Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1432ھ

ہ رسالہ

9 - 19
حسد 	
ابواللیث سمر قندی

حسد اور اس سے نجات کی صورت
فقیہ ابواللیث سمر قندی اپنی سند کے ساتھ حضرت حسن  سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کینہ اور حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔ عبدالرحمن بن معاویہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ظن، حسد اور بد فالی۔ عرض کیا یا رسول الله! ان سے نجات کی کیا صورت ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ جب تو حسد کرے تو ظاہر مت کر۔“ یعنی دل میں حسد ہو تو زبان یا عمل سے اس کا اظہار مت کر، کیوں کہ صرف دل کے خیال پر مواخذہ نہیں اور جب کسی کے متعلق بد گمانی ہو تو بلاتحقیق اسے حقیقت مت سمجھو ۔ اگر بد فالی کی صورت پیش آئے تو پروا کیے بغیر کام میں لگے رہو یعنی کہیں جانے کا ارادہ تھا کہ اُلّو کی آواز سن لی یا کسی اورجانور کی یا بدن کے اعضا میں سے کسی پر لرزہ وغیرہ پیدا ہو گیا تو اس وجہ سے اپنا ارادہ تبدیل نہ کرو بلکہ اپنے عزم پر جاری رہو ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کے متعلق منقول ہے کہ آپ اچھی فال کوپسند فرماتے اور بدفالی کو ناپسند سمجھتے اور فرمایا کرتے کہ بد فالی لینا جاہلیت کے کاموں میں سے ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔ ﴿ قالوا اطیرنا بک وبمن معک﴾․ ترجمہ: لوگ کہنے لگے ہم تم کو او رتمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔

ایک اور آیت ہے :﴿قالوا انا تطیرنا بکم﴾․ ترجمہ: اور وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب تو کسی پرندے کی آواز سُنے تو کہا کر اے الله! یہ پرندہ بھی تیرا ہی ہے اور خیر وبرکت بھی تیری ہی ہے۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ برائی سے بچنے کی ہمت او رنیکی کرنے کی قوت بھی تیری ہی عطا سے ہے ۔ پھر آگے چل دو۔ ان شاء الله کچھ بھی ضرر اور نقصان نہ ہو گا۔

حسد کا ضرر
حضرت ابوہریرہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ باہم بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔محض نرخ بڑھا کر نیلام میں شرکت مت کرو اور اے الله کے بندو! بھائی بھائی ہو جاؤ۔ حضرت معاویہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا میرے بیٹے حسد سے بہت بچو کہ اس کا اثر تیرے اندر پہلے ظاہر ہو گا اور تیرے دشمن کے اندر بعد میں ۔ فقیہ فرماتے ہیں کہ حسد سے بڑھ کر کوئی چیز مضر نہیں کہ دشمن تک اس کا اثر بد پہنچنے سے پہلے پہلے خود حسد کرنے والا پانچ آفتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
1.  مسلسل غم۔
2.  ایسی مصیبت جس پر کوئی اجر نہیں۔
3.  ایسی قابلِ مذمت حالت جس پر کبھی تحسین نہیں۔
4.  الله تعالیٰ حسد کرنے والے پر ناراض ہوتے ہیں۔
5.  توفیق کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ کچھ لوگ الله تعالیٰ کی نعمتوں کے دشمن ہیں ۔ عرض کیا گیا یا رسول الله !وہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا وہ لوگ جو الله تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی وجہ سے دوسروں پر حسد کرتے ہیں۔

مالک بن دینار سے منقول ہے کہ میں قاریوں کی شہادت تمام مخلوق پر قابل قبول سمجھتا ہوں ۔ البتہ باہم ایک دوسرے پر ان کی شہادت کو قابل قبول نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ میرا مشاہدہ ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حسد کرتے ہیں او ران کی اکثریت ایسی ہی ہے۔

