Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1434ھ

ہ رسالہ

11 - 16
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ․․․․․․․ حیات وکارنامے
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی

پانچویں صدی اپنی انتہا کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں تھی، آفتابِ رسالت، جمال جہاں تاب سے نگاہِ انسانی کو محروم ہوئے عرصہٴ دراز گزرچکا تھا ،دنیائے اسلام نت نئے فتنوں میں مبتلا تھی ، اہلِ اسلام دینِ اسلام سے بیزار، اخروی زندگی سے بے بہرہ اور دنیاوی لذتوں میں مست نظرآرہے تھے،ایسے میں رحمتِ حق جوش میں آئی اور سرزمین بغداد سے چشمہٴ ہدایت کو جاری کیا جس سے ایک خلق کثیر فیض یاب ہوئی،یہ وہی عراق ہے، جو ابتدا ہی سے علم وعمل کا گہوارہ رہ چکا ہے، یہاں ایسی ہستیاں وجود میں آئیں جنہوں نے پیاسے اور تشنہ لوگوں کو حقائق اور معارف سے سیراب کیا اور مرکز علم نبوت سے کوسوں دورعلم وعمل کا وہ منبع جاری کیا جس سے دبستانِ علم وعمل لہلہا اٹھا،تاریخ شاہد ہے کہ اس تہذیب وتمدن کے گہوارے سے مختلف بلبلانِ علم وعمل نے جنم لیا، اسی سر زمین پر وہ ذاتِ عالی مرتبت پیدا ہوئی جن کا تذکرہ ہم ذیل میں کرنا چاہتے ہیں ۔

نام وپیدائش
آپ کا نام عبدالقادر ،کنیت ابو محمد ،لقب محی الدین ،پیدائش کا مقام جیلان ہے، آپ کی ولادت 471ھ مطابق1078ء کو ہوئی، جن کا سلسلہٴ نسب والد صاحب کی طرف سے سیدنا حضرت حسن تک اور والدہ ٴ محترمہ کی طرف سے سیدنا حضرت حسین  تک پہنچتا ہے ۔

ابتدائی حالات
آپ کے اندر ابتدا ہی سے وہ تمام صفات ظاہر ہونے لگیں جو مقامِ صدیقیت کے لیے مخصوص ہیں، ابتدا میں حفظِ قرآن،ادب،فقہ وغیرہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے علمی تشنگی کی تکمیل کے لیے شہر بغداد کا رخ کیا، وہاں پر آپ نے اس زمانہ کے مشہور اہل علم وفضل سے کسب فیض کیا ،جن میں ابوسعید اور ابو غالب باقلانی اور احمد بن المظفربن سوساور ابوالقاسم بن بیان، جعفر بن احمد السراج وغیر ہ سر فہرست ہیں۔

زمانہ ٴ طالبِ علمی کی ریاضت
زمانہٴ طالب علمی ہی سے حضرت شیخ مجاہدات وریاضات میں مصروف تھے، آپ خود فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ مجھ پر وہ بھی گزراہے کہ مجھ پر فاقوں کی کثرت ہوا کرتی تھی، ایک مرتبہ بڑا لمبا فاقہ ہوا، تقریباً بیس روز تک کچھ کھانے کی چیز دست یاب نہیں ہوئی اور میں بھوک کی شدت کو برداشت نہ کرسکا، اب میں گری پڑی چیزوں کی تلاش میں نکل پڑا ،تلاش کرتے کرتے میں ایک بازارپہنچا،جہاں پہنچ کر دیکھا کہ مجھ سے پہلے کئی محتاج بازار میں موجود ہیں تو میں ان کے لیے بازار کو چھوڑ کر واپس چلا آیا اور ایک مسجد میں آکر بیٹھ گیا اور ایسے محسوس ہونے لگا کہ میں موت سے مصافحہ کررہا ہوں، اچانک ایک آدمی اپنے ہاتھ میں روٹی اور بھنا ہوا گوشت لیے ہوئے مسجد میں داخل ہوا اور ایک کنارہ پر بیٹھ کر کھانے لگا ، اس نے لقمہ منھ تک اٹھایا ہی تھا کہ اس کی نظر مجھ پر پڑی، اس نے مجھ کو بھی کھانے پر بلایا، اولاً تو میں نے انکار کیا، مگر جب اس نے قسم دے کر بلایا تو میں پہنچ گیا اور کھانے میں شریک ہوگیا، دورانِ طعام اس نے گفتگو کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا تم کون ہو ؟ کیا نام ہے؟ کہاں کے رہنے والے ہو؟جب میں نے اپنا نام اور سکونت بتائی تو اس شخص کی حیرت کی انتہا نہ رہی، پھر اس شخص نے کہا کہ میں تم کو کئی دنوں سے تلاش کررہاہوں، تمہارا کوئی پتہ ہی نہیں چل رہا تھا، حتٰی کے میرا خرچ بھی ختم ہوگیا اور میں خود تین دن سے بھوکا ہوں، بھوک کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میرے لیے مردار بھی حلال ہوچکا تھا، میرے پاس سوائے تمہارے مال کے اور کچھ نہ تھا او رآج میں نے چوتھے روز تمہارے مال سے یہ خریداہے، تاکہ پیٹ میں کچھ پڑجائے،اب تک تو میں یہ سمجھ رہا تھا کہ تم میرے مہمان ہو، لیکن اب سمجھ میں آیا کہ میں تمہارا مہمان ہوں ،یہ تمہارا مال ہے، جو تمہاری والدہ نے تم کو پہنچانے کے لیے دیا ہے۔آپ نے اس شخص کے ساتھ حسن سلوک کا برتاوٴ کرتے ہوئے اس کو بھی کچھ مال دیااور اس کو رخصت کیا یہی وہ مجاہدات تھے جن کی وجہ سے حضرت شیخ کو آگے چل کراتنااونچامرتبہ نصیب ہوا، صحیح کہاا بن عطاء اللہ الاسکندری نے ”من لم تکن لہ بدایة محرقة لم تکن لہ نہایة مشرقة“ ․

