Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1433ھ

ہ رسالہ

10 - 14
معیشت وتجارت کا نظام
اسوہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم کے آئینہ میں
متعلم مطیع الرحمن کشمیری
رسول خدا محمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم ساری دنیا والوں کے لیے مشعلِ ہدایت اور خضر راہ بن کر تشریف لائے، دینی ودنیاوی نقطہٴ نگاہ سے پیغمبر خدا کی زندگی کے تمام پہلو مکمل ،بلکہ اکمل ہیں نہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم محض پیغام رساں تھے کہ تبلیغ پر اکتفا کرتے ، نہ صرف عابد شب زندہ دار تھے کہ جنگل یا کسی پہاڑ کے کھوہ میں بیٹھ کر الله الله کرتے رہتے ، نہ صرف دنیا دار تھے کہ زندگی کے طمطراق اور جاہ وجلال کا مظاہرہ کرتے رہتے، بلکہ آپ کو ہر مکتبہٴ خیال کو عملی تعلیم دینی تھی، تاکہ شاہ وگدا ،امیر وغریب، ادنیٰ واعلیٰ ہر حیثیت کے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم سے فیض اندوز ہو سکیں اپنی زندگی کے نشیب وفراز میں آپ علیہ السلام کو آئیڈیل اور نمونہ بنا سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسوہٴ رسول سے جہاں پر دعوت وتبلیغ کا انداز واسلوب ملتا ہے، وہاں پر جہاد وقتال کا عملی نمونہ بھی ملتا ہے۔ جہاں پر عبادت ریاضت کا اعلیٰ معیار ملتا ہے، وہاں پر معیشت وتجارت کے اسلوب کا بیان بھی ملتا ہے۔ چناں چہ اسی معیشت وتجارت کو لے کر جب ہم اسوہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم کو ایک طالب سیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تواس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ آقا سرور صلی الله علیہ وسلم نے بعثت سے قبل معاشِ زندگی کے لیے جس پیشہ کو اختیار کیا تھا وہ مبارک پیشہ تجارت کا ہی تھا ،یہ وہ پیشہ ہے جو آقا علیہ السلام کو وراثت میں ملا تھا اور اسی پیشہ تجارت کو اختیار کرنے سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی امانت ودیانت کا اظہار ہوا جس کے بعد دشمن بھی آپ کو صادق وامین کہنے لگا اور اسی تجارت کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کئی اسفار فرمائے ،ان اسفار میں حسن معاملہ، ایفائے عہد اور دیانت وصداقت کے بے شمار عملی نمونے چھوڑ ے، جن کو اگر مکمل تحریر کیا جائے تو ایک بڑی کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔

بطور مثال کے ایک واقعہ تحریر کرتا ہوں کہ حضرت عبدالله بن ابی الحسمآء رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ بعثتِ رسول سے قبل آقا صلی الله علیہ وسلم سے خرید وفروخت کا ایک معاملہ ہوا تھا ،کچھ معاملہ ہوا، کچھ باقی تھا کہ میں نے کہا کہ میں پھر آؤں گا، پھر تین دن تک مجھے یہ وعدہ یاد نہ آیا، تیسرے دن جب میں وعدہ کی جگہ پر پہنچا تو پیارے رسول صلی الله علیہ وسلم کو وہاں پر منتظر پایا اور میری اس وعدہ خلافی کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیشانی پر بل بھی نہیں آیا۔

یہ تو ایک مثال عرض کی ہے، ورنہ پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم کی مبارک حیات اس جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جہاں پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تجارت میں حسنِ معاملہ، دیانت وصداقت کی بنیاد رکھی، وہیں امت مسلمہ پر احسان کرتے ہوئے ایسے اصول وضوابط، قانون واحکام بیان فرمائے جن کی پاس داری میں کام یابی کے راز مضمر ہیں، ان اصولوں پر عمل ہو تو ہم یقینا دھوکے ،فریب اور جھوٹ کی تجارت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے معیشت وتجارت کے لیے ایک عمومی ضابطہ یہ بیان فرمایا کہ ”لا ضرر ولاضرار“ کہ تجارت ومعیشت ایسی ہو جس میں نہ خود نقصان اٹھانا ہو نہ دوسرے کو نقصان دینا ہو، یہ ایک ایسا قانونی فارمولہ ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے اقوامِ عالم خاموش ہیں بلکہ عاجزو قاصر ہیں، صرف اس ایک ضابطہ پرعمل کیا جائے تو یقینا ملک سے جھوٹ، فریب، دھوکا اور دغابازی کے جنازے اٹھ جائیں گے۔

اس وقت ہر زبان پر یہ داستان ہے کہ مہنگائی عروج پرہے، معیشت روز بہ روز کمزور ہوتی چلی جارہی ہے، تجارت خسارے کی طرف تیزی سے سفر کر رہی ہے ۔ مگر اس کا سبب کیا ہے ؟ او راس کا حل کیا ہے ؟ اس کا جواب دینے اور حل پیش کرنے سے تمام اقوام عالم کے مذاہب قاصر ہیں، تمام صحافی، اسکالرز، دانش ور، نام نہاد مدبر، سائنس دان، سیاست دان عاجز ہیں، جس کو یہ حل بتاتے ہیں وہ درحقیقت ان محرکات ونقصانات کا سبب ہے اس کی مثال ایسی ہے #
        جو چیز مرض میں اضافہ کر دے
        اسی چیز کو دوا قرار دیا جائے

مریض کو جس چیز سے پرہیز کرنا ہے اسی کو اس کا علاج بتایا جائے ظاہر ہے اس سے مرض کم نہیں ہو گا بلکہ بڑھے گا۔ یہی صورت ان تجزیہ نگاروں کی ہے ،وہ ان فسادات کے لیے جس چیز کو حل بتاتے ہیں وہ در حقیقت ان کو اور بڑھانے والی ہیں۔ اس کا صحیح حل صرف اور صرف حضور صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے قانون وضوابط میں ہے۔

پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول وضوابط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تنزلی کے دور میں بھی اگر تین اصولوں کو اپنا لیا جائے تو ہماری معیشت مضبوط اور تجارت نفع مند بن سکتی ہے ، بڑھتی ہوئی مہنگائی او راسباب معیشت کے فقدان پر کنٹرول ہو سکتا ہے، ان تین اصولوں کو مختصراً ذکر کیے دیتا ہوں۔

پہلا اصول
سود کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے، اپنے معاملات کو سود سے بالکل پاک صاف رکھا جائے ، اس سے بڑھتی ہوئے مہنگائی کو لگام پڑ جائے گی، امیر کا امیر تر ہونا اور غریب کا غریب تر ہونا ختم ہو جائے گا۔

دوسرا اصول
بیع قبل القبضہ سے گریز کیا جائے، یعنی قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت نہ کیا جائے، اس سے مجموعی طور پر اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہو گی۔

تیسرا اصول
احتکار واکتناز (ذخیرہ اندوزی) سے اجتناب کیا جائے۔ ان تین اصولوں پر عمل کیا جائے تو ہماری تجارت نفع بخش او رمعیشت مضبوط ہو جائے گی۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله ہمیں پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
Flag Counter