Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

2 - 14
نیت کی فضیلت او ر حقیقت
مولانا محمد ادریس کاندھلوی

عن النبی صلی الله علیہ وسلم أنہ قال: ”إنما الأعمال بالنیات، وإنما لإمری مانوی، فمن کانت ھجرتہ إلی الله ورسولہ فجھرتہ إلی الله ورسولہ، ومن کانت ھجرتہ إلی دنیا یصیبھا أو امرأة یتزوجھا فھجرتہ إلی ما ھاجر إلیہ“․ ( بخاری ومسلم)

اس حدیث میں دو چیزوں کا ذکر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک اعمال کا ، دوسرے ”نیت“ کا ،پہلے میں نیت کے متعلق عرض کروں گا اوراس کے بعد ان شاء الله اعمال کے متعلق بیان کروں گا۔

اخلاص نیت کی برکت
قرآن مجید اور احادیث میں جا بجا ترغیبات موجود ہیں کہ اعمال کی قبولیت کا دار ومدار نیت پر ہے اور نیت کے فضائل اور اس کا ثواب قرآن وحدیث میں اکثرجگہ موجود ہے ۔ چناں چہ قرآن مجید میں ایک جگہ خدا تعالیٰ نے فقرائے مسلمین کیبارے میں آیت نازل فرمائی جس کا شان نزول یہ ہے کہ مکہ کے سردار اور رؤسا نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ہم آپ کی بات اس شرط پر سننے کو تیار ہیں کہ جس وقت ہم لوگ آپ کی مجلس میں حاضرہوا کریں تو آپ ان غریب اور کم درجہ کے لوگوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں ، کیوں کہ ہمیں ان کے ہمراہ بیٹھنے میں سخت عار آتی ہے اور ہماری شان کے خلاف ہے کہ ہم اتنے بڑے بڑے لوگ ایسے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ جب ان لوگوں نے آپ سے یہ درخواست کی تو آپ اس سلسلے میں متردد تھے، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿لا تطرد الذین یدعون ربھم بالغداة والعشی یریدون وجھہ﴾ آپ ( اپنے پاس سے ) ان لوگوں کو الگ نہ کریں جو اپنے پرورد گار کو صبح شام پکارتے ہیں، جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ وہ خالص خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔

یعنی ان کی عبادت اور الله کو پکارنا محض اخلاص اور نیک نیتی سے ہے اور کوئی غرض ان کی اس میں شامل نہیں ۔ یہی مطلب ہے لفظ ﴿یریدون وجھہ﴾ کا ، تو خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ان سرداروں اور رؤسا کی خاطر نہ اٹھائیں، خواہ یہ سردار آپ کے پاس آئیں یا نہ آئیں۔

اس آیت میں غور کرنے سے معلو م ہو گا کہ اخلا ص او رنیک نیتی کی خدا تعالیٰ کے ہاں کتنی قدر ہے او راس کا کتنا مرتبہ ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ نعوذ بالله نبی کو امیروں سے ان کی امارت کی بنا پر محبت اورانس ہو اور غریبوں سے ان کے افلاس اور فقر کی وجہ سے نفرت ہو، بلکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جو اس ا مر میں متردد تھے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یہ حرص تھی کہ اگر میں چند منٹ کے لیے ان سردار انِ مکہ کی اس بات کو مان لوں اورتھوڑی دیر کے لیے دعوت اسلام کے خاطران سے تخلیہ میں گفت گو کر لوں تو ممکن ہے کہ یہ اسلام لے آئیں اور اس طرح ان کو ہدایت ہو جائے ، پھر یہ امرا امرا نہیں رہیں گے، بلکہ دل سے ویسے ہی درویش صفت ہو جائیں گے ، جیسے کہ یہ فقرائے مسلمین ہیں تو گویا آپ کا خیال مبارک یہ تھا کہ یہ چند روز کی بات ہے ، پھر جب خدا تعالیٰ ان کو اسلام لانے کی توفیق دے دے گا تو پھر یہ معاملہ ہی نہیں رہے گا۔