حساب سے پہلے دوزخ میں جانے والے لوگ
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چھ قسم کے لوگ چھ باتوں کی وجہ سے قیامت کے دن حساب سے پہلے ہی دوزخ میں جائیں گے ۔ عرض کیا گیا یار سول الله وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا میرے بعد آنے والے حکام ظلم کی وجہ سے اور عرب لوگ عصبیت کی وجہ سے ۔ دہقان لوگ تکبر کی وجہ سے ، تاجر لوگ خیانت کی وجہ سے ، دیہاتی لوگ جہالت کی وجہ سے ، اہل علم حسد کی وجہ سے، یعنی ایسے علما طلب دنیا میں ایک دوسرے پر حسد کرتے ہیں ۔ لہٰذا مناسب ہے کہ طالب علم آخرت کے لیے علم حاصل کرے۔ اس صورت میں نہ یہ کسی پر حسد کرے گا،نہ کوئی دوسرا اس پر حسد کرے گا۔ او راگر طلب علم دنیا کے لیے ہو گا تو باہمی حسد بھی ہو گا۔جیسا کہ علمائے یہود کے بارے میں وارد ہے۔

﴿ ام یحسدون الناس علی ما اٰتٰھم الله من فضلہ﴾․
”یا یہ دوسرے آدمیوں سے ان چیزوں پر جلتے ہیں جو الله تعالیٰ نے ان کواپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں۔“

چوں کہ یہود رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ  پر حسد کرتے تھے اور بطور اعتراض کہا کرتے تھے کہ اگر یہ الله تعالیٰ کے رسول ہوتے تو انہیں اتنے نکاحوں کی کب فرصت ہوتی؟ اس پر الله پاک نے آیت بالا میں جواب دیا کہ وہ حسد کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ۔

ف: یہاں پر فضل سے نبوت او رکثرت نساء مراد ہے۔

آسمان پر او رزمین پر پہلا گناہ
ایک دانا کا مقولہ ہے کہ حسد سے بہت بچو ۔ کیوں کہ حسد ہی وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان میں الله تعالیٰ کی معصیت کا باعث بنا اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین میں الله تعالیٰ کی نافرمانی کا سبب بنا۔ آسمان میں الله تعالیٰ کی معصیت سے مراد شیطان کا وہ قصہ ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ تونے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔ آدم علیہ السلام پر حسد کیا، جس کی وجہ سے وہ مردود ہوا۔ اور زمین میں نافرمانی سے مراد آدم علیہ السلام کے بٹیے قابیل کا قصہ ہے کہ جس نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی وجہ سے قتل کر دیا تھا، جس کا ذکر﴿واتل علیھم نبأ ابنی آدم بالحق﴾ کی آیت میں مذکور ہے۔

حسد کے نقصانات
احنف بن قیس سے منقول ہے کہ حاسد کو راحت میسر نہیں اور بخیل کو خو ش حالی او رکسی آزردہ خاطر کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ او رجھوٹا انسان آدمیت سے محروم ہوتا ہے ۔ خائن آدمی کی رائے نہیں ہوتی اور بد خلق آدمی سرداری کے لائق نہیں۔ کسی دانا کا قول ہے کہ میں نے کوئی ظالم ایسا نہیں دیکھا جو مظلوم کے ساتھ حاسد سے زیادہ مشابہت رکھتا ہو ۔ محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے کسی سے بھی کسی شے پر حسد نہیں کیا۔ اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو کیوں کر حسد کروں کہ وہ جنت میں جانے والا ہے ۔ اگر اہل دوزخ میں سے ہے تو کیسے حسد کروں کہ وہ دوزخ میں جارہا ہے؟! حسن بصری فرماتے ہیں اے ابن آدم! تو اپنے بھائی پر کیوں حسد کرتا ہے ؟ کیوں کہ اس کے پاس جو کچھ بھی ہے اگر وہ الله تعالیٰ کا انعام واکرام ہے تو جس کا اکرام الله تعالیٰ کرتے ہیں تو اس پر کیوں حسد کرتا ہے ؟ اگر کوئی اور بات ہے تو ایسے شخص پر حسد کب مناسب ہے جس کا ٹھکانا جہنم ہے؟

