بچوں کی تعلیم وتربیت
مولانا غیاث الدین دھامپوری
اسلامی نقطہٴ نظر سے بچہ کی آموزش کا دور ماں کے پیٹ میں قرار پانے والے نطفہ سے بھی پہلے شروع ہوتا ہے، بوقت نکاح زوجین میں حسن کردار اور اسلامی قدروں کی اہمیت بچہ کی کام یاب زندگی میں غیر معمولی تاثیر ہی کی وجہ سے ہے، جدید تحقیقات نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ماں باپ کی اپنی تربیت ،ان کے جذبات وخواہشات، ان کے علم و ذہانت کااثر براہ راست بچوں پر پڑتا ہے، اس لیے مثالی اور باکردار اولاد کی آرزو کے حوالہ سے باپ کے اقدام، نکاح اور بیوی کے انتخاب کا مرحلہ انتہائی نازک اور بڑا اہم ہے، گھر اور خاندان ہی اولاد کے روشن یا تاریک مستقبل کا حقیقی سبب ہے ،ماں باپ کو اولاد کی تربیت میں سستی اور کوتاہی ہرگز نہیں کرنی چاہیے، اولاد کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔
اولاد کی تعلیم و تربیت کے دو مدرسے
ایک مدرسہ ماں کی گود ہے، جہاں اس کی تربیت ہوتی ہے، یہاں معلمہ مربیہ خود اس کی ماں ہوتی ہے اور یہی بچہ کا پہلا مدرسہ ہے، اس مدرسہ میں جیسی تربیت ہوگی اسی طرح کے اثرات بعد کی زندگی میں مرتب ہوتے چلے جاتے ہیں اور دوسرا مدرسہ درودیوار کا مروجہ مدرسہ ہے، جہاں اس کا مربی معلم اور استاذ ہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں ماں باپ بچوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر صدقہ کرایا کرتے تھے، تاکہ ان کے دل سے مال کی محبت نکلے ،بخل کی عادت نہ ہو، اور غریبوں کی ہم دردی کا مزاج بنے، اس طرح بچپن ہی سے نمازوں کا شوق وذوق ان کے اندر پیدا کرتے تھے، خو د حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تواسے نماز پڑھنے کو کہا جائے اور جب دس برس کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کو تنبیہ کی جائے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت کی فکر حمل کے زمانے ہی سے کرتی رہیں، آج کتنے ماں باپ ایسے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد سے شکایت ہے کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ماں باپ کے علاوہ سب کی بات سنتی ہے، یہ بھی تو دیکھو کہ آپ نے اسی طرح تربیت کی تھی، یا نہیں؟ پہلے زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ اولاد بنے گی تو میری وجہ سے، بگڑے گی تو میری وجہ سے، اس زمانے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بنے گی تو خود بنے گی اور بگڑے گی تو خودبگڑے گی، جس کا نتیجہ لامحالہ یہی نکلے گا کہ اولاد تو بھگتے گی ہی، ماں باپ کو بھی بھگتنا پڑے گا، آج کل اولاد کی وجہ سے لوگ کتنے پریشان ہیں؟ اس کی وجہ صحیح تربیت نہ ہونا ہے، جب کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، بہر حال آج کا سب سے بڑا المیہ اور فکر یہ ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے صالح معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے اور جب صالح معاشرہ وجود میں نہیں آئے گا تو جرائم کی کثرت ہوگی۔
بچپن کی صحیح تربیت مستقبل میں کام یابی کی ضمانت
بچپن کی مثال ہمیشہ کمہار کی کچی مٹی سے دی جاتی ہے، بچوں کے کمہار اساتذہ اور والدین ہوتے ہیں، ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچے بڑے ہوکر مستقبل میں ملک وملت کا نام روشن کریں، کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ناکام ہوں، یہ فرض ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کریں اوراس کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، بلکہ صحیح اور منظم طریقہ سے ہم ایسی عادات کا بچوں کو خوگر بنائیں ،جس کے وہ عادی ہوجائیں، مثلاً معمولی غلطیوں کو بھی نظر انداز نہ کریں، بیجا لاڈ پیار کی وجہ سے بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگذر نہ کریں، کھیل کود کے لیے وقت مقرر کریں، بچپن ہی سے نماز کی عادت ڈلوائیں، صحابہ کرام کے سچے واقعات سنائیں، ادعیہ مسنونہ یاد کرائیں ،اگر مائیں اس طرح کا نظم وضبط کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کو اچھی اچھی عادات اور اطوار کی عادی بنائیں گی تو جلد ہی اس کا اچھا اثر بچوں میں ملاحظہ فرمائیں گی، کیوں کہ مستقبل میں یہی عادتیں کام یابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔
نئی نسل کو اسلامی ماحول اور دینی تربیت کی ضرورت
آج مسلمانوں کے بچے دینی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے کافی پستی میں ہیں اور ان بچوں کے حق میں دین سیکھنے کا دروازہ بند ہوتا جارہا ہے، چوں کہ عصری تعلیم میں مذہبی عقائد کا ذکر نہیں ہے، مسلمانوں کے بزرگوں اور دینی پیشواؤں کا تذکرہ نہیں ہے اور اسکولی نصاب میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے عقیدوں کے خلاف ہیں، اس میں دوسرے مذہب کے پیشواؤں کا تذکرہ اس انداز سے ملتا ہے کہ پڑھنے والے بچوں کے دلوں میں ان کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے اور بچوں کے سادہ ذہن پر دوسرے مذہب کے خیالات اور عقیدوں کی چھاپ لگ جائے ،انسانی فکر پرتعلیم کے ساتھ ساتھ ماحول کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات ماحول کا اثر تعلیم سے بھی بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ اسکولوں میں ہندو مذہب کی بنیاد پر تیار شدہ ڈرامے، ناچ گانے کی مشقیں ، کہیں کہیں رام لیلا اور دوسرے ہندو تہواروں کے منانے کے لیے خصوصی پروگرام، غرض کہ پورا ماحول بچے کے ذہن پر اثر ڈالتا ہے اور بتدریج اپنے سانچے میں ڈھال لیتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ بچوں کو اسکول میں داخل کرادینے کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں اور پھر سوائے فیس ادا کرنے یا امتحان پر بچوں کا نتیجہ معلوم کرلینے کے وہ بچوں کی دینی واخلاقی نگہ داشت کے بارے میں کوئی تعلق نہیں رکھتے۔
