Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

5 - 14
علم کی فضیلت ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں
مولانا محمد جہاں یعقوب

علم کے ذریعے آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتاہے ، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وامان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت وعظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ ودل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم وتربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزولاینفک ہے، کلام پاک کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم جل شانہ نے رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ﴿ اِقْرَأ﴾ ہے، یعنی پڑھ۔ اور قرآن پاک کی چھے ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، ارشاد ہے:

ترجمہ: ”پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے، سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔“

گویا وحی الٰہی کے آغاز ہی میں جس چیز کی طرف سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے نوعِ بشر کو توجہ دلائی گئی وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم وتربیت کے جواہر وزیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔

ترجمہ :اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کردے گا جو ایمان لائے اور جنھوں نے علم حاصل کیا۔“

دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:”(اے نبی صلی الله علیہ وسلم!)کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں“۔

ایک اورآیت میں تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ایک اورمقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:”کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا؟“۔

اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ،چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی، فقہ کی کی ہو یا کلام ومنطق کی۔ سارے کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی، مقصد نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی ساری نعمت اور دولت حاصل کرسکتا ہے۔علم کی فضیلت اوراس کوحاصل کرنے کی ترغیب کے حوالے سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں ،جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:

علم والوں کو دوسروں کے مقابلے میں ایسی ہی فضیلت حاصل ہے ،جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ شخص پر۔ یقینا اللہ عزوجل ،اس کے فرشتے اور آسمان وزمین والے، حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک طالب علمکے لیے بھلائی کی دعا کرتی ہیں۔

ایک دوسری حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں:ایک دن رسول اللہ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوئے،وہاں دوحلقے لگے ہوئے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراللہ سے دعا کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعا کررہاہے۔ اللہ چاہے تو اس کی دعا قبول فرمائے ، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ پھروہیں بیٹھ گئے۔اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ انہیں دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق ان کے لیے دعا کرتی رہتی ہے،بلکہ ان کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول نے انہیں انبیائے کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے :

جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ درہم۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔

طلب کرنا علم کا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ علم کاسیکھنا ہر مومن پر فرض ہے۔ اس سے مراد روزہ، نماز ، حلال و حرام اور حدود و احکام کی معرفت حاصل کرنا ہے۔حسن بن الربیع فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارک سے پوچھاکہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ”علم کا سیکھناہر مسلمان پر فرض ہے“کا مطلب کیاہے؟تو حضرت عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا کہ اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں جو تم حاصل کرتے ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملہ میں مبتلاہو تو اس کے بارے میں پہلے جانکار لوگوں سے علم حاصل کرلے۔

حضرت انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کہ جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ گویا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے۔

ابوامامہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کہ ایک عالم کی برتری ایک عبادت گذار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اور زمین وآسمان کی ہر شے، حتیٰ کہ بلوں کی چیونٹیاں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی علم سکھانے والوں کے لیے دعائے خیر کررہی ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم نے کیسے بلیغ انداز میں فرمادیا ہے: حکمت کو ایک گم شدہ لال (موتی) سمجھو ، جہاں پاوٴ اپنا اسے مال سمجھو۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:بلاشبہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرمائے گا اے پڑھے لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں! جاوٴ تم سب کی مغفرت کردی۔حضور صلی الله علیہ وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ،اس وقت جزیرة العرب کی کیا حالت تھی؟ قتل وغارت گری، چوری، ڈکیتی ،قتل اولاد، زنا،بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو۔ بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ اللہ کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کی اور زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آشنا ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جس انداز میں دین اسلام کی تبلیغ فرمائی وہ نہ صرف یہ کہ انتہائی کامیاب و موٴثر ہے ۔بلکہ اس میں تعلیم و تربیت کے ایسے اوصاف بھی نمایاں ہیں جو متعلمین و مربیین دونوں کے لیے روشن مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم کی پہلی درس گاہ اور اصحاب صفہ پر مشتمل طالب علموں کی پہلی جماعت کے عمل نے جلدہی اتنی وسعت اختیار کرلی جس کی مثال دینے سے دنیا قاصر ہے ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے پہلے خود تعلیم و تربیت دی۔ پھر دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے کے لیے کامل افراد کا انتخاب فرما دیا،چناں چہ تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے منتخب کردہ ، ان تربیت یافتہ معلمین نے درس و تدریس میں جس مہارت کا ثبوت دیا وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہمہ گیر تربیت ہی کا نتیجہ ہوسکتا تھا، جس کے اثرات تا دیر محسوس کیے جاتے رہے ۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم وحکمت اور صنعت وحرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت وجہالت اور اضمحلال وتعطل کے سبب ہم اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھوبیٹھے۔
        باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
        پھر پسر وارثِ میراثِ پدر کیوں کر ہو

