Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1434ھ

ہ رسالہ

3 - 16
قضائے حاجت سے متعلق شرعی احکام
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

”جی ہاں ، کیوں نہیں!! ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں سب کچھ ہی سکھلایا ہے اور استنجے سے متعلق بھی ضروری ہدایات دی ہیں“۔یہ تاریخی کلمات حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان مشرکین کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے جو بطورِ استہزا اور طنز کہہ رہے تھے کہ ”تمہارے نبی تو (عجیب نبی ہیں جو ) تمہیں ساری ہی باتیں سکھلاتے ہیں ، حتیٰ کہ پیشاب پاخانہ کرنے کے طریقے بھی؟!“ تو ان کے جواب میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا ، وہ سرکارِ دو جہاں ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی جامعیت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے دینِ متین کی کامل تبلیغ کی واضح طور پر نشان دہی کرنے والا ہے،یہ دینِ اسلام کا اعجاز ہے کہ حضرت ِ انسان سے صادر ہونے والے ہر ہر کام سے متعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مبارک ارشادات موجود ہیں، ان ارشادات کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے والے ہی مسلمان کہلوانے کے مستحقِ اصلی ہیں، ورنہ ڈر ہے کہ ناقص دین کی وجہ سے کل بروزِ قیامت ﴿وامتازوا الیوم أیھا المجرمون ﴾ کہہ کے ان کو مجرمین کی صف میں ہی نہ کھڑا کر دیا جائے!!

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ بیان فرماتے ہیں کہ (بعض مشرکین کی طرف سے استہزا اور طنز کے طور پر ) ان سے کہا گیا کہ تمہارے پیغمبر (صلی الله علیہ وسلم) نے تو تم لوگوں کو ساری ہی باتیں سکھائی ہیں، یہاں تک کہ پاخانہ کرنے کا طریقہ بھی !حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا ہاں ! بے شک (انہوں نے سب ہی کچھ سکھایا ہے اور استنجے کے متعلق بھی ضروری ہدایات دی ہیں، چناں چہ ) انہوں نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رُخ کریں، یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں، یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھروں سے کم استعمال کریں، یا یہ کہ ہم کسی چوپائے (اونٹ، گھوڑے یا بیل وغیرہ ) کے فضلے(گوبر اور لید وغیرہ) یا ہڈی سے استنجا کریں۔

عن سلمان قال: قیل لہ: قد علَّمکم نبیکم (صلی الله علیہ وسلم) کل شيء، حتیٰ الخراء ة، قال: فقال:”أجل! نھانا أن نستقبل القبلة لغائطٍ، أو بولٍ، أو أن نستنجي بالیمین، أو أن نستنجي بأقل من ثلٰثہ أحجارٍ، أو أن نستنجي برجیع ٍ ، أو بعظمٍ“․ (صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة، رقم الحدیث:262،بیت الأفکار)

حدیثِ مبارکہ سے مستفاد امور
علامہ طیبی  اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حکمت سے بھر پورجواب دیا،وہ اس طرح کہ اس مشرک نے جب استہزاء ً پوچھا تھا تو حق یہ تھا کہ اس کو منہ توڑ جواب دیا جاتا، یا اس کے جواب میں بالکلیہ خاموشی اختیار کی جاتی، لیکن آپ نے اس کی بات اور اس کے استہزاء کی کوئی پروا نہیں کی اورایسا جواب دیا جو ایک شیخ اپنے مرید کی راہ نمائی کرتے ہوئے دیتا ہے، یعنی : اس استہزا کرنے والے کو یہ فرمایا کہ ”یہ کوئی قابل استہزا بات نہیں ہے، بلکہ یہ تو ایک اٹل حقیقت اور قابل اعزاز بات ہے اور جب ایسا ہے تو تم پر لازم ہے کہ ہٹ دھرمی چھوڑو اور صراط مستقیم کو اختیار کرو، یہ صراط ِ مستقیم تمہارے باطن اور ظاہر کو پلیدگیوں اور نجاستوں سے پاک کر دے گی“۔(فتح الملہم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة،2 /115، مکتبہ دار العلوم کراچی)

مندرجہ بالا حدیث ِ مبارکہ میں پیشاب پاخانہ کرنے سے متعلق چار ہدایات ارشاد فرمائی ہیں:

قضائے حاجت کے وقت کس طرف منھ کیا جائے؟
قضائے حاجت کے وقت اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منھ ہو اور نہ ہی پیٹھ ۔ یہ حکم قبلہ کے ادب و احترام اور تقدس کی خاطر تھا کہ کوئی بھی ذی شعور انسان، جو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا ادراک کرنے والا ہو ،وہ اس موقعہ پر کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منھ یا پشت کرنے کو بے ادبی شمار کرتے ہوئے اس طرز کے اپنانے سے گریز کرے گا۔

استنجا کس ہاتھ سے کیا جائے؟
دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ اس عمل کے لیے اپنا دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فوقیت دی ہے، اس ہاتھ کو اعلی،محترم ، مقدس ،صاف ستھرے اور نفیس کاموں کے لیے تو استعمال کیاجا سکتا ہے ،گھٹیا اور رذیل کاموں کے لیے نہیں، چناں چہ ! دائیں ہاتھ کے شرف و احترام کی وجہ سے استنجا کرتے ہوئے اسے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

کتنے ڈھیلوں سے استنجا کیا جائے؟
تیسری ہدایت یہ کی گئی ہے کہ استنجے کے لیے کم از کم تین ڈھیلوں کو استعمال کیا جائے،اس کی وجہ یہ تھی کہ عام طور پر صفائی تین پتھروں سے کم میں پوری طرح نہیں ہوتی،اس لیے حکم دیا گیا کہ تین پتھر استعمال کر کے اچھی طرح اور مکمل صفائی کی جائے،چناں چہ ! اگر کسی شخص کی صفائی تین پتھروں سے حاصل نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین سے زائد پتھر استعمال کرے، حتیٰ کہ کامل صفائی ہو جائے۔نیز! حدیثِ مذکور میں پتھر کا ذکر کیا گیا ہے، یہ اس زمانے میں ملنے والی عام چیز کی وجہ سے تھا، موجودہ دور میں شہروں میں بنے ہوئے پختہ بیت الخلا میں بوجہ گندگی پھیلنے کے اگر پتھروں کی جگہ استنجے کے لیے تیار کیے گئے خاص کاغذ (جسے ٹوائلٹ پیپر کے نام سے پہچانا جاتاہے ) استعمال کیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں،اسی طرح ہر وہ پاک چیز جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتاہو اور اس کا استعمال اس کام کے لیے موضوع بھی ہو اور جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہو۔(ڈھیلوں سے استنجے کرنے کے متعلق مزید تفصیل آگے رہی ہے۔)

جانوروں کے فضلات سے استنجا کرنے کا حکم
چوتھی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ استنجا کے لیے کسی جانور کی گری پڑی ہڈی یا ان کے فضلے (لید، گوبر وغیرہ)کو استعمال نہ کیا جائے، دراصل اس طرح زمانہ جاہلیت میں کر لیا جاتا تھا،حالاں کہ یہ فطرتِ سلیمہ کے خلاف اور بڑے گنوار پن کی بات ہے۔احادیثِ مبارکہ میں متفرق طور پر قضائے حاجت سے متعلق بہت سے احکامات مذکور ہیں ، نیز! فقہائے کرام نے ان احادیث کی روشنی میں بہت سے مسائل کتب ِ فقہ میں ذکر کیے ہیں، ذیل میں قضائے حاجت سے متعلق بعض اہم مسائل نقل کیے جاتے ہیں، تاکہ ہم اپنا یہ عمل بھی شریعت کے مطابق انجام دے سکیں:

قضائے حاجت سے قبل کی مسنون دعا
حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی بیت الخلا جائے تو چاہیے کہ پہلے یہ دعا پڑھے،” أَعُوْذُ بِاللّہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبائِثِ“(یعنی کہ: میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں خبیث جنوں اور خبیث جنّیوں سے)․

عن زید بن أرقم، عن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قال:”إن ھٰذہ الحشوش مُحْتَضَرَةٌ، فإذا أتیٰ أحدکم الخلاء فلیقل: أَعُوْذُ بِاللہ مِنْ الخُبُثِ و الخَبَائِثِ“․ (سنن أبي داود، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶، 1/3،دار ابن الحزم)

