Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 14
حجیتِ حدیث
محترم محمد نجیب قاسمی
    فہرست   

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاةُ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

حدیث کی تعریف
اُس کلام کو حدیث کہا جاتا ہے جس میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے قول یا عمل یا کسی صحابی کے عمل پر آپ صلى الله عليه وسلم کے سکوت، یا آپ صلى الله عليه وسلم  کی صفات میں سے کسی صفت کا ذکر کیا گیا ہو۔ حدیث کے دو اہم جز ہوتے ہیں۔
سند:جن واسطوں سے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا قول یا عمل یا تقریر یا آپ صلى الله عليه وسلم کی کوئی صفت امت تک پہنچی ہو۔
متن :وہ کلام جس میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے قول یا عمل یا تقریر یا آپ صلى الله عليه وسلم کی کوئی صفت ذکر کی گئی ہو۔

مثال کے طور پر
عن فلان عن فلان عن عمر بن الخطاب عن رسول اللہ قال: انما الاعمال بالنیات…
فلاں شخص نے فلاں شخص سے اور انہوں نے حضرت عمر سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اعمال کا دارومدار نیت پر ہے…۔ یہ سند حدیث ہے۔یہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا قول ہے جو متن حدیث ہے۔

حجیت کے معنی
حجیت کے معنی استدلال(کسی حکم کو ثابت کرنا )کرنے کے ہیں، یعنی قرآن کریم کی طرح احادیث مبارکہ سے بھی عقائد واحکام وفضائل اعمال ثابت ہوتے ہیں، البتہ اس کا درجہ قرآن کریم کے بعد ہے۔

حجیت حدیث قرآن کریم سے
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں متعدد مرتبہ حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کے قطعی دلیل ہونے کو بیان فرمایا ہے، جن میں سے چند آیات مندرجہ ذیل ہیں:
*... ﴿وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾․ (سورہٴ النحل 44)
یہ کتاب ہم نے آپ صلى الله عليه وسلم کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ صلى الله عليه وسلم اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔

*...  ﴿وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوا فِیْہِ﴾ (سورہٴ النحل 64)
یہ کتاب ہم نے آپ صلى الله عليه وسلم پر اس لیے اتاری ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم ان کے لیے ہر چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم صلى الله عليه وسلم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ امت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں ۔

*...  ﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾․ (سورہٴ الحشر 7)
تمہیں جو کچھ رسول دے لے لواور جس سے روکے رک جاوٴ ۔

*...  ﴿وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾․ (سورہٴ آل عمران 132)
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

*...  ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾ (سورہٴ النساء 80)
جس نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے اللہ تعالیٰ کی فرماں بردای کی۔

*...  ﴿قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ﴾․ (سورہٴ آل عمران 32)
اے نبی! آپ کہہ دیجیے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ اگر یہ منہ پھیرلیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔

*...  ﴿یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ﴾․ (سورہٴ النساء 59)
اے ایمان والو! فرماں برداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرماں برداری کرو رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاوٴ اللہ اور اس کے رسول کی طرف۔

*...  ﴿وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا، فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلاغُ الْمُبِیْن﴾․ (سورہٴ المائدہ92)
تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور ڈرتے رہو۔ اگر منہ پھیروگے تو یہ جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے۔

*...  ﴿وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ ﴾(سورہٴ الانفال 1)
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم ایمان والے ہو۔

*...  ﴿یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ﴾․(سورہٴ الانفال 20)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اس کی فرماں برداری سے روگردانی نہ کرو، سنتے جانتے ہوئے۔

*...  ﴿وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا﴾․ (سورہٴ الانفال 46)
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو۔

*... ﴿وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلاةَ وَیُوٴتُوْنَ الزَّکَاةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ، اُولٰئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ﴾․ (سورہٴ التوبہ 71)
(مومن مرد اور مومن عورتیں سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا کام کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں)، نماز قائم کرتے ہیں، زکاة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔

*...  ﴿ اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُوٴمِنِیْنَ اِذَا دُعُوٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَن یَّقُوْلُوا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا﴾․(سورہٴ النور51)
ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلى الله عليه وسلم ان میں فیصلہ کردے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔

*...  ﴿ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ ﴾․ (سورہٴ النور 52)
جو اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی فرماں برداری کرے، اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کی نافرمانی سے بچے، وہی لوگ کام یاب ہیں۔