فقیہ فرماتے ہیں کہ تین شخص ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ حرام کھانے والا، بکثرت غیبت کرنے والا، تیسرا وہ شخص جس کے دل میں مسلمانوں کے ساتھ کینہ او رحسد موجود ہو۔

حسد کی جائز صورتیں
حضرت سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسد کرنا صرف دو شخصوں سے جائز ہے، ایک وہ شخص جسے الله تعالیٰ نے قرآن پاک کی دولت عطا فرمائی ہے او روہ شب وروز اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے ۔ دوسرا وہ شخص جیسے الله تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور وہ اسے رات دن الله کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے ۔ فقیہ فرماتے ہیں کہ اس حسد کا یہ مطلب ہے کہ کوشش کرے کہ یہ بھی اس کی طرح رات کو قیام کرنے والا بن جائے او رصدقات خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا بنے ، یہ حسد محمود وپسندیدہ ہے، لیکن اگر یہاں بھی دوسرے سے اس نعمت کے چھن جانے ہی کی آرزو ہو تو مذموم او رناپسندیدہ ہے۔ بلکہ ہر موقع پر یہی بات دیکھی جائے گی کہ کسی انسان کے پاس مال ودولت یا کوئی عمدہ چیز دیکھ کر اگر بعینہ اسی کے حصول کی تمنا کرے تو مذموم ہے او راگر اس کی مثل ملنے کی آرزو ہو تو مذموم نہیں۔ الله تعالیٰ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے۔

﴿ولا تتمنوا ما فضل الله بہ بعضکم علی بعض﴾․ ترجمہ:اور تم ایسے کسی امر کی تمنامت کرو جس میں الله تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے۔

آگے آیت میں ارشاد ہے: ﴿ واسئلوا الله من فضلہ﴾․ ترجمہ: اور الله تعالیٰ سے اس کے فضل کی درخواست کیا کرو ۔

ایک مومن کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے بھائی کے فضل کی اپنے لیے خواہش نہ کرے، بلکہ الله تعالیٰ سے درخواست کرے کہ وہ اسے بھی اُسی طرح کا فضل عطا فرمائیں۔ لہٰذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ حسد سے اپنی حفاظت کرے، کیوں کہ حاسد خداوندی فیصلہ کا مخالف ہے ۔ اور ہر خیر خواہ الله کے فیصلہ پر راضی ہے ۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دین ہم دردی اور خیرخواہی کا نام ہے تو مناسب ہے کہ مسلمان الله تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی او رتمام مسلمانوں کا خیر خواہ ہو اور حاسد نہ بنے۔

مسلمان کا مسلمان پر حق
حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ انہوں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مسلمان کا مسلمان پر کیا حق ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں، عرض کیا کون سے؟ فرمایا۔
1.  جب ملے تو سلام کہے۔
2.  دعوت کرے تو قبول کرے۔
3.  خیر خواہی کا طالب ہو تو خیر خواہی کرے۔
4.  چھینک کے وقت الحمدلله کہے تو اس کے جواب میں یرحمک الله کہے۔
5.  بیمار ہو تو بیمار پُرسی کرے۔
6.  اور جب فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ میں شمولیت کرے۔

