Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

11 - 14
خیر خواہی کرنا مسلمان کا حق ہے
مفتی محمد جمال الدین قاسمی

غیر موجود شخص کے ساتھ خیر خواہی
جو شخص سامنے نہ ہو ، نظروں سے اوجھل ہو ، یا سفر میں ہو تو اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کا برتاوٴ کرنا اس کا حق ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے حقوق ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے ساتھ خیرخواہی کی جائے ، (شعب الإیمان ، حدیث نمبر :8379 ، باب مقاربة أہل الدین وموادتہم الخ)

اور حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه ہی کے واسطے سے حضورصلى الله عليه وسلم کا ارشاد علامہ اصبہانی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے : ”وإذا غاب حفظ غیبتہ“․ (التوضیح والتنبیہ لأبي الشیخ الأصبہاني:27/1 ، باب ما یلزم المسلم)

” مسلمان کے چھ حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ موجود نہ ہوتو اس کے پیچھے اس کی حفاظت کرے “۔

غائب مسلمان کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ اس کی بُرائی لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے ، اس کی غیبت کرنے سے اپنی زبان کی حفاظت کرے ، کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرنا گویا اس سے حسد کرنا ہے ، حضرت عوف کہتے ہیں کہ میں نے وہب بن منبہ کی کتاب میں یہ لکھا ہوا پایا کہ حاسد کی تین علامتیں ہیں ، جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہو تو چاپلوسی کرے ، سامنے نہ ہو تو اس کی غیبت کرے اور جب اس پر کوئی مصیبت آئے تو مذاق اڑائے ، (حوالہ سابقہ ، ص : 44 ، باب ما أدبہ النبي صلى الله عليه وسلم الخ)اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اس کی غیبت یا ہتک عزت کررہا ہو تو جہاں تک بس میں ہو اسے روکنے کی کوشش کرے ، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ، علامہ بیہقی  (م: 458ھ) نے حضرت عمران بن حصین رضي الله عنه سے آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے :

”من نصر أخاہ بالغیب، وہو یستطیع نصرہ، نصرہ اللہ في الدنیا والآخرة “․(شعب الإیمان ، حدیث نمبر : 7234 ، التعاون علی الصبر)

” جو شخص اپنے بھائی کی غائبانہ مدد کرے اور وہ مدد کرنے پر قادر بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد دنیا و آخرت دونوں میں کرے گا “ ۔

دعاکرنا بھی خیرخواہی ہے
غائب مسلمان کو اپنی دعاوٴں میں یاد رکھنا بھی اس کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے ، غائبانہ دعا کرنے والوں کی تعریف قرآن پاک میں بھی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (الحشر:10)

”نیز (یہ مال)ان لوگوں کا (حق ہے)جوان سب کے بعد آئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! بخش دے ہمیں بھی اورہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اورہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کسی قسم کا کوئی کھوٹ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب !بلاشبہ تو بڑا ہی شفیق ،انتہائی مہربان ہے ۔“

نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم  کو موٴمنین اور موٴمنات کے لیے استغفار کا حکم دیا ہے: ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ (محمد : 19)
ترجمہ:”اور معافی مانگو اپنے گناہ کے لیے اور ایمان دار مردوں اور عورتوں کے لیے بھی “۔

اور حضرت نوح عليه السلام نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کی :﴿رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْْتِیَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾۔ (نوح : 28)

”اے میرے رب! بخشش فرما دے تو میری بھی، میرے ماں باپ کی بھی اور ہر اس شخص کی بھی جو داخل ہو میرے گھر میں، ایمان کی حالت میں، اور سب ہی ایمان دار مردوں اور ایمان دار عورتوں کو “۔

اور حضرت ابراہیم عليه السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی ہے :﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَاب﴾․ (إبراہیم :41)

” اے ہمارے رب! بخشش فرما دے میری بھی اور میرے والدین کی بھی، اور سب ایمان والوں کی بھی، اس دن جب کہ حساب قائم ہوگا“۔

اور حضرت ابو الدرداء رضي الله عنه آپصلى الله عليه وسلمکا ارشاد نقل کرتے ہیں :” ما من عبد مسلم یدعو لأخیہ بظہر الغیب إلا قال الملک: ولک بمثل“ (مسلم ، حدیث نمبر : 2732 ، باب فضل الدعاء)

