اور میرا بلیڈ پریشر ہائی سے لو ہوگیا
محترم محمد الیاس ندوی بھٹکلی
سَن تو مجھے حتمی طور پر یاد نہیں ،لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب تازہ تازہ دارالعلوم ندوة العلماء سے فضیلت کے بعد جامعہ میں میرا تقرر ہواتھایعنی کوئی 1990ء کے آس پاس کا زمانہ یعنی قصہ اس وقت کا ہے جب آتش جواں تھا۔
بھٹکل میں آباد مسلمانوں کے متعلق عام طور پر ہرآنے والا نووارد مہمان یہ تأثر ضرور لے کر جاتاہے کہ یہاں کی مساجد نہ صرف نمازیوں سے الحمدللہ بھری رہتی ہیں بلکہ اس میں بوڑھوں سے زیادہ جوان اور جوانوں سے زیادہ بچے رہتے ہیں ، اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کاحکم ہے کہ سات سال سے بچوں کو نماز کا حکم دو ، لیکن یہاں چار اور پانچ سال ہی سے اس کی تربیت کی جاتی ہے ، اس کم عمری ہی میں بچوں کو مساجد میں نماز باجماعت کے لیے لانے سے عام نمازیوں کو ان کے شور وشغب اور ہنگامہ آرائی سے جو ذہنی کوفت ہوتی ہے وہ بعض اوقات بیان سے باہر ہوتی ہے ، کچھ اسی طرح کاایک واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیا وہ سننے اور پڑھنے سے تعلق رکھتاہے۔
میں اپنے محلہ کی مسجد طوبی میں ایک دن عشاء کی جماعت میں شریک تھا اور پہلی صف ہی میں تھا، جب امام صاحب نے تکبیر تحریمہ کہی تو ہم نے بھی نماز کی نیت باندھ لی، کچھ ہی دیر گذری تھی کہ پچھلی صف میں موجود بچوں نے پہلی رکعت میں اتنی زور سے آمین بالجہرکی کہ ایسا معلوم ہوتاتھاکہ کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے( یاد رہے کہ بھٹکل کے مسلمان امام شافعی رحمة الله علیہ کے مقلد ہیں) خیردوسری رکعت میں پھر امام صاحب کے اختتام سورہ فاتحہ پر کچھ اور بچوں کی جماعت میں شرکت سے ان بچوں کو اور تقویت ملی اور جو آواز مسجد کے صحن کے باہر تک تھی اب آس پاس کے گھروں تک بھی شاید پہنچ گئی ،بات خیر اتنی ہی رہتی تو کوئی حرج نہیں تھا کہ ان معصوم نونہالوں کو ہم نے ہی بتایا تھاکہ سورہ فاتحہ دراصل دعاہے اور دعا کے اختتام پرنماز میں بھی آمین کہنا باعث قبولیت دعاہے، لیکن اسی کے ساتھ ان کو ہم یہ بتانا بھول گئے تھے کہ بلند آواز سے آمین بالجہر کامطلب صرف اتنی بلند آواز سے کہنا ہے کہ بغل میں موجود نمازی سن سکیں ، وہ بچے بیچارے جلد قبولیت دعاکے شوق میں یہ سمجھ بیٹھے کہ جتنی بلند آواز سے ہم آمین کہیں گے شاید اتنی جلد ہماری دعا قبول ہوگی،خیر،تیسری رکعت شروع ہوئی، اب ان کو معلوم تھا کہ ان دو آخری رکعتوں میں ہمارے لیے آمین بالجہر کا موقع نہیں رہا ، چنانچہ بعض بچے آپس میں لڑنے لگے ، ایک دوسرے کو دھکا دینے لگے بلکہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر کھینچنے بھی لگے ، غرض یہ کہ اس قدر شورشغب اور ہنگامہ کرنے لگے کہ نماز سے میری پوری طرح توجہ ہٹ گئی اور میری حالت اس قدر ناقابل برداشت ہوگئی کہ میں نے ارادہ کرلیا کہ نماز توڑ کر ہی ان سب کی خبر لوں اور ان سب کی ایسی سخت پٹائی کروں کہ وہ اسی وقت مسجد سے بھاگ جائیں اورپھر کبھی جلد مسجد کا رخ نہ کریں، بالآخر میں نے یہ عزم مصمم کرلیا کہ سلام پھیرتے ہی امام کی دعاسے پہلے ہی ان سب کی خبر لوں گا اوران کو ایسے طمانچے رسید کروں گا کہ بڑے ہوکر بھی وہ یادرکھیں ، میں نے اس وقت نماز سے فارغ ہونے