Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

4 - 14
طلب حدیث کے لیے اکابر کے اسفار
محمد صہیب بن نور محمد، تخصص فی علوم الحدیث النبوی

اللہ رب العزت نے جس طرح قرآن پاک کی حفاظت کی ذ مہ داری خود لی ہے ، اسی طرح قرآن پاک کی تفسیر کی صورت میں جواحادیث مبارکہ ہیں،ا ن کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالی نے لی ہے ، یہ دین اللہ کاہے اور قیامت تک ا س کو قائم رکھنا ہے، اس کے لیے ہردورمیں ایسے رجالِ کارپیدا فرمائے ہیں،جنہوں نے طلبِ علم کے واسطے دور دراز کے سفرکیے ، مشقتیں جھیلیں ،اس علم کوحاصل کیا اور ہم تک پہنچایا ،زیرِ نظر مضمون میں انہی میں سے چند کے بعض رحلاتِ علمیہ ذکر کیے جائیں گے۔

ان حضرات کا علم ِحدیث کی خاطر دور دراز کا سفر کرنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے ،ان طویل اور مشقت انگیز اسفار کی داستاں صرف دل چسپ ہی نہیں، بلکہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے ،تذکرئہ محدثین میں اسے اہتمام کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ۔

محدثین کے تراجم میں رحّال (بہت سفر کرنے والا ) جوّال (بہت گھومنے والا ) اکثر التجوال،مکحولا الیہ،رُحلة(منتہائے سفر)جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں،چناں چہ ابن العماد الحنبلی متوفیٰ1089ھ نے ”ابن مندہ متوفیٰ 395ھ“ کے بارے میں لکھا ہے:
”طوََََّف الدُّنیا وجمَعَ وکتبَ مالاینحصَر“․(شذرات الذہب،3/281،ط:دارالکتب العلمیة،الطبعةالاولیٰ:1419ھ۔)
یعنی ساری دنیا میں پھرے ہیں اور اتنا کچھ لکھا اور جمع کیا جس کا شمار نہیں۔اسی طرح امام ابوالحسین محمدالجرجانی کے بارے میں ”رحّال، جوّال“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ (تذکرة الحفاظ ،3 /128، ط: ایضا،الطبعةالثانیہ:1428ھ۔)

اور حافظ ابن حجرعسقلانی متوفی 852ھ کے بارے میں ”العلاّمة الرُحلة“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ (نزھة النظر ،ق:1 /ب،مخطوط۔)

علاَّمہ تاج الدین سُبکی متوفی 771ھ نے” ابونُعیم ا صبہانی “کے بارے میں لکھا ہے:”کان مکحولا الیہ فی وقتہ“۔(طبقات الشافعیة الکبریٰ، 2/255،ط:دارالکتب العلمیة ،الطبعةالاولیٰ:1420ھ۔)

ان حضرات نے طلب حد یث کی لیے مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کے علاقے چھان مارے ،اس قسم کے الفاظ اور عبارتیں تذکرئہ محدثین میں عام ہیں ۔

حضرت جابر بن عبدا للہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: ایک صحابی جوملک شام میں رہتے تھے، مجھے اُن کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک ایسی حدیث سنی ہے ، جومیں نے نہیں سنی، تو میں نے اسی وقت اونٹ خریدا اور اس پر کجاوہ کس کر ایک ماہ تک چلتا رہا، شام میں حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچا ،دربان سے کہا: اندر بتاوٴ جابر دروازہ پرکھڑا ہے ۔دربان نے جب اندر خبر د ی ،تو انہوں پوچھا: جابربن عبداللہ ؟اُس نے عرض کیا: جی ہاں !یہ سنتے ہی وہ باہر تشریف لائے اور معانقہ کیا ، میں نے پوچھا :آپ کے واسطے سے ایک حدیث پہنچی ہے ، میں ڈرا کہ مبادا موت آجائے اور میں ا س کو سننے سے محروم ہوجاوٴں، یہ سن کر انہوں نے وہ حدیث سنائی، جو قصاص کے متعلق تھی ۔(مسنداحمد ، ا لٴادب المفرد ،بحوالہ فتح الباری ،1/174،ط:دارالفکر۔)