*...  ﴿قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُم﴾․(سورہٴ النور 54)
اے نبی! آپ کہہ دیجیے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمہ تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کیا گیا ہے اور تم پر اس کی جواب دہی ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے۔

*...  ﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلاةَ وَآتُو الزَّکَاةَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن﴾․ (سورہٴ النور 56)
نماز کی پابندی کرو، زکاة کی ادائیگی کرواور رسول کی اطاعت کرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

*...  ﴿ یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبُطِلُوٓا اَعْمَالَکُمْ﴾․ (سورہٴ محمد 33)
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔

*...  ﴿ فَاَقِیْمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ﴾ (سورہٴ المجادلہ 13)
توَ اب نمازوں کو قائم رکھو، زکاة دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔

*...  ﴿وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ، فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلاغُ الْمُبِیْن﴾ (سورہٴ التغابن 12)
اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم اعراض کرو تو ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچادینا ہے۔

ان تمام آیات میں اتباع رسول کا حکم دیا گیا ہے۔ کہیں فرمایا: ﴿اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول﴾، کہیں فرمایا: ﴿اطیعوا اللہ ورسولہ﴾، کسی جگہ ارشاد ہے: ﴿اطیعواللہ والرسول﴾ اور کسی آیت میں ارشاد ہے: ﴿اطیعوا الرسول﴾۔ ان سب جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الہی کی تعمیل کرو اور ارشاد نبوی  صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کرو۔

*... ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ، وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا﴾․ (سورہٴ النساء80)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو اطاعت الہی قرار دیتے ہوئے فرمایا: جس شخص نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کی ، اس نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔

*...  ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾ (سورہٴ آل عمران 31)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطاعت ِرسول کو حب الہی کا معیار قرار دیا، یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت رسول اکرم  صلى الله عليه وسلم کی اطاعت میں ہے، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے نبی! لوگوں سے کہہ دیں کہ اگر تم حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔

*...  ﴿وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا، وَذٰلِکَ الْفُوْزُ الْعَظِیْمُ۔ وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِدًا فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾. (سورہٴ النساء 14-13)
جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کام یابی ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی کرے گااور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے گا ، اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

غرضیکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔

*...  ﴿وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ، وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَاباً اَلِیْماً ﴾(سورہٴ الفتح 17)
جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور جو منہ پھیرے گا ، اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔

ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت پر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اور اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب کا فیصلہ فرمایا۔

*...  ﴿وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا﴾․ (سورہٴ النساء 69)
جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام نازل فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کرنے والوں کا حشر انبیاء، صدیقین، شہداء اور نیک لوگوں کے ساتھ ہوگا۔

*...  ﴿ وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَّلَا مُوْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَمْراً اَن یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً﴾․ (سورہٴ الاحزاب 36)
کسی مومن مرد ومومنہ عورت کویہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول  صلى الله عليه وسلم کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو پھر اسے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی کرے گا، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔

*...  ﴿ فَلا وََرَبِّکَ لَا یُوْمِنُوْنَ حتَیّٰ یُحَکِّمُوَکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِی اَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیْماً﴾ (سورہٴ النساء 65)
(اے میرے نبی صلى الله عليه وسلم!) تیرے رب کی قسم ! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ صلى الله عليه وسلم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں تنگی بھی محسوس نہ کریں، بلکہ سر تسلیم خم کرلیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے فیصلوں کی نافرمانی کو عدم ایمان کی نشانی اور آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو ایمان کی علامت قرار دیا۔

*...  ﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ﴾ (سورہٴ البقرہ129) اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب وحکمت سکھائے۔ (کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔)

*...  ﴿یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوٓا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ﴾.(سورہٴ الانفال24)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسول صلى الله عليه وسلم تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔

*...  ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لَِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْراً﴾․ (سورہٴ الاحزاب21)
یقینا تمہارے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم میں عمدہ نمونہ موجود ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اوربکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔

یعنی نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی زندگی جو احادیث کے ذخیرہ کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہے کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں اسی نمونہ کے مطابق گزاریں۔

