Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

9 - 14
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

ماں سے بدتمیزی کرنے اور اسے گھر سے نکالنے والے کو سزا
سوال… ماں کے اوپر ہاتھ اٹھانے والے او رماں کو گھر سے نکالنے والے اور ان سے بدتمیزی کرنے والے کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اور اس کی سزا کیا ہے؟

جواب… قرآن عظیم نے جگہ جگہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

حتی کہ اولاد کو والدین کے سامنے ”اف“ تک کہنے سے منع فرمایا ہے، چہ جائے کہ اولاد ان پر ہاتھ اٹھائے یا انہیں گھر سے بے دخل کردے۔

ماں باپ کو ستانے اور تنگ کرنے والی اولاد کے بارے میں قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وراد ہوئی ہیں، ایسی اولاد آخرت میں تو خسارے میں رہے گی ہی دنیا میں بھی الله جل شانہ ایسی اولاد کو ذلیل ورسوا فرماتے ہیں تاوقتیکہ وہ صدق دل سے توبہ نہ کرلے ۔

ماں کا درجہ چوں کہ باپ سے بڑھ کر ہے، اس لیے ماں کو ستانے والے کی سزا بھی سخت ہو گی، شریعت مطہّرہ نے ایسی اولاد کی کوئی متعین سزا اور حد مقرر نہیں فرمائی ہے، البتہ اس پر لازم ہے کہ وہ فوراً صدق دل سے توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ والدہ ماجدہ سے بھی معافی مانگے اور آئندہ کے لیے ایسی حرکات کے بجائے والدہ کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھے ، ورنہ دنیا وآخرت میں سخت عذاب کا خطرہ ہے۔

اپنے مسلمان بھائی سے قطع تعلق رہنا
سوال… مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں درج ذیل مسئلہ کے بارے میں ، کہ دو مسلمان دوست ہیں او ران کی تقریباً ڈیڑھ سال سے آپس میں قطع تعلقیہے ان میں سے ایک بات کرنے کے لیے راضی ہے او راس نے دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ہر طریقہ اختیار کیا ، لیکن دوسرا راضی نہ ہوا اور دونوں مدرسہ کے طالب علم ہیں، ان کے علم حاصل کرنے او رنماز پڑھنے سے ان کو کوئی نفع حاصل ہو گا یا نہیں؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ دو مسلمان بھائیوں کا ناراض ہونا تین دن سے زیادہ جائز نہیں۔

اور دونوں گنہگار ہیں، قرآن وحدیث میں ایسے لوگوں کے متعلق سخت وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ناراض ہوتا ہے اور اسی حالت میں اگر اس کی موت آجائے توو ہ جہنم میں داخل ہو گا او رپھر ایک طالب علم کا دوسرے طالب سے ناراض ہونا شان طالب علمی کے خلاف ہے، لہٰذا جس کی غلطی ہو ، وہ بلاجھجک اپنے دوسرے ساتھی سے معافی مانگ لے اور دوسرے ساتھی کو چاہیے کہ وہ اسے معاف کردے۔

شریعت میں اشعار پڑھنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اشعار پڑھنا گناہ ہے یا نہیں؟ جس طرح کے اشعار بھی ہوں اچھے یا بُرے واضح فرمائیں۔

جواب…ا شعار کا دارمدار اشعار کے مضمون پر ہے ، اگر مضمون مندرجہ ذیل چیزوں سے پاک ہو تو اشعار کہنا جائز ہے ورنہ نہیں۔

اشعار کفریہ یا فسقیہ او رمخرِّبّ اخلاق مضمون پر مشتمل نہ ہوں۔
فحش او رنازیبا کلمات سے پاک ہوں۔
عشقیہ اور نفسانی خواہشات کو برانگیختہ کرنے والے نہ ہوں۔
اشعار میں بلاوجہ کسی مسلمان یا قبیلہ کی ہجو اور مذمّت نہ کی گئی ہو۔
بلاوجہ مبالغہ نہ ہو۔
اشعار پڑھنے میں اتنا مصروف نہ ہو کہ تلاوت قرآن وعلم اور دیگر واجبات شرعیہ سے غفلت ہونے لگے۔

البتہ وہ اشعار جو اچھے مضامین ومعانی پر مشتمل ہوں، جیسے حمد بار ی تعالیٰ، نعت رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم، مدح اصحاب رسول علیہ الصلوٰة والسلام ایسے اشعار کا پڑھنا جائز ہی نہیں، بلکہ ان پر اجر وثواب کی بھی امید ہے۔