کینہ اور حسد سے سینہ صاف رکھنا سنت نبوی ہے
فقیہ اپنی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت عالی میں حاضر ہوا تو آٹھبرس کاتھا ، آپ نے سب سے پہلی بات مجھے یہ سکھائی اور فرمایا اے انس اپنا وضو درست کرو، جیسا کہ نماز کے لیے مناسب ہے ، تیرے محافظ فرشتے تجھ سے محبت کریں گے اور عمر میں زیادتی ہو گی ۔ اے انس! جنابت کی حالت ہو جائے توخوب اچھی طرح سے غسل کرو کہ ہر بال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتا ہے ۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول الله! غسل میں مبالغہ کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ بالوں کی جڑوں کو تر کرو اور بدن کو مل کر صاف کرو، اس کے بعد تو جب غسل خانہ سے نکلے گا تو گناہوں سے بھی پاک ہو چکا ہوگا۔ اے انس! تیری چاشت کی دور کعتیں کبھی قضا نہ ہونی چاہیے کہ یہ اوابین یعنی الله والوں کی نماز ہے، دن او رات میں نوافل بکثرت اداکیا کرو کہ جب تک نماز میں رہو گے فرشتے تیرے لیے دعائیں کرتے رہیں گے۔ اے انس! جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو اپنے کو الله تعالیٰ کے سامنے پیش کر ، رکوع کرے تو دونوں ہتھیلیوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھو او رانگلیاں کھلی رہیں او ربازو پہلوؤں سے ہٹے ہوئے ہوں ۔جب رکوع سے سر اٹھاؤ تو سیدھ کھڑے ہو جاؤ کہ ہر عضو اپنے ٹھکانے پر آجائے ، سجدہ کرو تو چہرہ زمین پر رکھو ۔کوے کی طرح ٹھونگیں مت مارو اور نہ لومڑی کی طرح اپنے بازوزمین پر پھیلاؤ ۔ سجدہ سے سر اٹھاؤ تو کتے کی طرح مت بیٹھو یعنی زمین پر سرین رکھ کر گھٹنے کھڑے کر لو۔ بلکہ سرین کو دونوں قدموں کے درمیان رکھو۔ اور قدموں کے ظاہری حصہ کو زمین پر لگاؤ۔ الله تعالیٰ ایسی نماز کی طرف التفات نہیں فرماتے جس کا رکوع سجود مکمل نہ ہو ۔ اگر ہو سکے تو ہر وقت باوضو رہا کرو کہ اگر اسی حالت میں موت آجائے تو شہادت نصیب ہو گی۔ اے انس! گھر میں داخل ہوتے وقت اہل خانہ پر سلام کہا کرو ۔ اس سے تجھے اور تیرے گھر والوں کو کثیر برکت حاصل ہو گی ۔ کسی کام کے لیے گھر سے نکلو تو جس مسلمان پر بھی نظر پڑے تو اس کو سلام کہو، اس سے ایمان کی لذت دل میں پیدا ہو گی ۔ اور باہر پھرتے پھراتے کوئی گناہ او رقصور ہو جائے تو اس کی بھی تلافی ہو جائے گی ۔ اے انس! کوئی رات اور صبح ایسی حالت میں مت گزار کہ تیرے دل میں کسی مسلمان کے متعلق بغض اور کینہ موجود ہو ۔ یہ میری سنت ہے۔ جس نے میری سنت کو اپنایا اس نے میرے ساتھ محبت کی اورمیرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ اے انس! جب تو میری ان نصیحتوں کو یاد کر ے گا اوراس پر عمل پیرا ہو گا تو موت سے بڑھ کر کوئی چیز تجھے محبوب نہیں ہو گی کہ اسی میں تیرے لیے راحت وآرام ہے۔ اس حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کینے او رکھوٹ کو دل سے نکالنا میری سنت ہے ۔ لہٰذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے دل کو حسد وکینہ سے پاک وصاف کرے ،کیوں کہ یہ بہترین اعمال میں سے ہے۔

فقیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مرحوم کو اپنی سند کے ساتھ حضرت انس کی یہ روایت نقل کرتے ہوئے سنا ہے کہ ہم ایک دفعہ بارگاہ نبوی میں حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک جنتی آدمی آئے گا جس نے اپنے چپل بائیں ہاتھ میں لٹکائے ہوں گے، چناں چہ ایک آدمی اسی ہیئت کا آیا اورسلام کرکے حاضرین کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اگلے روز حضور صلی الله علیہ وسلم نے پھراسی طرح سے ارشاد فرمایا اور وہ آدمی پھر اسی حالت میں آیا ۔ تیسرے روز آپ نے پھر وہی ارشاد فرمایا۔ پھر جب حضور صلی الله علیہ وسلم مجلس سے تشریف لے چلے تو حضرت عبدالله بن عمروبن عاص اس شخص کے ساتھ ہو لیے او رکہنے لگے کہ میرے اور میرے والد کے درمیان کچھ بات چل نکلی اور میں نے قسم کھائی کہ تین رات تک ان کے پاس نہ جاؤں گا، لہٰذا اگر آپ جگہ دیں تو اتنی مدت میں آپ کے پاس قیام کر لوں؟ اس شخص نے ہاں کر لی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالله بن عمروبن عاص بیان کیا کرتے تھے کہ میں نے اس شخص کے پاس رات گزاری، اس نے کوئی قیام نہیں کیا۔ بس رات کو سوتے وقت الله تعالیٰ کا ذکر تسبیح وتہلیل کرکے سو رہا ہے اور صبح فجر کے وقت اُٹھ کر اچھی طرح وضو کیا اور پوری طرح سے نما ز ادا کی اور دن کا روزہ بھی نہ رکھا۔ کہتے ہیں کہ میں تین رات مسلسل اسے دیکھتا رہا۔ اس سے زیادہ اس نے کوئی عمل نہیں کیا۔ البتہ میں نے جب بھی اس سے سُنا کلمہ خیر ہی سنا۔ تین راتیں گزر گئیں اور میرے جی میں اس کے عمل کے قلیل ہونے کا خیال پیدا ہونے لگا۔ تو میں نے اس سے کہا کہ واقعہ یہ ہے کہ میری اپنے والد سے کوئی تیز کلامی نہیں ہوئی اور نہ ہی ایک دوسرے کو چھوڑنے کی کوئی بات ہوئی ۔ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو سنا تھا کہ آپ نے تین مجلسوں میں ارشاد فرمایا کہ ایک جنتی آدمی تمہارے پاس آئے گا اور اس ارشاد کے بعد تینوں دفعہ تو ہی آیا ،میرے جی میں آیا کہ تیرے پاس کچھ عرصہ رہ کر تیرے اعمال دیکھوں ،پھر میں بھی انہیں اختیار کرنے کی کوشش کروں، مگر میں نے تیرا کوئی بڑا عمل نہیں دیکھا۔ آخر وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم نے تیرے متعلق جنتی ہونے کا ارشاد فرمایا؟ کہنے لگا بس میرا عمل تو یہی ہے جو تونے دیکھ لیا۔ کہتے ہیں کہ میں وہاں سے لوٹنے لگا تو اس شخص نے واپس بلا لیا او رکہا کہ میرا عمل تو وہی ہے جوتونے دیکھا، البتہ میرے دل میں کسی مسلمان کے لیے برائی نہیں ہے اور نہ ہی میں الله تعالیٰ کی عطا پر کسی سے حسد کرتا ہوں ۔ کہتے ہیں، میں نے کہا، بس یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم نے تیرے متعلق یہ ارشاد فرمایا اور یہی وہ عمل ہے جسے میں اختیار نہیں کر سکا۔

حاسد اپنے رب کا مقابلہ کرتا ہے
کسی دانا کا قول ہے کہ حاسد پانچ طرح سے اپنے رب کا مقابلہ کرتا ہے۔

ایک یہ کہ وہ ہر اس نعمت کو بُرا جانتا ہے جو اس کے غیر کو ملتی ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ الله تعالیٰ کی تقسیم پر ناراض ہوتا ہے کہ تقسیم نعمت یوں کیوں ہوئی؟

تیسرے یہ کہ الله کے فضل پر بخل کرتاہے۔

چوتھے یہ کہ وہ الله کے ولی کی رسوائی او راس سے نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرتا ہے ۔

پانچویں یہ کہ وہ اپنے دشمن یعنی شیطان ملعون کی اعانت اور مدد کرتا ہے۔

کہتے ہیں کہ حاسد کو مجالس میں ذلت اور مذمت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور نزع کے وقت شدت وسختی او رمحشر میں عذاب اور رسوائی اور دوزخ میں حرارت اور جلن اس کا مقدّر ہوتی ہے۔ والله تعالیٰ اعلم 
Flag Counter