غرض آں جناب کو جو اس جانب میلان خاطر تھا وہ اس پر تھا کہ آپ ان امرا کو فقرا صفت بنانا چاہتے تھے اور فقرائے مسلمین چوں کہ سرتاپاجاں نثار اور غلام تھے ، اس لیے ان کو بھی گرانی کے ہونے کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ یہ مصالح تبلیغ ودعوت تھیں، جن کی بنا پر آپ کا خیال مبارک اس بارے میں متردد تھا، مگر چوں کہ خدا تعالیٰ کی شان بے نیازی ہے او راس کی بارگاہ میں کسی کی پروا نہیں ، اس لیے فرمایا کہ خواہ یہ امرا اسلام لائیں یا نہ لائیں، آپ پروانہ کریں ، لیکن ان مسلمانوں کو جو اخلاص او رنیک نیتی سے صبح وشام خدا کو پکارتے ہیں، اپنے دربار سے نہ ہٹائیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ اتنا بڑا اعزاز واکرام ان فقرائے مسلمین کا فرمایا او ران کو ان سرداروں کے مقابلہ میں اتنا بڑا مرتبہ عطا فرمایا، اس کی علت کیا ہے او راس کی وجہ کیا ہے ؟ سو اس کی جو علت خود حق تعالیٰ بیان فرمارہے ہیں ، وہ یہ ہے کہ ﴿یریدون وجھہ﴾ یعنی یہ مرتبہ ان کو اس لیے عطا کیاجارہا ہے کہ یہ خدا تعالی کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو اس کی رضا او رخوش نودی کی تلاش ہے ، کوئی دنیوی غرض یا اپنی ذاتی خواہش نہیں ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے جو اپنی نیتوں کو خدا کی رضا جوئی کے لیے خالص کر لیا تھا اس اخلا ص اور نیک نیتی کی یہ برکت ہے کہ ان کو اس مرتبہ عظمیٰ پر فائر کیا گیا اور فقط اسی پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ یہ حکم دیا ﴿واذا جاء ک الذین یؤمنون بایتنا فقل سلٰم علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمة انہ من عمل منکم﴾ اس میں بھی یہی ذکر ہے کہ جب یہ فقرا آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کو سلام کیجیے اور ہمارا یہ پیغام پہنچا دیجیے کہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں پر رحمت نازل کرنے کو اپنے اوپر لازم فرمالیا ہے۔ تو یہ اعزاز بھی اسی نیک نیتی او راخلاص کی بنا پر ہو رہا ہے کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس یہ لوگ آئیں تو نبی ان کو سلام کریں اور خدا تعالیٰ کی در گاہ میں حاضر ہوں تو وہ ان پر رحمت فرمائیں اور تیسرا اعزازیہ کہ امراء آئیں یانہ آئیں، کوئی پروا نہیں ، مگر ان لوگوں کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے پا س سے ان رؤسا کی خاطراٹھانا گوارا نہیں۔

اچھی نیت عمل خیر سے بہتر کیوں؟
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”نیة المومن خیر من عملہ“ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ، اس حدیث کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے، جو درحقیقت اختلاف نہیں ،بلکہ اس حدیث کی مختلف تفسیریں اور تعبیریں ہیں۔ دراصل بہ ظاہر اس حدیث میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے کہ عمل کرنے سے نیت کا درجہ کیسے بڑھ سکتا ہے ، کیوں کہ نیت تو عمل سے پہلے ہوتی ہے ، پھر اس میں مشقت بھی کچھ نہیں او رعمل میں مشقت ہے ؟ اس لیے بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ انسان کئی قسم کے ہیں ، ایک وہ کہ انسان نیک نیتی کرے اور عمل نہ کرے اور دوسرا وہ جو عمل تو کرتا ہے مگر نیت ٹھیک نہیں ہے ، مثلاً عمل میں ریا کا شائبہ ہے یا کسی دنیوی غرض کو حاصل کرنے کے لیے نیک کام کر رہا ہے تو چوں کہ اس دوسرے شخص کی نیت ٹھیک نہیں ، اس لیے اس کے عمل کا بھی کوئی ثواب نہیں ، بلکہ ریا وغیرہ کا گناہ ہو گا ،بخلاف اس شخص کے کہ جس نے صرف نیت کی تھی ، اس کو نیت کا ثواب تو مل گیا، گووہ عمل نہ کر سکا اور پہلے شخص کو نہ نیت کا ثواب ملا اور نہ عمل کا تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھ گئی ، کیوں کہ بہرحال وہ نیت ثواب کا باعث ہوئی اور یہ عمل کچھ بھی نہ ہوا۔

بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ چوں کہ عمل تو ہوتا ہے محدود اورنیت انسان غیر محدود کی بھی کر سکتا ہے تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھی ہوئی ہے ، مثلاً حدیث میں ہے کہ ایک تو ایسا شخص ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے مال بھی عطا فرمایا ہے اور علم بھی اور وہ اس مال کو اپنے علم کے مطابق صحیح جگہوں میں خرچ کرتا ہے ، یعنی جہاں خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ کرتا ہے اور جہاں خرچ کرنے کی ممانعت ہے ، وہاں خرچ کرنے سے رک جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ شخص ایسا ہے کہ اس کو اجر اورثواب بہت ملے گا، کیوں کہ جہاں جہاں اس کو خرچ کرنے کی ضرورت ہو گی ، دل کھول کر خدا کی راہ میں خرچ کرے گا او رایک دوسرا شخص ہے کہ اس کے پاس نہ مال ہے او رنہ علم ہے، وہ اس کو دیکھ دیکھ کر حسرت کھاتا اور رشک کرتا ہے کہ کاش! خدا تعالیٰ مجھے بھی اس طرح مال دیتا او رمیں اس کو خدا کی راہ میں اس شخص کی طرح خرچ کرتا ، تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” ھما فی الأجر سواء“ یعنی یہ دونوں اجر اور ثواب میں برابر ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ اس دوسرے کے پا س مال ودولت نہیں ہے، مگر اس کی نیت تو ہے کہ اگر ہوتا تو میں خرچ کرتا ، تو چوں کہ یہاں اس کی نیت شامل ہو گئی ، اس لیے اس کو اجر ثواب میں اس کے برابر کر دیا گیا۔

تیسرا وہ شخص کہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو مال دیا، مگر اس نے علم حاصل نہیں کیا، اس لیے اپنے مال کو اندھا دھند اور عیش پرستیوں اور فضول خرچیوں میں خرچ کر رہا ہے اور کسی مفلس آدمی نے اس کو دیکھ کر کہ یہ شخص تو خوب مزے اڑارہا ہے اور عیش کر رہا ہے ، اس لیے اس نے بھی یہ حسرت کی کہ اگر مجھے مال ملے تو میں بھی یوں ہی عیش اڑاؤں اور دنیا کے مزے لوٹوں، تو فرمایا کہ یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں ، تو یہ برابری محض نیت کی وجہ سے ہوئی ، اس لیے انسان کوچاہیے کہ اگر کسی کو نیک کاموں میں خرچ کرتے دیکھے تو کہے کہ اگر مجھے بھی مال میسر ہوتا تو میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتا او رکسی کو دیکھو کہ وہ اپنے مال کو بے جا خرچ کرکے گناہ میں مبتلا ہے تو یہ کہو کہ خداوند! تیرا احسان ہے او رشکر ہے کہ تونے مجھے دیا ہی نہیں کہ میں اس خرافات میں خرچ کرتا۔

بعض اولیائے کرام کے کلام میں دیکھا کہ دو چیزیں عجیب وغریب ہیں: ایک توبہ اور دوسری نیت ، یہ دونوں عجیب وغریب اس لیے ہیں کہ نیت کا کام ہے کہ معدوم چیز کو موجود بنا دینا، مثلاً ہم نے کوئی عمل نہیں کیا، مگر نیت کر لی تو ثواب ملے گا تو بغیر عمل کے ثواب ملنے کا یہی حاصل ہوا کہ عمل موجود نہیں،مگر نیت نے اس کو موجود کر دیا اور دوسری چیز توبہ ہے جو موجود کو معدوم کر دیتی ہے، کیوں کہ انسان خواہ ستر (70) برس تک گناہ کرتا رہے، بلکہ شرک وکفر میں بھی مبتلا رہے ، جب بارگاہ الہٰی پر ایک سجدہ کیا اور معافی مانگی، سب یک قلم معاف اور گناہوں کا ایک بے شمار ذخیرہ جو موجود تھا اس کو ایک مخلصانہ توبہ نے معدوم کر ڈالا، یہ دونوں نعمتیں خدا تعالیٰ نے اہل ایمان کوعطا کی ہیں ، عجیب نعمتیں ہیں ”فللہ الحمد حمداً کثیراً“․

