Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

6 - 14
ترقی کیا ہے؟
محترم نیاز سواتی

تاریخی پس منظر
ترقی ایک ایسی وسیع اصطلاح ہے جو اپنے اندر کئی پہلو رکھتی ہے ، روحانی ترقی ، اخلاقی ترقی ، معاشرتی ترقی او رمادی ترقی اس اصطلاح کے اہم پہلو ہیں۔ ترقی ویسے تو ماضی ، حال اور مستقبل ہر زمانے ہر تہذیب اور معاشرے کا موضوع رہاہے، مگر ہر تہذیب نے اپنی اپنی ما بعد الطبیعیات کے مطابق ترقی کے کسی میدان کو اپنایا۔ اسلامی تعلیمات میں مادی ترقی کو کوئی اہم جگہ نہ مل سکی۔ یہی حال دیگر انبیاء علیہم السلام کی تہذیبوں کا بھی رہا، البتہ یورپ میں عیسائیت کے زوال اور یورپی نشاة ثانیہ کے بعد مادی ترقی کو مقصد زندگی کی حیثیت حاصل ہوئی ۔ اسی مادی ترقی کی خاطر یورپی اقوام دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ مادی ترقی سے مالا مال ہونے کی خاطر نکل کھڑی ہوئیں۔ لوٹ مار پر مشتمل اس ترقی کی دوڑ نے یورپی اقوام کو باہمی حسد میں مبتلا کیا، جس کا نتیجہ دو عالم گیر جنگوں کی صورت میں نکلا۔ یہ تھا ترقی کا پہلا زینہ، جس پر قدم رکھتے ہی کروڑوں افراد موت کے منھ میں چلے گئے اور ایک ایسے انسانی المیے نے جنم لیا جو گزشتہ تمام انسانی تہذیبوں میں ناپید رہا۔ اسی لیے مورخین ان عالمی جنگوں سے پہلے اور بعد کے یورپ کی تاریخ کو دو الگ الگ ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ برصغیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں انگریزوں کے مکمل تسلط (1857ء) تک مادی ترقی مسلم اورہند ودونوں تہذیبوں میں بار نہ پاسکی ۔ البتہ انگریزوں کے تسلط کا دائرہ مکمل ہونے کے بعد ہندوؤں میں راج رام موہن رائے اور مسلمانوں میں سرسید مادی ترقی کے علم بردار قرار پائے (ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں،صفحہ نمبر260) برصغیر میں انگریزوں کے نو آبادیاتی تسلط نے ہمہ جہت تبدیلیاں او رمسائل پیدا کیے، مگر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان انگریزی قابضین سے ہمارے تعلق کی صورت کیا ہو ؟ برصغیر کے علما اس پر فتن دور میں اسلامی علمیت کو بچانے میں کام یاب رہے اورانگریزوں کے قبضہ کے خلاف اپنی بساط بھرکوشش کرتے رہے ، اس کے بر خلاف سر سید او ران کے رفقاء نے برطانوی آقاؤں کے تسلط کی تکمیل اور 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی سے یہ سبق لیا کہ اب انگریر سر کار برصغیر سے جانے والی نہیں، لہٰذا اس سے زیادہ سے زیادہ تعاون کرکے اسے اپنے حق میں رام کر لیا جائے تاکہ مسلمانوں کے مادی مفادات محفوظ رہیں اورمادی ترقی کی دوڑ میں مسلمانان ہند کہیں پیچھے نہ رہ جائیں ۔ اسی مادی ترقی کو پانے کے لیے سب سے مؤثر راستہ یہ تجویز کیا گیا کہ مسلمانان ہند مغربی علوم اور انگریزی تعلیم وتہذیب زیادہ زیادہ حاصل کریں، تاکہ مادی ترقی کی دوڑ میں ہم دیگر اقوام کو پیچھے چھوڑ دیں ۔ سرسید نے اپنے ان خیالات کو کبھی راز نہیں رکھا۔ سرسید نے کہا:

