Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

12 - 14
نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ مبارک
حافظ محمد زاہد

نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اُسوئہ مبارکہ اور سیرتِ طیبہ کے متعدد گوشے ہیں‘جن میں سے ہمارے نزدیک اہم ترین دین اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اس کی سربلندی کے لیے جدوجہد ہے ۔ یہ آنحضور صلی الله علیہ وسلم کی وہ سنت ہے جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ایک لمحہ بھی خالی نہیں رہا۔ تاہم آنحضور صلی الله علیہ وسلم کے اُسوئہ اور سیرت کے تمام گوشے ہی انوار و برکات کے حامل ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کا ذکر کسی پہلو سے بھی کیا جائے‘ موجب خیر و سعادت ہے۔

ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا اور بہت ہی برکتوں ،سعادتوں اور رحمتوں کے نزول کا مہینہ ہے۔اس مہینہ میں نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی‘اسی ماہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی اور پھر اسی ماہ میں 63سال کی عمر میںآ پ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ذکر:﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾ (الانشراح) ”اور ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر بلند کر دیا۔“کے مصداق ویسے تو دنیا کے کونے کونے میں ہر وقت جاری و ساری ہے‘لیکن ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر پوری دنیا میں اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ہر طرف درود وسلام کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور جا بجا آپ صلی الله علیہ وسلم کی نعت گوئی ہوتی ہے۔

نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے سب سے بڑے نعت گو تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طبقہ ہے ،جنہوں نے اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کے کمالاتِ معنوی کے ساتھ ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلمکے کمالاتِ ظاہری ‘آپصلی الله علیہ وسلم کے حسن وجمال ‘آپ صلی الله علیہ وسلمکی ایک ایک ادا ‘حتیٰ کہ آپ صلی الله علیہ وسلمکے جسم مبارک کو بغور دیکھا‘یاد رکھا اور پھر اسے آگے بیان کرکے ہم پر احسانِ عظیم کیا کہ آج ہم اُن کی بیان کردہ احادیث کی روشنی میں نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور حسن و جمال کا تصور اپنی آنکھوں میں لا سکتے ہیں۔انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور حسن و جمال کی خوب سے خوب تر تصویر کشی کی ہے اور اُمت ِمسلمہ کو یہ بتایاکہ بنی نوعِ انسان کے آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے جسمانی خدوخال‘قدوقامت اور اَعضاء کی کیفیت کیسی تھی۔

صحابہ کرام کے بعد اس حوالے سے سب سے زیادہ خدمات محدثین کرام اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور طرزِ زندگی کو بیان کرنے کے حوالے سے بالخصوص امام ترمذی کی ہیں، جنہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے عشق و محبت کے اظہار کا ایک نرالا طرز اختیار کیا اور ”شمائل ترمذی“کے عنوان سے ان تمام احادیث کو یکجا کر دیا جو نبی آخرالزماں حضرت محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور طرزِ زندگی سے متعلق تھیں۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حسن وجمال کو مکمل ظاہر نہیں کیا گیا!
نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کے حسن و جمال کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلمکے حسن و جمال کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا گیا ‘اس لیے کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلمکے حسن و جمال کو مکمل طور پر ظاہر کر دیا جاتا تو کوئی آنکھ بھی آپ صلی الله علیہ وسلمکو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتی۔ بقول امام قرطبی:

”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا پورا جمال ظاہر نہیں کیا گیا ‘اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کا تمام حسن و جمال ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتیں۔“

باوجود اس کے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا مکمل حسن ظاہر نہیں کیا گیا‘صحابہ کرام رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے تھے۔حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں:

”میں نے جب بھی آپصلی الله علیہ وسلم کے انوار کی طرف دیکھا تو اپنی بینائی جانے کے ڈر سے آنکھوں پر اپنی ہتھیلیاں رکھ لیں۔“

دوسری بات اس حوالے سے یہ مستحضر رہنی چاہیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ اور آپ صلی الله علیہ وسلمکے جمال و کمال کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں اور جس نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلمکے حسن و جمال کو بیان کیا اس نے تمثیل کا سہارا لے کر آپ صلی الله علیہ وسلمکے جمال و کمال کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اپنی ہمت و وسعت کے موافق آپ صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور حسن و جمال کو بیان کیا…اس مضمون میں ہم نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور حسن و جمال کو احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں بیان کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔وما توفیقی الا با لله!