” جو مسلمان اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تمہارے لیے بھی اسی طرح ہو “۔

اور حضرت صفوان کہتے ہیں کہ میں اپنے خسر حضرت ابو الدرداء رضي الله عنه سے ملنے کے لیے گیا ، وہ گھر پر تشریف فرما نہ تھے ؛ البتہ ہماری خوش دامن حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا موجود تھیں ، انہوں نے پوچھا کہ امسال آپ کا حج کا ارداہ ہے ؟میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے لیے خیر کی دعا کرنا ؛ کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم فرماتے تھے کہ ایک مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے ، دعا کرنے والے کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے ، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے تو موجود فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ تمہارے لیے بھی اسی جیسا ہو ۔ (حوالہ سابقہ ، حدیث نمبر : 2733)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے ، اس سے اپنے بھائی کے بارے میں اس شخص کا غیر معمولی خلوص و محبت اورخیر خواہی کا بہترین جذبہ ظاہر ہوتا ہے ، اسی حکم میں یہ صورت بھی داخل ہے کہ اگر کوئی شخص کسی متعین مسلمان کے لیے تو دعا نہیں کرتا ؛ لیکن جماعت مسلمین کے لیے دعا کرتا ہے ، حدیث مذکور میں یہ بھی خوش خبری کہ اس سے دعا قبول ہوگی ؛ (دلیل الفالحین : 299/7) کیوں کہ دعا کرنے والا اللہ کی رضا وخوش نودی والا کام کررہا ہے ؛ اس لیے اللہ تعالیٰ خوش ہوکر اس کی دعا قبول کرلیتا ہے ۔ (حوالہ سابقہ)

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي الله عنه روایت کرتے ہیں : ”أسرع الدعاء إجابة دعاء غائب لغائب “ (الأدب المفرد ، حدیث نمبر : 623 ، باب دعاء الأخ بظہر الغیب)

” تمام دعاوٴں سے جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب شخص کے لیے ہو “ ۔

اس لیے اسلاف کا طریقہ رہا ہے کہ جب وہ اپنے لیے دعا کرنا چاہتے تھے تو ان دعاوٴں میں اپنے بھائیوں کو بھی شامل کرتے تھے ؛ تاکہ ان کی برکت سے خود ان کی دعا قبول ہوسکے اور انہیں بھی اس کے بقدر حاصل ہوجائے اور ایک حدیث میں تو صراحة مذکور ہے کہ کسی بھائی کے لیے اگر غائبانہ دعاکی جائے تو وہ ردنہیں کی جاتی ہے ۔ (مسند أحمد ، حدیث نمبر : 3577، أول حدیث عمران بن حصین)گویا وہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے ۔

حضرت ابو الدرداء رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ میں اپنے ستر بھائیوں کے لیے سجدہ کی حالت میں نام لے کر دعا کرتا ہوں (إحیاء علوم الدین : 186/2، کتاب آداب الألفة) یہ خیر خواہی کا اعلیٰ درجہ ہے ، پوری جماعت مسلمین کے لیے دعا کرنے میں وہ خصوصی حضرات بھی شامل ہوجاتے ، لیکن ناموں کی اتنی لمبی فہرست سجدہ کی حالت میں لیتے اور ہر ایک کے لیے جداگانہ دعا فرمایا کرتے تھے ، یہی حضرات تھے جو حدیث پر عمل کرکے دکھاگئے ، وہ گویا اس کے لیے پیدا کیے گئے تھے ، غائبانہ دعا کرنے کی جو فضیلت ہے اس پر انہوں نے نہ صرف یہ کہ خود عمل کیا ؛ بلکہ بعد میں آنے والوں کے لیے اسوہ اور نمونہ بھی چھوڑ کر گئے کہ کس طرح غائبانہ دعا کی جائے اوراس میں کیا نیت کی جائے ، غائبانہ دعا کرنے میں خود دعاکرنے والے کا فائدہ ہے ، اس سے جہاں خلوص ومحبت کا اظہار ہوتا ہے ، وہیں اس کی دعا خود اپنے حق میں بھی قبولیت کے لائق بن جاتی ہے اور فرشتوں کی آمین کی مستحق بن جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ اس فضیلت کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ! آمین ۔

