Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

8 - 14
دینی مدارس انسانیت کی فلاح وبہبود کے سرچشمے
محترم شمس الحق ندوی

ہماری آج کی دنیا جن طوفانی حوادث اور انسانی برادری جن تباہ کاریوں کے دور سے گزر رہی ہے ، عقل وفہم اور علم وفراست رکھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے صرف ایک دن کی اخباری خبریں کافی ہیں ، لیکن ان حوادث وتباہ کن حالات پر غور کرنے، ان کے حقیقی اسباب ومحرکات کو معلوم کرنے اور اس کا اعتراف کرنے او رپھر ان کے ازالہ ومداوا کرنے کے سلسلہ میں سوچنے اور فکر کرنے والے لوگ دور دور تک نظر نہیں آتے ، بلکہ اگر اس کی کچھ لوگ فکر کرتے ہیں تو اُلٹا انہیں کو مجرم ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے اورکوشش ہی نہیں بلکہ ان سے ایسا ڈرایا جاتا ہے ، جیسے پھاڑ کھانے والے درندوں، زہریلے سانپوں اور بچھوؤں سے ڈرایا جاتا ہے ، جو لوگ انسانوں میں انسانیت کی جُوت جگانے، ایک دوسرے سے پیار ومحبت کرنے، ایک دوسرے کے رنج وغم میں شریک ہونے کی تعلیم دیتے ہیں ، اچھے اخلاق سکھانے اور اچھا سماج بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کام کے لیے جگہ جگہ مدرسے قائم کر رکھے ہیں ، انہیں کے کام کو تخریب کاری اور فساد پھیلانیسے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ان دینی مدارس کا پہلا کام انسانی آبادی کے لیے ایسے انسان تیار کرنا ہوتا ہے جن کو انسانوں سے محبت ہو وہ انسانوں کی بھلائی اور سکون واطمینان پیدا کرنے والی باتوں کو رواج دیں ، ان کے اخلاق اچھے ہوں ، وہ سچے ہوں اور سچائی کا سبق سکھاتے ہوں ، ان کے اندر کم زوروں کی مدد کرنے کا شوق اور جذبہ ہو، وہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، ان کے ذہنوں میں خدا کے آخری نبی محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد تازہ ہو :
”رحم کرنے والوں پر رحمن رحمت بھیجتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو ، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔“ ( ترمذی ،ا بوداؤد)

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر جان دار اورمخلوق کے ساتھ رحم ومحبت کا حکم دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
” مخلوق الله کی عیال (کنبہ) ہے تو الله کو سب سے زیادہ محبوب وہ مخلوق ہے جو اس کے عیال ( کنبہ) کے ساتھ حسن سلوک کرے۔“ ( بیہقی فی شعب الایمان)

اعلیٰ اقدار کی حامل اسی طرح کی بہت سی چیزیں مدار س میں بتائی اور سکھائی جاتی ہیں ، مدرسہ کی تعلیم ظلم وزیادتی سے روکتی اور اس کے خطرناک نتائج سے ڈراتی ہے، جو انسانوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں ، دوست تو دوست دشمنوں تک کے ساتھ انصاف کرنے کا مدرسہ سبق پڑھاتا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ترجمہ:” اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس گناہ پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے ساتھ انصاف نہ کرو ، تم ہر حال میں ہر ایک کے ساتھ انصاف کرو، تقویٰ کی شان کے یہی زیادہ مناسب ہے۔“ ( المائدہ)

یہ ہے بہت مختصر بلکہ خلاصة الخلاصہ مدرسہ کے اس کام کا، جس میں پوری انسانیت، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ساری مخلوق کی راحت کا سامان ہے اور آج اسی کے نہ ہونے سے پوری دنیا میں قتل وخوں ریزی کا بازار گرم ہے اورانسانی جانوں کی قیمت کیڑے مکوڑوں کے برابر بھی نہیں رہ گئی ہے، فحش کاری اور بے حیائی نے جانوروں کو بھی مات کر دیا ہے ، مگر یہ کتنی حیرت ناک بات ہے کہ انسانیت کا سبق پڑھانے والے انہیں مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں، حد یہ ہے کہ اخلاقی انار کی او ردہشت وبربریت سے روکنے کے جتن کرنے وا لے انہیں مدارس کو دہشت گردی کی تربیت گاہ بتایا جارہا ہے:
”خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیے!“