تادیب میں احتیاط
ماہرین کا کہنا ہے کہ مار پیٹ بچوں کی نشو ونما کے لیے نقصان دہ ہے، حد سے زیادہ زد وکوب بچوں کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اگر چہ والدین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کی اصلاح کے لیے انہیں ہلکی پھلکی سزا دیں، لیکن مارپیٹ اور جسمانی تشدد نہیں کرنا چاہیے، اس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بچوں کی نشوو نما میں مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور بچے ذہنی معذوری کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی، جس طرح چاہے، پٹائی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ایک تو اب قویٰ کمزور ہوگئے ہیں، بچوں میں تحمل نہیں رہا، ایک آدھ چھڑی لگادی تو الگ بات ہے، مگر ان پر غصہ نہیں نکالنا چاہیے، آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا حساب بھی ہوگا۔
شیخ العجم والعرب حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب سہارن پوری کو ایک صاحب نے خط لکھا کہ میں بچوں کو بہت مارتا ہوں؟ حضرت شیخ نے جواب دیا ”قیامت کا انتظار کرو“ کیا مطلب؟ قیامت کے دن تو حساب دینا پڑے گا، اس کی نافرمانی اور تمہاری سزا دونوں تو لے جائیں گے، اور انصاف کیا جائے گا ۔اس لیے بچوں کو زدوکوب کرنے سے پہلے اس کی سزا کا تصور بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
والدین کی عادات بچے جلد سیکھتے ہیں
بچے کی اچھی تربیت جہاں ان کے کام یاب مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے، وہیں یہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے، بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار اہم ترین ہوتا ہے ،بچہ کم عمری میں اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت محتاط رہنا چاہیے، ناپسندیدہ کاموں سے گریز کرنا چاہیے، بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرنا ہو تو نصیحتوں کے ساتھ ساتھ خود بھی اس سے پرہیز کرنا چاہیے، آپ دیکھیں گے کہ بچے سچ بولنے کے عادی ہوجائیں گے۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بچے اپنے والدین کی بری عادتیں جلدی سیکھ لیتے ہیں ،یہ تحقیق ایک سال تک جاری رہی۔ بہر کیف جوو الدین اپنے بچوں کو اچھے اور برے کے بارے میں بتاتے ہیں اگر وہ خود ہی ناپسندیدہ عادات کے مالک ہوں تو بچوں کی تربیت کیسے درست انداز میں کرسکیں گے؟!
بچوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت
بچوں میں قیادت کی صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے، ماہرین نفسیات کے مطابق اگر بروقت بچوں کو صحیح مواقع فراہم کردیے جائیں توجملہ صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے، نیز بچوں کی کوششوں کی تعریف ان میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہے، ماں باپ کا تلخ رویہ بچے کے اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے، اپنے خیالات کو بچے پر مسلط نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس میں پوشیدہ صلاحیتیں باہر نکالنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ،بچے کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں سامنے رکھتے ہوئے اس کے مزاج و طاقت کو پرکھ کر ہی اسے ہدایت دینا چاہیے، صلاحیت سے زیادہ توقعات رکھنے سے بچنے میں احساس کمتری پیدا ہونے لگتی ہے ،ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں پر کلاس میں اول پوزیشن لانے کا دباؤ کبھی نہیں ڈالنا چاہیے، مزید دباؤ ڈالنے کی صورت میں کبھی کبھی بچے خود سوزی اور خود کشی تک کرلیتے ہیں، مختلف سوالات کا نام بچپن ہے، بچے ہر پل کچھ نیا جاننا یا سمجھنا چاہتے ہیں، والدین مصروفیت کے باوجود بچوں کے سوالات کے جواب دیں، جھڑکیں نہیں ،بچوں کے سوالات کا صحیح جواب دینا ہی انہیں صحت مند علم فراہم کرے گا۔
تعلیم کے ساتھ تربیت اور بڑوں کا احترام زندگی کا جزءِ لاینفک ہے، ورنہ تعلیم سے خاک فائدہ ہوگا، اگرہم چاہتے ہیں کہ بچے بڑوں کا احترام کریں تو ہمیں بھی بچوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا پڑے گا، ان کے دوستوں کا بھی احترام واستقبال کرنا ہوگا، بچے کے دوست سے بھی بچے کی شکایت کرنا مناسب نہیں ہے، اس کے دوستوں کے سامنے اپنے بچوں کو ڈانٹنا، پھٹکارنا یا مارنا یا ان پر تنقید کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، بہر حال وقت کے پیش نظر مصلحت وحکمت کے ساتھ بچہ کو تربیت دیں۔
والدین کو اپنی اولاد کے روشن مستقبل اور مثالی انسان بنانے کے خواب کی تکمیل کے لیے ماحول کی اصلاح اور تعمیری خطوط پر ہونے والی کوششوں میں حصہ لینا بھی ضروری ہے، تاکہ بچے غلط راہ پر جانے سے ہر وقت محفوظ و مامون رہیں۔