اس دعا کی حکمت اور فائدہ یہ ہے کہ اس دعا کی برکت سے انسان شریر جنات کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے، کیوں کہ یہ گندی جگہیں جنات وشیاطین کا مسکن ہوتی ہیں اور یہ مخلوق ان جگہوں پر آکر فراغت حاصل کرنے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے، اسی لیے سرکارِدو عالم صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے اس بات کی تعلیم دی گئی کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے ایسی جگہوں پر جاوٴ تو ان کے شرور سے بچنے کے لیے اللہ کی پنا میں آ جایا کرو،چناں چہ روایات میں آتا ہے کہ اس دعا کے پڑھنے والا شریر جن اورشریر جنّیوں کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

قضائے حاجت سے فراغت کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب بھی قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو ”غُفْرَانَکَ“ کہتے تھے(یعنی: اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتا ہوں)۔

عن عائشة، قالت: ما خرج رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم من الغائط إلا قال:”غُفْرَانَکَ“․(السنن الکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا خرج من الخلاء، رقم الحدیث:9825، موٴسسة الرسالة)

ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“․(یعنی: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے مجھ سے گندگی دور کی اور مجھے تکلیف سے عافیت دی)۔درحقیقت یہ دعا بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے کہ انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے ، اس کا ایک حصہ جسم کے لیے تقویت کا باعث بنتا ہے اور ایک حصہ بطورِ فضلہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے، اس غذا کا جسم سے خارج ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے،اگر یہ فُضلہ جسم سے نہ نکلتا توانسان کے لیے بہت تکلیف دہ اور بے شمار بیماریوں کا باعث بنتا ہے،اس دعا میں اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کرنا ہے، کہ اس نے ہمیں اس گندگی سے نجات دی،اس کو ”أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذی“سے تعبیر کیا،اسی کے مناسب ”غُفْرانَکَ“ کے ساتھ کی جانے والی دعا ہے ، حکمت اور مقصد اس دعا کا یہ ہے کہ اے اللہ! جیسے تو نے میرے جسم سے زائد فضلات کو دور کر کے مجھے گندگی سے نجات عطا فرمائی اور مجھے عافیت جیسی عظیم نعمت نصیب فرمائی ، ایسے ہی تو میرے باطن کو صاف فرمادے اور میرے گناہوں کی مغفرت فرما۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہم پر ایک اور انعام کیا کہ اس نے جسم سے ساری کی ساری غذا نہیں نکال دی کہ اگر ایسا ہو جاتا تو ہم زندہ ہی نہ رہتے، اس نعمت کے شکر کو ”وعَافَانِيْ“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

عن أبي ذرٍ، قال: کان النبي صلی الله علیہ وسلم إذا خرج من الخلاء، قال: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“․(السنن الکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا خرج من الخلاء، رقم الحدیث:9825، موٴسسة الرسالة)

فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ ان دونوں دعاوٴں ”غُفْرَانَکَ“ اور ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“ کو جمع کر کے پڑھا جائے،البتہ اگر کسی کو دوسری دعا نہ آتی ہو تو پھر صرف ”غُفْرَانَکَ“ پڑھ لیا جائے اور دوسری دعا کو بھی یاد کیا جائے۔(ان دعاوٴں کے علاوہ اور بھی بہت ساری دعائیں اس موقعے کی کتب میں مذکور ہیں، وہ بھی اپنے معانی و مطالب کے اعتبار سے نہایت اہم ہیں، انہیں بھی یاد کر کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔)

بیت الخلا اور غسل خانہ اکٹھا ہونے کی صورت میں دعائیں کس جگہ پڑھی جائیں؟
آج کل گھروں میں باتھ روم ،حمام ، واش بیسن وغیرہ اکٹھے بنے ہوتے ہیں، اس صورت میں جب قضائے حاجت کے لیے ان جگہوں میں داخل ہوں تو غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھے ،پھر داخل ہوں اور جب فارغ ہو کر کے نکلیں تو نکلنے کے بعد دعا پڑھیں۔

ویستحب لہ عند الدخول في الخلاء یقول: ”اللھم إني أعوذبک……“ ویقول إذا خرج:”الحمد لِلّٰہ الذي……“․ (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطھارة، الفصل الثالث في الاستنجا: 1/50، رشیدیہ)