جو حدیث ابتدا میں میں نے ذکر کی اس میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیت ہے ، یعنی اعمال بمنزلہ جسم کے ہیں او رنیت بمنزلہ روح کے ہے ۔ جس درجہ کی نیت ہو گی اسی درجہ کا عمل ہو گا ، اگر نیت ہے تو عمل بھی اچھا ہو گا اور فاسدنیت ہے تو عمل بھی فاسد ہو گا۔ اس سے بھی ”نیة المؤمن خیر من عملہ“ کا نیا مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جب نیت بمنزلہ روح کے ہے او رعمل بمنزلہ جسم کے ہے تو ظاہر ہے کہ روح کا درجہ جسم سے بڑھا ہوا ہے، آج کل کے فلسفیوں کو اور مادہ پرستوں کو اس جگہ یہ اشکال پیش آتا ہے کہ یہ باتیں محض مولویوں کے ڈھکوسلے ہیں او رمحض سنی سنائی باتیں ہیں اور اس کے لیے کوئی عقلی دلیل نہیں ، کیوں کہ عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے منکر ہے کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہو ، لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے ، اس کے لیے عقلی دلیل بلکہ مشاہدہ موجود ہے ، دیکھیے ، آپ باپ ہونے کی حیثیت سے اپنے بچے کو طمانچہ ماردیں تو اس سے اس بچے کے دل میں، جو آپ کی محبت ہے، اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا، لیکن اگر آپ کسی محلے کے بچے کے طمانچہ مار دیں تو اس بچے کو بھی ناگوارہو گا اوراس کے والدین اورسرپرستوں کو بھی ناگوار گزرے گا، سوچنا چاہیے کہ آخر یہ فرق کیوں ہوا؟ وہی نیت کا فرق ہے کہ اپنے بچے کو مارنے میں اس کی اصلاح او رتربیت مدنظر ہے اور محلے کے بچے کو مارنے میں یہ چیز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص سے نادانستہ کسی کا نقصان ہو جائے کہ اس کی نیت اور ارادہ اس کا نقصان کرنے کا نہیں تھا ، مگر لاعلمی او رغیراختیاری طور پر وہ نقصان ہو گیا تو اگر یہ دوسرا شخص عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور عدالت میں یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ کام اس نے قصداً نہیں کیا، بلکہ نادانستہ ہو گیا ہے تو عدالت اس کو سزا نہ دے گی اور اگر دے گی تو اس درجہ کی سزا نہ دے گی جیسی کہ قصداً کرنے میں دی جاتی ، تو جب دنیا کے احکام نیت سے بدل جاتے ہیں تو آخرت کے احکام بطریق اولیٰ بدل جائیں گے، حدیث ”نیة المومن خیر من عملہ“ کی ایک توجیہ علماء نے یہ کی ہے کہ نیت ایک ایسا فعل ہے کہ اس میں ریا کا احتمال نہیں ، اس لیے یہ عمل سے بہتر ہے، کیوں کہ عمل میں ریا کا احتمال ہے او رایک توجیہ اس کی امام غزالی  نے لکھی ہے ، وہ یہ کہ عمل کا تعلق تو اعضا ظاہری سے ہے اور نیت کا تعلق باطن سے ہے ، تو اس کی مثال ایسی ہے کہ اطبا جو مریضوں کو دوا دیتے ہیں ان میں بعض تو اوپر لیپ کرنے کی ہوتی ہیں اوربعض دوائیں پلانے کی ہوتی ہیں ، تو ظاہر ہے جو دوا جسم کے اندر پہنچ کر اپنا اثر کرے گی ، وہ زیادہ موثر ہو گی بہ نسبت اس دوا کے جو اوپر سے لیپ کے طور پر لگادی جائے، اس طرح نیت اور عمل کا حال ہے۔

