ملائکہ کی حقیقت اور ان کی صفات
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
تعارض کی تیسری صورت اور اس کا حکم
تیسری صورت یہ ہے کہ دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی ہو۔ اس کا حکم ظاہر ہے کہ … اس صورت میں دلیل نقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیل عقلی کو ظنی ماننا درحقیقت اس بات کا اقرار ہے کہ اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یقین کے درجے میں نہیں ہے ۔
اس کی مثال یہ ہے کہ کسی با اعتماد افسر نے کسی ملزم کے بارے میں خبر دی کہ یہ گیارہ بجے ڈاکے میں شریک تھا او رمیں نے اسے خود دیکھا ہے۔ اور گواہ صرف اتنا بیان کر دیں کہ دس بجے کی گاڑی آنے سے پہلے ہم نے اسے دیکھا ہے کہ یہ شہر سے اسباب لیے ہوئے اسٹیشن کی طرف با ارادہ دہلی جارہا تھا، یہ اس کو مستلزم ہے کہ ملزم گیارہ بجے ڈاکہ میں شریک نہ تھا، لیکن یہ لازم آنا ظنی ہے، قطعی نہیں، اس واسطے کہ ہو سکتا ہے کہ شہر سے اس طرح نکلنا بھی اس کا صحیح ہو اور ڈاکے میں شریک ہونا بھی صحیح ہو۔ وہ اس صورت سے کہ ملزم دس بجے سے پہلے شہر سے نکلا ہو، لیکن اسٹیشن تک نہیں گیا اور اسباب کہیں رکھ کہ ڈاکے میں شریک ہو گیا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس نے یہ صورت اسباب باندھنے اور مسافر بننے کی اسی واسطے بنائی ہو کہ لوگ جاتے دیکھ لیں اور ڈاکہ زنی کا شبہ اس پر نہ ہو سکے۔
تو یہاں اس واقعہ کا اس ملزم کے ڈاکے میں شریک نہ ہونے کو مستلزم ہونا ظنی ہوا۔ یعنی یہ دلیل عقلی ظنی ہے اور افسر کا بچشم خود اس کو ڈاکے میں شریک دیکھنا دلیل نقلی قطعی ہے، جس میں کوئی احتمال وشک وشبہ نہیں۔ ہر اہل عقل جانتا ہے کہ اس صورت میں دلیل نقلی کو، یعنی افسر مذکور کی خبر کو دلیل عقلی پر ترجیح ہو گی۔ کیوں کہ دلیل عقلی محتمل ہے اور دلیل نقلی غیر محتمل ۔ اس سے ثابت ہوا کہ تعارض اولہ کی صورت سوم میں یعنی جب دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی ہو تو دلیل نقلی ہی کو ترجیح ہو گی، اس کے خلاف کرنا خلاف عقل ہے۔
تعارض کی چوتھی صورت اور اس کا حکم
چوتھی صورت یہ ہے کہ دلیل شرعی ظنی ہو اور دلیل عقلی قطعی ہو اس کا حکم یہ ہے کہ یہاں دلیل عقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیل شرعی کے وہ معنی لیے جائیں گے جس کو وہ محتمل ہے ، یہ حکم بالکل فطرت سلیمہ کے موافق ہے۔ اس صورت میں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں،بلکہ خلاف ادب ہے کہ دلیل شرعی کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ چھوڑنا نہیں، بلکہ اس کے ظنی ماننے کا اظہار ہے ، کیوں کہ ظنی کہنے کے معنی یہی تھے کہ اس میں دوسرے معنی کی بھی گنجائش ہے ، جب ایک کلام میں دو معنی لیے جاسکتے ہیں تو ایک معنی کسی معقول وجہ سے مراد لیناجس کی اجازت متکلم کی طرف سے بھی ہو، متکلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جیسا کہ ظاہر ہے۔