اسی طرح ایک دل چسپ واقعہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے ، انہوں نے ایک حدیث براہ ِراست آپ صلی الله علیہ وسلم سے سنی تھی، مگر اس میں کچھ تردُّد پیدا ہوا ، جب انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سنی تھی اس وقت دربارِ رسالت میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ،اب وہ مصر میں مقیم تھے، انہوں نے سفر شروع کیا، حضرت عقبہ بن عامر کے پاس پہنچے اور فرمایا: مجھ سے وہ حدیث بیان کرو، جو تم نے آ پ صلی الله علیہ وسلم سے مسلمان کی پردہ پوشی کے متعلق سنی تھی ،اِس وقت میرے اور تمہارے علاوہ اس حدیث کو سننے والا کوئی باقی نہیں رہا۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ حدیث دہراتے ہیں ، وہ حدیث سنتے ہی فورًا واپس روانہ ہوجاتے ہیں ، حدیث یہ تھی: ”مَنْ سَتَر مُسْلمًا فِی الدُّنیَا علیٰ خزیَّة سَترہُ اللّٰہُ یومَ القِیامَة“ جو کسی مسلمان کی برائی کی دنیا میں پردہ پوشی کرتا ہے ،قیامت کے دن اللہ رب العزت ا س کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ (مصنف عبدالرزاق ،10/228، ط:دارالقرآن، الطبعةالاولیٰ:1416ھ۔)

یہ توصحابہ کرام کے واقعات کا ایک نمونہ تھا،اس کے بعد دورِ تابعین اور بعد والوں کے اِن اسفار میں اور ترقی ہوئی ،طلبِ حدیث کے لیے پیادہ پا چلنا،سمندروں اور برّاعظموں کوپار کرلینا اُن کے نزدیک معمولی بات تھی حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ متوفی 94ھ فرماتے ہیں:کہ میں ایک حدیث کے لیے کئی دن اور راتیں پیدل سفر کرتا تھا ۔( فتح الباری،1/145، ط:دارالفکر۔)

حضرت یحییٰ بن مَعین رحمہ اللہ متوفیٰ 233ھ فرماتے ہیں: چار آدمیوں سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ،چوکیدار ، قاضی کا دربان ، محدِّث کا بیٹا ، جو طلبِ حدیث کے لیے سفر نہ کرے ۔ (الرحلة فی طلب الحدیث ،ص:154،دارالکتب العلمیة،الطبعةالاولیٰ:1413ھ۔)

حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ متوفی 162ھ فرماتے ہیں:کہ اللہ رب العزت ا س اُمَّت سے بہت سے عذابوں کواصحابِ حدیث کے رحلات کی وجہ سے ٹال دیتے ہیں ۔ (مرجع سابق ،ص:155۔)

حضرت زکریا بن عدی رحمہ اللہ متوفیٰ212ھ فرماتے ہیں: کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالی نے کیا معاملہ فرمایا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ طلبِ حدیث کے اسفار کی وجہ سے اللہ تعالی نے مغفرت فرمادی ۔(مرجع سابق، ص:156۔)

حضرت عبدالرحمان بن مندہ متوفی 395ھ ایک طویل سفر پر نکلے، مختلف شہروں ، ملکوں میں گھومے ،وہاں سے علمِ حدیث حاصل کیا ،تیس سال اِس سفر میں گزار دیے ،جب واپس لوٹے تو چالیس اونٹوں پر ان کی کتابیں لدی ہوئی تھیں ۔(البدایة والنہایة ،12/272،ط:دارابنِ کثیر،الطبعة الاولیٰ:1428ھ۔)

حضرت عامر بن شرحبیل رحمہ اللہ تعالی متوفی ۱۰۵ھ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص شام کے ایک کنارہ سے یمن کے دوسرے کنارہ تک صرف ایک کلمہ (بات ) جو اس کو بعدمیں نفع دے، سیکھنے کے لیے سفر کرے ،تو میرے خیال میں اُس کا یہ سفر ضائع نہیں ہوگا۔( الرحلة ،مرجع سابق، ص:157،۔)

مشہور تابعی حضرت مکحول ہُذلی رحمہ اللہ متوفیٰ113ھ فرماتے ہیں: ”طُفْتُ الأَرضَ کُلَّہا فِی طلَب الْعِلمِ“ میں طلب علم کے لیے ساری دنیا پھرا ہوں اور جو میں یاد کرتا ہوں ،وہ میرے سینے میں محفوظ ہوجا تا ہے، جب چاہتا ہوں نکال لیتا ہوں ۔(صفحات من صبرالعلماء، ص:50 ،ط:المکتبة الغفوریة، الطبعةالثالثة۔)

حضرت بقیّ بن مخلد رحمہ اللہ متوفیٰ 276ھ نے طلب حدیث کی خاطر دو پیدل سفر کیے ،ایک سفر مصروشام کا اور دوسراحجازو بغداد کا، پہلا سفر چودہ سال پر اور دوسرا سفر بیس سال پر مشتمل تھا ۔(مرجع سابق، ص :60۔)