البتہ یہ واضح رہے کہ ایسے اشعار میں بھی مبالغہ آرائی نہ ہو ، نیز مباح مضامین پر مشتمل اشعار کا پڑھنامباح ہے۔

غیر مسلم عورت سے گھر کا کام کاج کرانا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

غیر مسلم خاتون جو کہ اپنے آپ کو عیسائی بتاتی ہے ، کیا اس سے گھر کے کام کاج کرانا جائز ہے ؟

اس کام کاج کے دوران گھر کی مسلمان مستورات سے پردہ ضروری ہے یا غیر ضروری، اگر ضروری ہے تو کس حدتک پردہ کیا جاوے گا اور کام کاج کے دوران پردہ کی حدود میں کس حد تک رعایت ہو سکے گی۔

کیا اس غیر مسلم کام کرنے والی خاتون سے کھانا وغیرہ پکوانا جائز ہے ؟ نیز جن برتنوں میں وہ کھانا کھائے گی مسلمان اس سے کھا سکتے ہیں یانہیں؟

جواب… گھر کے کام کاج کے لیے مسلمان خاتون کا بندوبست ہو سکے تو بہتر ہے، ورنہ غیر مسلم عورت سے بھی خدمت لینا جائز ہے۔

غیر مسلم عورت اجنبی مرد کی طرح ہے، لہٰذا اس کے سامنے بدن نہ کھولا جائے، دوپٹے اور اوڑھنی کااہتمام کیا جائے، البتہ کام کاج میں ہاتھ اور چہرہ کھول کر کام لینے کی گنجائش ہے۔

ایسے برتن میں کھانا کھانا کہ جس میں کسی غیر مسلم نے کھایا ہو گو جائز ہے ، لیکن دھوکر استعمال کرنا بہتر اور اولیٰ ہے۔

گھر کے نابالغ ملازم سے بالغ ہونے کے بعد پردے کا حکم
سوال… ایک شخص نابالغی میں ہمارے گھر میں مزدور تھا، لیکن اب اس کی عمر تقریباً23 یا 25 سال ہے اور مزدوری سے فارغ ہے ، کیا یہ لڑکا گھر والی عورتوں سے اور لڑکیوں سے بات چیت اور مجلس کر سکتا ہے یا نہیں؟اور اگر جائز نہیں تو اس کا ذمہ دار کون شخص ہو گا؟ یعنی قیامت کے دن الله تعالیٰ کس سے پوچھے گا۔

جواب… نامحرم مرد وعورت کا ایک دوسرے سے ملنا اور بلا ضرورت شدیدہ بات چیت کرنا شرعاً ممنوع ہے، البتہ بوقت ضرورت شرعی حدود میں رہتے ہوئے پردے میں بقدرضرورت بات چیت کی گنجائش ہے۔

لہٰذا اگر کسی گھر میں نامحرم شخص ملازم ہو تو ضرورت شدیدہ کے موقع پر بھی شرعی حجاب کے ساتھ صرف ضرورت کی بات کرنے کی حدتک شرعاً اجازت ہے ، لیکن اب جبکہ مذکورہ شخص ملازمت سے فارغ اور سبکدوش ہے تو اب وہ ضرورت بھی باقی نہیں رہی جو پہلے تھی، اس لیے اب سابقہ ملازم کو گھر کی نامحرم خواتین سے او رخواتین کو اس ملازم سے اور زیادہ اہتمام کے ساتھ پردہ کرنا ضروری ہے۔ یہ حکم سب کے لیے برابر ہے، لہٰذا جو اس کے خلاف کرے گا گنہگار ہو گا، چاہے گھر والے ہوں یا وہ ملازم شخص۔

قرآن کریم میں ہے:﴿وإذا سألتمو وھن متاعا فاسئلوھن من وراء حجاب﴾․ (سورة الاحزاب:53)
ترجمہ: (اے ایمان والو) جب تم (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو پردے کے باہر ( کھڑے ہو کر وہاں) سے مانگو۔ یعنی بلا ضرورت تو پردے کے ساتھ بھی بات کرنا درست نہیں ، البتہ شدید ضرورت کے موقع پر بات کرنے میں مضائقہ نہیں، مگر دیکھنے کی اجازت نہیں ، اس آیت کریمہ کا شان نزول اگرچہ خاص ہے مگر حکم سار ی امت کے لیے عام ہے۔ 
Flag Counter