Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1434ھ

ہ رسالہ

2 - 16
تعلیم کی فضیلت و اہمیت
مولانا سمیع الحق جدون

انسانی زندگی میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت ایک مسلم حقیقت ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر جو خاص زور دیا ہے اور تعلیم کو جو فضیلت دی ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظام نے وہ اہمیت اور فضیلت نہیں دی ہے۔

اسلام سے قبل جہاں دنیا میں بہت سی اجارہ داریاں قائم تھیں وہاں تعلیم پر بھی بڑی افسوس ناک اجارہ داری قائم تھی۔اسلام کی آمد سے یہ اجارہ داری ختم ہوئی۔ دنیا کے تمام انسانوں کو چاہے وہ کالے ہوں یا گورے، عورت ہو یامرد،بچے ہوں یا بڑے، سب کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کی ہدایت دی۔اسلام نے نہ صرف یہ کہ علم حاصل کرنے کی دعوت دی،بلکہ ہر شخص کا فرض قرار دیا ہے۔ آسمان وزمین، نظام فلکیات، نظام شب وروز،بادوباراں ،بحرودریا ،صحرا و کوہستان،جان دار بے جان ،پرندو چرند، غرض یہ کہ وہ کون سی چیز ہے جس کا مطالعہ کرنے اور اس کی پوشیدہ حکمتوں کا پتہ چلانے کی اسلام میں ترغیب نہیں دی گئی؟

پیغمبر صلى الله عليه وسلم نے ناخواندگی کے خلاف اعلان جنگ کیا، اگر تعلیم اہم نہ ہوتی تو پیغمبرصلى الله عليه وسلم  ناخواندگی کے خلاف جنگ کیوں کرتے؟حالاں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ناخواندگی کے خلاف جنگ میں کافی دلچسپی لی تھی۔عربوں میں ناخواندگی اس قدر عام تھی کہ اقوام عالم میں انھیں ”ان پڑھوں کی قوم“کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے انھیں لکھنے پڑھنے کی ترغیب دی۔تعلیم وتعلم کے سلسلے کا باقاعدہ آغاز کیا،اس عمل کو خوب سراہا،اہل علم کی عزت افزائی کی گئی،لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی گئی،پیغمبرصلى الله عليه وسلم کی اس جدوجہد کی وجہ سے عربوں کا ناخواندہ معاشرہ ایک تعلیم یافتہ اور قابل تقلید معاشرہ بن گیا۔

مختصر یہ کہ اسلام نے علم کی دعوت دینے،اس کاشوق دلانے ،علم کی قدرومنزلت بڑھانے ،اہل علم کی عزت افزائی کرنے،معلم ومتعلم کے فرائض منصبی اور اداب کے بیان فرمانے،پڑھانے کے لیے موٴثر طریقے وضع کرنے،تعلیمی کارناموں کو سراہنے،نظام ونصاب کی راہ نمائی اور اس کے اثرات ونتائج واضح کرنے،علم کے آداب بیان کرنے اور اہل علم کی مخالفت اور بے عزتی سے روکنے میں جو بھر پور اور مکمل ہدایات پیش کی ہیں اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔

تعلیم کی اہمیت قرآن کی روشنی میں
قرآن میں نازل کردہ پہلا حکم الٰہی ہی پڑھنے سے متعلق ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ ”پڑھو اپنے رب کے نام ساتھ ،جس نے پیدا کیا“گویا پڑھنا علم کا عنوان اور اس کی کنجی ہے۔جب پہلی وحی پڑھنے سے متعلق ہوتو علم کی فضیلت اور اہمیت کی اس سے واضح دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟

تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کی زیادتی کی دعا کی تعلیم دی ہے، فرمایا﴿وقل رب زدنی علماً﴾”اور کہیے اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما“۔امام قرطبی  لکھتے ہیں کہ ”اگر کوئی چیز علم سے افضل اور برتر ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتے کہ وہ اس میں اضافہ کی دعا کریں،جیسا کہ علم طلب کرنے کا حکم دیاگیا ہے“۔

اہل علم حضرات کو قرآن نے بہت بلند مقام عطاکیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یرفع اللہ الذین اٰمنو منکم والذین اوتو العلم درجٰتٍ﴾”اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان لوگوں کے، جن کو علم عطاہوا ہے،درجے بلند کرے گا“۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”علماء اور عام مسلمانوں سے سات سو درجہ فوقیت رکھتے ہیں، دو درجوں کا فاصلہ پانچ سو برس کی مسافت ہوگا“۔اس سے اہل علم کی فضیلت اور ان کے بلند مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان پر جتنے احسانات جتلائے ہیں ان میں سے ایک احسان سیکھنے اور سکھانے کا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿خَلَقَ الْإِنسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیَان﴾․انسان کو بات سکھانے کے احسان کو جتلایا۔عام طور پر انسانوں میں بھی یہ رواج اور دستور نہیں کہ وہ معمولی معمولی باتوں کو جتلائے،تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ بات کیسے مناسب ہوگی کہ وہ معمولی معمولی احسانات کو جتلائے؟سکھانے کے اس عمل کو جتلانے سے اس کی اہمیت اور فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔

طلب علم کی ترغیب قرآن نے دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین﴾․”سو کیوں نہ نکلے ہر فرقہ میں سے ان کا ایک حصہ تاکہ سمجھ پیدا کریں دین میں“ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:﴿فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون﴾․”سو پوچھو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے ہو“۔

اس کے علاوہ قرآن کے کئی آیاتوں سے علم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،اس سے زیادہ اہمیت کیا ہوگی کہ قرآن میں علم کا ذکر اسی ۸۰ بار اور علم سے نکلے ہوئے الفاظ کا ذکر سینکڑوں بار ملے گا؟

تعلیم کی اہمیت تعلیمات نبوی کی روشنی میں
حدیث کی کتابوں میں ہمیں علم سے متعلق پورے پورے ابواب ملیں،گے، مثلاًصحیح بخاری میں وحی کی ابتدااور ایمان کے بعد ہی علم کا باب شروع ہوجاتا ہے، جس میں حافظ ابن حجر کے بقول 74 حدیثیں اور صحابہ کرام وتابعین کی 22روایتیں ہیں۔اسی طرح صحاح ستہ کی کتابوں میں بھی علم سے متعلق ابواب ہیں۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم وتربیت کو بعثت کا مقصد قرار دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے”میں استاد بنا کر بھیجا گیاہوں“ایک اور روایت میں ہے کہ ”میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں“۔پہلی روایت سے تعلیم اور دوسری روایت سے تربیت کی اہمیت کا اندازہ لگتا ہے۔ گویا آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی تعلیم وتربیت ہے۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  کا ارشاد ہے”اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔“(بخاری )ایک روایت میں ہے کہ ”فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اس کے کام سے خوش ہوکر اور عالم کے لیے آسمانوں اور زمین میں ہر چیز مغفرت کی دعا کرتی ہے، یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی ۔عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسے سارے ستاروں پر چاند کی۔ “(ابو داوٴد)

علم کی فضیلت یہی کیا کم ہے کہ طالب علم کے لیے فرشتے پر بچھاتے ہیں ۔ کیا فرشتے کسی وزیر،صدر ،یا کسی جاگیردار کے لیے پر بچھاتے ہیں؟نہیں، ہرگز نہیں ، بلکہ یہ طالب علم کی خصوصیت ہے اور زبان نبوت سے علماء کی فضیلت اور ان کی قدرو منزلت پر زور دینا تعلیم کی فضیلت نہیں تو اور کیا؟

یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ اسلام نے تعلیم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے۔رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا ارشاد ہے:طلب العلم فریضةعلی کل مسلم”علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے“۔مولانا عاشق الٰہی بلند شہری اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ”اسلام سراسر عمل کا نام ہے۔ماں کی گود سے لے کر قبر کے گڑھے میں پہنچنے تک احکام ہی احکام ہیں۔حکم کی تعمیل چوں کہ بغیر علم کے نہیں ہوسکتی ہے، اس لیے احکام دین کا جاننا اور احکام پرعمل کرنا انسان کا اولین فریضہ ہے“۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے تعلیم حاصل کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور علمائے امت کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ لوگوں کو دین سکھاتے رہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے”علم سیکھواور لوگوں کو سکھاؤ، فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ،کیوں کہ میں انسان ہوں، جو اٹھا لیا جاؤں گا اور علم بھی عنقریب اٹھ جائے گا اور فتنے ظاہرہوں گے(جن کی وجہ سے شریعت اسلامی یہ سے ناواقفیت ہو جائے گی)حتیٰ کہ دو شخصوں میں اختلاف ہوگا ،تو ان کو کوئی تیسرا نہ ملے گا،جو(احکام شریعت کے مطابق )ان کے درمیان فیصلہ کردے“۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو علم حاصل کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”بے شک لوگ تمہارے تابع ہیں اور بے شک بہت سے لوگ تمھارے پاس زمین کے دور دراز گوشوں سے دینی سمجھ حاصل کرنے کے لیے آئیں گے ،تو ان سے اچھا سلوک کرنا“۔(ترمذی)

اس سے زیادہ عزت کی بات کیا ہوگی کہ پیغمبرصلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام جیسے عظیم المرتبت لوگوں کو علم حاصل کرنے والوں کی قدر واحترام کرنے ، ان کی خدمت ودل داری کا خیال رکھنے ، ان کی آمد سے دل گیر نہ ہونے، ان کو علوم سے نوازتے رہنے اور ان سے حسن سلوک رکھنے کا حکم دیا۔