نیز! اگر قضائے حاجت کسی میدان ، جنگل یا صحرا وغیرہ میں کرنی پڑے تو اس صورت میں قضائے حاجت سے پہلے پڑھی جانے والی دعا ستر کھولنے سے قبل پڑھے اور قضائے حاجت کے بعد پڑھی جانے والی دعا ستر چھپالینے کے بعد پڑھے۔

وسننہ…(و)البداء ة (بالتسمیة) قولاً…(قبل الاستنجا وبعدہ) إلا حال انکشاف، وفي محل نجاسة، فیسمي بقلبہ (قولہ:إلا حال انکشاف…) الظاھرأن المراد أنہ یسمی قبل رفع ثیابہ، إن کان في غیر المکان المعدّ لقضاء الحاجة، وإلا فقبل دخولہ، فلو نسي فیھا سمی بقلبہ، ولا یحرک لسانہ تعظیماً لاسم اللہ تعالیٰ․ (حاشیة ابن عابدین،کتاب الطھارة، مطلب: في دلالة المفھوم، 1/227، دار عالم الکتب)

اسی کی طرف حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بھی اشارہ موجود ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس دعا کے پڑھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ”جب تم بیت الخلاء میں داخل ہو، یا داخل ہونے کا ارادہ کرو تو یہ …(مذکورہ بالا دعا)… پڑھ لو“ ․ (السنن الکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا دخل في الخلاء، رقم الحدیث: 9823، 9/35،موٴسسة الرسالة)

البتہ! اس جگہ ایک بات پیش نظر رہنی چاہییے کہ اوپر ذکر کردہ لفظِ ”بیت الخلا“سے مراد زمانہ ماضی کے وہ بیت الخلا ہیں ،جہاں قضائے حاجت کر لینے کے بعد گندگی ونجاست پڑی رہتی تھی، بعدمیں اسے اکٹھا کر کے دور جنگل وغیرہ میں جا کر پھینکا جاتا تھا، موجودہ دور کے پختہ / سنگ مر مر کے بنے ہوئے بیت الخلا اس مفہوم سے بالا تر ہیں، پس اگراس قسم کے بیت الخلا میں گندگی وغیرہ پھیلی ہوئی نہ ہو تواس میں دعا ستر کھولنے سے قبل پڑھ لی جائے توبھی گنجائش ہے، کیوں کہ ان بیت الخلاوٴں میں دعا پڑھنے کی صورت میں وہ خرابی نہیں ہے جو گندگی والے بیت الخلا میں لازم آتی تھی۔لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ دعا بیت الخلاء سے باہر پڑھ کے داخل ہوا جائے۔

بیت الخلا میں زبان سے کلمہ پڑھنے اور قرآنِ پاک کی تلاوت کا حکم
بیت الخلا میں زبان سے کلمہ پڑھنا ،کوئی بھی ذکر کرنا ،قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا یا اندر جا کر دعاء ِمسنونہ پڑھناجائزنہیں ہے۔البتہ دل ہی دل میں ذکر کرنایا چھینک وغیرہ کے جواب میں دل میں ہی ”الحمد للہ“ کہنا جائز ہے۔

فلو نسي فیھا سمی بقلبہ، ولا یحرک لسانہ تعظیماً لاسم اللہ تعالیٰ․ (حاشیة ابن عابدین،کتاب الطھارة، مطلب: في دلالة المفھوم، 1/227،دار عالم الکتب)

”فإن عطس یحمد اللہ بقلبہ، ولا یحرک لسانہ“․ (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطھارة، الفصل الثالث في الاستنجا: 1/50، رشیدیہ)

بیت الخلاء میں لفظِ ”اللہ “ والی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانے کا حکم
بیت الخلا میں ایسی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانا ،جس پر لفظِ اللہ لکھا ہوا ہو ،جائز نہیں ہے، ایسی انگوٹھی یا لاکٹ باہر رکھ کے پھر داخل ہونا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا عمل نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب بیت الخلا میں داخل ہوتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار کر باہر ہی رکھ دیتے تھے۔

عن أنس رضي اللہ عنہ قال:”کان النبي صلی الله علیہ وسلم إذا دخل الخلاء وضع خاتمہ“․ (سنن أبي داود، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: 6،1/3،دار ابن الحزم)