اس کی مثال عرف میں یہ ہے کہ ایک آقا نوکر کو حکم دے کہ بازار سے ایک تانبے کا لوٹا خرید لاؤ۔ اس کے ظاہر اور متبادر معنی یہ ہیں کہ قریب کے بازار سے خرید لاؤ، لیکن کلام اس دلالت میں قطعی نہیں ہے، کیوں کہ بازار قریب کے بازار کو بھی کہہ سکتے ہیں اور دور کے بازار کو بھی ، تو یہ دلیل قریبی بازار کے واسطے ظنی ہوئی، اس بازار میں لوٹے بکتے ہی نہیں تو اس وقت عقلاً کیا تجویز کریں گے ؟ کیا اس نوکر کو یہ کرنا چاہیے کہ بازار کے لفظ کو بازار قریب ہی کے معنی پر محمول کرکے اور تلاش کرکے خاموش ہو کے بیٹھا رہے ؟ اگر ایسا کرے تو وہ نوکر مطیع اور کار گزار سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اور کیا اگر وہ دور کے بازار سے جاکر لوٹا خرید لائے تو نافرمان قرار دیا جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ اگر ایسا کرے گا تو آقا سر زنش کرے گا کہ میں نے کب یہ کہا تھا کہ دور کے بازار تک مت جانا، جب میرا کلام دونوں بازاروں کو شامل تھا اور قریب کے بازار میں لوٹا نہیں ملا تو دوسرے بازار تک کیوں نہیں گیا ؟ اس کی بنا اسی اصول پر ہے کہ دلیل نقلی ظنی کو دلیل عقلی قطعی پر کیوں ترجیح دی ؟ اس وقت نو کر اگر یہ عذر کر دے کہ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کے خوف سے میں دور کے بازار میں نہیں گیا تو جواب یہی دیا جائے گا کہ میرا حکم تو اس بازار کے شمول کا احتمال رکھتا تھا، خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ بلکہ یہ عین تعمیل حکم اور کار گزاری تھی۔
اس مثال سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اصول عقلِ سلیم کے بالکل موافق ہے کہ دلیل نقلی ظنی کو جب دلیل عقلی قطعی سے تعارض ہو تو دلیل عقلی پر عمل کرنا چاہیے او راس پر عمل کرنے سے دلیل نقلی کو ترک کرنا لازم نہیں آتا، بلکہ اس کی ظنیت کو تسلیم کرنا ہے او رمتکلم کے عین مراد کو سمجھنا اور تعمیل کرنا ہے۔
اس کی شرعی مثال یہ ہے کہ سائنس دانوں کے مشاہدے سے اورریاضی کے قواعدیقینیہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ آفتاب زمین سے علیٰحدہ ہے اور اپنی حرکت میں کسی حالت میں زمین سے نہیں چھوتا اور قرآن شریف میں ذوالقرنین کے قصے میں یہ الفاظ آئے ہیں ﴿وجدھا تغرب فی عین حمئة﴾ یعنی ”ذوالقرنین ایک ایسی جگہ پر پہنچے کہ وہاں آفتاب کو پایا ایک کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے “ ان الفاظ سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں آفتاب پانی او رکیچڑ میں غروب ہوتا تھا تو زمین سے اس کو مس ہوا؟ یہ دلیل عقلی مذکورہ کے خلاف ہے چوں کہ یہاں دلیل نقلی کی دلالت ظنی ہے، اس واسطے کہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ وہاں آفتاب پانی او رکیچڑ میں چھپتا تھا، بلکہ یوں کہتی ہے کہ ذوالقرنین نے یوں محسوس کیا ، اس کو بادی النظر میں ایسا معلوم ہونا کہتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہمارے محاورے میں بھی ایسے ہی لفظ بولتے ہیں ۔ مثلاً حاجی لوگ سمندر کی حالت بیان کرتے ہیں کہ اتنا لمبا چوڑا ہے کہ ہفتوں تک کہیں خشکی کا سامان نظر نہیں آتا۔ آفتاب پانی ہی میں سے نکلتا ہے او رپانی ہی میں چھپتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ واقع میں ایسا ہی ہے کہ آفتاب پانی کے اندر سے نکلتا ہے او رپانی کے اندر چھپتا ہے، بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ آنکھ سے ایسا نظر آتا ہے ، کیوں کہ جہاں تک نظر پہنچتی ہے ،پانی ہی پانی ہوتاہے تو جو چیز نئی نیچے سے اوپر کو آئے گی وہ پانی ہی میں سے اٹھتی نظر آوے گی ، چوں کہ آیت کی دلالت آفتاب کے زمین سے مس کرنے (چھونے ) پر بالکل ظنی ہے او راس میں دوسرے معنوں کی بہت گنجائش ہے، دلیل عقلی اس کے خلاف بالکل قطعی ہے، لہٰذا دلیل عقلی کو بحال رکھا جائے گا اور دلیل نقلی کے وہ معنی لیے جائیں گے جس کو وہ محتمل ہے، یعنی بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آفتاب پانی میں چھپتا ہے۔