ابن عبدالبر نے اپنی کتاب”جامع بیان العلم وفضلہ“ میں علم کی فضیلت او راہمیت کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے ۔حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ رسول الله صلى الله عليه وسلم  سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہے : ” علم سیکھو، کیوں کہ الله تعالیٰ کے لیے علم سیکھنا خشیت، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت ،اس کا پڑھنا پڑھانا تسبیح،اس کی جستجو جہاد، ناواقف کو سکھانا صدقہ او راس کی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا ثواب کا ذریعہ ہے۔ نیز علم تنہائی کا ساتھی ، دین کا راہ نما ،خوش حالی وتنگ دستی میں مدد گار، دوستوں کے نزدیک وزیر ، قریبی لوگوں کے نزدیک قریب اورجنت کی راہ کا مینار ہدایت ہے ۔ اس کے ذریعے الله تعالیٰ کچھ لوگوں کو اوپر اٹھاتا ہے ۔ اور انہیں بھلائی میں راہ نمائی ، قیادت وسرداری عطا کرتا ہے ۔ جن کی پیروی کی جاتی ہے ، وہ بھلائی کے راہ نما ہوتے ہیں، جن کے نقش قدم پر چلا جاتا ہے اورجن کے افعال کو نمونہ بنایا جاتا ہے ۔ فرشتے ان کے دوستی کی خواہاں ہوتے ہیں اورپنے پروں سے ان کو چھوتے ہیں ۔ ہر خشک اور تران کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے ، یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں ، جان دار ، خشکیوں کے درندے اور جانور ، آسمان اور اس کے ستارے تک ۔ علم ہی کے ذریعے الله کی اطاعت وعبادت کی جاتی ہے ، اس کی حمد وثنا ہوتی ہے ، اسی سے پرہیزگاری ہوتی ہے ، اسی سے صلہ رحمی کی جاتی ہے ، اسی سے حلال اور حرام جانا جاتا ہے۔ وہی راہ نما اور عمل اس کا پیروکار ہے ۔ بدبخت اس سے محروم رہتے ہیں۔“

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایمان کے بعد تمام نعمتوں میں سب سے بڑی دولت ” علم“ اور ”دین کی سمجھ“ ہے ، رسول الله صلى الله عليه وسلم  کا ارشاد ہے کہ ” الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ “ معلم انسانیت کے اس ارشاد کے مطابق سب سے بڑی نعمت ، دکان داری ، مال داری ، زمین داری، وزارت وصدارت اور بینک بیلنس نہیں ہے، بلکہ دین کی سمجھ ہے ، جس کے سامنے تمام چیزیں ہیچ ہیں۔ ایک دانا کا قول ہے کہ الله تعالیٰ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت عقل ہے اور کمالیت میں سب سے بڑا کمال ” علم کا کمال“ ہے ، یعنی علم سے بڑا کوئی کمال نہیں۔

تعلیم کی اہمیت اسلاف امت کی نظریں
صحابہ کرام اور تابعین نے بھی تعلیم کی اہمیت، نیز لوگوں کو زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے پر ابھارنے اور جہالت کے برے نتائج سے آگاہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

حضرت علی  کا فرمان ہے: ” جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا آسمان کے فرشتوں میں اسے عظیم کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔“ سفیان ثوری فرماتے ہیں: ” میری دانست میں اشاعتِ علم سے زیادہ افضل کوئی عبادت نہیں“ انہیں کا قول ہے” اے قوم عرب! علم حاصل کرو، ورنہ مجھے ڈر ہے کہ علم تم سے نکل کر غیروں میں چلا جائے گا اور تم ذلیل ہو کر رہ جاؤگے علم حاصل کرو، کیوں کہ علم دنیا میں بھی عزت ہے اور آخرت میں بھی۔“

امام احمد بن حنبل  فرماتے ہیں:”کھانے پینے سے کہیں زیادہ انسان علم کا ضرورت مند ہے“۔حسن بصری  فرماتے ہیں:”اگر اہل علم نہ ہوتے تو لوگ جانوروں جیسے ہو جاتے“۔ یعنی اہل علم ہی لوگوں کو جانوروں کی صف سے نکال کر انسانیت میں داخل کراتے ہیں ۔حضرت ابو ذر فرماتے ہیں: ”جس شخص کی یہ تجویز ہو کہ علم کا طلب کرنا جہاد نہیں تو وہ اپنے عقل و تجویز میں ناقص ہے“۔ زمیری فرماتے ہیں کہ علم نر(مذکر) ہے اور اس کو مردوں میں وہی پسند کرتے ہیں جو مرد ہوں۔“

حضرت معاویہ بن سفیان حج کے موقع پر میدان میں بیٹھے تھے،پہلو میں بیوی بیٹھی تھی،کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے گرد بھیڑ لگی ہوئی ہے،اور طرح طرح کے مسئلے ان سے پوچھے جارہے ہیں۔دریافت کیا:”کون ہیں“؟بتایاگیا کہ ’عبداللہ بن عمر ہیں۔“ یہ سن کر حضرت معاویہ نے بیوی سے کہا:”اللہ کی قسم! یہی شرف ہے،دنیا و آخرت کا“۔

