بھٹکتی ہوئی دنیا اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
مولانا اسرار الحق قاسمی
عصر حاضر میں دنیائے انسانیت پر گہرائی کے ساتھ نگاہ ڈالنے سے واضح طورپر معلو م ہوتا ہے کہ دنیا تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف جارہی ہے اور اس دنیا میں آبادبے شمار انسان صحیح راستہ سے بھٹک کر ان گنت مسائل سے دوچار ہورہے ہیں۔اس پر مزید ستم یہ کہ ایسے نازک ترین حالات میں بعض طاقتیں دنیا کو مزید تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور مادیت و مفادات پر مبنی نظریات نوع انساں کی غلط سمت میں راہ نمائی کررہے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اربوں انسانوں کی زندگی ہرسطح پر مصائب ومسائل کے بھنور میں پھنس کر داؤپر لگ گئی ہے۔یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ فوری طور سے خدا کی سب سے پسندیدہ مخلوق کی زندگی اور اس کے مستقبل کے تحفظ کے لیے کوئی جامع لائحہ عمل ونظام پیش کیا جائے اور وہ افراد جن کے پاس انسانی زندگی کا جامع ودرست نظریہ ونظام ہے، وہ آگے بڑھ کر پوری انسانیت کے سامنے اس نظریہ و نظام کو پیش کریں ۔ تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھاراستہ مل جائے۔ جہاں تک سوال اس قوم وملت کا ہے جس کے پاس انسانی زندگی کا درست نظام ونظریہ اور جامع لائحہ عمل موجود ہے،توروئے زمین پر بود وباش اختیار کرنے والی تمام اقوام وملل میں صرف امت مسلمہ ہی وہ ملت ہے جس کے پاس انسان کی زندگی اور اس کے مستقبل کے تحفظ کا صحیح راستہ ہے۔
یہ درست ہے کہ اللہ رب العزت نے انسانوں کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے اور انہیں نیابت کا حق دار بھی ٹھہرایا ہے، جس کی بنیادپر وہ غور وفکر کی صلاحیت رکھتے ہیں ، دنیا میں آگے بڑھنے کے طریقے جانتے ہیں، یہاں تک کہ ضروریات زندگی سے متعلق بہت ساری اشیا کو فراہم کرنے اور مصنوعات تیارکرنے کے متحمل بھی ہوسکتے ہیں ، وہ زمین کے فاصلے تیزی کے ساتھ طے کرنے کے لیے ریلوں او ر ہوائی جہاز جیسی برق رفتار چیزوں کی ایجاد کرسکتے ہیں اور کھوج بین کرتے ہوئے چاند اور دیگر سیاروں پر بھی پہنچ سکتے ہیں، لیکن ان تمام صلاحیتوں کے ساتھ باری تعالی نے ان کے اندر بھول اور نسیان کی صفت بھی رکھی ہے، جس کے سبب وہ بہت سی چیزوں وباتوں کو بھول جاتے ہیں اور زندگی میں بار بار غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔اسی طرح بنی نوع انساں کوبہت سے علوم سے متصف کرنے کے باوجود اس کی معلومات کومحدود رکھا گیا ہے۔ ماضی میں کیا ہوا ہے ؟ نہ کسی انسان کو اس کا پورا علم ہے اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟ نہ ہی اسے اس کا یقینی علم ہے۔ یہاں تک کہ انسان اپنے ہی زمانہ کے بہت سے لوگوں کے احوال وکوائف کے بارے میں بھی نہیں جانتا اور بہت سے لوگوں کے مزاج سے بھی اسے کماحقہ واقفیت نہیں ہوتی۔اس سے انداز ہ لگا یاجاسکتا ہے کہ کسی بھی انسان کا پوری نوع انساں کے لیے بنایا ہوا قانون یا نظام درست نہیں ہوسکتا۔چناں چہ بعض وہ فلاسفر یا ماہرین، جنہوں نے اپنی عقل و معلومات کی بنیاد پرانسانی زندگی کے لیے مختلف نظام اور قوانین تیار کیے اور عوام الناس نے ان کو اپنے حق میں بہتر سمجھ کر اپنی زندگی میں نافذ کیا ، وہ راستہ سے بھٹک گئے، اس حالت میں وہ اپنی منزل مقصود تک تو کیا پہنچتے؟ خود ان کی زندگی الجھنوں کا شکار ہوکررہ گئی ۔ ڈارون ، فرائڈ ، ڈرکایم اور کارل مارکس کے وضع کردہ انسانی زندگی سے متعلقہ نظام حیات اورنظریات نے نوع انساں کوصحیح راستہ سے بھٹکادیااور آج ان کے نقصانات بڑی تباہی کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔
معلوم ہوا کہ نوع انساں کواپنی زندگی کے لیے ایسے نظام اور قوانین کی ضرورت ہے جو پوری طرح سے درست ہوں اور ان میں نہ کسی طرح کا نقص ہو نہ اس کا امکان موجود ہو۔ظاہر سی بات ہے ایسا نظام صرف اسی ذات کا بنایاہوا نظام ہوسکتا ہے جس کا علم ہر شے پر محیط ہو اور جو اپنے تمام بندوں کے مزاجوں سے واقف ہو ،چاہے وہ بندے مشرقی ممالک کے رہنے والے ہوں یا مغربی ممالک کے ، وہ ان کے ماضی سے بھی پورے طور پر واقف ہوا ور اسے ان کے مستقبل کا بھی یقینی ومکمل علم ہو۔ ایسی ذات سوائے اللہ رب العزت کے کوئی اورہوہی نہیں ہوسکتی ۔اس لیے کہ اسی نے اس دنیا کو بنایا ، اسی نے اس میں مو جود ان گنت مخلوقات کو پیدا کیااور اسی نے انسانوں کی تخلیق کی اور ان کو مختلف مزاج اور صلاحیتیں عطاکیں۔چناں چہ انسانوں کی زندگی کو کام یاب بنانے اور انہیں ان کی حقیقی منزل تک پہنچانے کے لیے خالق دوجہاں نے انسان کو دین اسلام کی شکل میں ایک جامع نظام عطاکیا۔ اس نظام کو باری تعالی نے حیات انسانی کے مختلف ادوار میں اپنے انبیا ورسل کے ذریعہ تمام انسانوں تک بھیجا،تاکہ ہر دور کے لوگ اس سے مستفید ہوں اور کام یاب زندگی گزاریں۔قرآن مجید میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ باری تعالی ارشاد فرماتا ہے۔” ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجاتواس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سواتمہارا کوئی معبود نہیں“۔ (اعراف:59)ایک اور جگہ ارشاد فرمایا” اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم !اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“۔(الاعراف: 65)ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا گیا” اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا ” اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“۔(الاعراف: 85)یعنی انسانوں کی کام یابی کا راستہ پیغمبروں کے ذریعہ ہر دور میں بتایا جاتا رہا۔ آخر میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے دین اسلام کوبھیجاگیا اور اس دین کی تکمیل کا اعلان کر دیا گیا۔ ارشاد باری ہے” اب میں نے تمہارے لیے دین کو تام کردیا ہے اورتم پر اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا ہے“۔(المائدہ:3)یعنی اب یہی دین، جس میں دنیا میں زندگی گزارنے اور آخرت میں بھی سرخ روہونے کے تمام ترطریقے موجودہیں، قیامت تک پیداہونے والے انسانوں کی بھلائی و کام یابی کے لیے ہے۔
ایسے میں وہ خوش نصیب قوم، جس کے پاس دین اسلام کی روشنی ہے ، اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس روشنی سے دیگر تمام انسانوں کوبھی روشناس کرے۔انہیں بتائے کہ جس راستہ پر تم چل رہے ہو وہ کام یابی کاراستہ نہیں ہے، خالص مادیت کا وہ راستہ، جو تم نے اپنے لیے منتخب کیا ہوا ہے، وہ تمہیں بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔اگر تم دنیا وآخرت دونوں جہاں میں کام یاب ہونا چاہتے ہوتو تمام عالموں کے رب نے جودین تمہارے لیے متعین کیا ہے اس کو مضبوطی سے تھام لو اور پوری زندگی اسی کے مطابق گزاردو ، اس صورت میں تم بے شمار مسائل سے خلاصی پاجاؤگے، تمہارا وجود ایک دوسرے کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگا اور تمہاری انفرادی زندگی بھی آئینہ کے مانند صاف و شفاف ہوگی اور تمہاری اجتماعی زندگی بھی بہت سے عیبوں وبرائیوں سے پاک ہوجائے گی، پھر تمہیں اپنی زندگی کو نہ ہی پرتکلف بنانے کی ضرورت ہوگی ، نہ تمہیں عارضی تعیشات کے حصول کے لیے رات دن کاسکون برباد کرنا پڑے گا