نیت کی لغوی وشرعی تعریفیں
اب یہ معلوم کرنا چاہیے کہ لفظ ”نیت“ کے معنی کیا ہیں ؟ … نیت کے معنی لغت میں قصد کرنے او رارادہ کرنے کے ہیں ، مگر حقیقت اس کی قصد اور ارادہ کے سوا کچھ اور ہے ۔ یوں سمجھیے کہ نیت کی حقیقت یہ ہے کہ نیت ایک قلبی صفت او رکیفیت کا نام ہے، جو علم اور عمل کے درمیان میں ہے ۔ اس کو مثال سے سمجھیے کہ مثلاً پہلے تو انسان کو علم حاصل ہوتا ہے کہ فلاں کام میں نفع ہے یا نقصان ہے ، جیسے تجارت میں نفع ہونے کا کسی کو علم ہوا کہ اگر تجارت کی جائے تو نفع ہوتا ہے یا کھیتی کرنے سے غلہ پیدا ہوگا۔ یہ تو سب سے پہلا درجہ ہے، جو علم کا درجہ کہلاتا ہے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان عمل ترویج کر دے، جیسے تجارت کا مال خرید کر دکان میں لگا کر بیٹھ جائے یا کھیتی کرنے کے لیے ہل وغیرہ چلانا شروع کر دے ، یہ عمل کا درجہ ہے او ران دونوں کے درمیان جو چیز ہے وہ نیت ہے، جس سے عمل او رکام کرنے کی ایک آمادگی پیدا ہوئی، بس یہی نیت کا درجہ ہے۔

امام غزالی  نے اس کی تعریف او رحقیقت کو دو لفظوں میں بیان فرمایا ہے ، فرماتے ہیں :” انبعاث القلب إلی مایراہ موافقا بغرضہ من جلب منفعة أو دفع مضرة، حالا أومآلا“ یعنی کسی کام کے لیے دل کاکھڑا ہو جانا او رآمادہ ہو جانا کہ جس کو دل اپنی غرض کے موافق پاتا ہو، خواہ وہ غرض جلب منفعت ہو یا دفع مضرت ہو ، عام ہے ، اس سے کہ وہ غرض فی الحال ہو یا فی المال ہو ۔ اسی لیے فرماتے ہیں کہ اعمال کا دار ومدار دل کے کھڑے ہو جانے پر ہے ۔ اگر دل خدا کے لیے کھڑا ہو گیا تو وہی حکم ہو گا او راگر دنیا کے لیے کھڑا ہو گا تو وہی حکم ہو گا۔ غرض اعمال کی روح نیت ہے ، اگر نیت اچھی ہے تو عمل بھی مقبول ہے ورنہ مردود ، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اعمال کی تین قسمیں ہیں: قسم اول تو وہ اعمال ہیں جو طاعت کہلاتے ہیں ، مثلاً نماز ، روزہ، صدقہ، خیرات وغیرہ اور دوسری قسم وہ کہ جو مباحات کہلاتے ہیں ، یعنی جن کے نہ تو کرنے سے کوئی گناہ ہے اور نہ ان کو ترک کرنے سے کوئی گناہ، جیسے کپڑاپہننا ، کھانا کھانا، خوش بو لگانا وغیرہ اور تیسری قسم اعمال کی معاصی ہیں، یعنی وہ اعمال جن کے کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے او ران کے کرنے میں گناہ ہے۔