گھر میں بلی رکھنے سے انکار
جو شخص اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور خدا کا خاص بندہ ہوتا ہے اس میں مخلوق خدا سے خیر خواہی اور جذبہٴ محبت اسی قدر زیادہ ہوتی ہے ، ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے گھر میں چوہوں کی کثرت ہوگئی اور گھرکے سامان کو نقصان پہنچانے لگے تو کچھ لوگوں نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ آپ ایک بلی پال لیں ، اس سے سارے چوہے یا تو بھاگ جائیں یا پھر بلی اسے اپنی غذا بنالے گی ؛ لیکن انہوں نے فرمایا کہ مجھے یہ خوف ہے کہ ہماری بلی کی آواز سن کر کہیں یہ چوہے ہمارے پڑوسی کے گھر نہ چلے جائیں اور ان سے جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے اس سے وہ حضرات بھی دوچار ہوجائیں گے ، جو خیر خواہی کے خلاف ہے اور میں اپنے پڑوسیوں کے لیے ایسی بات پسند کرنے والا بن جاوٴں گا ، جسے خود اپنے لیے پسند نہیں کرتا ہوں ۔(إحیاء العلوم : 213/2 ، کتاب آداب الألفة)

ظالموں پر رحم
نصح و خیر خواہی کا اہتمام اسلاف میں اس قدر تھا کہ خود مصیبت وپریشانی برداشت کرلیتے تھے ؛ لیکن جن کی طرف سے پریشانی آتی تھی ، ان کے میدانِ محشرکی پریشانی کا احساس کرکے غم زدہ ہوجاتے تھے ، حضرت علی بن الفضیل کو ایک مرتبہ روتے ہوئے لوگوں نے دیکھا ، جب رونے کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے وہ جب میدان حشرمیں اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے اور ان سے ظلم کے متعلق سوال ہوگا اور اس کا وہ جواب نہیں دے سکیں گے تو اس وقت کی ان کی بے چارگی اور بے کسی کا احساس مجھے رلا رہا ہے کہ ان کا کیا حال ہوگا ؟ (إحیاء العلوم : 209/2، کتاب آداب الألفة)

ان ہی کے بارے میں آتا ہے کہ طوا ف کی حالت میں کسی نے ان کے ساتھ موجود دینار کو چرالیا ، ان کے والد بزرگوار نے ان کو روتا ہوا دیکھ کر پوچھا کہ کیا دینار کے چوری ہوجانے پر رورہے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں چوری ہوجانے پر نہیں رورہا ہوں ، خدا کی قسم! مجھے تو اس مسکین پررونا آرہا ہے جس سے قیامت کے دن اس چوری کا حساب ہوگا اوروہ اس تعلق سے کوئی صفائی پیش نہ کرسکے گا۔(إحیاء العلوم :283/4 ، بیان آداب المتوکلین)

ایک بزرگ کے اوپر کسی نے ظلم و زیادتی کی ، ان کی ہم دردی میں ایک صاحب نے ان سے عرض کیا کہ آپ اس ظالم کے حق میں بد دعا کردیجئے، انہوں نے فرمایا کہ میں اس کے انجام سے بڑا متفکر ہوں ، غم زدہ اور افسردہ ہوں ، اس مشغولیت کی وجہ سے مجھے اس کے حق میں بد دعا کرنے کا وقت کہاں مل رہا ہے ؟ (حوالہ سابقہ)ظاہر ہے کہ یہ فکر نصح و خیر خواہی کا اعلیٰ درجہ ہے ۔