کیا برسہا برس تک سری لنکا میں جو کچھ ہوا ، یہ کرنے والے لوگ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے؟ برما میں ظلم وجور کے جو پہاڑ مسلمانوں پر توڑے گئے ، کیا یہ ظلم کرنے والے لوگ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے؟ امریکا وافریقہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے کیا یہ لوگ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے اور ہیں ؟ فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ برسہابرس سے توڑے جارہے ہیں کیا یہ ظلم کرنے والے لوگ کسی مدرسہ کے تربیت یافتہ ہیں؟ روسی مسلمانوں کے ساتھ ستر سال تک جو سلوک کیا گیا، کیا یہ سب لوگ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے؟ اور جو دو عظیم جنگیں ہوئی ہیں ، جن میں بے شمار جانیں گئی ہیں، کیا یہ جنگ کرنے والے لوگ کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے ؟ ہیروشیما اور اس سے قبل جلیان والا باغ میں جو کچھ ہوا ہے کیا یہ سب مدارس کے فارغ لوگ تھے ؟ او رہمارے ملک میں جو رہ رہ کر ایک طوفان سا اٹھتا رہتا ہے ، عزتیں لٹتی ہیں ، بچے یتیم ہوتے ہیں ، املاک وجائیدادیں جلا کر خاک کر دی جاتی ہیں او رحد یہ ہے کہ بسا اوقات خود وہ لوگ اس میں پورے دھیان او رتوجہ کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں جو حفاظت کے لیے متعین ہوتے ہیں ، بوسنیا اور چیچنیا میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا، یہ خون بہانے والے مدرسہ کے پڑھے ہوئے لوگ تھے؟ آنکھ میں دھو ل جھوکنے کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے !!!

جس جگہ اگر سانپ نکلے آئے تو مارنے کے لیے ڈنڈا بھی نہ ملے اور جس جگہ پولیس وانتظامیہ کے لوگ آکر یہ کہیں کہ یہاں آکر روح کو بڑا سکون ملتا ہے ، اس کو تو دہشت گردی کی تربیت گاہ کہا جائے اور جہاں قتل کے واقعات ہوں ، ناجائز اسلحے برآمد ہوں، بم پھٹتے ہوں، ہر وقت پولیس کو چوکس رہنا پڑتا ہو ، گرفتاریاں ہوتی رہتی ہوں ، اس کو امن وامان کی جگہ کہا جائے یا کم از کم یہ کہ اس کے بارے میں زبان تک نہ ہلائی جائے۔

اس وقت مغربی میڈیا اپنی پوری توانائی اس پر صرف کیے دے رہا ہے کہ اسلام دہشت گردی سکھاتا ہے ، مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے اوراپنے گریبان میں ہاتھ نہیں ڈالتا کہ وہ کیا کررہا ہے۔

اس وقت پورے میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ہے، اس نے اسلام ومسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، یہ ان کے پروٹوکول میں شامل ہے کہ ہمارے قبضہ وتصرف میں ایسے اخبارات ہوں گے جو مختلف گروہوں اور جماعتوں کی تائید کریں گے، خواہ یہ جماعتیں جمہوریت کی داعی ہوں یا انقلاب کی حامی، حتی کہ ہم ایسے اخبارات کی بھی سر پرستی کریں گے جو انتشار وبے راہ روی ، جنسی واخلاقی انار کی ، استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکم رانوں کی مدافعت او رحمایت کریں گے۔

انسانیت سے قدیم بغض وعداوت، یہودی نسل کے تقدس پر ایمان کامل، اسرائیلی خون کی عبادت وپرستش کی حد تک عظمت اور تاریخ انسانی کے ہر دور اور روئے زمین کے ہر گوشہ میں بقیہ انسانی نسلوں اور قوموں کو ہر اہلیت وصلاحیت سے محروم سمجھنا، پوری دنیا پر تسلط حاصل کرنے کا منصوبہ، شروفساد کا طبیعت ثانیہ اور افتاد طبع بن جانا، تشدد اور دہشت انگیزی کا قومی خصائص اور موروثی عادتوں کا درجہ اختیار کر لینا۔

یہ تصویر یہودیوں کی تاریخ کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے جس طرح مزاج انسان کے ساتھ، اس لیے کہ سازش ان کی تاریخ کی سب سے بڑی بنیاد اور ان کے نظام زندگی کا سب سے بڑا ستون ہے، یہ وہ محور ہے ، جس کے گردان کی ساری ذہانت او رکاوش گھومتی ہے ، یہی وہ دماغ یا خفیہ ہاتھ ہے جو ہر بغاوت ، انقلاب ، سازش، تخریبی نظریات، تباہ کن فلسفوں اور ہر قسم کی بے چینی ، اضطراب ، انارکی او رہر طرح کے اقتصادی، سیاسی ، اجتماعی اور اخلاقی بحران کے پیچھے کام کر رہا ہے ، ان ساری باتوں کی تصویر ایک ممتاز یہودی ڈاکٹر آسکرلیوی نے اپنے اس فخریہ جملہ میں کھینچ دی ہے:

” ہم ہی دنیا کے حاکم اور مفسد ہیں، ہم ہی تمام فتنوں کو ہوا دیتے ہیں، ہم ہی جلاد ہیں۔“

جن یہودیوں نے اپنی تصویر خود اس طرح پیش کی ہے او راس پر فخر کرتے ہیں ، وہ کس منھ سے ان اسلامی تعلیمات کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا، تلمود تک کی تعلیم یہ ہے کہ مسیحیوں کا قتل ان فرائض میں سے ایک ہے جن پر یہودی قاتل کو الله تعالیٰ بھرپور بدلہ عطا فرمائے گا۔

جن کی مذہبی تعلیم یہ ہو اور جن کا منصوبہ یہ ہو کہ پوری انسانی برادری کو اخلاق واقدار سے عاری کرکے جانوروں کی صفت میں لاکھڑا کیا جائے ، وہ ان لوگوں کو دہشت گردی کا الزام دیں جو انسانیت کا سبق پڑھاتے ہیں، ان کے اخبار، ٹیلی ویژن اور ریڈیو سب اس کے لیے وقف ہوں او راس جھوٹ میں ان کو ذرا جھجک نہ ہو ، یہ کتنی حیرت ناک بات ہے او را س سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں بھی انہیں کی راہ چلنے لگیں … اور انہیں انسانیت دشمن لوگوں کی بولیاں بولنے لگیں اور یہمعلوم کرنے کی قطعاً فکر نہ کریں کہ انسانوں کی فلاح وبہبود کا سبق کہاں سے ملتا ہے ؟ امن وسکون کے چشمے کہاں سے پھوٹتے ہیں ؟

دنیا میں جہاں کہیں اخلاق وکردار کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہو انہیں مدارس کی دین ہے ، وہ اس اسلام ہی کی دین ہے ، جس کو بد نام کرنے اورجس کی صورت کو بگاڑ کر پیش کرنے کے لیے مغربی میڈیا اربوں ،بلکہ کھربوں روپے خرچ کر رہا ہے ، یہودیوں کے پروٹوکول میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میڈیا کے ذریعہ ہم جب او رجہاں چاہیں گے قوموں کے جذبات کو مشتعل کریں گے اور جب مصلحت دیکھیں گے انہیں پر سکون کر دیں گے ، اس کے لیے ہم صحیح اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیں گے، ہم یہودی ایسے مدیروں، ایڈیٹروں اور نامہ نگاروں کی ہمت افزائی کریں گے جو بد کردار ہوں او ران کا مجرمانہ ریکارڈ ہو ، ہمارا یہی معاملہ بدعنوان سیاست دانوں، لیڈروں اور مطلق العنان حکم رانوں کے ساتھ ہو گا، جن کی ہم خوب تشہیر کریں گے او ران کو دنیا کے سامنے ہیروبنا کر پیش کریں گے ، لیکن ہم جیسے ہی محسوس کریں گے کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں بس! فوراً ہم ان کا کام تمام کردیں گے۔

جو بات ان کے پروٹوکول میں شامل تھی آج کتنا کھل کر اپنے پورے اثرات کے ساتھ دنیا کی قوموں کے سامنے آگئی ہے ، مگر اس ترقییافتہ زمانہ میں بھی اپنی دانش وری کے دعوے کے ساتھ قومیں ان کے جھوٹے پروپیگنڈوں سے کس طرح متاثر ہیں کہ عقل وخرد سے ادنیٰ کام لیے بغیر انہیں مکارّوں کے دام فریب میں پھنستی جارہی ہیں اور انسانوں کی فلاح وبہبود کے راستہ کی جستجو میں نہیں لگتیں، بلکہ یہ یہودی جوکہ دیں وہی پتھر کی لکیر بن جاتا ہے اور دنیا کی ساری قومیں اندھی بہری ہو کر اسی کے پیچھے دوڑنے لگتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیائے انسانیت ہلاکت کے مہیب غار پر آکھڑی ہوئی ہے۔

ہم مشرقی قوموں کا فرض ہے کہ ان انسانیت دشمن لوگوں کی حقیقت کو سمجھیں او راپنی حفاظت کی فکر کریں، نہ یہ کہ ان کے پروپیگنڈے کا شکارہو کر ہم بھی انہیں کی بولی بولنے لگیں اور ان اصولوں اور فطری ضابطوں کی تعلیم دینے والے افرادو مراکز کو دہشت گرد اور دہشت گردی کا اڈا ہونے کا الزام دیں، جن لوگوں اور جگہوں سے انسانیت کی فلاح وبہبود کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ 
Flag Counter