*...  ﴿وَمَن یُّشاقِقِ الرَّسُوْلَ مِن بَّعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُوْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاءَ تْ مَصِیْراً ﴾․(سورہٴ النساء 115)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ حکم رسول  صلى الله عليه وسلم اور سنت نبوی  صلى الله عليه وسلم کی مخالفت کرنے والوں کو جہنم کی سزا سناتے ہوئے فرماتا ہے : جو شخص رسول صلى الله عليه وسلم کا خلاف کرے اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور کے راستے پر چلے جب کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی ہے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے، جدھر وہ پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے، جو بدترین ٹھکانا ہے۔

غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت بھی ضروری ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور رسول کی اطاعت جن واسطوں سے ہم تک پہنچی ہے یعنی احادیث کا ذخیرہ ، ان پر اگر ہم شک وشبہ کرنے لگیں تو گویا یا تو ہم قرآن کریم کی اِن مذکورہ تمام آیات کے منکر ہیں یا زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی چیز کا حکم دیا ہے یعنی اطاعت رسول ،جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔

حجیت حدیث نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے اقوال سے
سارے انبیاء کے سردار و آخری نبی حضور اکرم  صلى الله عليه وسلم نے بھی قرآن کریم کے ساتھ سنت رسول  صلى الله عليه وسلم کی اتباع کو ضروری قرار دیا ہے، حدیث کی تقریباً ہر کتاب میں نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم کے ارشادات تواتر کے ساتھ موجود ہیں، ان میں سے صرف تین احادیث پیش خدمت ہیں:

*...  رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ (بخاری ومسلم)

*...  رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے باز آجاوٴ اور جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس کی تعمیل کرو۔ (بخاری ومسلم)

*...  رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے تمام افراد جنت میں جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔ آپ  صلى الله عليه وسلم سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! دخول ِجنت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ تو آپ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے (دخول جنت سے) انکار کیا۔ (بخاری ومسلم)

حجیت حدیث اجماع سے
نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں اور انتقال کے بعد صحابہٴ کرام کے عمل سے امت مسلمہ نے سنت رسول  صلى الله عليه وسلم کے حجت ہونے پر اجماع کیاہے، کیوں کہ صحابہٴ کرام کسی بھی مسئلہ کا حل پہلے قرآن کریم میں تلاش کیا کرتے تھے، پھر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی سنت میں ۔ اسی وجہ سے جمہور علمائے کرام نے وحی کی دو قسمیں کی ہیں، جیساکہ سورہٴ النجم کی ابتدائی آیات ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾ (اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے) سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے:

وحی متلو: وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے، یعنی قرآن کریم، جس کا ایک ایک حرف کلام الٰہی ہے۔

وحی غیر متلو: وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ہے، یعنی سنت رسول صلى الله عليه وسلم،جس کے الفاظ نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم کے ہیں ، البتہ بات اللہ تعالیٰ کی ہے۔

بعض حضرات قرآن کریم کی چند آیات مثلاً ﴿تِبْیَاناً لِکُلِّ شَیْءٍ﴾ سورہٴ النحل 89﴾ اور ﴿تَفْصِیْلاً لِکُلِّ شَیْءٍ﴾.( سورہٴ الانعام 154 )سے غلط مفہوم لے کر یہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ہر مسئلہ کا حل ہے اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے حدیث کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ حالاں کہ حدیث رسول صلى الله عليه وسلم بھی قرآن کریم کی طرح شریعت ِاسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں متعدد مقامات پر مکمل وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، یعنی نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم کے اقوال وارشاد سے بھی احکام شرعیہ ثابت ہوتے ہیں۔

قرآن کریم میں عموماً احکام کی تفصیل مذکور نہیں ہے، نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے اقوال واعمال سے ان مجمل احکام کی تفصیل بیان کی ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نبی ورسل کو بھیجتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اپنے اقوال واعمال سے امتیوں کے لیے بیان کریں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر نماز پڑھنے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن نماز کی تفصیل قرآن کریم میں مذکور نہیں ہے کہ ایک دن میں کتنی نمازیں ادا کرنی ہیں؟ قیام یا رکوع یا سجدہ کیسے کیا جائے گا اورکب کیا جائے گا ؟اور اس میں کیا پڑھا جائے گا؟ ایک وقت میں کتنی رکعت ادا کرنی ہیں؟