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قد و قامت
آپ صلی الله علیہ وسلم کے قدوقامت کے بارے میں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ کوتاہ قد‘بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم درمیانے قد کے تھے ‘جسے انگریزی میں ideal heightکہتے ہیں۔حضرت انس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے قدوقامت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم رَبْعَةً، وَلَیْسَ بِالطَّوِیْلِ، وََلَا بِالْقَصِیْرِ․(شمائل ترمذی‘ح2)
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم درمیانے قد کے تھے، بایں معنی کہ نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ کوتاہ قد۔“

حضرت علی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے قد مبارک کی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم بِالطَّوِیْلِ الْمُمَّغِطِ وَلَا بِالْقَصِیْرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَکَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ․ (شمائل ترمذی‘ح6)
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ پست قد‘بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلمدرمیانہ قد لوگوں میں سے تھے۔“

امام بیہقی کی بیان کردہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا قد مبارک لمبائی کی طرف مائل تھا۔اس بات کی تائیدان الفاظ سے بھی ہوتی ہے جن سے حضرت ہندبن ابی ہالہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے قد مبارک کی کیفیت کو بیان کیاہے:
کَانَ …اَطْوَلَ مِنَ الْمَرْبُوْعِ وَاَقْصَرَ مِنَ الْمُشَذَّبِ․ (شمائل ترمذی‘ح7)
”(رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا قد) درمیانے قد والے سے لمبا اور بہت زیادہ لمبے سے چھوٹا تھا۔“

روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب صحابہ کرام کے ساتھ چلتے تھے تو سب سے دراز قد نظر آتے تھے… محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا صحابہ میں لمبا نظر آنا‘آپ صلی الله علیہ وسلم کے درازیٴ قد کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کامعجزہ تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ کمالاتِ معنوی کی طرح کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم سے صورتِ ظاہری میں بھی غالب محسوس نہ ہو۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چال مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم باوقار اور عزت مندانہ انداز میں چلتے تھے۔حدیث کے الفاظ ہیں:اِذَا مَشٰی یَتَکَفَّأُ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)جب چلتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسا ڈھلوان کی طرف اتر رہے ہیں۔“

مولانا عبدالقیوم حقانی حدیث مبارکہ کے اس جملہ کی تشریح میں رقم طراز ہیں:
”یتکفأ کے تین معانی نقل ہوئے ہیں:تیزی سے چلنا،آگے کی طرف جھک کر چلنا، قدم اٹھا کر چلنا۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی رفتار مبارک میں یہ تینوں اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے۔یہ تینوں صفات عجز و انکسار اور تواضع وعبدیت پر دلالت کرتی ہیں۔آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفتار میں غرور یا تکبر کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا۔کشادہ کشادہ قدم اُٹھاتے‘سینہ تان کر اکڑکر نہ چلتے‘ نہایت ہی باوقار‘ عزت مندانہ اور پسندیدہ چال چلتے تھے۔“ (شرح شمائل ترمذی‘ج1‘ص49)

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی جسمانی ساخت
اس عنوان کے تحت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی جسمانی ساخت کو بیان کیا جائے گاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسمانی اعضاء کی کیفیت کیا تھی؟

کندھوں کے درمیان زیادہ چوڑائی:نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان چوڑائی کچھ زیادہ تھی جو مردانگی کی علامت ہے: بُعَیْدَ مَا بَیْنَ مَنْکِبَیْنِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے) کندھوں کے درمیان کا حصہ ذرا زیادہ چوڑا تھا۔“

پرُ گوشت ہتھیلیاں اور قدمین:نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہتھیلیاں اور قدمین مبارک پُرگوشت تھے، جو مردوں کے لیے قابل تعریف صفت اور قوت و شجاعت کی علامت ہے: شَثْنُ الْکَفَّیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی )ہتھیلیاں اور دونوں پاوٴں پر گوشت تھے۔“

اعضاء کے جوڑ کی ہڈیاں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اعضائے مبارک کے جوڑ کی ہڈیاں ذرا بڑی تھیں۔یہ بھی شجاعت کی علامت ہے: ضَخْمُ الْکَرَادِیْسِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے )اعضائے مبارک کے جوڑ کی ہڈیاں بڑی تھیں۔“

سر مبارک بھی قدرے بڑا تھا: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی جسمانی ساخت چوڑائی کی طرف مائل تھی۔ اسی مناسبت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا سر مبارک بھی اعتدال کے ساتھ قدرے بڑا تھا، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی جسمانی ساخت کے عین مطابق تھا:ضَخْمُ الرَّاْسِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلمکا) سر مبارک بھی اعتدال کے ساتھ بڑا تھا“۔ ملا علی قاری نے اس بارے میں لکھا ہے کہ یہ قوی اور کامل ترین دماغ کی علامت ہے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم موٹے بدن والے نہ تھے:اگرچہ نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم کا جسم مبارک چوڑا تھا‘لیکن آپ پر موٹاپا ہرگزنہیں تھا، جو سستی کی علامت ہوتا ہے:وَلَمْ یَکُنْ بِالْمُطَھَّمِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم )موٹے بدن والے نہ تھے۔“