”جو شخص قومی ہمدردی سے اور دور اندیشی سے غو رکرے گا وہ جانے گا کہ ہندوستان کی ترقی ، کیا عملی اور کیا اخلاقی، صرف مغربی علوم میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک بھول جائیں، تمام مشرقی علوم کو نسیا منسیا کردیں، ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہوجائے ، یورپ ہی کے ترقی یافتہ علوم دن رات ہمارے دست وپاہوں، ہمارے دما غ یورپین خیالات سے (بجز مذہب کے) لبریز ہوں، ہم اپنی قدر ، اپنی عزت کی قدر خود آپ کرنی سیکھیں، ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیرخواہ رہیں اور اس کو اپنا محسن ومربی سمجھیں۔“ ( مقالات سرسید ج5، ص:66)

سرسید جن دو بڑی غلط فہمیوں کا شکار رہے ہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ تاج برطانیہ کا اقتدار ہمیشہ ہندستان میں قائم رہے گا۔ اس پہلے مغالطے کا ابطال تو تقسیم ہند سے ہی ظاہر ہو گیا۔ مگر دوسری غلط فہمی کہ” مادی ترقی ہمارا نصیب العین ہونا چاہیے ” آج بھی ازالہ چاہتی ہے۔ آئیے! اس غلط فہمی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ترقی کے اس تصور کی بنیادیں کہاں ہیں؟ یہ تصور بہر حال دین حنیف کا نصب العین ہرگز نہیں، اگر مادی ترقی دین کا مقصود ہوتی اسلامی تاریخ میں اس کی بین مثالیں ملتیں او رعلمائے حق سب سے زیادہ اس کے شناسا او رمعتقد ہوتے، مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ اسی مادی ترقی میں رکاوٹ کی بنا پر جدیدیت زدہ طبقہ علما کو رجعت پسند قرار دیتا ہے او رعلما کے ہاں بھی مادی ترقی کے بجائے قناعت، فکرآخرت، دنیا کو حقیر جاننا او رالفقر کو فخر سمجھنے کی روش او رمضامین تو ملتے ہیں، مگر مادی ترقی کے مضامین نہیں ملتے، خیر القرون کی روشن مثالیں تو بلاشبہ ابدی مینارہ نور ہیں، مگر برصغیر کے اکابر علما کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ عارف بالله حضرت اشرف علی تھانوی اپنے وظیفے میں اضافہ شدہ رقم یہ کہہ کر واپس لوٹا دیتے ہیں کہ مجھ سے پہلی والی تنخواہ خرچ نہیں ہوتی تو میں اضافی تنخواہ لے کر کیا کروں گا۔ پس ثابت ہوا کہ اس غیر فطری مادی ترقی کی ہماری علمیت میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں اولین او ربھرپور سائنسی ومادی ترقی پہلے مسلم اسپین (اندلس) اور پھر مغربی یورپ میں ہوئی ۔یورپ کی ترقی کے نتائج وعواقب کی ایک جھلک تو نو آبادیاتی نظام اور دو عالم گیر جنگوں کی صورت میں دنیا نے دیکھ لی، اب اندلس مسلم اسپین میں ہونے والی مادی ترقی کا جائزہ لیں ۔ اندلس میں مسلمانوں کی آمد او رفتح اپنے اندر مادی اسباب وترقی سے بے نیازی کی روشن تاریخ رکھتی ہے ۔ طارق بن زیاد نے اپنی تمام تر مادی کم زوری کے باوجود توکل علی الله کے اسلحے سے ہسپانیہ کو فتح کر لیا، مگر بعد کے مسلم حکمران اور عوام سائنسی ومادی ترقی کا عروج پانے کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑنے لگے۔ مگر یہ سائنسی ومادی ترقی اپنی تمام تر شان وشوکت کے باوجود اندلس کے زوال کو نہ روک سکی اور آٹھ سو سال کی حکومت کے بعد مسلمان اسی ترقی یافتہ اندلس کو چھوڑ کر فرار پر مجبور ہوئے ۔ آخر کیوں ؟ کیا انہوں نے اس وقت تک کی مادی ترقی کے عروج کو چھو نہیں لیاتھا؟ اگر مادی ترقی اسپین کی عظیم الشان سلطنت کو آٹھ سو سالہ اقتدار کے باوجود نہ روک سکی تو معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کا عروج وزوال مادی ترقی سے قطع نظر اپنے جدا قوانین رکھتا ہے۔