حسن بصری فرماتے ہیں” عالم کی موت اسلام کی عمارت میں ایک ایسا شگاف ہے جو کبھی بند نہیں ہو سکتا۔“ جب کاتب وحی اور ماہر قرآن انصاری عالم حضرت زید  بن ثابت کا انتقال ہوا تو عبدالله بن عباس نے فرمایا: ”جو یہ دیکھنا چاہیے کہ علم کیسے اٹھتا ہے وہ دیکھ لے، علم اس طرح اٹھتا ہے ۔“ ابن مبارک فرماتے ہیں:” مجھ کو تعجب آتا ہے اس شخص پر جو علم کی طلب نہ کرے کہ اس کا نفس اس کو کسی بزرگی کی طرف کیسے بلاتا ہے؟“ بعض حکماء کا قول ہے کہ ہمیں دو شخصوں پر جو ترس آتا ہے اور کسی پر نہیں آتا۔ ایک طالب علم پر، جو علم طلب کرتا ہے، لیکن سمجھتا نہیں اور دوسراا ُس پر کہ علم کو سمجھتا ہے اور اس کو طلب نہیں کرتا ہے۔“ امام شافعی  کا قول ہے:” علم کا طلب کرنا نفل سے افضل ہے۔“ بعض علماء فرماتے ہیں : ” بہترین نعمت عقل اور بد ترین مصیبت جہالت ہے۔“

حضرت وہب فرماتے ہیں: علم کی برکت سے خسیس آدمی باشرف، بے قدر انسان باعزت ، نادار شخص مال دار اور بے وقعت باوجاہت ہو جاتا ہے۔“ حضرت فضیل بن عیاض کا قول ہے :”علم سکھانے والے کا آسمانوں میں بہ کثرت ذکر کیا جاتا ہے ۔“ حضرت ابن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں : ” فقہ کی مجلس میں بیٹھنا ساٹھ سال عبادت سے زیادہ بہتر ہے ۔“ حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں: ”فرائض کے بعد طلب علم سے زیادہ افضل کوئی چیز نہیں ہے۔“

حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں : ” دنیا میں کسی کو نبوت سے زیادہ افضل چیز نہیں دی گئی اور نہ ہی نبوت کے بعد علم وفقہ سے زیادہ افضل اور اعلیٰ چیز کسی کو عطا ہوئی “۔ کسی نے عرض کیا:یہ علم وفقہ کن سے حاصل کیا جائے؟“ فرمایا: ”تمام فقہائے کرام سے حاصل کرو۔“

حضرت ابوذر اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما فرماتے ہیں : ” علم کا ایک باب سیکھنا ہمیں نفل نماز کی ایک ہزار رکعت پڑھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور علم کا ایک باب جاننا ہمیں نفل نماز کی سو رکعت سے زیادہ پسند ہے ۔“ حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : ” علم کے عظیم الشان ہونے کے لیے یہی ایک بات کافی ہے کہ جو اس میں کمال نہیں رکھتا وہ بھی اس کا دعوے دار ہے اور اپنی طرف علم کی نسبت سے خوش ہوتا ہے اور جہالت کی مذمت میں یہی ایک بات کافی ہے کہ خود جاہل شخص اس سے برأت کا ظہار کرتا ہے۔“

علم سب سے بڑی سرداری
علم سب سے بڑی شرافت اور سرداری ہے۔ ایکحکیم کا قول ہے کہ علم سب سے بڑی شرافت ہے اورا دب وانسانیت سب سے اعلیٰ ہے۔ ابن المفقع فرماتے ہیں کہ علم حاصل کرو، بادشاہ ہوئے تو اونچے ہو جاؤ گے، عام آدمی ہوئے تو زندہ رہ سکو گے۔

علم وہ جوہر ہے،جس نے غلاموں اور نوکروں کو خلافت کی کرسی پر بٹھایا۔ انہیں قوموں کا سردار بنایا۔ ایک دفعہ حجاج بن یوسف نے خالد بن صفوان سے پوچھا:” بصرہ کا سردار کون ہے “؟ خالد نے جواب دیا: ” حسن“ حجاج نے تعجب سے کہا:” یہ کیوں کر ممکن ہوا حسن تو غلاموں کی اولاد ہے؟“ خالد نے کہا کہ ” حسن اس لیے سردار ہیں کہ لوگ اپنے دین میں اس کے محتاج ہیں اور وہ علم کی دنیا میں کسی قسم کے محتاج نہیں۔ الله تعالیٰ کی قسم !میں نے بصرہ میں کسی کو نہیں دیکھا جو حسن کے حلقے میں پہنچنے کی کوشش نہ کرتا ہو ۔ سب کو ان کا وعظ سننے او ران سے علم حاصل کرنے کی آرزو رہتی ہے ۔“ یہ سن کر حجاج نے کہا: ” والله! یہی سرداری ہے۔“

اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمر نے نافع بن عبدالحارث کو مکہ مکرمہ کا والی بنایا تھا۔ وہ ایک بار حضرت عمر کے پاس آئے تو آپ نے دریافت کیا کہ ”اپنا نائب کس کو بنا کر آئے ہو؟“ انہو ں نے بتایا: ” ابن ابزی کو “ حضرت عمر نے دریافت کیا :”ابن ابزیٰ کون ہے ؟ “ انہوں نے بتایا: ” ہمارا ایک مولیٰ ہے۔“ تو حضرت عمر نے فرمایا: ” تم نے ایک مولیٰ کو نائب بنایا ہے؟“ انہوں نے جواب دیا: ” وہ قرآن کریم پڑھنے والے اور مسائل وراثت کے عالم ہیں ۔“ تب حضرت عمر نے فرمایا: ” ہمارے پیغمبر حضرت محمدصلى الله عليه وسلم فرماچکے ہیں الله تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو اوپر اٹھائے گا اور کچھ کو پست کرے گا۔“ (مسلم)

ان واقعات سے یہ معلوم ہوا کہ اصل سرداری علم کی سرداری ہے اور اصل حکم ران علماء ہیں۔ کیوں کہ چشم نگاہ نے بڑے بڑے بادشاہوں کو علماء کی قدم بوسی کرتے دیکھا۔ ابو الاسود کا قول ہے کہ ” علم سے زیادہ معزز کوئی چیز نہیں۔ بادشاہ لوگوں پر حکم ران ہیں اور علماء بادشاہوں پر۔“

علم کی کنجی سوال ہے
علم کو چاردانگ عالم میں پھیلانے کی خاطر اسلام نے سوال کرنے کی ترغیب دی ہے، قرآن میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون﴾”اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھو۔“ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” علم وہ خزانہ ہے جس کی کنجی سوال ہے ، پس علم کا سوال کرو“۔ نیز آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” جاہل کو جہل پر خاموش نہیں رہنا چاہیے اور عالم کو اپنے علم پر چپکا نہیں رہنا چاہیے۔“ یعنی جاہل کو رفع جہالت کے لیے سوال کرنا چاہیے اور عالم کو اس کا جواب دینا چاہیے۔ حضرت سفیان ثوری عسقلان تشریف لے گئے اور کچھ دن وہاں رہے ، ان سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا، آپ نے فرمایا: ” مجھ کو سواری کرایہ پر لے دو کہ میں اس شہر سے نکل جاؤں، یہ ایسا شہر ہے کہ اس میں علم مر جائے گا۔“ حضرت عطا فرماتے ہیں کہ ” میں حضرت سعید ابن مسیب کے پاس گیا ،وہ روتے تھے۔ میں نے رونے کی وجہ پوچھی، انہوں نے فرمایا:” مجھ سے کوئی پوچھتا نہیں، اس لیے رورہا ہوں۔“

طلبہ بعض اوقات مسائل پوچھنے سے شرماتے ہیں، حالاں کہ شرمانے سے انسان علم سے محروم رہ جاتا ہے۔ کسی کا قول ہے کہ جو استاد سے پوچھتے وقت شرمائے تو لوگوں کے سامنے اس کا عیب ظاہر ہو گا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا انصار کی عورتوں کے بارے میں فرماتی ہیں ۔”رحم الله نساء الأنصار، لم یکن الحیاء ویمنعھن ان یتفقھن فی الدین“ یعنی ”الله تعالیٰ انصار کی عورتوں پر رحم فرمائے کہ دین کی سمجھ حاصل کرنے میں حیا ان کو نہیں روکتی۔“ حضرت ام سلیم رضی الله عنہا نے رسول الله سے عرض کیا کہ الله تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا، اگر عورت کو احتلام ہو جائے کیا اس پر غسل واجب ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں جب وہ پانی (منی) دیکھے۔ (بخاری)

کسی شاعر نے خوب کہا ہے #
        ولیس العمی طول السؤال وانما
        تمام العمی طول السکوت
زیادہ پوچھنے والا اندھا نہیں ہوتا۔ اندھا وہ شخص ہے جو زیادہ خاموش رہتا ہے۔

عبادت پر علم کی فضیلت
اسلام نے عبادت پر علم کو فضیلت دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علمی مشاغل اور مذاکروں کو عام عبادت سے بڑھ کر درجہ دیا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”فقیہ واحد أشد علی الشیطان من الف عابد۔“ کہ”ایک فقیہ عالم شیطان کے لیے ایک ہزار عابدوں سے بھاری ہے۔“ ایک اور روایت میں ہے : ” ایک روز رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ کرام کے دو گروہ الگ الگ دو محفلیں منعقد کیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک محفل میں تسبیحات ہو رہی تھی اور دوسری محفل میں علمی مذاکرہ ہو رہا تھا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم دونوں کو دیکھ کر خوش ہوئے او رخود علمی مذاکرہ کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔“ ( ابن ماجہ:94/1)

ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ تمام رات علمی مذاکرہ او رگفت گو کرتے رہے۔ جب صبح کا وقت قریب ہوا۔: ( تہجد کا وقت ) تو حضرت ابو موسیٰ اشعری نے یاد دلایا کہ ” امیر المؤمنین !نماز کا وقت ہونے الا ہے ۔“ حضرت عمر رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ ” یہ بھی نماز ہی ہے ،جس میں ہم اس وقت مصروف ہیں۔“