جسم مبارک پر غیر ضروری بال نہیں تھے:نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے جسم پر غیر ضروری بال نہیں تھے۔ یعنی بازو اور پنڈلیوں اور خاص خاص حصوں کے علاوہ غیر ضروری با ل نہیں تھے :اَجْرَدُ ذُوْ مَسْرُبَةٍ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے) بدن پر (معمولی طور سے زائد)بال نہیں تھے ‘بس سینہ مبارک سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لکیر تھی۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا سینہ مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فراخ‘کشادہ اور ہموار سینہ والے تھے۔سینہ کا کوئی بھی حصہ دوسرے سے بڑھاہوا نہیں تھا۔امام بیہقی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے سینہ مبارک کی بڑی پیاری تعبیر کی ہے:

”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا سینہ اقدس فراخ و کشادہ اور آئینہ کی طرح سخت اور ہموار تھا۔کوئی حصہ دوسرے سے بڑھا ہوا نہیں تھا اور سفیدی میں چودہویں کے چاند کی طرح تھا۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رنگت
روایات کے مطابق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رنگت چونے کی طرح سفید نہیں تھی اور نہ اتنی گندمی تھی کہ سانولا پن آ جائے‘ بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رنگت ہلکی سی گندمی تھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن اور پرُ نور تھے ۔احادیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
وَلَا بِالْاَبْیَضِ الْاَمْھَقِ وَلَا بِالْآدَمِ․ (شمائل ترمذی‘ح1)
” اور (آپ صلی الله علیہ وسلم رنگت کے اعتبار سے) نہ بہت زیادہ سفید تھے اور نہ بہت زیادہ گندم گوں(بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہلکے سے گندمی رنگ کے تھے)۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رنگت سفیدی اور سرخی کا حسین امتزاج تھی۔ایک آدمی نے حضرت علی سے کہا :اے امیر الموٴمنین !ہمیں نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ بتائیں۔حضرت علی  نے فرمایا:
کَانَ اَبْیَضَ مُشْرَبًا حُمْرَةً․ (رواہ البیہقی فی دلائل النبوة‘ج1‘ ص217)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کی رنگت سفیدی اور سرخی کا حسین امتزاج تھی۔“

نمایاں حسن یوسف میں سفیدی تھی‘ صباحت تھی
یہاں سرخی تھی‘ گلگوں رنگ تھا جس میں ملاحت تھی

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک
صحابہ کرام نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ انور کو قرآن کے اوراق سے تشبیہہ دیا کرتے تھے۔حضرت انس بن مالک رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ وفات سے چند دن پہلے ہم حضرت ابوبکر صدیق رضي الله عنه کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پردہ ہٹا کر ہماری طرف دیکھا:
کَاَنَّ وَجْہَہُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ (رواہ البخاری و مسلم)
”گویا آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک قرآن کے ورق کی طرح تھا۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک کی کیفیت یہ تھی کہ نہ تو بہت زیادہ گول تھا اور نہ بہت زیادہ لمبا ‘بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک دونوں کے درمیان تھا ‘یعنی گولائی اورلمبائی کے اعتبار سے اعتدال پر تھا۔ حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:وَلَا بِالْمُکَلْثَمِ، وَکَانَ فِیْ وَجْہِہ تَدْوِیْرٌ․ (شمائل ترمذی‘ح6)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک بالکل گول نہ تھا ‘البتہ آپ کے چہرئہ مبارک میں تھوڑی سی گولائی موجود تھی۔“

چہرہٴ مبارک:مثل القمر‘ بل فوق القمر
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک کی تعبیر صحابہ کرام نے چودہویں رات کے چاند سے دی ہے، جو روشنی اور نور میں نہایا ہوتا ہے لیکن یہ تشبیہات تقریبی اور بطور مثال کے ہیں، ورنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک ایک چاند تو کیا ایسے ہزاروں چاند سے زیادہ منور تھا۔ابو اسحق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت براء بن عازب رضی الله علیہ وسلم سے پوچھا: أَکَانَ وَجْہُ النَّبِیِّ ا مِثْلَ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ (صحیح البخاری)

”کیا نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک تلوار کی طرح تھا؟حضرت براء بن عازب نے جواب دیا:نہیں،بلکہ چاند کی طرح روشن (گولائی لیے ہوا)تھا۔“

حضرت ابو بکر صدیق جب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک کو دیکھتے تو پکار اُٹھتے:
اَمِیْن مُصْطَفٰی لِلْخَیْرِ یَدْعُوْ
کَضَوْءِ الْبَدْرِ زَایَلَہُ الظَّلاَم
”وہ برگزیدہ امین جو بھلائی کی دعوت دیتا ہے(اس کے چہرئہ مبارک کی تابانی ایسی ہے)جیسے اندھیرے میں بدرِ کامل ضوفشاں ہو۔“