ترقی او رقتل عام
یورپ میں ہونے والی بے مثال مادی ترقی کے بارے میں یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ اس ترقی کی عمارت نو آبادیاتی لوٹ مار او رمحکوم اقوام کے قتل عام پر تعمیر کی گئی ۔ اس ترقی کی سیڑھی یعنی نو آبادیاتی لوٹ مار میں دیگر یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ سے پیچھے رہ جانے والی اقوام ( جرمنی اور اٹلی وغیرہ) میں حسد کا جذبہ ابھر ا، جو دو عالم گیر جنگوں کا باعث بنا، جس میں کم از کم چار کروڑ افراد لقمہ اجل بنے۔ یہ چا رکروڑ افراد ترقی پانے والے تھے یا اس کا شکار ہونے والے ؟ ؟ اس سوال کے جواب پر بہت سے دیگر جوابات کا انحصا رہے ۔ مشہور مغربی مفکر مائیکل مین اپنی تصنیف ”The Dark Side of Democracy“ میں لکھتا ہے کہ ترقی کا براہ راست تعلق جمہوریت سے ہے او رجمہوریت دنیا میں قتل عام کے بغیر نہیں پنپ سکتی۔ ایک اور نازک معاملہ یہ ہے کہ مغرب مادی ترقی حاصل کرنے کے فریب میں اپنے مذہب اور علمیت کا سودا کرنے یا اسے ٹھکرانے کے بعد مادی ترقی کی اس شکل کو پاسکا؟؟ اس کے علاوہ یہ بات یاد رہے کہ مذہب کو نجی معاملہ قرار دینے کے بعد ہی یہ منزل حاصل کی گئی۔ کیا ہم مادی ترقی کے لیے دین فطرت کی قربانی، عالمی پیمانے پر لوٹ مار او رمحکوم اقوام کے قتل عام کے لیے تیار ہیں؟؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس لوٹ مار کی اجازت بھی یا نہیں؟؟ جن لوگوں کو اس ترقی کی تاریخ کا علم نہیں ان کے لیے عرض ہے کہ صرف امریکا میں نوکروڑ ریڈ انڈینز کا قتل عام اسی ترقی کو ممکن بنانے کے لیے کیا گیا۔ آسٹریلیا کے اصلی باشندوں (Aborginies) کو اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا دیا گیا۔ جنوبی افریقا کے ہوٹلوں میں کتوں اور سیاہ فام انسانوں کا داخلہ ممنوع قرار پایا۔ کروڑوں افریقی باشندوں کو غلام بنا کر یورپ او رامریکا کی زراعت اور صنعت کا بے دام کارکن بنا دیا گیا۔ اس عظیم قتل عام او راستحصال کی بنیادیں اور تاریخی حقائق عام طور پر نگاہوں سے مستور رہتے ہیں۔

