے سلام کا حکم
اگر خط ،پیغام کے ذریعے کسی کا سلام پہنچا،تب بھی سلام کا جواب دینا واجب ہے اور اس وقت جواب اس طرح دے ،اگر سلام پہنچانے والا آدمی ہو۔ ”علیک وعلیہ السلام۔ (الدر مع الرد،کتاب الحظر والا باحة،فصل فی البیع،5/295،رشیدیہ)

”بعثنی أبی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقال: :ائتہ فاقرئہ السلام، قال: فأتیتہ، فقلت: ان أبی یقرئک السلام، ،فقال :علیک وعلی أبیک السلام“․
یعنی صحابی فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاوٴاور ان کو سلام کرو، چناں چہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہاکہ میرے والد آپ کو سلام کہہ رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :علیک وعلی أبیک السلام، یعنی آپ پر اور آپ کے والد پر سلام ہو۔ (سنن ابی داوٴد ،کتاب الادب ،باب فی الرجل یقول: فلان یقرئک السلام ․رقم الحدیث:5231)

ملاقات کی ابتدا وانتہا دونوں میں سلام کرنا چاہیے
جب کسی سے ملاقات ہو ،یامجلس میں جانا ہو،تو جیسے ابتدا میں سلام کرناچاہیے، اسی طرح جب مجلس سے جانے لگے، اس وقت بھی سلام کرنا چاہیے۔ (الدرمع الرد ،کتاب الحظر والا باحة،فصل فی البیع ،5/293، رشید یہ)

چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”اذا انتھی احدکم الی مجلس فلیسلم، فان بدا لہ ان یجلس فلیجلس، ثم اذا نام، فلیسلم فلیست الأولی بأحق من الأخیرة“․
یعنی جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے ،تو اسے اہل مجلس کو سلام کرنا چاہیے، پھر اگر مرضی ہو تو مجلس میں بیٹھ جائے،اور جب مجلس سے واپس جانے کیے لیے کھڑا ہو،تب بھی سلام کرے ،کیوں کہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ حق بجانب اور موزوں نہیں۔ (الجامع الصحیح للترمذی ،أبواب الاستیذان، باب ماجاء فی التسلیم عند القیام وعند القعود ،رقم الحدیث:2702)

سلام سے متعلق متفرق احکام
سلام کرناسنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔(الدرمع الرد ، 5/ 293 )

اگر ایسے گھر،جگہ میں داخل ہوا،جہاں کوئی نہیں،تو اس وقت سلام ان الفاظ سے کرے۔” السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین․ (الدر مع الرد ،کتاب الحظر والاباحة،فصل فی البیع،5/293،رشید یہ )

سلام اتنی بلند آواز سے کرنا چاہیے کہ جس کو سلام کیا ہے، وہ سلام کو سن لے، اگر اس نے نہیں سنا، تو اس پر سلام کا جواب دیناواجب نہیں۔(الدر مع الرد ،5/293)

اسی طرح سلام کا جواب دینے والا بھی اتنی بلند آواز سے جواب دے کہ سلام کرنے والا جواب سن لے،اگر اس نے نہیں سنا،تو اس سے جواب ساقط نہیں ہو گا۔(الدرمع الرد ،5/293)

سلام کا جواب دینا علی الفور واجب ہے اور اس میں تا خیر کرنا مکروہ تحریمی ہے اور گناہ صرف تو بہ سے معاف ہو گا۔(الدرمع الرد ،5/293)

اگر ذمی (کافر )کو کسی ضرورت کی وجہ سے خط لکھناہو،یا ضرورت کی وجہ سے ملاقات کرنی ہو ، تو اس کو اس طرح سلام کرے۔ ”السلام علی من اتبع الھدی“․ (الدرمع الرد ،5/292)

اور اگر ذمی ابتداءِ سلام کرے ،تو جواب میں صرف”علیک“ کہے۔(الدرمع الرد ،5/292)

اگر ایک مجلس میں کسی نے دوبارہ سلام کیا،تو دوبارہ جواب دینا واجب نہیں،(الدرمع الرد ،5/295)

اگر بیٹھی ہوئی جماعت کو کسی نے سلام کیا،تو ایک شخص کا جواب دے دینا کافی ہے اور گزرنے والی جماعت میں سے اگر ایک شخص سلام کرے تو یہ بھی سب کی طرف سے کافی ہے۔(الدرمع الرد ،5/293)

بعض دفعہ دونوں سلام کر لیتے ہیں، تو اب دونوں ایک دوسرے کو جواب دیں۔(الدرمع الرد،5/295)

وہ لوگ جن کو سلام کرنا مکروہ ہے
اگر کوئی اعلانیہ گناہ کا مرتکب ہو، تو اس کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ (الدر مع الرد ،5/292)

جولوگ مسجد میں انتظار صلوٰة کے لیے بیٹھے ہوں۔ ان کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے۔(الدر مع الرد،کتاب الصلوٰة،باب صفة الصلوٰة، 1/456)

جو لوگ ذکر میں مشغول ہوں،ان کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے۔ (الدر مع الرد،1/456)