ابن الحکم کا قول ہے کہ ” میں امام مالک کے پاس سبق پڑھتا تھا۔ میں نے اپنی کتاب نماز پڑھنے کے لییبند کی ۔“ آپنے فرمایا: ” اے فلاں! جس ( نفلی نماز) کے لیے تو اٹھا ہے و ہ اس سے بہتر نہیں، جس میں تو تھا، بشرطے کہ نیت درست ہو۔“( احیاء العلوم)

خلاصہ کلام یہ کہ علمی مشغلہ نفلی نمازوں سے بہتر ہے، حضرت عبدالله بن عباس فرماتے ہیں کہ ” رات کے کچھ حصہ میں علم پر تبادلہ خیال مجھے نفلی نمازیں پڑھنے سے زیادہ پسند ہے ۔“ حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کا قول ہے کہ ایک گھڑی علم کا مذاکرہ ایک رات کے قیام سے بہتر ہے ۔“ امام شافعی فرماتے ہیں کہ: ” علم کا حصول نفل نماز سے افضل ہے ۔“

علم کی فضیلت دیگر عبادت پر بھی ثابت ہے۔ عبادت کا تسلسل ختم ہو سکتا ہے جب کہ علم کا اثر باقی رہتا ہے ، مثلا مرنے سے اعمال صالحہ اور عبادات جن میں روزہ، حج، نماز، زکوٰة اور دیگر امور شامل ہیں، کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے ، جب کہ علم کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، بلکہ اس کا دائرہ ختم اور تنگ ہونے کے بجائے وسیع سے وسیع ہوتا جاتا ہے۔

جس طرح علم عبادت سے بہتر ہے اسی طرح عالم بھی عابد سے بدرجہا بہتر ہے ۔ حضرت عمر ضی الله عنہ کا قول ہے کہ” ہزار شب بیدار ، روزہ دار عابدوں کا مر جانا ایسے عالم کی موت سے کم ہے جو خدا تعالیٰ کے حلال اور حرام کا ماہر ہو۔“

مال دولت سے علم کی بہتری
علم مال و دولت سے بہتر ہے۔اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کمیل بن زیاد سے کتنی عمدہ بات کہی تھی:
”علم مال دولت سے بہتر ہے،علم تمہاری نگہ داشت کرتا ہے، جب کہ مال و دولت کی نگہبانی تمہیں کرنی پڑتی ہے۔علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ جب کہ دولت خرچ کرنے سے کم ہوتی ہے۔ علم حاکم ہے جب کہ مال ودولت کی حیثیت محکوم کی ہے۔علم سے عالم کو زندگی میں سکون حاصل ہوتا ہے اور وفات کے بعد ذکر خیر ،جب کہ مال و دولت کا کام آدمی کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔مال و دولت کے ذخیرے رکھنے والے پردہ گم نامی میں چلے گئے ،جب کہ علماء زندہ و پائندہ ہیں۔اور جب تک دنیا باقی رہے گی ان کے نام بھی باقی رہیں گے اور وہ خود تو انتقال کر چکے، لیکن ان کے علمی کارنامے زندہ ہیں“۔

ایک روایت میں ہے کہ اہل بصرہ میں باہم مذاکرہ ہونے لگا۔ بعض نے کہا علم مال سے افضل ہے۔اور بعض نے کہا کہ مال علم سے افضل ہے۔ بالآخر حضرت ابن عباس کی طرف آدمی بھیج کر فیصلہ چاہا گیا۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ”علم افضل ہے“۔قاصد بولا :اگر ان لوگوں نے دلیل مانگی تو کیا کہوں گا؟“ انہوں نے فرمایا:”کہہ دینا کہ ”علم انبیاء کی میراث ہے اور مال فرعون کی،علم تیری حفاظت کرتا ہے۔اور مال کی تجھے حفاظت کرنی پڑے گی،اللہ تعالیٰ علم کی دولت اپنے محبوب بندوں کو ہی دیتا ہے اور مال میں یہ تخصیص نہیں۔محبوب و مبغوض دونوں کو دیتا ہے، بلکہ مبغوض کو عموماًزیادہ دیتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام آدمی ایک ہی طریقے پر ہو جائیں ،تو جو لوگ خدا کے ساتھ کفر کرتے ہیں،ان کے لیے ان کے گھروں کی چھتیں ہم چاندی کردیتے اور زینے بھی، جس سے وہ چڑھا کرتے ہیں ۔“علم خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا، بلکہ بڑھتا ہے اور مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے۔مال دار جب مرجاتے ہیں،تو ان کا تذکرہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور صاحب علم مرنے کے بعد بھی زندہ جاوید رہتا ہے۔صاحب مال سے ایک ایک درہم کا سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں پر لگایا؟ اور صاحب علم کا ایک ایک حدیث پر جنت میں درجہ بڑھے گا “۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ”حضرت سلیمان علیہ السلام کو اختیار دیا گیا تھا کہ علم ،مال اور سلطنت میں جو چاہو پسند کرو،انہوں نے علم کو پسند فرمایا تو مال اور حکومت علم کے ساتھ ان کو عطاہوئی“۔
رضینا قسمة الجبار فینا…لنا علم وللجھال مال
”ہم خدا کی تقسیم پر راضی ہیں جو اس نے ہمارے متعلق فرمائی ہے،یعنی یہ کہ ہمارے لیے علم اور جاہلوں کے لیے مال مقدر فرمایا۔“