مطلب یہ ہو گا کہ وہ ایسی جگہ تھی کہ آگے اس کے مغرب کی طرف پانی ہی پانی تھا، حتی کہ آفتاب پانی میں غروب ہوتا نظر آتا تھا۔ ( اسلام اور عقلیات، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، تسہیل مصطفیٰ خان بجنوری، ص:105,97)
یہ وہ صورت ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ دلیل عقلی کو دلیل نقلی پر ترجیح ہو گی، متکلمین بھی صرف اسی صورت میں دلیل عقلی کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کا دعوی کہ عقل نقل پر مقدم ہے صرف اسی صورت کے متعلق ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله نے تو فرمایا کہ ایسے موقع پر عقل کو ترجیح صرف اس لیے دی جاتی ہے کہ یہ قطعیت کے درجے پر فائز ہوتی ہے، محض عقل کی بنیاد پر اسے راجح قرار نہیں دیا جاتا۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول، 45/1، مصر)
حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله نے انتہائی حکمت اور فراست سے تقابل کی یہ صورتیں اور او ران کا حل تحریر فرمایا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله نے اسی موضوع پر تصنیف کر دہ کتاب ”موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول“ میں تفصیل سے ان کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے جو عقل کو نقل پر ترجیح دینے کی صورت میں پیش آتی ہیں ، لہٰذا قدرے اختصار کے ساتھ اس کے چند مباحث ذکر کیے جاتے ہیں، تاکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ عقل پرستوں کا موقف خود عقل کے نزدیک بھی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
عقل پرستوں کے موقف پر علامہ ابن تیمیہ کا تجزیہ
علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کا کہنا ہے کہ جو لوگ عقلی او رنقلی دلائل میں تعارض کی صورتیں پیدا کرکے تاویل کی اہمیتوں پر زور دیتے ہیں، ان میں پہلا نقص تو یہ ہے کہ یہ خود آپس میں کسی موقف پر متفق نہیں۔
ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کا موقف ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے جنت، جہنم ، آخرت، ملائکہ کے متعلق جن امو راور کیفیات کا اظہار کیا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،روز محشر میں نہ ان جسموں کا بعینہ اعادہ ہو گا نہ جنت کا عیش وسرور اور جہنم کے مصائب وتکلیف جسمانی اور مادی نوعیتوں کی حامل ہوں گی، انبیاء نے یہ خلاف حقیقت چیزیں اس مصلحت کے تحت بیان کی ہیں کہ اس کے بغیر علم سے کوری عوام کے ذہن میں ان حقائق کا اتارنا ناممکن تھا۔ ابن سینا نے ”رسالة أضحویہ“ میں یہی مسلک اختیار کیا ہے ۔ ( سرسید کا موقف بھی یہی ہے، چناں چہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ” انبیاء تمام کافہ أنام (تمام لوگوں) کی تربیت کرتے ہیں جن کا بڑا حصہ قریب کل کے محض ناتربیت یافتہ جاہل وحشی ، جنگلی ، بدوی، بے عقل وبدوماغ ہوتا ہے ۔ اس لیے انبیاء کو یہ مشکل پیش آئی ہے کہ ان حقائق ومعارف کو… ایسے الفاظ میں بیان کریں کہ تربیت یافتہ دماغ اور کوڑی مغز دونوں برابر فائدہ اٹھائیں… وعدہ، وعید، دوزخ وبہشت کے جن الفاظ سے بیان ہوئے ہیں ان سے بعینہ وہی اشیاء مقصود نہیں۔“ تفسیر القرآن: البقرہ، تحت آیة رقم:25)