اسی طرح قرآن کریم میں زکاة کی ادائیگی کا تو حکم ہے، لیکن تفصیلات مذکور نہیں ہیں کہ زکاة کی ادائیگی روزانہ کرنی ہے یا سال بھر میں یا پانچ سال میں یا زندگی میں ایک مرتبہ؟ پھر یہ زکاة کس حساب سے دی جائے گی؟ کس مال پر زکاة واجب ہے اور اس کے لیے کیا کیا شرائط ہیں؟

غرضیکہ اگرحدیث کی حجیت پر شک کریں تو قرآن کریم کی وہ سینکڑوں آیات جن میں نماز پڑھنے ، رکوع کرنے یا سجدہ کرنے کا حکم ہے یا زکاة کی ادائیگی کا حکم ہے، وہ سب نعوذ باللہ بے معنی ہوجائیں گی۔

اسی طرح قرآن کریم (سورہٴ المائدہ 38) میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھر اسے کاٹیں تو کہا ں سے؟ بغل سے؟ یا کہنی سے؟ یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ پھر کتنے مال کی قیمت کی چوری پر ہاتھ کاٹیں؟ اس مسئلہ کی مکمل وضاحت حدیث میں ہی ملتی ہے، معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو حدیث کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا ۔

اسی طرح قرآن کریم (سورہٴ الجمعہ) میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کا دن کونسا ہے؟ یہ اذان کب دی جائے؟ اس کے الفاظ کیا ہوں؟ جمعہ کی نماز کب ادا کی جائے؟ اس کو کیسے پڑھیں؟ خریدو فروخت کی کیا کیا شرائط ہیں ؟ اس مسئلہ کی مکمل وضاحت احادیث میں ہی مذکور ہے۔

بعض حضرات سند حدیث کی بنیاد پر ہوئی احادیث کی اقسام یا راویوں کو ثقہ قرار دینے میں محدثین وفقہاء کے اختلاف کی وجہ سے حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کو ہی شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حالاں کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم قیامت تک آنے والے تمام عرب وعجم کی رہنمائی کے لیے نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم پر نازل فرمایا ہے اور قیامت تک اس کی حفاظت کا وعدہ کیاہے۔ اور اسی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں (مثلاً سورہٴ النحل44، 64)پر ارشاد فرمایا ہے کہ” اے نبی! یہ کتاب ہم نے آپ پر نازل فرمائی ہے تاکہ آپ صلى الله عليه وسلم اس کلام کو کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کردیں۔“ تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کی ہے، اس کے معانی ومفاہیم جو نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم نے بیان فرمائے ہیں وہ بھی کل قیامت تک محفوظ رہیں گے، ان شاء اللہ۔ قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے معنی ومفہوم کی حفاظت بھی مطلوب ہے، ورنہ نزول قرآن کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ احادیث کے ذخیرہ میں بعض باتیں غلط طریقہ سے نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کردی گئی ہیں۔ لیکن محدثین وعلماء کی بے لوث قربانیوں سے تقریباً تمام ایسے غلط اقوال کی تحدید ہوگئی ہے، جو حدیث کے کامل ذخیرہ کا ادنی سا حصہ ہے۔ جہاں تک راویوں کے سلسلہ میں محدثین وعلماء کے اختلافات کا تعلق ہے تو اس اختلاف کی بنیاد پر حدیث کی حجیت پر شک نہیں کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ اختلاف کا اصل مقصد خلوص کے ساتھ احادیث کے ذخیرہ میں موضوعات کو الگ کرنا اور احکام شرعیہ میں ان ہی احادیث کو قابل عمل بنانا ہے، جس پر کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ جہاں کوئی شک وشبہ ہوا تو ان احادیث کو احکام کے بجائے صرف اعمال کی فضیلت کی حد تک محدود رکھا جائے۔