جس کی مشقتوں سے بھر پور ابتدا نہ ہو اس کا مستقبل تاب ناک نہ ہوگا۔

حلیہ ٴ مبارک
آپ میانہ قد ،نحیف البدن ،کشادہ سینہ ،پتلے ہاتھ پاوٴں،لانبی داڑھی اور اونچی ناک والے تھے، آپ ہمیشہ صوفیانہ اور زاہدانہ لباس زیب تن کیے ہوئے رہتے تھے،ظا ہری سیرت کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیوں سے بھی آراستہ تھے، نیک خو،خوش مزاج، کریم النفس، وسیع الاخلاق، متواضع ، رقیق القلب اور مستجاب الدعوات تھے، جب کسی کو آزردہ خاطر دیکھتے تو اس کو مسرور کردیتے اور اس کی ضرورت پوری فرمادیتے ۔

طریقہٴ باطنی کی تکمیل
تزکیہٴ نفس ان تین فرائض ِمنصبی میں سے ایک ہے جس کی بنا پرنبیٴ اکرم صلى الله عليه وسلم کی بعثت ہوئی، تزکیہ کے معنی ظاہری وباطنی نجاسات سے پاک کرنا ہے۔ ظاہری نجاسات سے تو عام مسلمان واقف ہیں اور باطنی نجاسات مثلاً کفر وشرک ،غیرا للہ پر اعتمادِ کلی اور اعتقاداتِ فاسدہ ، تکبر، حسد ،بغض اور حبِ دنیا وغیرہ ہیں۔

فطری اور عملی طور پر کسی فن کے حاصل ہوجانے سے اس کا استعمال اور کمال حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ کسی مربی کے زیرِ تربیت اس کی مشق کرکے عادت نہ ڈالے ،سلوک وتصوف کی منزل میں کسی شیخِ کامل کی تربیت کا یہ مقام ہے کہ قرآن وسنت میں جن احکام کو عملی طور پر بتلایا گیا ہے ان کو عملی طور پر کرنے کی عادت ڈالی جائے ،آپ نے علم باطنی کی تکمیل شیخ حماد  اور ابو سعید کے زیر ِتربیت کی، اس کے بعد آپ نے اس باب میں وہ نمایاں خدمات انجام دیں ،جن کا احاطہ دشوار ہے ۔

حضرت شیخ کی باطنی خدمات
آپ نے﴿ اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول﴾ کے منازل طے کرتے ہوئے محبوب ِربّانی کے درجہ پر فائز ہوکر مخلوقِ خدا کی راہ بری و ہدایت کا کام شروع کیا، بغداد کی سرحد پر باب الازج کے پاس ایک مدرسہ، جو شیخ ابو سعید نے آپ کے سپرد کیا تھا ،وہاں بیٹھ کرلوگوں کو نصیحت کرنا شروع کیا، اتنا کثیر مجمع ہوتا تھاکہ مدرسہ تنگ دامنی کا شکوہ کرتا ،آپ نے اپنی خدمات کو وسعت دیتے ہوئے سلسلہ قادریہ کی بنیاد ڈالی ،دیگر سلاسل وطبقات کی شہرت توصرف ان کی حدود تک ہی محدود رہی، لیکن یہ سلسلہ اپنے حدود سے متجاوز ہوکر ہر خاص وعا م میں رائج ہوا ،آپ نے اپنے بعد اپنے تلامذہ کا ایک جمِ غفیر اور اپنے ملفوظات کا بیش بہا خزانہ امت کے لیے سرمایہٴ ہدایت کے طور پر چھوڑا،جس سے امت رہتی دنیا تک سیراب ہوتی رہے گی ۔