اس گروہ کو وہمی گروہ کے نام سے موسوم کرنا چاہیے ، ان میں پھر دو گروہ ہیں ،ایک گروہ کا کہنا ہے کہ انبیاء جنت، جہنم، آخرت کی حقیقت سے واقف تھے، مگر عوام کی ذہنی سطح کے پیش نظر بیان کرنے سے قاصر تھے، دوسرا گروہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بڑہانکتا ہے کہ خود انبیاء بھی ان حقائق سے ناواقف تھے ، ان کا علم بھی فقط ظواہر تک محدود تھا، علم وادراک کا یہ شرف صرف حکماء اور فلاسفہ کو حاصل ہے، جو ظواہر پر قناعت کرنے کے بجائے اس کے پوشیدہ معانی اور حقائق کی جلوہ طرازیوں سے بھی بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسرے گروہ کا موقف ہے کہ انبیاء نے سرے سے ایسے ظواہر کی تلقین ہی نہیں کی جس سے جنت وجہنم، ملائکہ وغیرہ کی جسمانیت اور مادی ہونے پر استدلال کیا جاسکے، چناں چہ قرآن کریم میں جہاں جہاں جنت وجہنم ، ملائکہ کے متعلق الفاظ ومعانی جسمانیت اور مادیت کے سانچے میں ڈھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تو یہ فوراً تاویل کے درپے ہو جاتے ہیں، جو درحقیقت تحریف ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ گروہ درحقیقت محرفین کا گروہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ عقل پرست کتاب الله کی مخالفت پر تو متفق ہیں، لیکن خود کسی رائے پر اتفاق نہیں کرسکتے۔ (بیان موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 4,3/1، مصر، مجموعہ الفتاوی لابن تیمیة:84,83/4، بیروت)
اگر دینی حقائق، الہیات، ما بعد الطبعیات کی صحت واستواری کا تعلق عقل وادراک کی طرفہ طرازیوں سے ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ عقل سے کیا مراد ہے ؟ کیا عقل سے ”غزیرہ“ وہ مَلَکہ اور صلاحیت واستعداد مراد ہے جو تفاوت درجات کے ساتھ تمام انسانوں میں موجود ہے ؟ یا وہ علوم وفنون مراد ہیں جو عقل کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس سے وہ ”غزیرہ“ ملکہ اور صلاحیت مراد نہیں ہو سکتی، کیوں کہ وہ تو عقل اور نقل دونوں کے لیے بمنزلہ شرط کے ہے ، اس کا اپنا کوئی مستقل مؤقف یا مسلک ہے ہی نہیں۔ اس لیے وہ کسی عقیدے اور نظریے کا حامی ہے نہ مخالف۔
رہی دوسری صورت کہ اس سے مراد وہ علوم وفنون ہیں جن کو عقل ودانش کی کارفرمائیوں نے جنم دیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کا براہ راست دین سے کیا تعلق ؟ دینی حقائق ( توحید ، رسالت ونبوت اور معاد، جنت وجہنم وغیرہ) کا ثبوت عقل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نبی اوررسول کی خبر کی بنا پر تسلیم کیا گیا ہے، اس صورت حال میں علوم عقلی کو دین کی بنیاد ٹھہرانا اصولاً غلط ہے، نہ ان سے دینی حقائق کی صحت واستواری پر کوئی روشنی پڑتی ہے اور نہ ان پر ان کا وجود وثبوت مبنی ہے۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:47/1، مصر)
نقلیات پر عقلیات کو ترجیح دینے کا موقف اس بنا پر بھی مسترد کرنے کے لائق ہے کہ جہاں نقلیات کا دائرہ یقین اور قطعیت لیے ہوئے ہے وہاں عقلیات سراسر نقص کا شکار ہیں، عقل ایک ہی موقف پر دو متضاد نتائج فراہم کرسکتی ہے ، چناں چہ عقل پرستوں کی متضاد آرا کی وجہ سے حق و باطل کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے، مثلاً قرآن کریم میں روئت بار ی تعالیٰ کی خوش خبری سنائی گئی ہے او راہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اہل ایمان الله تعالیٰ کے دیدار سے لطف اندوز ہوں گے اور وہ محبوب حقیقی اپنے جلوے دکھا کر مشتاقانِ دیدار کے قلب وذہن کی بے قراریوں کو سامان تسکین فراہم کرے گا۔ لیکن عقل نے سوال اٹھایا کہ ”روئت“ کے معنی ”مرئی “ ( جسے دیکھا جارہا ہے ) کو نظر وبصر کا ہدف ٹھہرانے کے ہیں ؟ یا اس کا تحقق اس کے بغیر بھی ممکن ہے ؟ عقل پرستوں کا ایک گروہ ضرورت عقلی کی بنا پر کہتا ہے کہ یہ قطعی ناممکن ہے ، کیوں کہ عقل کسی ایسی روئت کا تصور ہی نہیں کر سکتیجس میں ”مرئی“ ( جسے دیکھا جارہا ہے ) کے وجود کا احاطہ نہ ہو پائے ( روئت بار ی تعالیٰ کو تسلیم کر لینے سے لازم آئے گا کہ الله تعالیٰ کا وجودمحدود ہو، جو آنکھوں کا ہدف بن سکے) دوسرا گروہ عقل کی بنیاد پر اس کی تردید کرتا ہے ، اس کا دعوی ہے کہ ”روئت “ کا مفہوم ”مرئی“ کا احاطہ کیے بغیر بھی پورا ہو سکتا ہے ۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 81/1، مصر)
اسی طرح الله تعالیٰ کی صفت علم کے بارے میں ایک گروہ کہتا ہے کہ علم الہیٰ جزئیات کو شامل نہیں دوسرا گروہ کہتا ہے علم الہی جزئیات زمانی کوبھی شامل ہے ، تیسرا گروہ کہتا ہے علم الہی جزئیات زمانی کو شامل تو ہے، لیکن جزئیات زمانی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کلی کی حیثیت سے۔ ( المسامرہ، ص:68)
عقلیات کی دنیا میں ریاضی ہی ایک ایسا فن ہے جس کے قطعی ہونے پر عقل پرستوں کو ناز ہے، لیکن اسے بھی حرف آخر نہیں قرار دیتے۔ معروف ریاضی وان بطلیموس کی مشہور کتاب ”المجسطی“ جو ریاضی کے نتائج پر مبنی ہے اس کے کئی مقدمات بحث طلب ہیں کئی ایسے ہیں جو صراحتاً غلط اندازوں پر مبنی ہیں۔
ریاضی کے بعد طبعیات کا درجہ ہے، جس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ جسم کی حقیقت کیا ہے ؟ اس بنیادی سوال پر بھی اہل عقل کا اتفاق نہ ہو سکا کوئی اسے مادہ اور صورت سے تربیت پذیر مانتا ہے، کوئی کہتا ہے یہ اجزاء لاتتجزی سے بنا ہے او رکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت عقلی کی بنیاد پر ان دونوں صورتوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔ پھر یہ اجزاء لاتتجزی یا جواہر فردہ کیا ہیں ؟ اس پر بھی کوئی فیصلہ کن رائے نہیں ۔ ابوالحسن البصری جیسا دقیقہ رس، علامہ جوینی جیسا معقولی ، ابوعبدالله الخطیب جیسا فاضل… سب عقل کی پر پیچ وادیوں میں حیران وپریشان ہیں، کسی مسئلے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:89,88/1)
اب بتائیے جو عقل ہر موقف پر متضاد رائے فراہم کر سکتی ہو اسے قطعیت کے درجے پر فائز کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ قطعی مؤقف تو اسے کہتے ہیں جس کے برعکس دوسرا موقف قائم نہ ہو سکے، یہاں تو اختلاف آرا کا ایک طوفان برپا ہے ، ایک ہی شے عقلی لحاظ سے حق بھی ہے باطل بھی ، ہدایت بھی ہے گم راہی بھی۔
اس کے برخلاف قرآن وحدیث میں ہر بنیادی اور اصولی مسئلہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اس کے دلائل و براہین میں کوئی تضاد کا پہلو نہیں، اسی بات کو قرآن کریم نے اپنے وحی ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ ﴿أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا﴾․ ( النساء:82)
ترجمہ:” کیا غور نہیں کرتے قرآن میں او راگر یہ ہوتا کسی اور کا سوا الله کے تو ضرور پاتے اس میں بہت تفاوت۔“