چناں چہ! فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاوی عالمگیریہ میں بھی یہی ہے:
ویکرہ أن یدخل في الخلاء و معہ خاتم علیہ اسم اللہ تعالیٰ أوشیء من القرآن …“․ (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطھارة، الفصل الثالث في الاستنجا: 1/50، رشیدیہ)

البتہ یہ چیزیں (انگوٹھی، لاکٹ اور کاغذ وغیرہ) کسی چیز میں لپٹی ہوئی (یعنی : چُھپی ہوئی) ہوں یا جیب میں ہوں یا لاکٹ گریبان میں قمیص کے نیچے چھپا ہوا ہو توان اشیاء کے ساتھ ہی بیت الخلاء میں جانے کی گنجائش ہے ،لیکن بہتر پھر بھی یہی ہے کہ یہ اشیا باہر رکھ کے اندر جائیں۔

کن چیزوں سے استنجا کرنا جائز ہے اور کن سے ناجائز؟
کاغذ،خوراک،گوشت، درخت کے پتوں ،نجس اشیا ، ہڈی، لید، گوبر، شیشہ، پختہ اینٹ، کوئلہ، (پختہ)ٹھیکری، بالوں اور اسی طرح دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ ہرایسی چیز جوقابلِ احترام نہ ہو، خوراک نہ ہو، جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہواور قیمتی بھی نہ ہو تو اس سے استنجا کرنا جائز ہے۔

ویکرہ الاستنجا بالعظم والروث والرجیع والطعام والزجاج والخزف وورق الشجر والشعر وکذا بالیمین․(الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجا بالماء، 1/55، دار الکتب العلمیة)

ڈھیلوں سے استنجا کرنے کا حکم
اگر کوئی شخص پانی سے استنجا کرنے کی بجائے صرف ڈھیلوں سے استنجا کرنا چاہے تو اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگرپیشاب مخرج (شرم گاہ کے مخصوص حصے ) سے تجاوز کر(کے پاکی کی جگہ کی طرف بڑھ) جائے اور زائد کی مقدار ایک درہم (یعنی ہتھیلی کی چوڑائی ) سے زائد نہیں ہوئی، تو بغیر دھوئے صرف ڈھیلے کے استعمال کرنے سے طہارت حاصل ہو جائے گی اور پاخانہ کا حکم یہ ہے کہ اگر ڈھیلوں سے استنجا کرنے کے بعد گندگی مخرج سے باہر اتنی زیادہ پھیل گئی کہ اس کا وزن ایک مثقال (یعنی: 5 ماشہ یا 86ء 4گرام) سے کم ہو توطہارت /پاکی حاصل ہو جائے گی اور اگر اس سے زیادہ ہو تو پاکی حاصل نہیں ہو گی۔

لیکن مخرج سے تجاوز کرنے والی مقدار اگر درہم کی مقدار سے زائد ہو تو اسے بلا عُذر دھوئے بغیر چھوڑدینا اور اسی طرح نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر بقدرِ درہم یا اس سے کم ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے۔

(ویجب)أي:یفرض غسلہ (إن جاوز المخرج) مانع، ویعتبر القدر المانع لصلاة (في ما وراء موضع الإستنجاء)، لأن ما علی المخرج ساقط شرعاً، وإن کثر، ولھٰذا لا تکرہ الصلاة معہ․ وفي الرد تحت قولہ:(ولھٰذا) استدلال علی سقوط اعتبار ما علی المخرج وفیہ أن ترک غسل ما علیٰ المخرج، إنما لا یکرہ بعد الاستجمارکما عرفتہ لا مطلقاً․(الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الطھارة، باب الاستنجا: 1/551،دار عالم الکتب)

(و عفیٰ)الشارع ( عن قدر الدرہم)…( وھو مثقال) عشرون قیراطاً ( في) نجس (الکثیف) لہ جرم، وفي الشامیة:ان قدر الدرھم من الکثیفة لو کان منبسطاً في الثوب أکثر من عرض الکف، لا یمنع کما ذکرہ سیدي عبد الغني․ (رد المحتار:کتاب الطھارة، باب الأنجاس:1/522، دار عالم الکتب)