اسلاف کی خیر خواہی کے چند مظاہر
حضرت یونس بن عبید ایک جلیل القدر تابعی ہیں ، کپڑوں کا کاروبار کیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ آپ کے یہاں جوڑے مختلف قیمت کے تھے ، بعض جوڑے چار سو درہم کے اور بعض دو سو درہم کے تھے ، نمازکا وقت ہوگیا تو جلدی سے مسجد تشریف لے گئے اور دوکان پر اپنے بھتیجے کو چھوڑ گئے ، اس دوران ایک دیہاتی آگیا اور اس نے چار سو درہم والے جوڑے بتانے کو کہا ، ان کے بھتیجے نے دو سو درہم والے جوڑے کو اس کے سامنے رکھا ، اسے یہ جوڑا اچھا لگا ، پسند آگیا اور چار سو درہم کے عوض لینے پر راضی ہوگیا ؛ چناں چہ چار سو درہم ادا کرکے وہ جوڑا لے لیا ، راستے میں اس دیہاتی سے حضرت یونس بن عبید کی ملاقات ہوگئی ، انہوں نے وہ جوڑا ان کے ہاتھ میں دیکھ کر پوچھا کہ اسے تم نے کتنے میں خریدا ہے ؟ اس نے کہا : چار سو درہم میں ، آپ نے فرمایا کہ یہ دو سو درہم سے زیادہ قیمت کا نہیں ہے ، ہمارے ساتھ چلو، میں بقیہ پیسہ لوٹادوں گا ، دیہاتی نے کہا کہ ہمارے یہاں تو ایسے جوڑے کی قیمت پانچ سو درہم ہے ، پھر میں چار سو درہم ادا کرنے پر بھی راضی تھا ، میں نے تو اپنی خوشی سے چار سو درہم ادا کرکے یہ جوڑا لیا ہے ؛ لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو ، خیر خواہی دنیا وما فیہا سے بہتر چیز ہے ، اسے کسی طرح دکان پر لائے اور دوسو درہم واپس کیے اور اپنے بھتیجے پر بہت خفا ہوئے اور فرمایا تم کو اللہ سے حیا نہیں آئی ؟ تم کو اللہ تعالیٰ سے خوف نہیں ہوا کہ اتنا زیادہ نفع لے کر فروخت کیے اور مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا بھول گئے ، بھتیجے نے کہا کہ اس شخص نے اپنی رضامندی سے یہ جوڑا چار سو درہم میں خریدا ہے، اس لیے اس میں میرا کیا قصور ؟ مگر آپ نے فرمایا کہ جس قیمت پر اپنے لیے تم لینا چاہتے ہو اسی قیمت پر اس دیہاتی کے لیے بھی تمہیں راضی ہونا چاہیے تھا ۔ (مفتاح الأفکار ولتأہب لدار القرار : 170/1، موعظة : 8)

آپ کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ ایک صاحب ریشم کے کپڑے آپ سے خریدنے کے لیے آئے ، آ پ نے اپنے غلام سے ریشم کا گٹھر لانے کو کہا ، وہ لے کر آیا اورمشتری کو کھول کر بتایا اور اس غلام کے منہ سے نکلا ” اللہم ارزقنا الجنة “ اے اللہ ! مجھے جنت نصیب فرما ،یہ سننا تھا کہ آپ نے غلام سے کہا کہ اس گٹھر کو پھر باندھ کر اپنی جگہ رکھ دو ، اسے ابھی نہیں بیچنا ہے ، مشتری نے اصرار بھی کیا ؛ لیکن آپ راضی نہ ہوئے ؛ کیوں کہ غلام کی زبان سے ” اللہم ارزقنا الجنة “ نکل جانے سے آپ کو یہ خوف ہوا کہ غلام نے اشارةً سامان کی تعریف اور اس کی خوبی بیان کردی ہے ، کہیں یہ دھوکہ میں شمار نہ ہوجائے ۔ (حوالہ سابقہ)