کن اعمال کا مدارنیت پر ہے ؟
اب اس حدیث میں جن اعمال کا ذکر ہے اس سے اعمال طاعت او راعمال مباح مراد ہیں۔ معاصی یعنی اعمال معصیت اس سے مراد نہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر طاعات او رمباحات میں نیت اچھی ہوئی تو نیت کے مطابق ان کی فضیلت بڑھ جائے گی، مگر گناہوں میں نیت خواہ کتنی بھی اچھی ہو وہ گناہ ، گناہ ہی رہے گا، مثلاً کوئی شخص چوری اس نیت سے کرے کہ میں اس سے غریبوں کو کھانا کھلاؤں گا یا کوئی رشوت اس نیت سے لے کہ میں مسجد بنواؤں گا تو یہ چوری اور رشوت گناہ ہیں، رہیں گے او راس پر کوئی ثواب مرتب نہ ہو گا، اس لیے معصیت میں حسن نیت کا کوئی اعتبار نہیں،بلکہ عمل معصیت کی بنا پر وہ اچھی نیت بھی فاسد ہو جائے گی۔ طاعت میں نیت خالص الله کے لیے کرنی چاہیے اور اس میں کوئی پابندی نہیں، ایک عمل میں جتنی نیتیں کر لو گے اتنا ہی ثواب ملتا چلا جائے گا، مثلاً مسجد میں حاضر ہونا عبادت ہے، اگر کوئی شخص اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضرہو رہا ہوں تو اس کو دو ثواب ملیں گے او راگر کسی نے اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لی کہ مسجد الله کا گھر ہے ، میں اس میں جارہا ہوں او رجوکوئی کسی کے گھر جاتا ہے وہ اس کی زیارت کرنے کو جاتا ہے اس لیے میں الله کی زیارت کرنے کے لیے جارہا ہوں تو ایک اجر اور مل جائے گا او راگر کسی نے اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لی کہ کسی کے گھر جانے سے انسان اس کا مہمان ہوتا ہے تو میں خدا کا مہمان بننے کے لیے او راس کی مہمانی کے مزے لوٹنے کو مسجد میں جارہاہوں تو ایک اجر اور بڑھ گیا او راگر کسی نے یہ نیت بھی کر لی کہ مسجد میں نیک لوگ اور فرشتے ہوتے ہیں ،لہٰذا ان سے برکت بھی حاصل ہو گی تو اس صورت میں ایک اجر اوربڑھ جائے گا اور اگر کسی نے یہ بھی نیت کر لی کہ میں تو روسیاہ اور گنہگار ہوں اور وہاں پر الله کے مقبول اور برگزیدہ بندے بھی ہوں گے اس لیے میری روسیاہی او رگنہگاری ان کی برکت سے دھل جائے گی تو اس نیت کا ثواب بھی بڑھ جائے گا او راگر یہ نیت بھی ساتھ ملا لے کہ جتنی دیر مسجد میں بیٹھوں گا، گناہوں سے محفوظ رہوں گا تو ایک اور اجر بڑھ جائے گا۔ نیز فقہاء نے لکھا کہ اعتکاف نفل چند گھنٹوں بلکہ چند منٹ کا بھی ہو سکتا ہے تو اگر مسجد میں آتے وقت اعتکاف کی بھی نیت کر لی تو اعتکاف کا ثواب بھی ملا۔

غرض اپنی عقل سے سوچ کر جتنی چیزوں کی نیت کرتے جاؤ گے اتنا ہی اجڑ بڑھتا جائے گا۔ آخرت کی تجارت میں انسان کو اپنی عقل خرچ کرنی چاہیے۔ غرض خدا تعالیٰ کا خزانہ کھلا ہوا ہے، وہاں ایک ہی نیت نہ کرو، بلکہ ایک ایک کام کی نیت کرو،تاکہ اجر بڑھتا چلا جائے، وہاں کوئی کمی نہیں اور نہ ہی دینے میں ان کو کوئی مشقت ہوتی ہے ، جیسے صدقہ وخیرات کرنا ثواب کا کام ہے، مگر فقہاء نے لکھا ہے صدقہ کے مستحق سب سے زیادہ اپنے قریبی عزیز ہیں، تو اگر کوئی صدقہ کرتے وقت اپنے عزیزوں کو دے او رنیت کرے کہ چوں کہ یہ ضرورت مند ہیں ، اس لیے ان کو اپنی حاجت رفع کرنے کے لیے دے رہاہوں، تو دگنا ثواب ملے گا۔