ڈھیلے سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے استنجا کرنا بھول گیا تو نماز کا حکم
ایک ڈھیلے سے استنجا کر نے کے بعد پانی سے استنجا کرنا بھول گیا اور نماز پڑھنے کے بعد یاد آیا تواگر نجاست اپنے مخرج سے آگے نہ بڑھی ہو تو نماز درست ہو گئی، دوبارہ پانی سے استنجا کر کے نماز لوٹانا جائز نہیں، اس لیے کہ دونوں (ڈھیلے یا پانی کے ساتھ استنجا کرنے) میں سے ایک پر اقتصار کرنا جائز ہے،البتہ دونوں کو جمع کرنا افضل ہے۔

دیر تک قطرے آنے والوں کے لیے طہارت کا طریقہ
اگر پیشاب کرنے کے بعد کسی کو قطرے آنے کا مرض ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے ڈھیلے یا ٹوائلٹ پیپر سے اچھی طرح خشک کر لے،حتی کہ پیشاب کی نالی کو خالی کرنے کی اپنی مقدور بھر کوشش کر لے ، اس کے بعد ایسا شخص پانی سے استنجا کرے۔

یجِب الاستبراءُ بِمشي أو تنحْنُح أو نومٍ علی شقہ الأیسر،ویختلف بطباع الناس․ وفي الشامیة تحت قولہ:”یجب الاستبراء …“ ھو طلب البراء ة من الخارج بشيءٍ مما ذکرہ الشارح حتیٰ یستیقنَ بزوال الأثر …أما نفسُ الاستبراء حتیٰ یطمئِن قلبُہ بزوال الرشح فھو فرض، وھو المراد بالوجوب، ولذا قال الشرنبلالی: یلزم الرجلَ الاستبراءُ حتیٰ یزولَ أثرُ البول، ویطمئن قلبُہ․(ردالمحتار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستسقاء والاستنجا:1/558، دارعالم الکتب)

پردے کی عدم موجودگی میں صرف ڈھیلوں کے استعمال کا حکم
اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ موجود ہو کہ وہاں سترمیں رہتے ہوئے قضائے حاجت سے فارغ ہو چکا ہواور ٹوائلٹ پیپر یا ڈھیلوں سے استنجا کر چکا ہو، لیکن پانی سے استنجا کرنے کے لیے اس کی پردہ دری لازم آتی ہو توایسی صورت میں قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلوں یا ٹوائلٹ پیپر کے ساتھ استنجا کرنے پر اکتفا کرے، ایسی جگہ پر دوسروں کے سامنے ستر کھول کے پانی سے استنجا کرنا جائز نہیں ہے۔

الاستنجا بالماء أفضل، إن أمکنہ ذلک من غیر کشف العورة، وإن احتاج إلیٰ کشف العورة، یستنجي بالحجر، ولا یستنجي بالماء،کذا في فتاویٰ قاضي خان․(الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجا بالماء، 1/55، دار الکتب العلمیة)

شلّ ہاتھ والا استنجا کیسے کرے؟
اگر کسی شخص کا بایاں ہاتھ شل ہو اور وہ اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ استنجا کرنے پر قادر نہ ہو ، لیکن اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کر سکتا ہو تو دائیں ہاتھ سے استنجا کرے اور اگر دایاں ہاتھ بھی شل ہو تو پھر ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص (اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے) پانی ڈالے اور اگر کوئی ایسا شخص بھی نہ ہو تو ایسے شخص سے استنجا معاف ہے۔

لو شُلّْ یدُہ الیُسریٰ ولا یقدِرُ أن یستنجي بھا، إن لم یجدْ مَنْ یَصُبُّ الماءَ لا یستنجي، وإن قدر علیٰ الماء الجاري، یستنجي بیمینہ، کذا في الخلاصة…،وإذا کان بالیُسریٰ عُذرٌ یمنع الاستنجا بھا جاز أن یستنجي بیمینہ من غیر کراھة، کذا في السراج الوھاج․ (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجا بالماء، 1/55، دار الکتب العلمیة)