مثلاً مریض کے علاج میں ڈاکٹروں کا اختلاف ہونے کی صورت میں ڈاکٹری پیشہ کو ہی رد نہیں کیا جاتاہے۔ اسی طرح مکان کا نقشہ تیار کرنے میں انجینئروں کے اختلاف کی وجہ سے انجینئروں کے بجائے مزدوروں سے نقشہ نہیں بنوایا جاتا ہے۔ موجودہ طرقی یافتہ دور میں بھی تعلیم وتعلم کے لیے ایک ہی کورس کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ ہر علاقہ میں زندگی گزارنے کے طریقے مختلف ہیں، غرضیکہ زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں اختلاف موجود ہے، ان اختلافات کے باوجود ہم زندگی کے ہی منکر نہیں بن جاتے، تو احادیث کی تقسیم اور راویوں کو ثقہ قرار دینے میں اختلاف کی وجہ سے حدیث کا ہی انکار کیوں؟ بلکہ بسا اوقات یہ اختلافات امت کے لیے رحمت بنتے ہیں کہ زمانے کے خدوخال کے اعتبار سے مسئلہ کا فیصلہ کسی ایک رائے کے مطابق کردیا جاتا ہے۔ نیز ان اختلافات کی وجہ سے تحقیق کا دروازہ بھی کھلا رہتا ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر وتفکر کرنے کا حکم دیا ہے،مگر یہ تدبر وتفکر مفسر اول حضور اکرم   صلى الله عليه وسلم   کے اقوال وافعال کی روشنی میں ہی ہونا چاہیے ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی نے متعدد جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ” اے نبی! یہ کتاب ہم نے آپ پر نازل فرمائی ہے تاکہ آپ صلى الله عليه وسلم اس کلام کو کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کردیں۔“ ہمارا یہ ایمان ہے کہ نبی اکرم   صلى الله عليه وسلم  نے اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا۔ لیکن کچھ حضرات قرآن کریم کی تفسیر میں نبی اکرم   صلى الله عليه وسلم  کے اقوال وارشادات کو ضعیف یا موضوع قرار دے کر اپنی رائے تھوپنا شروع کردیتے ہیں، جو کہ سراسر گم راہی ہے۔ یقینا ہر شخص کو قرآن کریم سمجھ کر پڑھنا چاہیے، کیوں کہ یہ کتاب ہماری ہدایت اور راہ نمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے، نیز نبی اکرم   انے قرآن کریم کے احکام کھول کھول کر بیان فرمادیے ہیں، لیکن ہمارے لیے ضروری ہے کہ واقف حضرات کی سرپرستی میں قرآن وسنت کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھیں، پھر اس کا درس دیں۔ یاد رکھیں کہ علمائے حق کا موقف ہے کہ جس مسئلہ میں بھی نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے اقوال یا اعمال سے رہنمائی مل سکتی ہے خواہ اس حدیث کی سند میں تھوڑا ضعف بھی ہو،ان مسائل میں اپنے اجتہاد وقیاس اور اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے اقوال و اعمال کے مطابق ہی عمل کیا جائے۔