محمد بن منکدر بھی تجارت کرتے تھے ، ان کے یہاں بھی مختلف قیمت کے مختلف گٹھر تھے ، کچھ گٹھر پانچ درہم کے اور کچھ دس درہم کے تھے ، ان کے ایک غلام نے پانچ والے کو دس درہم کے عوض فروخت کردیا ، جب آپ کو اس کا علم ہوا تو اس خریدنے والے کو تلاش کرنے لگے، تاکہ اس کے پانچ درہم واپس کردیں ، دن بھر اسے تلاش کرتے رہے ، بالآخر وہ ملا ، آپ نے ان سے فرمایا کہ ہمارے غلام نے غلطی سے پانچ درہم کے گٹھر کو دس درہم میں بیچ دیا ہے ، اس لیے تم اپنی زائد رقم لے لو ، اس شخص نے عرض کیا کہ میں نے تو دس درہم پر راضی ہوکر ہی خریدا تھا ، مجھے تو اب یہ رقم لینے کا حق نہیں ہے ، آپ نے فرمایا کہ تم اگرچہ راضی تھے ؛ لیکن میں اس قیمت پر لینے سے راضی نہیں ؛ کیوں کہ ہم تمہارے لیے اسی قیمت کے عوض لینے پر راضی ہوں گے جس پر لینے کو ہم خود چاہتے ہیں ؛ لہٰذا تم کو تین باتوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا ، یا تو تم وہ گٹھرلے لو جس کی قیمت دس درہم ہے ، یا تم وہ نہیں لیتے اور اس موجود گٹھر کے لینے پر راضی ہوتو یہ زائد پانچ درہم لے لو ، یا پھر ہماراگٹھر واپس کردو اور اپنے درہم لے لو ، خریدار نے کہا کہ مجھے تو یہی گٹھر پسند ہے ، مجھے پانچ درہم دے دو ، آپ نے اسے ادا کیا اور وہ گٹھر اور پانچ درہم لے کر واپس ہوا ؛ لیکن اسے بہت تعجب ہوا ، اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خیر خواہ کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ محمد بن منکدرحمة الله علیہ ہیں۔ (حوالہ سابق، ص : 171 ) یہ سن کر دیہاتی نے کہا کہ یہ ایسی شخصیت ہیں کہ قحط سالی میں ان کی طفیل میں اگر بارش طلب کی جائے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کو بارش سے نوازے گا ۔ (إحیاء علوم الدین : 80/2 ، الکسب والمعاش)

حضرت یونس بن عبید کے بارے میں آتا ہے کہ ان کا ایک غلام گنے کا کاروبار کرتا تھا ، ایک مرتبہ آپ کو معلوم ہوا کہ اس مرتبہ گنے کی فصل اچھی نہیں ہے ، آپ نے از راہ خیر خواہی اپنے غلام کو خط لکھا کہ گنا اس مرتبہ ضرور خریدو ؛ چناں چہ اس نے خرید لیا اور جب اس کے بیچنے کا وقت آیا تو تیس ہزار منافع کے ساتھ فروخت ہوا ، آپ جب گھر واپس ہوئے تو رات بھر سوچتے رہے کہ میں نے تیس ہزار کا نفع حاصل کرلیا اور مسلمان کے ساتھ جو مجھے خیر خواہی کرنی تھی وہ ہم سے رہ گئی ؛ چناں چہ وہ صبح سویرے بائع کے پاس پہنچے اور اسے تیس ہزار درہم دیا اور فرمایا : اللہ تمہیں اس مال میں برکت عطا فرمائے ، اس نے عرض کیا کہ یہ مال مجھے کہاں سے آیا؟ آپ نے فرمایا کہ در اصل میں نے گنا خریدتے وقت تم کو حقیقت سے آگاہ نہیں کیا تھا ، اس وقت میں گنا مہنگا تھا ؛ لیکن تم سے ہم نے سستے دام پر خرید لیا تھا ، بائع آپ کی طے کردہ قیمت پر دل سے راضی تھا تو درہم لینے سے انکار کردیا ،آپ درہم لے کر واپس آگئے ، رات بھر پھر آپ کو نیند نہیں آئی اور یہ سوچتے رہے کہ شاید بائع کو مجھ سے حیا وشرم آئی ؛ اس لیے درہم لینے سے انہوں نے انکار کردیا ہوگا ، دوسرے دن صبح سویرے پھر بائع کے پاس پہنچے اور فرمایا : اللہ آپ کو صحت و عافیت سے رکھے آپ اپنا مال لے لیجیے ، میں خوش دلی سے آپ کو دے رہا ہوں ؛ چناں چہ انہوں نے لے لیا ، جب کہ وہ رقم تیس ہزار درہم تھی ۔ (حوالہ سابقہ ، ص :171)

ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے ساٹھ قفیز اخروٹ ساٹھ دینار میں خریدا اور اپنے نوٹس بورڈ پر لکھا کہ اسے تین دینار منافع لے کر میں بیچوں گا ؛ لیکن اچانک اخروٹ کی قیمت میں اچھال آیا اور ساٹھ قفیز اخروٹ کی قیمت نوے دینار ہوگئی ، ایک نیک اور صالح خریدار اخروٹ خریدنے کے لیے آئے اور قیمت دریافت کی ، مالک نے تریسٹھ دینار قیمت بتائی ، خریدارنے کہا کہ اس کی قیمت بڑھ گئی، اب یہ نوے دینار میں فروخت ہورہا ہے ؛ اس لیے میں نوے دینار میں خریدوں ، مگر مالک تریسٹھ دینار ہی پر بیچنے پر مصر رہے اورخریدار نوے دینار دینے پر بضد تھے ، بالآخر کوئی اپنے موقف سے ہٹنے کے لیے تیار نہ ہوا اور بیع نہ ہوسکی اور دونوں طرف سے خیر خواہی کے جذبے نے بیع ہونے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو جدا کردیا ۔ (حوالہ سابقہ ، ص : 172) امام غزالی نے اس بزرگ کا نام سری سقطی لکھا ہے۔ (إحیاء علوم الدین :80/2 ، الکسب والمعاش)

ابن سیرین بڑے اونچے درجے کے تابعین میں سے ہیں ، خواب کی تعبیر میں ید طولی حاصل تھا ، ورع و تقوی سے بھی ان کو حصہ وافر ملا تھا ، ایک مرتبہ انہوں نے اپنی ایک بکری ایک صاحب کے ہاتھ فروخت کی اور مشتری کو یہ بتایا کہ اس بکری میں ایک عیب ہے کہ یہ چارہ کو اپنے پاوٴں سے الٹتی پلٹتی ہے ؛(حوالہ سابقہ) حالاں کہ عام طور پر بکریوں میں یہ بات پائی جاتی ہے ، مگر نصح و خیر خواہی کا جذبہ ان پر اتنا غالب تھا کہ جو چیز فطرت و عادت کے قبیل سے ہواکرتی تھی اسے بھی سامنے والے کو بیان کردینا ضروری سمجھتے تھے اور اس کو چھپالینے اور نہ بیان کرنے کو خیر خواہی کے خلاف سمجھتے تھے ۔

حسن بن صالح مشہور محدث ہیں ، ورع و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے ، بڑی محتاط زندگی گذارتے تھے ، امام بخاری نے ان سے استفادہ کیا ہے اور بخاری شریف میں ان کی احادیث ذکر کی ہیں ، ان کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی ایک باندی فروخت کی تو مشتری سے فرمایا کہ اس میں ایک عیب ہے اور وہ یہ کہ ہمارے یہاں رہتے ہوئے اسے ایک مرتبہ ناک صاف کرتے وقت خون آیا تھا ۔ (إحیاء علوم الدین :77/2 ، کتاب آداب الکسب والمعاش)

حضرت فضیل نے اپنے صاحب زادے کو دیکھا کہ دینار کو اچھی طرح دھو رہے ہیں اوراس پر جم جانے والی میل کو اچھی طرح صاف کررہے ہیں ؛ تاکہ اس کی وجہ سے وزن میں زیادتی نہ ہو ؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے وزن میں اضافہ کرکے کسی کو دینا خیر خواہی کے خلاف ہے ، یہ دیکھ کر حضرت فضیل نے اپنے صاحب زادے کو مخاطب کرکے فرمایا :” یا بنیَّ، فعلک ہذا أفضل من حجتین وعشرین عمرة“․ (إحیاء علوم الدین ، کتاب آداب الکسب والمعاش: 77/2)

” اے پیارے ! تمہارا یہ فعل دو حج اور بیس عمرہ سے بہتر ہے “

حسن بصری نے ایک صاحب کے ہاتھ ایک خچر چار سو درہم میں بیچا ، اس نے خچر پر قبضہ کرنے کے بعد کہا کہ کچھ سہولت کا معاملہ کیجیے ، حسن بصری نے سو درہم معاف کردیا ، اس نے مزید احسان کی درخواست کی تو آپ نے پھر سو درہم معاف کردیا اور مشتری سے صرف دو سو درہم لیا ، لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ نے تو صرف آدھی قیمت وصول کی اور آدھی قیمت مشتری کو معاف کردی ، انہوں نے فرمایا کہ احسان و خیر خواہی تو اسی کا نام ہے ، جسے کسی کے ساتھ احسان وخیرخواہی کرنی ہو تو اسی طرح کرنی چاہیے ۔ (حوالہ سابقہ ، ص : 81)