جو ذکر ،تلاوت،وعظ کررہا ہو، اس کو بھی سلام کرنا مکروہ ہے، اسی طرح جو تلاوت ،وعظ،سن رہا ہو،اس کو بھی سلام کرنا مکروہ ہے۔(الدر مع الرد،1/456)

شرعی علوم کا مذاکرہ کرنے والوں کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے۔ (الدر مع الرد،1/456)

اگر لوگ کھانا کھارہے ہوں،تو ان کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے، البتہ اگر یہ بھوکا ہے اور یہ جانتا ہو،کہ سلام کروں گا تو وہ کھانے کے لیے بلائیں گے ، تب سلام کرے ۔(الدر مع الرد،5/295)

البتہ اگر جو کھانا کھارہے ہیں،وہ اس کے ساتھی ہیں،تو ایسی صورت میں اگر وہ کھانے میں مشغول ہوں،تب تو سلام نہ کرے،لیکن اگر دستر خوان پر بیٹھے تو ہیں، لیکن کھانا ابھی تک شروع نہیں کیا،یا کھا لیا ہے،تو اب سلام مکروہ نہیں ،سلام کی کراہت ایسی صورت میں ہے ،کہ ان کے منہ میں لقمہ ہو،اس لیے کہ وہ جواب دینے سے معذور ہوں گے۔(الدر مع الرد،5/295)

دوران اذان بھی سلام کرنا مکروہ ہے۔(الدر مع الرد،5/295)

جن حالتوں میں سلام کرنا مکروہ ہے،اگر کسی نے ایسی حالت میں سلام کر لیا ،تو اس کو جواب نہیں دینا چاہیے۔(الدر مع الرد،5/295)

فون پہ ہیلو کرنے کا حکم
فون پہ کسی سے بات کرنا،ایک قسم کی ملاقات ہی ہے ،لہذا جب کسی کو فون کرنا ہو،تو ہیلو کرنے کے بجائے سلام کرنا چاہیے ،اسی طرح بعض لوگ سلام تو کرتے ہیں ،لیکن پہلے ہیلو کہتے ہیں اور پھر سلام کرتے ہیں،یہ بھی ٹھیک نہیں،اس لیے کہ سلام کلام سے پہلے ہوتاہے،اسی طرح جب بات ختم ہو،تو تب بھی ایک دو سرے کو سلام کریں۔

سلام کے سوا الفاظ کا حکم جو معاشرے میں ملاقات کے وقت استعمال کیے جاتے ہیں
معاشرے میں جو سلام کے سوا گڈ مورننگ ،گڈ ایوننگ، گڈ نائٹ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں اول تو سلامتی کے معنی کو پوری طرح ادا کرنے والا کوئی لفظ نہیں ہے،بلکہ ان میں انسانوں کے بارے میں کوئی دعا ہے ہی نہیں،وقت کو اچھا بتایا جاتا ہے، پھر اس سے بطور استعارہ انسانوں کی اچھی حالت مراد لی جاتی ہے۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ ان الفاظ میں دائمی سلامتی کی دعا نہیں ہے،بلکہ اوقات مخصوصہ کے ساتھ دعا مقید ہے،اسلام نے جو ملاقات کا تحیہ بتایا ہے،وہ ہر لحاظ سے کامل اورجامع ہے۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں (ملاقات کے وقت)یوں کہا کرتے تھے، ”انعم الله بک عیناً“اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی رکھے،اور”انعم صباحا“ تو صبح کے وقت میں اچھے حال میں رہے ۔ اس کے بعد جب اسلام آیا،تو ہمیں اس سے منع کر دیا گیا۔(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی الرجل انعم اللہ بک عینا،رقم الحدیث:5227)

اس حدیث سے معلوم ہواکہ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ملاقات کے وقت دوسروں کے طریقے اختیار کرنا اور ان کے رواج کے مطابق کلمات منھ سے نکالنا ممنوع ہے۔

جو لوگ انگریزوں کے طریقے پر گڈ مورننگ وغیرہ کہتے ہیں،یا عربوں کے رواج کے مطابق صباح الخیر وغیرہ کہتے ہیں اس سے پرہیز کرنا لازم ہے۔

موبائل میسج میں سلام کا حکم
آج کل معاشرے میں موبائل میسج کی جووبا پھیلی ہوئی ہے،جس سے ہر کوئی متاثر ہے،سستے اور مفت پیجکز کی سہولت فراہم کر، کرکے انسانوں کے قیمتی اوقات کو لوٹا جارہا ہے ۔

بہر حال موبائل کے ذریعے میسج بھیجنا،یہ خط بھیجنے کے حکم میں ہے، اور خط میں سلام لکھنا مسنون ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خط میں سلام لکھنا ثابت ہے۔(الجامع الصحیح لمسلم،کتاب الجہاد ،باب کتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی ہر قل ملک الشام․․․․،رقم الحدیث:4607)

اسی طرح جب میسج میں کسی نے سلام بھیجا ، تو اس کا جواب دینا واجب ہے، زبانی جواب دے دے سلام کا،یا میسج کے ذریعے لکھ کر اس کو سلام کا جواب دے۔ (الدر مع الرد،کتاب الحظر و الاباحة،فصل فی البیع،5/293،رشیدیہ) 
Flag Counter