مریض آدمی کے لیے استنجا کا حکم
ایسا مریض جو وضو کرنے پر قادر نہ ہو،لیکن اس مریض کی بیوی یا کوئی باندی موجود ہو تو اس کی بیوی یا باندی اسے استنجا اور وضو وغیرہ کروائیں گی اوراگر اس کی بیوی یا باندی نہ ہو، لیکن بیٹا یا بھائی موجود ہو تواس کا بیٹا یا بھائی اس مریض کو وضو کروائیں گے، لیکن استنجا کرنے کے وقت ان افراد میں سے کوئی شخص اس مریض کو استنجا نہیں کروا سکتا،اس لیے کہ ان حضرات کے لیے اس مریض کی شرم گاہ کوہاتھ لگانا جائز نہیں ہے، اس صورتِ حال میں اس مریض سے استنجا کرناساقط ہے۔

اسی طرح کوئی عورت مریضہ ہواور اس کا شوہر بھی ہو تو اس کا شوہر اپنی بیوی کو بوقت ضرورت وضو بھی کروائے گا اور استنجا بھی کروائے گااور اگر اس کا شوہر نہ ہو، لیکن اس کی بیٹی یا بہن موجود ہو تو بوقت ضرورت وضو توکروا سکتے ہیں، لیکن استنجا کروانا ان کے لیے جائز نہیں ہے، اس صورت میں ایسی عورت سے استنجا ساقط ہے۔

الرجل المریض إذا لم یکن لہ إمرأةٌ، ولاأَمةٌ، ولہ ابن أو أخ، وھو لا یقدِرُ علیٰ الوضوء، فإنہ یُوَضِّئُہ ابنہ أو أَخوہ، غیرَ الاستنجا، فإنہ لا یمَسُّ فرجَہ، وسقط عنہ الاستنجا، کذا في المحیط․ المرأة المریضة إذا لم یکن لھا زوج، وعجَزَت عن الوضوء، ولھا ابنة أو أُختٌ تُوَضِّئھا، ویسقط عنھا الاستنجا، کذا في فتاویٰ قاضي خان․ (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجا بالماء، 1/55، دار الکتب العلمیة)

قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنااور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھنا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”دو آدمی قضائے حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتا ہے“۔

عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: ”لا یتناجیٰ اثنان علیٰ غائطھما، ینظر کل واحد منھما إلیٰ عورة صاحبہ، فإن اللّٰہ یمقت علیٰ ذٰلک“․ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن الاجتماع علیٰ الخلاء، والحدیث عندہ، رقم الحدیث:342، 1/78،مکتبة المعارف،الریاض)

اس حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ انسانی شرافت سے بہت زیادہ دور ہے اور بڑی بد تہذیبی کی بات ہے کہ دو افراد ننگے ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اپنی حاجت سے فارغ ہوں اور اس سے بھی بڑی بے حیائی کی بات یہ ہے کہ اس دوران وہ دونوں آپس میں بات چیت بھی کرتے رہیں،یہ امر شرعاً جائز نہیں ہے، یہ دونوں کام الگ الگ ہوں یا اکٹھے ہوں، جائز نہیں ہیں۔

البتہ بوقت ِ ضرورت اگر بیت الخلا سے باہر کھڑا کوئی شخص کوئی بات پوچھے تو ایک ، دو کلمات کے ساتھ (ہاں، یا نہ میں )جواب دینے کی گنجائش ہے۔

ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کا حکم
اگر کسی جگہ پانی کھڑا ہو تو اس میں پیشاب کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس پانی کو بہت سے کاموں میں استعمال کیا جانا ممکن ومتوقع ہے، اگر وہ کسی گاوٴں میں ہو تو اکثر دیہاتوں میں پانی کا وجود اسی طریقے سے ہوتا ہے، بارشوں کے وقت یا مخصوص ذرائع سے یہ پانی جمع کرلیا جاتا ہے، پھر گاوٴں ، دیہات کے سب افراداس پانی سے اپنی ضروریات (مثلاً: کھانا، پانی، کپڑے دھونا اور جانوروں وغیرہ کو پانی پلانا وغیرہ )پوری کرتے ہیں، اس لیے اس ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کر دیا جائے (اور وہ پانی تھوڑا ہو، یعنی دہ در دہ سے کم ہو)تو اس ناپاک پانی کا استعمال ممکن نہ رہنے کی وجہ سے بے شمار افراد کو دشواری لاحق ہو سکتی ہے۔

جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے“۔

عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ قال قال: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”لا یبولن أحدکم في الماء الراکد“․ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن البول في الماء الراکد، رقم الحدیث:344، 1/78،مکتبة المعارف، الریاض)
Flag Counter