بلکہ وحی کی غرض وغایت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ان تمام اختلافات کو یکسر مٹا دے جو انسانی فہم کی نارسائیوں نے پیدا کر رکھے ہیں۔﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُول﴾․ (النساء:59)
ترجمہ:” اے ایمان والو! حکم مانو الله کااور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف الله کے اور رسول کے۔“
نقلیات میں جن چیزوں کو خلاف عقل سمجھا جاتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اس کی بنیاد موضوع احادیث ہیں یا پھر ان میں کہیں دلالت واستنباط میں خلل ہے ، تیسری کوئی صورت نہیں۔(موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول،83/1، مصر)
خلاصہ یہ کہ انبیاء کبھی ایسی چیزوں کی اطلاع نہیں دیتے جو عقلاً محال ہوں یا عقل ان کی نفی کرتی ہو، بلکہ ان کی اطلاع ایسی چیزوں کے بارے میں ہوتی ہے جن کے حقائق جاننے سے عقل قاصر اور عاجز ہوتی ہے۔(موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:83/1، مصر)
کون ہے جو علامہ رازی رحمہ الله کی شخصیت سے واقف نہ ہو؟ جو عقلیات میں امامت کے درجے پر فائز ہیں ، انہوں نے اپنے اشعار میں فلسفہ اور عقل کی نارسائیوں کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے، تمام اشعار کا خلاصہ اس ایکشعر سے حاصل ہو سکتا ہے #
ولم نستفد من بحثنا من طول عمرنا
سوی أن جمعنا فیہ قیل وقالوا
ترجمہ:” ہم نے تمام عمر بحث ومباحثے کے باوجود اپنے دامن میں اس کے علاو ہ کچھ نہیں سمیٹا کہ فلاں کا یہ قول ہے اور فلاں کا یہ قول ہے۔“
حتی کہ علامہ غزالی رحمہ الله بھی اس گروہ سے دست بردار ہو کر ریاض سنت کی شمیم آرائیوں سے قلب ونظر مہکانے لگے ۔ ان کی روح بھی اس عالم میں پرواز ہوئی کہ سینے پر صحیح بخاری تھی اور آنکھیں ابواب وروایات سے فیض یاب ہو رہی تھیں۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:90/1)
تھوڑی دیر کے لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ نقلیات کو جانچنے کے لیے عقل ہی درست اور واحد معیار ہے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کس عقل کو حکم اور معیار بناتے ہو؟
اگر تم فلاسفہ کی عقل کوحکم بناتے ہو تو وہ خود کسی موقف پر متفق نہیں، ان میں تو ہر آنے والا گزرنے والے کے قول کی تردید کرتا ہے ۔
اگر ادباء کی عقل کو فیصل قرارا دیتے ہو تو ان کا یہ کام نہیں، ان کا تعلق تو بس نوادرات وحکایات سے ہے۔
اگر اہل طب، اہل ہندسہ، ریاضی دانوں کی عقل کوفیصل قرار دیتے ہو تو ان کو حدیث ( نقلیات ) سے کیا سروکار؟
اگر محدثین وفقہاء کی عقل کو معیار بناتے ہو تو وہ تمہیں سرے سے پسند ہی نہیں، بلکہ محدثین کو تو تم سادہ لوح اور کند ذہن تصور کرتے ہو۔
اگر ملحدین کی عقل پسند ہے تو ان کے نزدیک خدا پر ایمان لانا جہالت اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اگر اہل سنت والجماعت کی عقل پسند ہے تو شیعہ ومعتزلہ اسے پسند نہیں کرتے……۔
اب بتائیے کس کی عقل کو کس بنیاد پر فیصل اور حَکَم قرار دو گے؟ (السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامی، ص:33)
موضوع کی نزاکت او راہمیت کے پیش نظر اسے قدرے تفصیل سے لکھا ہے، کیوں کہ عقل پرست معتزلہ، جدید وقدیم منکرین حدیث ، سر سید اوران کے جدّت پسند پیروکاروں کا یہ اتفاقی اور بنیادی موقف ہے کہ عقل کو بہر صورت نقل پر ترجیح ہوگی، اس کی آڑ میں کسی نے نبوت ورسالت، جنت وجہنم، ملائکہ اور معجزات کا مذاق اڑایا تو کسی نے حدیث رسول کو بازیچہ اطفال بنا کر اپنی بے عقلی کے جوہر دکھائے۔ اس لیے طوالت کا خوف کیے بغیر اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور کوشش کی ہے کہ اس بحث کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔
ایک شبہ او راس کا جواب
شبہ: گذشتہ تحریر پڑھ کر کسی کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ عقل کی شہادت سرے سے ماننے کے لائق ہی نہیں ، کیوں کہ یہ ہر موقف پر دو متضاد رائے فراہم کر سکتی ہے۔
جواب : ہر گز نہیں، ہم عقل کی اہمیت سے نہ صرف یہ کہ واقف ہیں، بلکہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہیں ۔ عقل پرستوں سے ہمار ا اختلاف عقل کے دائرہ کار کے متعلق ہے، اس اختلاف کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عقل کی دو قسمیں ہیں ۔ 1.عقل سلیم۔ 2.عقل سقیم۔
1...عقلِ سلیم وہ ہے جو علوم نبوت اور وحی پر صدقِ دل سے ایمان لائے او راس میں مناسب رنگ بھرے ( جیسا کہ متکلمین کا طریقہ ہے)۔
2...عقل سقیم وہ ہے جو وحی پر حَکَم بن کر الحاد وزندقہ کو فروغ دے۔
لہٰذا جب ہم عقلیات کی شہادت اور اس کے دلائل کو مشکوک ٹھہرا کر ابطال کرتے ہیں تو اس کا تعلق عقلسقیم سے ہے، نہ کہ عقل سلیم سے۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:98/1، مصر)
عقل کا دائرہ کار اور اس کے استعمال کا صحیح مصرف
علم کے تین ذرائع ہیں:۱۔ حواسِ خمسہ۔۲۔ عقل۔۳۔ وحی۔ ہر ایک کا اپنا محدو ددائرہ کار ہے۔ جن چیزوں کا علم حواسِ خمسہ ( آنکھ، کان، ناک، زبان،لمس یعنی چھونا) سے ہوتا ہے، اسے نری عقل سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک دیوار ہے ،اسے ” دیکھ“ کر اس کا رنگ معلوم کیا جاسکتا ہے، لیکن آنکھیں بند کرکے نری عقل سے اس کارنگ معلوم کرنا ناممکن ہے، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل سے حاصل ہوتا ہے، انہیں حواس کے ذریعے معلوم نہیں کیا جاسکتا،مثلاً آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ پتہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے، اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔
غرض جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں عقل کوئی راہ نمائی نہیں کرتی او رجہاں حواس خمسہ جواب دے رہیں، وہاں سے عقل کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حد پر جاکر رک جاتا ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے۔ مثلاً اسی دیوار کے بارے میں یہ معلوم کرنا اس کو کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ ناراض ہو گا۔ اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ الله تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے یہی وہ دائرہ ہے، جس سے عقل کو متجاوز ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس اقلیم میں صرف وحی ، کتاب اور الله کے برگزیدہ انبیاء اور رسولوں کی ہی حکم رانی ہے او رانہیں کا سکہ چلتا ہے۔
عقلیات کا کام تویہ ہے کہ یہ نقلیات کے تابع بن کر اس میں مناسب رنگ بھرے ، اس کی نوک پلک سنوار کر اسے منظم نظامِ فکر کی حیثیت سے پیش کرے، جیسا کہ متکلمین اسلام نے اس فریضہ کو انجام دے کر نہ صرف فہم وادراک کے نئے سانچے مہیا کیے، بلکہ عقل پرستوں کے بڑھتے ہوئے الحاد وزندقہ کے سیلاب کو بھی مضبوطی سے روکا۔ (جزاھم الله عنا وعن جمیع المسلمین․) (جاری)