ترقی او رتہذیب وثقافت
مادی ترقی کی کہانی کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے تصور او رعمل نے دنیا سے مختلف تہذیبوں کی رنگا رنگی چھین لی ہے۔ ترقی کا یہ عمل دراصل مختلف اقوام عالم کی خوب صورت، بھرپور اور زندہ زبانوں، ان کی تاریخ، ان کی ثقافت اور سب سے بڑھ کر ان کے مذہب پر ایک حملہ ہے۔ سوچنے ،سمجھنے اور تخلیق کا عمل مغربی سانچوں کا غلام ہو کر رہ گیا ہے ۔ ترقی کے پرچم تلے مختلف جغرافیے، تمدن اور تہذیبوں کے افراد کو اپنے پس منظر سے کاٹ کر یکساں تہذیب وذہنیت میں ڈھالنے کا عمل بے حد خطرناک ثابت ہوا ہے۔ اس عمل نے متبادل نظام ہائے زندگی او ران کے تخلیقی عمل کے لامحدود امکانات سے ہمیں محروم کر دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ترقی کے التباس کے نتیجے میں مغرب کائنات کی تقدیر نظر آنے لگتا ہے، جس کے آئینے میں ہر تہذیب اپنی صورت گری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ یہ تصور ترقی پذیر اقوام کو یہ یاد دلاتا ہے کہ چاہے وہ اخلاقی وتہذیبی اعتبار سے جس قدر شان دار ماضی وحال رکھتی ہوں ، وہ بہرحال ایک کم تر حالت میں موجود ہیں او ران پیمانوں پر پورا نہیں اترتیں جو مغرب نے ان کے لیے طے کر دیے ہیں ۔ یہ احساس کم تری ان اقوام کو ایک ایسی حالت میں لے جاتا ہے جہاں نہ منزلیں ان کی اپنی ہوتی ہیں اور نہ خواب اپنے۔ ترقی کے اس تصور کی چکاچوندسے آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں، جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ #
        یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

اس طرح اس پری پیکر حسینہ کے خبث باطن کا اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ یہ سر سید کی کوتاہ نظری تھی کہ وہ اپنے رفقاء سمیت باجماعت اس مادی ترقی اور ظاہری دنیا کے فریب کا شکار ہوئے۔ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا !! خیر سر سید تو غفلت کی گم راہی کے اس گڑھے میں جاگرے جہاں سے ا نہیں قرآن مجید بھی کلام الہٰی کی جگہ کلام محمد صلی الله علیہ وسلم نظر آنے لگا۔ معاذ الله۔ بہرحال مسلمانان ہند کی بڑی تعداد سر سید کے نظریات سے اتفاق نہ رکھنے کے باوجود ان کے پیش کردہ ”ترقی“ کے نظریہ سے ضرور مسحور ہوئی #
        ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
        سب اسی زلف کے اسیر ہوئے

ترقی کے اس نعرے نے بیک جنبش لب دنیا کے عوام کی اکثریت کو غیر ترقی یافتہ، پسماندہ او رجاہل قرار دے دیا۔ اس ”غیر ترقی یافتہ“ دنیا کے عوام اپنی رنگ رنگا ثقافت، زبان، جغرافیہ، تاریخی پس منظر او رمذاہب کے باوجود ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیے گئے ۔ اپنے طے کردہ اہداف کے بجائے دنیا کی اقوام اب مغربی دنیا کے طے کردہ ہدف ”ترقی“ کی طرف گام زن ہوئی۔