ابن الجوزی رحمہ اللہ متوفیٰ597ھ نے ” صید الخاطر“ میں لکھا ہے کہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے دو مر تبہ دنیا کا چکر کاٹا ،پھرجا کر ” مسند “تیار کی ۔(مرجع سابق ،ص:54۔)

ابن ابی حاتم رازی نے اپنی کتاب ”الجرح و التعدیل“میں اپنے والد ابوحاتم رازی متوفیٰ 277ھ کے بارے میں لکھا ہے کہ: پہلی مرتبہ جب سفرپر روانہ ہوئے ،توسات سال سفر میں گزار دیے اور یہ سارا سفر پیدل طے کیا ،وہ فرماتے ہیں :

میں مسلسل چلتا رہتا اور فرسخ شمار کرتا رہتا تھا، جب ہزار فرسخ مکمل ہوجاتے، تو ٹھہر جاتا، (ایک فرسخ تقریبا پانچ کلو میٹر ہوتا ہے )بغداد، کوفہ کا تو کئی مرتبہ سفر کیا ،مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بھی بار ہا سفر کیا ، اقصیٰ کی مغربی جانب ”سَلا “شہرکی طرف پیدل چلا، وہاں سے َرمْلَہ اور رملہ سے بیت المقدس، اسی طرح رملہ سے عسقلان ، رملہ سے طبریہ وہاں سے دمشق ، دمشق سے حمص اوروہاں سے انطاکیہ ، انطاکیہ سے طرسوس اور یہاں سے پھر حمص لوٹا۔

حضرت ابوالیمان سے حدیث کے متعلق کچھ پوچھنا تھا ،پھرحمص سے بیسان اور بیسا ن سے رقہ کا سفر کیا ،یہ سارا سفر پیدل تھا ،پھر َرقہَّ سے کشتی پر سوار ہوا ، اسی طرح واسط سے نیل اور نیل سے بغداد کا سفربھی کیا، یہ میرا پہلا سفر تھا، 213ھ میں گھر سے نکلا تھا اور 221ھ واپس لوٹا ، دو سرا سفر تین سال کا تھا…۔(مرجع سابق ،ص:60۔)

ابن المقری محمد بن ابراہیم متوفیٰ381ھ فرماتے ہیں کہ :میں نے مفضل بن فضالہ مصری کے نسخے کے حصول کے لیے ستر مرتبہ سفر کیا۔ (تذکرة الحفاظ ،مرجع سابق،3/973۔)

حضرت ابو العالیہ تابعی رحمہ اللہ متوفی ۹۳ھ فرماتے ہیں :میں طلب حدیث کے واسطے ایک آدمی کی طرف سارا دن سفر کرتااور سب سے پہلے اُن کی نماز دیکھتا ، اگرٹھیک ٹھیک نماز پڑھنے والے ہوتے ،تو وہاں قیام کرتا اور ان سے حدیث سنتا ،ورنہ واپس آجاتااور یہ خیال کرتا کہ وہ باقی کاموں کو نماز سے زیادہ خراب کرنے والا ہوگا ۔ (الرحلة فی طلب الحدیث ،مرجع سابق،ص :162۔)

حضرات محدِّثین اِن رحلات کے ساتھ”آداب طلب الحدیث“ بھی ذکر کرتے ہیں، تاکہ طالبِ حدیث کے یہ رحلات قیمتی بنیں،اور کماحقہ استفادہ کیا جائے ، یہ نہ ہو کہ ایک صاحب دُور دراز کا سفر کریں آداب سے عاری ہوں اور خالی ہاتھ واپس لوٹیں ،لہذا اختصار کے ساتھ چند آداب ذکرکیے جا تے ہیں:
اپنی نیت صاف رکھے، صرف اللہ کی رضا مقصود ہو ،اس کے علاوہ کوئی غرض و لالچ نہ ہو ۔
پہلے علاقہ کے مشائخ سے علم حدیث حاصل کرے ،پھر باہر کا سفر کرے ۔
اچھے اخلاق کا اپنانا ضروری ہے ، کیوں کہ جو اس سے محروم کیا گیا، وہ بہت بڑی خیر سے محروم کیا گیا ،حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ: اصحابِ حدیث میں وہی شخص داخل ہوسکتا ہے ،جس کا چہرہ کِھلا رہتا ہو ۔ (شرف ا صحاب الحدیث ،ص:19،ط:داراحیاءِ السنةالنبویة۔)