اور نہ تمہیں بے شمار خواہشات کے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔ جو مزہ تمہیں سادہ زندگی میں آئے گا وہ مزہ پرتکلف زندگی میں نہ آئے گا، جو مزہ تمہیں دوسروں کی مدد کرنے میں آئے گا وہ مزہ خطیر رقم کو صرف اپنی ذات تک خرچ کرنے میں نہ آئے گا، جو مزہ تمہیں عاجزی و انکساری کے ساتھ بات کرنے میں آئے گا ، وہ مزہ تمہیں سینہ پھلاکر بات کرنے میں نہ آئے گا، جو مزہ تمہیں سچ بولتے ہوئے آئے گا وہ مزہ تمہیں جھوٹ بولتے ہوئے نہ آئے گا اور جومزہ تمہیں مساوات اور انصاف قائم کرنے میں آئے گا وہ مزہ ظلم وجبر اور زیادتی وناانصافی میں نہ آئے گا۔ایسے ہی جو دلچسپی تمہیں اپنے اعمال کو درست کرنے میں ہوگی ، دوسروں پر نقد کرنے میں نہ ہوگی۔
ایسے بہترین دین وخدائی نظام کو جس پر چل کر انسانی زندگی میں انقلاب برپا ہوجائے، پوری دنیائے انسانیت کے سامنے لانا مسلم امت کی ذمہ داری ہے ۔ اس لیے بھی کہ قرآن و حدیث اور دینی تعلیمات کا گراں قدر سرمایہ اس کے پاس ہے اور اس لیے بھی کہ اسے اس بات کی ذمہ داری عطا کی گئی ہے کہ وہ بہترین امت ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیگر تمام انسانوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور انہیں اچھائیوں کی طرف بلائے اور برائیوں سے روکے۔اللہ تعالی خود ارشاد فرماتا ہے”تم بہترین امت ہو، جو سارے انسانوں کے لیے وجود میں لائی گئی ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو“۔(آل عمران:110)اس آیت سے دوباتیں صاف طور پر معلوم ہوتی ہیں ۔ایک یہ کہ امت مسلمہ دیگر تمام قوموں اور جماعتوں میں بہترین امت ہے اور اسے امتیازی خوبیوں سے نوازاگیا ہے، دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسے نہ صرف مسلمانوں کے لیے، بلکہ سارے انسانوں کے لیے وجود میں لایا گیا ہے اور قیامت تک آنے والے ہر دور میں اسے انسانوں کی صحیح راستہ کی طرف راہ نمائی کرنی ہے۔آج دنیا میں جو تباہی رونما ہورہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی قومیں اسلام کی روشنی سے دور ہیں اور اپنی عقل کے مطابق ان کے جی میں جو آتا ہے کرڈالتی ہیں ۔
یہاں ذرارک کر موجودہ دور کے مسلمانوں کو دواعتبار سے اپنابھی محاسبہ کرلینا چاہیے کہ کیا واقعی وہ مذکورہ آیت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں ؟ اور کیا وہ خود بھی اس دین وراستہ کو کماحقہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں جس کو دوسروں تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے؟سچائی یہ ہے کہ دونوں ہی اعتبار سے امت مسلمہ کے افراد غفلت کے شکار نظر آرہے ہیں۔اگر چہ اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اللہ کے بعض بندے دین کی روشنی کو پھیلانے اور دینی نظام کی خوبیوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے، جب کہ یہ پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے کہ جب خود زیادہ تر مسلمان عملی اعتبار سے انتہائی کمزور نظر آتے ہیں اور ان کی زندگی دین کے مطابق دکھائی نہیں دیتی۔بلکہ جس طرح دیگر قوموں کے افراد اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، بہت سے مسلمان بھی اسی طرح مادیت کے پرفریب راستوں میں بھٹکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اپنے مقام کو پہچانے اورفکری وعملی طور پر پوری طرح سے دین اسلام کے نظام اور تعلیمات کو اپنی زندگی میں بسائے ، پھر اپنی ذمہ داری کوپوراکرتے ہوئے بقیہ تمام انسانوں کو اس کی دعوت دے، تاکہ ان کی زندگی مصائب و مسائل سے خلاصی پاجائے اور وہ تباہی سے محفوظ ہوجائیں ۔