ترقی اور استحصال
اب آئیے ترقی کا حالیہ تاریخ میں جائزہ لیں۔ مادی ترقی کے تصور نے اپنی قدامت کے باوجود ”ترقی یافتہ“ اور ”ترقی پذیر“ کی اصطلاحات ایک نئے او راستحصالی روپ میں 1949 میں نو منتخب امریکی صدر ایس ٹرومین کی بحیثیت صدر پہلی تقریر سے برآمد ہوئے ۔ اس تقریر کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اپنی اس تقریر میں صدر ٹرومین نے واضح طور پر اعلان کیا کہ امریکا کوئی نو آبادیاتی ارادے نہیں رکھتا، مگر ہوا یہ کہ مشرقی اقوام نو آبادیاتی استحصال سے کسی حد تک آزاد ہو کر بھی غلامی کے نئے مغربی جال کا شکار بنیں اور اب دنیا نئے نو آبادیاتی نظام کا منظر دیکھنے لگی۔ اس وقت یورپی اقوام دنیا کی تاریخ کی دو بدترین جنگیں لڑنے کے بعد بے حال ہو چکی تھیں، جب کہ امریکا ان جنگوں میں سب سے کم متاثر ہوا تھا۔ ترقی کو بنیادی نصب العین قراردیتے ہوئے امریکی صدر نے دنیا کو ترقی یافتہ او رترقی پذیر دو اقسام میں تقسیم کرکے دراصل امریکی بالادستی کی راہ ہم وار کر دی ۔ امریکی ویورپی اقوام اوراقوام متحدہ اپنے دعوؤں کے باوجود غریب ممالک کی حالت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکیں، بلکہ مغربی اقوام کی لوٹ مار اور تسلط کو نت نئے بہانوں سے وسعت دینے میں کام یاب رہیں ۔ خود اقوام متحدہ کی رپورٹیں بھی مشرقی ممالک کی حالت میں کسی بنیادی تبدیلی کی نشان دہی نہ کر سکیں، البتہ ترقی کے روز افزوں تباہ کن اثرات کی کہانی تو ماحولیات کی تباہی او رجانوروں کی انواع کے معدوم ہونے سے صاف ظاہر ہو گئی ہے اور ہر دیدہٴ بینا اس تباہی کا مشاہدہ کر ر ہی ہے۔ حد یہ ہے کہ اس ترقی کے ثمرات سمیٹنے کا وقت آیا تو مغرب میں اس ترقی کی وجہ سے ہونے والی آلودگی ، درجہ حرارت میں روز افزوں اضافہ ، ماحولیات کی تباہی، صنعتی فضلے اور شہروں کے کچروں کے عظیم الشان انبار، بڑے شہر بسانے کی ترقیاتی حکمت عملی اپنے برگ وبار لانے لگی ہے، اسی وجہ سے اکثر مغربی دانش ور بھی ترقی کے اس مفہوم اپنانے کے لیے تیار نہیں ۔ ترقی کا یہی تصور امریکا کو کیوٹو کانفرنس میں منظور ہونے والی صنعتی عمل کو محدود کرنے کی قرار دادوں پر عمل کرنے سے روکے ہوئے ہے اور منطق اس کی یہ ہے کہ اس طرح تو امریکی ترقی کا پہیہ سست پڑجائے گا!!! #
            گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے

دنیا بھر کی دانش مادی ترقی کے جنون میں مبتلا ہونے کے نقصانات کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ مگر یہ جنون ہے کہ کسی حد کا پابند نہیں ۔ ملاحظہ ہو ماحولیات پر تحقیق کرنے والے ادارے کی گواہی:

As Developing countries become more industrialized, they also produce more air pollution. The leaders of most developing countries believe they must become industrialized rapidly in order to be economically competitive. Environmental quality is usually a low priority in the race to develop. (www.wwfpak.org)
ترجمہ:” جیسے جیسے ترقی پذیر ممالک صنعتی ممالک میں تبدیل ہو رہے ہیں اسی طرح یہ ممالک آلودگی پیدا کرنے میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ بیشتر ترقی پذیر ممالک کے قائدین جلد سے جلد صنعتی ممالک میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تاکہ معاشی استحکام حاصل کر سکیں ۔ ترقی کی اس دوڑ میں ماحولیات جیسے مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ۔“

قربان جائیے اس ترقی کے کہ انسانوں اور ماحول کی تباہی کے باوجود مادی ترقی زیادہ محترم اورعزیز ہے ۔ کیوٹو کانفرنس کے متفقہ فیصلوں کو ترقی کے پیش نظر رد کرنے کا فیصلہ افریقا کے کسی غیر ترقی یافتہ او رجاہل قبیلے کے سردار نے نہیں کیا، بلکہ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے امام ، جمہوریت او رانسانی حقوق کیچیمپئناور سو فی صد تعلیم یافتہ آبادی کے حامل ملک امریکا نے کیا ہے ۔ ذرا ماہرین سے پوچھیے تو دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے بجلی گھرجنہیں دنیا کی تیس گند(Thirty Dirties) کہا جاتا ہے، کہاں ہیں؟ دنیا میں سب سے زیادہ زہریلی گیسوں کا اخراج کس ملک کے کارخانے کر رہے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات غوروفکر کے بہت سے دروازے کھول سکتے ہیں۔