حدیث کی قسمیں
سند ِحدیث (جن واسطوں سے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا قول یا عمل یا تقریر یا آپ   اکی کوئی صفت امت تک پہنچی ہے ) کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں بیان کی گئی ہیں،جو اختصار کے ساتھ حسب ذیل ہیں:
متواتر: جس حدیث کی روایت کرنے والوں کی تعداد ہر زمانہ میں اتنی زیادہ ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا ناممکن ہو۔
مشہور: جس حدیث کی روایت کرنے والوں کی تعداد ایک بڑی جماعت ہو۔
آحاد: جس حدیث کی روایت کرنے میں کسی ایک زمانہ میں صرف ایک ہی راوی ہو۔
مرفوع:جس کی سند حضور اکرم صلى الله عليه وسلم تک پہنچتی ہو۔
موقوف:جس کی سند کسی صحابی تک پہنچتی ہو۔
مقطوع: جس کی سند کسی تابعی تک پہنچتی ہو۔
صحیح لذاتہ: وہ حدیث مرفوع جس کی سند میں ہر راوی علم وتقویٰ دونوں میں کمال کو پہنچا ہوا ہو اور ہر راوی نے اپنے شیخ سے حدیث سنی ہو۔ نیز حدیث کے متن میں کسی دوسرے مضبوط راوی کی روایت سے کوئی تعارض بھی نہ ہواور کوئی دوسری علت (نقص) بھی نہ ہو… جمہور محدثین کا ان احادیث سے عقائد واحکام ثابت کرنے میں اتفاق ہے۔
صحیح لغیرہ: وہ حدیث مرفوع جس کی سند میں ہر راوی تقویٰ میں تو کمال کو پہنچا ہوا ہو اور ہر راوی نے اپنے شیخ سے حدیث بھی سنی ہو، نیز متنِ حدیث میں کسی دوسرے مضبوط راوی کی روایت سے کوئی تعارض بھی نہ ہو، لیکن کوئی ایک راوی علم میں اعلیٰ پیمانہ کا نہ ہو اور کوئی دوسری علت( نقص) بھی نہ ہو،البتہ یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہو جس کے تمام راوی علم میں بھی اپنے کمال کو پہنچے ہوئے ہوں تو یہ حدیث صحیح لغیرہ کہلائے گی… جمہور محدثین کاان احادیث سے عقائد واحکام ثابت کرنے میں اتفاق ہے۔
حسن لذاتہ:وہ حدیث مرفوع جس کی سند میں ہر راوی تقویٰ میں تو کمال کو پہنچا ہوا ہو اور ہر راوی نے اپنے شیخ سے حدیث بھی سنی ہو، نیز حدیث کے متن میں کسی دوسرے مضبوط راوی کی روایت سے کوئی تعارض بھی نہ ہو۔ لیکن کوئی ایک راوی علم میں اعلیٰ پیمانہ کا نہ ہو… جمہور محدثین کا ان احادیث سے عقائد واحکام ثابت کرنے میں اتفاق ہے،البتہ اس کا درجہ صحیح سے کم ہے۔
حسن لغیرہ: حدیث ِحسن کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو، البتہ یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہو جس میں وہ شرط موجودہے تو یہ حدیث حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔ ان احادیث سے عقائد یا احکام ثابت کرنے میں محدثین کی رائے مختلف ہیں۔
ضعیف:حدیث ِحسن کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو۔ جمہور محدثین کا اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث سے عقائد یا احکام ثابت نہیں ہوتے، البتہ قرآن یا احادیث صحیحہ سے ثابت شدہ اعمال کی فضیلت کے لیے ضعیف حدیث قبول کی جاتی ہے۔

حدیث قدسی
اس حدیث کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے جس میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے مروی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام کو اللہ تعالیٰ ہی کے الفاظ میں ذکر کیا جائے تو وہ حدیث حدیث قدسی کہلاتی ہے ۔ جب کہ حدیث نبوی میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو اپنے الفاظ کے ذریعہ بیان فرماتے ہیں۔

احادیث قدسیہ کی تعداد: احادیث قدسیہ کی تعداد کے متعلق علماء ومحدثین کی رائے متعدد ہیں ۔ علامہ ابن حجر  کی تحقیق کے مطابق احادیث قدسیہ کی تعداد سو سے کچھ زیادہ ہے۔

قرآن اور حدیث قدسی میں فرق: اگرچہ حدیث قدسی بھی اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہوتی ہے ،لیکن حدیث قدسی اور قرآن کریم کے درمیان واضح فرق موجود ہیں، چند فرق مثال کے طور پر مذکور ہیں:
قرآن معجزہ ہے، اس کے مثل ایک آیت پیش نہ کیے جاسکنے کا قیامت تک کے لوگوں کو چیلنج ہے۔ جب کہ حدیث قدسی معجزہ نہیں ہے۔
قرآن کریم فصاحت وبلاغت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے، برخلاف حدیث قدسی کے۔
قرآن کریم تواتر کے ساتھ امت تک پہنچا ہے، اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔
قرآن کریم کو بغیر وضو کے چھو نہیں سکتے، نیز ناپاک شخص اس کی تلاوت نہیں کرسکتا ہے، برخلاف حدیث قدسی کے۔
قرآن کریم کی تلاوت عبادت ہے، نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کرنا ضروری ہے، برخلاف حدیث قدسی کے۔
حدیث قدسی کی مثال: حضرت ابوہریرہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ، وَاَنَا مَعَہُ اِذَا ذَکَرَنِیْ، فَاِنْ ذَکَرَنِی فِیْ نَفْسِہِ ذَکَرْتُہُ فِیْ نَفْسِہِ، وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلاءٍ ذَکَرْتُہُ فِی مَلاءٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ․ (بخاری ومسلم)
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں بندہ کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یا د کرتا ہوں اور اگر وہ میرا مجمع میں ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر یعنی فرشتوں کے مجمع (جو معصوم اور بے گناہ ہیں) میں تذکرہ کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین۔ ثم آمین۔
Flag Counter