صدقہ دینے میں حضرت عمر کا اصول
حضرت عمر ضی الله عنہ نے اپنے اعزہ کو صدقہ دینے کے بارے میں ایک اصول اور ضابطہ بنا رکھا تھا، وہ یہ کہ بعض رشتہ دار تو انسان سے کسی وجہ سے ناخوش رہتے ہیں او ربعض خوش اور راضی ہوتے ہیں تو آپ ان رشتہ داروں وکو دینا زیادہ پسند کرتے تھے، جو ناخوش رہتے ہیں اور قرآن مجید میں عباد مخلصین کے متعلق ارشاد ہے کہ ان کا مسلک یہ ہے ﴿ لانرید منکم جزاء ولا شکورا﴾ ہم ( صدقہ دے کر) تم سے بدلہ او رشکر گزار ی کے طلب گار نہیں ہیں ، تو چوں کہ شکریہ کا طلب کرنا بھی ایک طرح کا بدلہ چاہنا ہے اس لیے حضرت عمر نے فرمایا کہ روٹھے ہوئے رشتہ داروں سے شکرگزاری کی توقع نہیں ہوتی ، اس لیے میں ان کو دینا پسند کرتا ہوں ، یا مثلاً کوئی شخص بے نمازی ہے، اس کو اس نیت سے صدقہ دیا کہ جب میں اس کو دوں گا تو یہ مجھ سے مانوس ہو جائے گا او رپھر اس کو نماز کے لیے ترغیب دے دوں گا تو اس کا اجر بھی بڑھ جائے گا ، اسی طرح دکان کھولنا، خوش بو لگانا، مکان بنانا وغیرہ ، یہ سب کام مباح ہیں ، نہ ان کے کرنے میں کچھ گنا ہ ہے ، نہ ثواب، لیکن اگر مثلاً دکان اس نیت سے کھولی کہ اس کے ذریعے سے روپیہ کماؤں گا اور غربا اور مساکین کی مدد کروں گا اور مسلمانوں کو ضروریات مہیا کروں گا، تاکہ ان کو سہولت ہو اور کافروں سے خریدنے کی مسلمانوں کو ضرورت نہ رہے او راس کی وجہ سے مجھے دنیا والوں سے استغنا ہو جائے گا اور روپیہ خدا کی راہ میں اورجہاد میں خرچ کروں گا، تو اب دکان تجارت گاہ نہیں، بلکہ عبادت گاہ بن گئی۔

تو دیکھیے کہ نیت کی برکت سے تجارت بھی عبادت بن گئی ۔ اب اس کا ہر لمحہ گویا عبادت میں گزر رہاہے ، پھر اگر خدا کسی کو تجارت میں نفع دے اور خدانخواستہ اس کے دل میں ٹکراؤ اور علو پیدا ہو جائے تو یہ وبال ہے ، مثلاً آپ اپنی دکان پر بیٹھے ہیں ، سامنے میز بچھی ہے ، بجلی کا پنکھا چل رہا ہے ، سامنے ٹیلی فون رکھا ہے او رسامنے سڑک پر کوئی گدا گر فقیر خستہ حال گزرا تو اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر ناز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کا لاکھ لاکھ احسان اور کرم ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے مجھے اتنا دے رکھا ہے وہ اگر چاہتا تو اس کا برعکس بھی کر سکتا تھا، ایسے وقت میں بجائے تکبر اور فخر کے، شکر کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ میرا فرض ہے کہ ایسے ناداروں کی خبرگیری کروں او رمجھ پر جو خدا کی نعمتیں مبذول ہیں ان کا شکر کروں۔

ایک اشکال او راس کا جواب
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ کہ قیامت کے بعد جہنمی جہنم میں اورجنتی جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جس کی کوئی مدت متعین نہیں ، حالاں کہ جن لوگوں کو جہنم میں بھیجا جائے گا ان کے اعمال کفر محدود ہیں اورجن کو جنت میں بھیجا جائے گا ان کے اعمال صالح بھی محدود ہیں تو اس محدود کی جزالا محدود کیوں مقرر کی گئی ؟ حضرت حسن بصری نے اس اشکال کا بھی جواب دیا ہے کہ چوں کہ عمل کرنے والے کی نیت دوام کی تھی ، اس لیے جزا بھی دائمی مقرر ہوئی ، کافر کی نیت یہ تھی کہ اگر ایک کروڑ سال کے عمر ملے تو کفر ہی پر قائم رہوں گا، اسی طرح مومن کی بھی یہی نیت ہے کہ کتنی ہی عمر دراز کیوں نہ ہو ایمان پر قائم رہوں گا، نیت چوں کہ دوام کی ہے، اس لیے جزا بھی دائمی ہے ، آج کل زمانہ ایسا ہے کہ لوگ دین اور عمل کے نام سے گھبرانے لگے ہیں، کہتے ہیں کہ نیت خالص کیسے ہو سکتی ہے؟ سو انسان کو گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ عمل شروع کرنے سے قبل ایک دفعہ اپنی نیت درست کرے، پھر بارہانیت کرنے کی ضرورت نہیں۔