ترقی کے اثرات
اس وقت دنیا کی حالت یہ ہے کہ مادی وصنعتی ترقی کے حوالے سے چند ( جی ایٹ) ممالک دنیا میں دیگر تمام ممالک سے آگے ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی کے لحاظ سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک بھی اگر ترقی یافتہ ممالک کے برابر آگئے تو کارخانوں کا فضلہ پھینکنے کے لیے ( زمین کے حجم کے برابر) مزید چھ سیاروں کی ضرورت پڑے گی ۔ ابھی ہماری محبوب ترقی کے مبارک قدم تمام خطہ ہائے زمین تک پہنچ ہی نہیں سکے اور صنعتی ترقی (Industrialization) کے عمل سے تمام دنیا یکساں فیض یاب بھی نہیں ہو سکی، اس کے باوجود ماہرین کا محتاط اندازہ ہے کہ زیر زمین تیل وگیس کی جو مقدار بننے کے فطری عمل میں دس لاکھ سال لگے وہ صرف ایک سال میں استعمال ہو جاتی ہے ۔ واضح رہے کہ تیل وگیس کے ذخائر ایک بار ختم ہو جانے کے بعد دوبارہ پیدا(Regenerate) ہونے والی چیز نہیں، جیسا کہ آبی چکر ( Water Cycle) کے نتیجے میں دنیا میں پانی کاتناسب فطری طور پر یکساں رہتا ہے ۔ یہی حال دیگر معدنیات کا بھی ہے۔ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ انسان کی جہالت یا نادانی بھی لائق تحسین ہے کہ ایک طرف تو وہ زمین کے اندر سے فطری اشیا مسلسل نکال رہا ہے اور دوسری طرف کبھی حل نہ ہونے والا صنعتی زہریلا فضلہ اس میں داخل کرتا چلا جارہا ہے ، یا بدیع العجائب۔ اگر تیل وگیس کے ذخائر کا یہ طوفانی استعمال بندکر دیا جائے تو شاید اسی لمحے ترقی کی چکاچوند اور شان دار عمارت دھڑام سے گر جائے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صنعتی ترقی کے منحوس اثرات ( یعنی دھوئیں اور زہریلی گیسوں) کی شکل میں جو مواد فضا میں ڈالا جارہا ہے وہ سالانہ دس لاکھ افراد کو دمہ او رسانس کی دیگر بیماریوں کی شکل میں موت کے منھ میں دھکیل رہا ہے ( ملاحظہ ہو پہلی عالمی وزارتی کانفرنس میں سیکریٹری جنرل کا خطاب) اس سے زیادہ ہوش ربا تفصیلات، ترقی کی خوب صورت ترین اورناگزیر شکل یعنی موٹر کار سے ہونے والی تباہی کی ہیں ۔ ان تفصیلات کے مطابق سالانہ بارہ لاکھ انسان سڑک کے حادثات کے نتیجے میں موت کا شکار ہو جاتے ہیں او رکم وبیش دو کروڑ افراد انہی حادثات میں زخمی ہوتے ہیں ، ان زخمیوں میں سے پچاس لاکھ افراد شدید زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچائے جاتے ہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے 7 اپریل2009ء کو ماسکو میں ہونے والی پہلی عالمی وزارتی کانفرنس میں اپنے پیغام میں موٹر گاڑیوں کے حادثات او رمتعلقہ اموات کو2009ء کا عالمی بحران قرار دیا ہے۔ مگر یہ بحران محض اس سال کا نہیں، بلکہ سدا بہار ہے ، پچھلی ایک دہائی کا جائزہ لیں تو یہ بحران ہر سال لاکھوں اموات کا ذمہ دار قرار پاتا ہے۔

"Each year, more than one million people are killed in traffic accidents - more than deaths from malaria or diabetes. This conference is long overdue," UN sereatry General Ban Ki moon said in a message at the First Global Ministerial Conference on RoadSafety in Moscow.
ترجمہ: ”ہر سال دنیا میں دس لاکھ سے زیادہ انسان ٹریفک کے حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ مرنے والوں کی یہ تعداد ہر سال ملیریا اور ذیابیطس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے ۔ اس معاملے میں یہ کانفرنس پہلے تاخیر کا شکار ہوچکی ہے۔“