لأن المال یفنی عن قریب …وان العلم باق لا یزال
”اس لیے کہ مال عنقریب فنا ہوجائے گا اور علم باقی رہے گا جسے زوال نہیں۔“

علم کی فضیلت جہاد پر
جہاد پر علم کی فضیلت ثابت ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ” اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے وہ قیامت کے دن علماء کی قدرومنزلت دیکھ کر اس کی تمنا کریں گے کہ کاش! اللہ تعالیٰ انہیں علماء کی صف میں اٹھاتا“۔حسن بصری کا قول ہے کہ”علماء کی قلم کی روشنائی شہداء کے خون کے مقابلے میں تولی جائے ،تو علماء کے قلم کی روشنائی کا پلڑا بھاری نکلے گا“۔حضرت ابو دردا فرماتے ہیں ”جویہ سمجھے کہ علم کی جستجو میں آناجانا جہاد نہیں ہے،اس کی عقل اور رائے میں نقص ہے۔“ایک صحابی کاقول ہے کہ ”اگر علم کے حصول کی کوشش کے دوران طالب علم کی موت آجائے ،تو وہ شہید ہے“۔

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں”علم حاصل کرو ،کیوں کہ اللہ کے لیے علم حاصل کرنا خشیت اور اسے دہرانا اور غورو فکر کرنا عبادت،اس کامذاکرہ کرنا تسبیح اور اس کی جستجوجہاد ہے“۔

جہاد پر علم کی فضیلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ جہاد کی فضیلت بھی علم ہی سے معلوم ہوتی ہے۔اس کی حدود وشرائط بھی علم ہی سے واضح ہوتی ہے۔مشروع جہاد اور غیر مشروع جنگ کا فرق بھی علم ہی سے معلوم ہوتا ہے،نفلی جہاد اور فرضی جہاد کا فرق بھی علم ہی بتاتاہے۔جب جہاد کی یہ ساری بار یکیاں اور حدیں علم ہی سے جانی جاسکتی ہے، تو پھر علم کی فضیلت بطریق اولیٰ ثابت ہوئی۔بغیر علم کے مجاہد بھی میدان جہاد میں غلطی کا مرتکب ہوسکتا ہے یا لاعلمی میں صحیح راہ سے بھٹک سکتا ہے۔

عمل کے لیے علم کی ضرورت ہے
علم عمل کے لیے ضروری شرط ہے تاکہ عمل صحیح ہوجائے۔اور اللہ کے حکم کے مطابق ہوجائے۔حسن بصریکاقول ہے کہ ”بغیر علم کے عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی راستہ چھوڑ کرچلے ۔بغیر علم کے عمل کرنے والا سدھار سے زیادہ بگاڑ پیدا کرے گا“۔امام بخاری نے صحیح بخاری میں”قول وعمل سے پہلے علم“کے عنوان سے باب قائم کیا ہے ،محدثین لکھتے ہیں کہ”امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ ”علم شرط ہے قول وعمل کی درستی کے لیے۔علم کے بغیر قول کا اعتبار کیا جا سکتاہے، نہ عمل کا، اس لیے علم کا مرتبہ ان دونوں سے پہلے ہے“۔

حضرت معاذ بن جبل  کی روایت ہے کہ ”علم عمل کا راہ نما ہے اور عمل اس کے تابع ہے ۔کوئی عبادت اس وقت تک صحیح ادا نہیں ہوسکتی جب تک عبادت کرنے والا یہ نہ جانے کہ عبادت کے ارکان اور ضروری شرائط کیا ہیں“۔

صحابہ کرام  نے پیغمبرصلى الله عليه وسلم سے عرض کیا کہ ”اعمال میں افضل عمل کونسا ہے؟“آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا”علم“۔انہوں نے عرض کیا کہ”ہم عمل کے بارے میں پوچھتے ہیں اور آپ علم کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں ۔“تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا،”علم کے ساتھ تھوڑا سا عمل کار آمد ہوتا ہے اور جہالت کے ساتھ بہت ساعمل بے سود ہے“۔ حضرت سفیان بن عیینہنے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ قول نقل کیا ہے کہ”جو بغیر علم کے عمل کرے گا ،وہ سدھارسے زیادہ بگاڑ پیدا کرے گا“۔