ان تفصیلات سے واضح ہواکہ دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کوعلم حاصل کرنے سے نہیں روکا،بلکہ اس کی فضیلتیں بیان کرکے ہمیں اس کوحاصل کرنے کی ترغیب دی ہے،البتہ اسلام یہ حکم ضروردیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بنا وٴ۔ایک انسان کے قول وعمل سے دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کی تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہوگی اور یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پڑھے لکھے کو حاصل ہوگی وہ جاہل کو ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کے دن رات کے عمل میں، اس کی گفت گو میں ،اس کے معاملات میں ، اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جائے کوئی بعید نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا؟ اللہ کے رسول کی حدیث سے بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانے جیسی ہے جس میں سے خداکی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا جائے۔نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والاہے۔علم نافع اور رزق وسیع کے لیے اللہ کے حضور یہ دعا بھی کرتے تھے:اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام عالم بیعمل کے متعلق فرماتے ہیں :عالم بے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے اندھے نے چراغ اٹھایا ہو کہ لوگ اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور وہ خود محروم رہتاہے۔حضرت عثمان غنی  فرماتے ہیں کہ علم بغیر عمل کے نفع دیتاہے اور عمل بغیرعلم کے فائدہ نہیں بخشتا۔حضرت عبد اللہ ابن عباس  کا مقولہ ہے کہ اگر اہل علم اپنے علم کی قدر کرتے اور اپنا عمل اس کے مطابق رکھتے تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور صالحین اُن سے محبت کرتے اور تمام مخلوق پر اُن کا رعب ہوتا ۔ لیکن انہوں نے اپنے علم کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنا لیا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اُن سے ناراض ہوگیا اور وہ مخلوق میں بھی بے وقعت ہوگئے۔حضرت عبد اللہ ابن مبارک فرماتے ہیں: علم کے لیے پہلے حسن نیت، پھر فہم ،پھر عمل ،پھر حفظ اور اس کے بعد اس کی اشاعت اور ترویج کی ضرورت ہے۔

شیخ عبدالقادر جیلانی  فرماتے ہیں:دین کی اصل عقل ،عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے۔اسلام یا قرآن ہم کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتا نہیں، بلکہ تعلیم کو ہمارے لیے فرض قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کے ذریعے ہم کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے، وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو حقیقی علم ثابت کرتا ہے اور اس کو بنی نوع انسان کی حقیقی صلاح وفلاح اور کام یابی وبہبودی کا ضامن بتاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قرآن حقیقی علم ہے اور دوسرے تمام علوم وفنون معلومات کے درجہ میں ہیں، ان تمام معلومات کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق حاصل کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں علم حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے اورہم خواہ کوئی بھی علم یافن حاصل کریں ،اس میں اس بات کومدنظررکھنے کی توفیق عطافرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے،حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے امتی اوراس دین ہدایت کے حامل ہیں جس میں زندگی کے ہرشعبے سے متعلق کامل ومکمل احکامات موجودہیں۔اگریہ بات ہمارے پیش نظررہی توہم کسی مو ڑپرنفس وشیطان کے بہکاوے کاشکارنہیں ہوں گے۔ ان شاء اللہ !
Flag Counter