ترقی اور گھر
ترقی کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے گھروں میں نظر آتا ہے ۔ آج کے گھر ماضی کے گھروں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ، آرام دہ ، خوب صورت اور باسہولت نظر آتے ہیں ۔ مگر ان گھروں کی مضبوطی اور سہولت جس قسم کی صنعتوں کی محتاج ہے وہ خود آلودگی کا بڑا سبب ہیں۔ انٹرنیٹ کے کسی بھی سرچ انجن پر (In house pollution) کے الفاظ ٹائپ کرکے دیکھیے اور جانیے کہ ترقی ہمارے گھروں میں آسائش کا سامان ہے یا سانس کی بیماریوں سمیت کئی امراض کا سبب۔

ترقی اور استحصال
ترقی کے نعرے نے ترقی پذیر ممالک کی حالت نہیں بدلی، بلکہ امیر وغریب ممالک کے درمیان فرق کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ آئیے! اب دیکھیں کہ ترقی کے مینارہٴ نور کی جانب گام زن اقوام ترقی پذیر اقوام کے ساتھ ترقی کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔1960ء میں مغربی ممالک مشرقی ممالک کے سے 20 گنا زیادہ امیر تھے، جب کہ 1980 میں مغربی ممالک مشرقی ممالک سے 64 گنا زیادہ دولت مند ہو گئے ۔ ترقی یافتہ ممالک کی دولت کا یہ فرق پرانے شکاریوں کے نئے جال، مثلاً آزاد تجارت کے عالمی معاہدوں ، عالمی مالیاتی اداروں،عالم گیریت اور اقوام متحدہ کے ذریعے بڑھتا جارہا ہے ۔ ترقی کا نصب العین دے کر مغربی ممالک نے مشرقی اقوام کے استحصال کی شکل میں نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد بھی جاری رکھا ہوا ہے ۔ ہمارے ہاں ترقی پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسانے والے دانش ور بڑھتی ہوئی آلودگی ، بین الاقوامی جرائم، غریب اقوام کے استحصال پر مبنی تجارت او رماحولیات کی تباہی پر مسلسل خاموش ہیں او ران مسائل کی نشان دہی پرمحض کندھے اچکا کر رہ جاتے ہیں ۔ مشرقی اقوام کو اس اندھی ترقی کی نہیں، بلکہ اس احتیاط کی ضرورت ہے جو ہمارے مذہبی اقدار ، ثقافت ، زبان ، روایات ، ماحول ، خام مال اور وسائل کو گھاگ مغربی شکاریوں سے محفوظ رکھے۔ مادی ترقی کو زندگی کی معراج سمجھنے اور سمجھانے والے بقراط آج ترقی کے ثمرات کے طور پر سامنے آنے والی روز افزوں آلودگی، بڑھتے ہوئے جرائم اور مشرقی ممالک کے استحصال کے بارے میں کیوں خاموش ہیں ؟ یہ خاموشی بتا رہی ہے کہ ترقی کی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی ۔ افکار تازہ اور تنقیدی نظرسے محروم ذہنوں نے ہمیشہ مرعوب کر دینے والے ظاہر پر نگاہ رکھی، مگر مغربی تہذیب کے شناسانے پہلے ہی خبر دار کر دیا تھا #
        آتجھ کو بتاتا ہوں رمز آئین ملوک
        سلطنت اقوام عالم کی ہے ایک جادوگری
        ذرا بیدار ہوتا ہے محکوم اگر
        پھر سلا دیتی اسے حکم راں کی ساحری