اس کی مثال ہم ایک روایت سے دیتے ہیں کہ جب پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے سامنے ایک شخص نے نماز پڑھی ،آپ صلى الله عليه وسلم اس کو بار بار واپس کرتے اور فرماتے کہ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی ہے۔اس شخص کے نماز پڑھنے کے باوجود آپ صلى الله عليه وسلم نے پڑھنے کا حکم کیوں لگاتے تھے؟کیوں کہ وہ عمل تو کرتے تھے، لیکن اس کے عمل کے ساتھ علم نہیں تھا کہ قومہ،رکوع ،سجدہ اور دیگر ارکان نماز صحیح ادا کرے ۔ اس لیے اس شخص کی نماز کویوں تصور کیا گیا کہ گویا اس نے نماز ہی نہیں پڑھی۔

اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ علم عمل کے لیے ضروری شر ط ہے۔ اس سے عمل کی تصحیح ہوگی، چاہے وہ عمل عبادات سے متعلق ہویا معاملات سے،ذاتی ہوں یا خاندانی ،سماج سے متعلق ہوں یا معاشرت سے،ہر لحاظ سے علم ازحد ضروری ہے۔

علم انسانیت کا راہ نما
علم انسان کو انسانیت سکھاتا ہے،اخلاقیات کی تربیت دیتاہے ۔علم کے بغیر انسان جانوروں جیسا ہوجاتا ہے،جیسا کہ حسن بصری کا قول ہے: ”اگر علماء نہ ہوتے تو لوگ جانوروں جیسے ہوتے۔ امام غزالی  بے علم انسان کو تو انسان قرار دینے کے لیے تیار ہی نہیں، فرماتے ہیں : ” بے علم کو انسان اس لیے قرار نہیں دیا کہ جو صفت انسان کو تمام جانوروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ علم ہی ہے ، انسان کو مرتبہ ومقام علم ہی کی وجہ سے ملا ہے اس کی جسمانی طاقت کی وجہ سے نہیں، انسان کے مقابلے میں اونٹ اور ہاتھی کہیں زیادہ بڑا جسم رکھتے ہیں ، شیر وغیرہ اس سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں ۔ بیل کا پیٹ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے او رمعمولی گوریا بھی اس سے کہیں زیادہ جنسی طاقت رکھتی ہے۔ انسان کو تو علم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔“ ( احیاء العلوم:12/1)

حضرت ابن مبارک سے کسی نے پوچھا کہ ” انسان کون ہے ؟ “ انہوں نے فرمایا: ” علماء“۔ پھر پوچھا، ” بادشاہ کون ہیں؟“ فرمایا : ” زاہد “ تیسری دفعہ پوچھا کہ ” کمینے کون ہیں؟“ فرمایا: جو لوگ اپنے دین کو بیچ کر کھاتے ہیں۔“ عرض یہ کہ عالم کے سوا اوروں کو انسان ہی نہیں کہا۔ اس لیے کہ جس خاصہ سے انسان کی جانوروں سے تمیز ہوتی ہے ، وہ علم ہے اور انسان اس وقت ہی انسان کہلائے گا کہ جس سے اس کو شرف ہو ، وہ اس میں موجود ہو ۔ اور انسان کا شرف تو کسی طاقت اور زورآوری سے نہیں، بلکہ علم ہی سے ہے

شاعر نے بھی انسان کی انسانیت کو علم سے مشروط کیا ہے ، فرماتے ہیں #
        علم ہی سے انسان، انسان ہے
        علم جو نہ سیکھے، وہ حیوان ہے

انسان کو انسانیت سکھانے کے لیے علم کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علم کو تشبیہ بارش سے دی گئی ہے ، یعنی جس طرح بارش سے زمین درست ہوتی ہے ، اسی طرح سے انسان کی انسانیت کی اصلاح ہوتی ہے ۔ قرآنی آیت ﴿فاحتمل السیل زبداً رابیاً﴾ میں علم کو پانچ وجوہات کے سبب بارش سے تشبیہ دی گئی۔
1...ان العلم ینزل من السمآء کذلک العلم من السمآء․ ”بارش آسمان سے اترتی ہے۔ اسی طرح علم بھی آسمان سے اترتا ہے۔“
2...ان صلاح الأرض بالمطر، فاصلاح الخلق بالعلم․” بے شک زمین کی درستگی بارش سے ہوتی ہے، پس مخلوق کی اصلاح علم سے ہوتی ہے۔“
3...ان الزرع والنبات لایخرج بغیر المطر، کذلک الأعمال والطاعة لا تخرج بغیر العلم․” بے شک کھیتی اور پودے بغیر بارش کے نہیں نکلتے ہیں، اسی طرح اعمال اور طاعت بغیر علم کے نہیں ہوتا ہے۔“
4...ان المطرفرع الرعد والبرق، کذلک العلم، فان العلم فرع الوعد والوعید․ ” بارشکڑک او ربجلی کی فرع ہے ۔ اسی طرح علم فرع ہے وعد اور وعید کی ۔“
5...ان المطر نافع وضارٌ، کذلک العلم نافعٌ وضار․” بے شک بارش مفید بھی ہے اور نقصان دہ بھی، اسی طرح علم نافع بھی ہے اور نقصان دہ بھی۔“
Flag Counter