حضرت واثلہ بن اسقع رضي الله عنه ایک بائع کے پاس کھڑے تھے ، اس نے ایک صاحب کو ایک اونٹنی تین سو درہم میں فروخت کی ، آپ رضي الله عنه کو محسوس نہیں ہو ا، خریدار اونٹنی لے کر چلا بھی گیا ، جب حضرت واثلہ رضي الله عنه کو شبہ ہوا تو اس کے پیچھے دوڑے اور زور زور سے اسے آواز دینے لگے ، اس کے قریب پہنچ کر پوچھا کہ تم نے یہ اونٹنی گوشت حاصل کرنے کے لیے خریدی ہے یا سواری کے لئے ؟ اس نے کہا : سواری کے واسطے ، آپ رضي الله عنه نے فرمایا کہ اس کے کُھر میں سوراخ ہے ، جس کی وجہ سے یہ تیز نہیں چل سکتی ، مشتری بائع کے پاس آیا اور اسے لوٹانا چاہا ، مگر بائع سو درہم کم کرکے دو سو درہم پر دینے کے لیے راضی ہوگیا ، اور مشتری بھی اس پر راضی ہوگیا ، اب بائع نے حضرت واثلہ رضي الله عنه سے کہا کہ آپ رضي الله عنه نے تو میرے سو درہم کا نقصان کردیا ، آپ رضي الله عنه نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلمکے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کریں گے ، (إحیاء علوم الدین : 76/2، کتاب آداب الکسب والمعاش) اور عیب جانتے ہوئے نہ بتانا خیر خواہی کے خلاف تھا ؛ اس لیے میں مشتری کو وہ عیب بتانے پر مجبور تھا ۔

خیرخواہی کے تعلق سے ایک نہایت جامع حدیث ہے، جسے بہت سے حضرات نے ان چار احادیث میں سے شمار کیا ہے جن پراسلام کا مدار ہے، اور جن میں پورا دین سمٹ کر آگیا ہے، بلکہ علامہ نووی نے تو صرف اسی حدیث کو مدار دین قرار دیا ہے۔(شرح النووی علی مسلم ،حدیث نمبر:55، باب بیان ان الدین النصیحة)

اس سے اس حدیث کی غیر معمولی عظمت واہمیت معلوم ہوتی ہے؛ اس لیے اس عنوان کے آخر میں وہ حدیث اور اس کی مختصر تشریح کا ذکرکردینا مناسب معلوم ہوتا ہے، حضرت تمیم داری رضي الله عنه حضورصلى الله عليه وسلمکا ارشاد نقل کرتے ہیں: ”الدین النصیحة، قلنا لمن؟ قال للہ ولکتابہ ولرسولہ ولأئمة المسلمین وعامتہم“․ (مسلم، حدیث نمبر: 55، باب بیان ان الدین النصیحة)

دین خیرخواہی کانام ہے، ہم لوگوں نے عرض کیا کہ خیر خواہی کس کے ساتھ کی جائے؟ آپ صلى الله عليه وسلمنے ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ، اس کی کتاب کے ساتھ، اس کے رسول کے ساتھ، ائمہ مسلمین اور عام مسلمانوں کے ساتھ۔

مطلب یہ ہے کہ نصح وخیرخواہی دین کا بنیادی ستون ہے، اس پر اسلام کا مدار ہے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے: ”الحج عرفة“․(ترمذی، حدیث نمبر: 889،باب ما جاء فیمن أدرک الإمام بجمع الخ) کہ حج کی بنیادی چیز اور اس کا اہم رکن عرفہ ہے۔( فتح الباری:94/11، کتاب الدعوات) ایک حدیث میں ہے کہ جس کی صبح وشام اس حال میں نہ ہو کہ وہ اللہ کا، اس کے رسول کا، اس کی کتاب کا ، ائمہ کا اور عام مسلمانوں کا خیر خواہ نہ ہو تو وہ مسلمانوں میں سے نہیں۔ (المعجم الصغیر للطبرانی ،حدیث نمبر: 907) (جاری)
Flag Counter