شیخ الہند کا ارشاد
حضرت شیخ الہند ( مولانا محمودحسن دیوبندی) فرمایا کرتے تھے کہ آدمی کو چاہیے کہ عمل شروع کرنے سے قبل اپنی نیت درست کر لے ، بعد میں اگر نیت میں کچھ خلل آئے تو پروانہ کرے ، شیطان اگر وسوسہ ڈالے تو التفات نہ کرے ، جواب جاہلان باشد خموشی ۔ ایک بزرگ تھے، انہوں نے اپنے شیخ سے عرض کیا کہ حضرت! عجیب کش مکش میں مبتلا ہوں، نفلیں پڑھنے کو دل چاہتا ہے مگر جب پڑھنے کھڑا ہوتا ہوں تو ریا ہوتی ہے او راگر ریا کی وجہ سے نہ پڑھوں تو نفلوں سے محروم رہتا ہوں ، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ شیخ نے کہاکہ نفلیں تو ریا سے پڑھ لیا کرو او ربعد میں ریا سے توبہ کر لیا کرو ، سو اس حکایت سے معلوم ہوا کہ انسان کو جو نیک کام کرنا ہو کر گزرے او راگر بعد میں محسوس ہو کہ اس میں ریا ونمود کا شائبہ ہے ، تو اس سے استغفار کر لے۔

شیطان سے بچنے کاراستہ
نیت کی ایک عجیب فضیلت قرآن مجید سے سمجھ میں آئی ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید میں ہے کہ جب شیطان مردود ہوا او روہاں سے نکالا گیا تو اس نے کہا: ﴿ فبعزتک لا غوینھم اجمعین الاعبادک منھم المخلصین﴾ قسم ہے تیری عزت وجلال کی! میں یقینا ضرور ان کو ( لعنی اولاد آدم کو ) گم راہ کروں گا، مگر جوان میں سے تیرے مخلص بندے ہیں ۔ اس سے معلو م ہوا کہ شیطان سے بچنے کا راستہ سوائے حسن نیت او راخلاص کے او رکوئی نہیں ہے اوراس میں کوئی مشقت نہیں کہ نیت کو کام کرنے کے وقت خالص کر لیا جائے اورراگر اس کے بعدبھی کسی کے دل کو تسلی نہ ہو اور دل اس سے راضی نہ ہو تو سمجھ لے کہ یہ شیطان کا وسوسہ ہے، جو اس طرح مجھے نیک کام کرنے سے روک رہا ہے ، ایسے وقت میں اس سے کہہ دے کہ مجھے تیری کچھ پروا نہیں تو کتنا ہی مجھے بہکا او رمیرے پیچھے پڑ، میں یہ کام کرکے چھوڑوں گا او راگر پھر بھی دل میں کچھ خلش رہ جائے تو خدا سے دعا کرے کہ اے الله! میں کمزو رہوں ، میری دست گیری فرما۔

ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا کہ ان کوحکومت وقت نے جیل میں بند کر دیا تو جیل میں ان کا معمول تھا کہ جب جمعہ کا دن آتا تو غسل کرتے ، کپڑے بدلتے اور جب اذان کی آواز آتی تو جیل خانے کے دروازے تک تشریف لے جاتے ، پھر لوٹ آتے، لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے ؟ فرمایا کہ قرآن مجید میں ہے ﴿ اذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر الله﴾ جب جمہ کے دن اذان ہو جائے تو تم الله کی یاد کی طرف دوڑو۔ سو میں اس حکم کی تعمیل کرنے کے لیے تیاری کرتا ہوں او رجہاں تک جاسکتا ہوں چلا جاتا ہوں۔ تو اس طرح ان بزرگ کو جمعہ کی نماز پڑھنے کا ثواب مل جاتا تھا، لہٰذا لوگوں کوچاہیے کہ وہ شیطانی وساوس کی پروا نہ کریں اور کہہ دیں کہ میں توالله کی لیے اس کام کو ضرور کروں گا، تو بلا سے راضی ہو یا نہ ہو۔

الله تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ہماری نیتوں کو درست فرمائے اور حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین․
Flag Counter