حضرت عمر فاروق جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھتے توان کی زبان پر زہیر بن ابی سلمیٰ کا شعر آجاتا :
لَوْ کُنْتَ مِنْ شَیْءٍ سِوَی بَشَرٍ
کُنْتَ الْمُضِیْءُ لیْلَةَ الْبَدْرِ
”اگر آپ صلی الله علیہ وسلم انسان کے سوا کچھ اور ہوتے تو پھر آپ صلی الله علیہ وسلم چودھویں رات کا چاند ہوتے جو بہت روشن ہوتا ہے۔“

بعض صحابہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ انور کو چمکتے ہوئے سورج سے تشبیہہ دی ہے‘مثلاً حضرت عمار بن یاسرکہتے ہیں کہ میں نے ربیع بنت معوذسے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ بتائیے تو آپ نے کہا: لَوْ رَأَیْتَہ لَقُلْتَ: اَلشَّمْسُ طَالِعةٌ․ (دلائل النبوة‘ج1‘ص200)
”اگر تو آپ صلی الله علیہ وسلم کودیکھتا تو پکار اُٹھتا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم چمکتا ہوا سورج ہیں۔“

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریااس بارے میں لکھتے ہیں:
”یہ تشبیہات سب تقریبی ہیں، ورنہ ایک چاند کیا ہزار چاند بھی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم جیسا نو ر نہیں ہوسکتے۔ایک عربی شاعر کہتا ہے کہ اگر تجھے ممدوح کو عیب ہی لگانا ہے تو اسے چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دے دے ‘اس کے عیب لگانے کے لیے یہی کافی ہے۔“(شرح شمائل ترمذی‘ص25)

دیر وحرم میں روشنی شمس وقمر سے ہو تو کیا
مجھ کو تو تم پسند ہو اپنی نظر کو کیا کروں!

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی کشادہ پیشانی
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیشانی کشادہ تھی، جو حسن ِ خلق پر دلالت کرتی ہے: وَاسِعَ الْجَبِیْنِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)کشادہ پیشانی والے تھے“۔امام بیہقی کی نقل کردہ روایت کے الفاظ ہیں: کَانَ مُفَاضَ الْجَبِیْنِ ( دلائل النبوة‘ج1‘ص214) ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)کشادہ پیشانی والے تھے۔“

حضرت حسان بن ثابت نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیشانی کی اس کیفیت کو ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے :
مَتٰی یَبْدُ فِی الدَّاجِ الْبَھِیْمِ جَبِیْنُہ
یَلُحْ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَی الْمُتَوَقَّدِ
”رات کی تاریکی میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیشانی مبارک اس طرح چمکتی تھی جیسے اندھیری رات میں چراغ۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیا ہ آنکھیں‘درازپلکیں اور باریک سیاہ اَبرو
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی آنکھیں سیاہ تھیں، جو خوب صورتی کی علامت سمجھی جاتی ہیں:اَدْعَجُ الْعَیْنَیْنِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی) آنکھیں سیاہ مائل تھیں“۔اس کے علاوہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ رنگ کے ڈورے پڑے ہوئے تھے جو آنکھوں کی انتہائی خوبصورتی کی علامت ہوتے ہیں: اَشْکَلُ الْعَیْنِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی) آنکھوں کی سفیدی میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی آنکھیں قدرتی طو رپر کالی سیاہ تھیں اور صحابہ کرام دیکھتے تو اندازہ لگاتے کہ آپ  ا  نے سرمہ لگایا ہے حالانکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُس وقت سرمہ نہیں لگایاہوتا تھا۔حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں کی طرف دیکھ کر اندازہ لگاتا:
أَکْحَلَ الْعَیْنَیْنِ، وَلَیْسَ بِاَکْحَلٍ ․(دلائل النبوة‘ج1‘ص248)
”آپ  ا  نے سرمہ لگایا ہے، حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلمنے سرمہ نہیں لگایا ہوتا تھا۔“

آپ صلی الله علیہ وسلم کی پلکیں دراز تھیں، جو مردوں کے لیے قابل ِتعریف صفت ہے:اَھْدَبُ الْاَشْفَارِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی)پلکیں دراز تھیں“۔جب کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اَبرو مبارک گہرے سیاہ‘گنجان اور کمان کی طرح سیدھے اور باریک تھے۔حضرت ہند ابی ہالہ فرماتے ہیں:
اَزَجَّ الْحَوَاجِب،ِ سَوَابِغَ مِنْ غَیْرِ قَرَنٍ، بَیْنَھُمَا عِرْقٌ یَدُرُّہُ الْغَضَبْ․(ایضًا‘ح7)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کے ابرو مبارک خم دارباریک اور گنجان تھے۔دونوں ابرو جدا جدا تھے، جو آپس میں ملتے نہیں تھے۔ان کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت اُبھر جاتی تھی۔“ (جاری)
Flag Counter