شیخ کی عالی شان
آپ کے علو مرتبہ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حفاظ حدیث نے آپ کی سوانح لکھی ، شیخ الاسلام علّامہ ذھبی(متوفی748ھ) نے آپ کی توصیف میں یوں لکھا ہے: الشیخ الامام، العالم، الزاہد، العارف، القدوة، شیخ الاسلام، علم الاولیاء۔ ان کے بعد حافظ ابن حجر (متوفی852ھ) نے بھی توصیفی کلمات لکھے ہیں ،اسی طرح علّامہ نووی ،ابن رجب حنبلی ،ابن کثیر،حافظ ابن عماد اور حافظ سمعانی نے بھی آپ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور آپ کی خدمات کا اعتراف ببانگ دہل کیا ہے ۔

حضرت شیخ کی علمی خدمات
آپ اپنے تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کے بعدبغدادہی کے ایک مدرسہ میں تدریسی خدمات پر فائز ہوئے ،یہیں سے آپ کے علمی وروحانی فیضان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ،آپ نے یہاں تدریس کے ساتھ افتا کا کام بھی شروع کیا ،آپ کے کمالِ علم کا یہ عالم تھا کہ دور دورسے استفتا آتے اور آپ ان کا برجستہ جواب لکھ دیا کرتے تھے، آپ کی وسعت نظری اور تبحرعلمی کی شاہد آپ کی کتب فتوح الغیب و غنیة الطالبین وغیرہ ہیں ۔

حضرت شیخ کی کرامات
کسی ولی سے کوئی خرقِ عادت امر ظاہر ہو تو اس کو کرامت کہتے ہیں، پوری امت اولیا کی کرامتوں کو مانتی ہے ،کرامات الأولیا حق، اولیاء سے صادر ہونے والی کرامات حق ہیں، کرامات کے باب میں آپ کو جو فوقیت حاصل ہے وہ کسی اور کو شائد ہی حاصل ہو ،شیخ عز الدین کہتے ہیں کہ جتنی کرامات آپ کی مشہور ہوئیں کسی اور کی اتنی تواتر سے مشہور نہیں ہوئیں۔

آپ امراء سے بے نیاز رہتے تھے اور بادشاہوں کے ہدایا وغیرہ قبول کرنے سے احتراز کرتے تھے ،ایک وقت خلیفہٴ وقت نے حاضر ہوکر اشرفیوں کا ذخیرہ پیش کیا، آپ نے حسب معمول انکارکیا، ادھر سے اصرار شدید ہوا، آپ نے اس ذخیرہ سے دو اشرفیاں لے کر آپس میں رگڑا تو اس سے خون بہنے لگا، پھر آپ نے خلیفہ سے مخاطب ہوکر فرمایا : اللہ سے شرم نہیں آتی کہ انسانوں کا خون بہاتے ہواور ان کا مال کھاتے ہواور اس مال کو جمع کرکے میرے پاس لاتے ہو؟ خلیفہ یہ منظر دیکھ کر بیہوش ہوگیا۔

ابو محمد اخفش کہتے ہیں میں سخت سردی میں آپ کے یہاں جایا کرتا تھااورآپ پر صرف ایک چادر ہواکرتی تھی، پھر بھی آپ کے جسم سے پسینہ ٹپکتا رہتا اور آپ کے ارد گرد شاگرد پنکھا ہلاتے رہتے ،بچپن سے ہی آپ سے کرامات کا ظہور ہونے لگا تھا۔ والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ ایّام رضاعت میں آپ احکام شریعت کا اتنا احترام کرتے تھے کہ رمضان بھر دن میں دوددھ نہیں پیتے تھے، ایک مرتبہ 29 شعبان کو ابر کی وجہ سے چاند دکھائی نہ دیا تو دوسرے دن آپ نے دودھ نہ پیا ،تحقیق کے بعد پتا چلا کہ وہ دن رمضان کا تھا۔