ترقی اور ابہام
آج مغربی ممالک کے عوام پوپ اور بادشاہ کی دہری غلامی سے آزاد ہو کر سرمائے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منظم لوٹ مار ترقی کا ایک الم ناک باب ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ترقی یافتہ ہیں او ران ممالک کے اندر او ربقیہ دنیا میں ان کی باقاعدہ وبے قاعدہ لوٹ مار کی تفصیلات اس موضوع پر چھپنے والی لا تعداد کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ ترقی او رخو ش حالی کے نعروں کے زیراثر پرانے طریقے مغرب میں متروک قرار دے دیے گئے اور نئے طریقے اب ناقابل عمل، بلکہ تباہ کن ثابت ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جدید تعلیم کے فریب نے سرسید سے اب تک کے ترقی پسند بقراطوں کو اسلامی روایت سے بے گانہ کیا، مگر اب جدیدیت اور ترقی کی دانش گاہ نے بھی داد رسی سے معذوری کا اظہار کر دیا ہے، گویا #
        جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

مشرق ومغرب میں عوام ودانش ور اسی ذہنی وعملی کش مکش کا شکار ہیں۔ مذہب تو مادی ترقی کے سفر میں سب سے پہلے ہاتھ سے گیا، اس کے بعد مادی ترقی بھی سراب ثابت ہوئی #
        اہل شوق اب کہو کدھر جائیں

ابہام کا عالم یہ ہے کہ آج مشرق ومغرب کا کوئی دانش ور مثالی ترقی یافتہ ملک کی تعریف ومثال بیان کرنے سے قاصر ہے۔ البتہ جرمنی نے اس معاملے میں حسب روایت اپنی سبقت برقرار رکھتے ہوئے”مستقبل کے شہر“ کا تصور او رعملی نمونہ پیش کیا ہے ۔ مستقبل کے اس شہر میں سادہ طرز زندگی کو فروغ دیتے ہوئے شہر میں آلودگی پیدا کرنے والی کسی بھی چیز، مثلاً موٹر گاڑی، مشینی کارخانے اور سگریٹ نوشی وغیرہ سختی سے ممنوع ہیں۔ مستقبل کے شہر کے اس تصور نے ترقی کے مروجہ تصور کے بجائے سوچ کے نئے درواکیے ہیں۔ چلیے! ترقی کی کہانی تو ہوا ہوئی اور مادی ترقی، مشینی صنعتوں، بڑے پیمانے پر پیداوار(Mass Production) جیسے پیمانے انسانی فطرت کے سامنے ہار گئے۔ کسی نے کہا تھا مشرق ہار گیا ہے اب کہنا پڑے گا کہ مغرب بھی ہار گیا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مادی ترقی ہماری بلکہ ہر کسی کی فطری معاشرت کا مقصد زندگی کبھی نہیں رہی، بلکہ اسلامی طرز زندگی کی تو اپنی اقدار ہیں، جو خیر القرون کے فطری او رمبارک ماحول میں ہی پنپ سکتی ہیں۔ جن لوگوں نے مادی ترقی کو نصب العین بنا کر دنیا کو ارضی جنت بنانے کا حسین خواب دکھایا تھا وہ تو دنیا سے گزر گئے مگر آنے والی نسلوں کے لیے اس کی تعبیر تو بہت بھیانک نکلی۔ آج کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا آج جب مغرب خود ترقی کے اس تصور سے بے زار ہے اور اس کے حساس اور سوچنے والے اہل دانش کسی متبادل نظام کی تلاش میں ہیں تو دنیا کو روشنی دکھانے والا مسلمان کیا آج اپنا فریضہ سر انجام دینے کے لیے تیار ہے یا اسی ترقی کے فریب نظر کا شکار رہے گا۔

آخری بات یہ ہے کہ ترقی کا نعرہ خود مغرب میں اپنی بنیادوں سے محروم ہو چکا ہے او رمادی ترقی کے سراب نے مادی لحاظ سے بھی اپنی ناکامی کو واضح کر دیا ہے۔ بحیثیت مسلم مادی ترقی سے قطع نظر ہمارا اصل مقصود تو رضائے الہٰی کا حصول ہے۔ ہماری زیادہ سے زیادہ ترقی دراصل اس دور سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کا نام ہے، جس کے بارے میں رہتی دنیا کے ہادی اعظم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم“․
ترجمہ:”بہترین دور میرا دور ہے ۔ پھر اس کے بعد آنے والا اورپھر اس کے بعد آنے والا۔“ 
Flag Counter