عبادات، آداب اور فضائلِ اعمال کے بارے میں جو احادیث حاصل ہوتی جائیں ،اُن پر عمل کرتا جائے ؛تاکہ محفوظ رہیں اور اُن کی زکاة بھی ادا ہوتی رہے ،حضرت بشر الحافی فرماتے تھے :اے اصحاب حدیث !اِس حدیث کی زکاة ادا کرتے رہا کرو ،انہوں پوچھا :کس طرح حدیث کی زکاة ادا کریں ؟ انہوں جواب دیا :ہر دو سو احادیث میں سے پانچ پر عمل کر لو ۔(الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع، ص:1/144، ط:مکتبة المعارف، الطبعةالاولیٰ:1428ھ۔)

حضرت ابراہیم بن اسماعیل فرماتے ہیں :ہم حدیث کو یاد رکھنے کے لیے، اس پر عمل کرنے سے مدد حاصل کرتے تھے ۔(مرجع سابق ،ص:2/259۔)

جن سے حدیث حاصل کریں ان کی عظمت دل میں ہو ؛تاکہ اُن سے مکمل استفادہ کرسکے ،اور اُن کی راحت و آرام کا خیال رکھے ،زیادہ دیر اُن کے پاس نہ ٹھہرے،جو وہ پڑھائیں، اُسی پر قناعت کرے ،زیادہ ہوشیاری مت دکھائے ۔ابن الصلاح رحمہ اللہ متوفی 643ھ نے لکھا ہے کہ: جو یہ کام نہیں کرتا مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ علم سے محروم نہ ہو جائے ۔(معرفة انواع علم الحدیث ص:255،ط:دارالکتب العلمیة،الطبعةالاولیٰ:1423ھ۔)

جو سُنے اس کو مکمل لکھے، اس میں اختصار نہ کرے، اگر کچھ چھوٹ جائے ،تو دوسرے ساتھیوں سے معلوم کر لے ، کسی قسم کی شرم نہ کرے ،ورنہ بعد میں ندامت ہوگی ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ: میں نے جب کسی شیخ کی باتیں لکھنے میں اختصار کیا تو مجھے بعد میں ندامت اٹھانی پڑی ۔(الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع، مرجع سابق ،ص:187/2۔)

تکبر سے اپنے آپ کو پاک رکھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہے ۔

یہ چند آداب ذکر کیے ہیں ،موضوع تو بہت طویل ہے ،مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ فرماسکتے ہیں :الرِّحلة فِی طلب الْحدِیث لِلخطِیب بغدادی متوفیٰ 463ھ،الجَامِع لأَخلاق الرَّاوی وآداب السَّامع للخطیب بغدادی،تذکرة السَّامِع والْمُتکلِّم فِی ادب العالم والمتعلِّم لابن جمَّاعة،جامع بیا ن العِلْم وفضْلِہ، لابن عبد الْبرّ متوفٰی463ھ،معرفة انْواعِ عِلم الْحدیث، لابن الصَّلاح متوفٰی643ھ،صفحاتٌ مِّن صَبْر الْعلَمآء لِعبد الفتَّاح ابوغدَّة متوفیٰ1417ھ العلماءُ العزَّاب الَّذین آثرُو ا اْلعلم علَی الزَّواج لعبد الفتاح ابو غدة ،ابن ماجہ اور علم حدیث مولانا عبد الرشید نعمانی متوفیٰ 1420ھ، ان کے علاوہ کتبِ تراجم سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔

ابو الفضل عباس بن محمد خراسانی متوفی271ھ نے کیا ہی خوب کہا ہے :
 رَحلتُ اطلُبُ اَصلَ الْعِلْمِ مُجتہدًا
وَزِینةُ الْمَرْءِ فِی الدُّنْیا الأِحَادِیْثُ
لایَطْلُبُ الْعِلْمَ اِ لَّا بَاذِل ذِکْرٍٍ
وَلَیس یَبْغضہ اِلَّا الْمَخَانِیْث
لاتَعْجَبَنَّ بِمَالِِِ سَوْفَ تَتْرُکُہ
فَانَّمَا ھذِہ الدُّنْیَا مَوَارِیْثُ

میں نے اصلِ علم کو حاصل کرنے میں مشقتیں جھیلی ہیں، کیوں کہ دنیا میں آدمی کی زینت تو احادیث ہیں اور اس کو پختہ کار لو گ ہی حاصل کرسکتے ہیں ،کمزور اور نا مرد قسم کے لوگ تو اس سے نفرت کرتے ہیں اورایسے مال ودولت سے محبت کرنا فضول ہے ،جسے تم جلد ہی چھوڑدو گے؛کیوں کہ یہ تو بغیر محنت کے میراث میں بھی مل جاتا ہے۔ 
Flag Counter