حضرت شیخ کے ملفوظات اور مواعظ
آپ کے ارشادات اور مواعظ میں انتہائی شدت کے ساتھ اتباعِ سنت وپیرویٴ شریعت کی دعوت دی گئی ہے، آپ نے وفات سے پہلے اپنے لڑکے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا :تجھ پر لازم ہے کہ اللہ کی اطاعت کرے اور اسی سے ڈرتا رہے اور کسی سے نہ ڈر،اللہ کے سوا کسی سے امید بھی مت باندھ اور اپنی تمام حاجتوں میں صرف اللہ ہی کی طرف رجوع کر اور جو کچھ مانگنا ہو صرف اسی سے مانگ، توحید کو لازم پکڑ اس لیے کہ توحید اجماعی مسئلہ ہے۔ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ مخلوق سے سوال کرنا ضعف ِمعرفت کی دلیل ہے، بیم ورجاء عارف کے دو بازو ہیں ۔ایک مرتبہ آپ نے فرمایا آخرت کو سرمایہ بناوٴاور دنیا کو اس کا نفع ۔اسی طرح ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:حصول مقصد میں ناکامی پر اللہ سے شکوہ کرنا ممنوع ہے ۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان ملفوظات کے آئینہ میں ہم اپنی زندگی کو جانچیں اور پرکھیں اور سوچیں کہ کیا وہ چیزیں جس کی حضرت پیران ِپیر نے امت کو دعوت دی ہے اور جن کی طرف امت کی راہ بری کی ہے وہ ہماری زندگی میں موجود ہیں؟ اور آج ہم شریعت مصطفوی صلى الله عليه وسلم سے کس قدر دور ہوچکے ہیں؟ خلاصہ یہ کہ حضرت شیخ نے اپنی پوری زندگی دعوت دین، احیاءِ سنت ،اور ہدایتِ خلق میں گزاردی اور آپ کے صحیفہٴ زندگی کی ایک ایک سطر احکامِ شرع کے مطابق تھی، مکتوبات ومواعظ کا ایک ایک لفظ قرآن وسنت سے ماخوذ ومستنبط ہے۔

آج جب کہ دنیائے اسلام سیدھے راستے سے بھٹک کر تباہی کی طرف گام زن ہے ،اس حا ل میں بھی امت محمدیہ کا شائد ہی کوئی فرد ہوگاجس کا دل حضرت شیخ کی عقیدت ومحبت سے خالی ہوگا، خصوصاً بر صغیر کے کروڑوں مسلمان تو آپ سے محبت وعقیدت کو سرمایہٴ سعادت ونجاتِ راہ سمجھتے ہیں۔

لیکن اولیائے کرام سے اس بے پناہ محبت کے باوجود آج ہم ذلت وپستی کے غار میں کیوں گررہے ہیں؟ کیا ہم نے اس بات پر کبھی غور کیا ہے؟ اگر ہم غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ ہم صرف زبانی ماننے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں، عملی زندگی میں ہم ان کی اتباع سے کتراتے ہیں او رجب تک عملی زندگی کو اختیار نہ کریں گے کام یابی ہمارا قدم نہ چومے گی۔

وفات
آپ کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے ،کسی نے 9/8اور کسی نے ”10“ کہا ہے، مشہور قول گیارہ تاریخ کا ہے، مہینہ ربیع الآخر متعین ہے اور 564ھ ہے، گویا کل عمر 90سال ہوئی ۔

شیخ کے تلامذہ
آپ کے مشہور تلامذہ میں ابن نجار ،علّامہ سمعانی  ،علامہ ابن عمر علی القرشی،حافظ عبد الغنی،موفق الدین بن قدامہ،عبدالرزاق بن موسٰی،شیخ علی ابن ادریس اور اس کے علاوہ کئی مشہور شخصیات ہیں ۔

آپ کی تصانیف
آپ کی تصانیف میں درج ذیل کتب بہت مشہور ہیں ”الغنیة لطالب الطریق الحق،الفتح الربانی، فتوح الغیب،الفیوضات الربانیہ،جلاء الخاطر فی الباطن والظاہر،سر الاسرار ومظہرالانوار فیما یحتاج الیہ الابرار،اٰداب السلوک والتوصل الی منازل الملوک،الکبریت الاحمر فی الصلوة علی النبی صلی الله علیہ وسلم،مراتب الوجود،یواقیت الحکم اللہ تعالی ہمیں شیخ کی کامل اتباع نصیب فرمائے ۔آمین ۔

اس مضمون کی تکمیل درج ذیل کتب کی مدد سے ہوئی :۔ ( طبقات الحنابلہ290/4 تا 304 بیروت) ( سیر اعلام النبلاء439/20 تا 453 بیروت) ( اعلام للزرکلی47/4) ( معجم المولفین307/5بیروت ) ( ہدیة العارفین596/1بیروت ) ( البدایة والنہایہ252/12بیروت ) (صفحات من صبر العلماء علی شدائدالعلم والتحصیل225اتحاد ) ۔ 
Flag Counter