کی جلدی میں امام کے بعد نہیں بلکہ امام کے ساتھ ہی اپنا سلام پھیرااور تیزی سے اٹھ کر پیچھے ان کی طرف مڑ کر ان کو پکڑنے کی کوشش کی ،لیکن وہ بچے ہم سے زیادہ ہوشیار اور تیز نکلے ،وہ سب امام کے دونوں سلام پھیرنے کے انتظار میں رہ کر اپنے ممکنہ برے انجام سے بچنے کے لیے جس کا شاید ان کو اندازہ ہوگیا تھاامام کے دوسرے سلام پھیرنے سے پہلے ہی تیزی سے مسبوق مصلیوں کی صفوں کو پھاند کر مسجد سے باہر نکل گئے،میں بھی طیش وغصہ کی حالت میں صفوں کو پھاندتاہوا ان کے پیچھے بھاگا،اس وقت میرا بلیڈپریشر آخری درجہ کو پہنچ گیا تھا،بالآخرمحنت بسیار کے بعد ان میں سے کچھ بچے میرے ہاتھ لگے لیکن ان کو دیکھتے ہی اچانک میرا بلیڈ پریشر لو ہوگیا اور ان کی طرف اٹھنے والے میرے ہاتھ اچانک رک گئے ۔
آپ پوچھیں گے کہ کیا ان بچوں نے معافی مانگ لی، یا میرے پیچھے کوئی مصلی آگیا اور ا س نے مجھے ان کو مارنے سے روک دیا یاپھر مجھے خدا یاد آگیا، ان بچوں پر اٹھنے والے میرے ہاتھوں کے نتائج مجھے مستحضر ہوگئے اور میں اس سے باز آگیا،یا پھر میری طبیعت ہی اچانک بگڑگئی اور سر چکرا کروہیں بیٹھ گیا،یاپھر ان معصوم کلیوں کی شرارتوں پر رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم کا مشفقانہ عمل مجھے یاد آگیا اور میرے ہاتھ رک گئے،لیکن ان میں سے کوئی بات نہیں تھی ،دراصل میرے ہاتھ لگنے اورپکڑے جانے والے اور نمازمیں ناقابل برداشت شرارت کرنے والے ان بچوں میں میرا ایک بھتیجہ بھی تھا جس کا مجھے پہلے سے علم نہیں تھا،اسی اپنے بچہ کی موجودگی نے میرے ہائی بلیڈ پریشر کو اچانک لوکردیا تھا اور اس پورے مجمع میں اپنے بھتیجہ کو پیٹ کر میں خود اپنے گھروالوں کو شرمندہ کرنانہیں چاہتا تھا،دوسرے الفاظ میں ان کاجرم تو ناقابل معافی تھا لیکن اس وقت تک جب ان شریر بچوں میں کسی اپنے بھتیجہ کے ہونے کا اندازہ مجھے نہیں تھا، خود اپنے بچہ کی طرف سے اس جرم کے سرزدہونے سے وہی ناقابل معافی جرم اچانک قابل معافی بن گیا،دوسرے الفاظ میں شرارتیں کچھ دیر پہلے تک دوسروں کی تھیں تو قابل سزا تھیں لیکن اپنوں کی اچانک قابل نظر انداز ہوگئیں۔
اس سرسری پیش آنے والے واقعہ کی روشنی میں آج ہم اپنے معاشرہ پر نظر دوڑائیں،ہمارا یہ طرز عمل زندگی کے ہرشعبہ میں نظر آتاہے دوسرے خاندان کاکوئی فرد کوئی معمولی جرم بھی کرتاہے تو اس کی مذمت بلکہ اس کی تشہیرمیں ہم زمین آسمان ایک کردیتے ہیں اور اس کاچرچہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ،لیکن اس سے بڑا بھیانک جرم کسی اپنے سے ہوجاتاہے تو ہم اس کی تاویل کرنے لگتے ہیں اور اس کے لیے بہانے تلاش کرتے ہیں، اپنے کسی ہم مسلک ،ہم مشرب، ہم فکر اور ہم خیال سے کوئی بڑی سے بڑی غلطی بھی ہوجاتی ہے تو ہم اس پر پردہ ڈالنے، اس کو چھپانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے ، لیکن اپنے کسی حریف ،فریق یا نظریاتی یا فکری طور پر مخالف شخص سے اس سے کم درجہ کا بھی گناہ ہوجاتاہے تو ہمارا رد عمل کس قدر ناقابل برداشت ہوجاتاہے ۔
لیکن غلطی بہرحال غلطی ہے ،چاہے اپنوں سے ہویا غیروں سے،گناہ بہر حال گناہ ہے ،مجھ سے ہو یا کسی اورسے ، اگر میرے یا میرے کسی عزیز یا دوست یا ہم فکر کی غلطی قابل تاویل یا پردہ پوشی کے قابل ہے تو فریق مخالف کا جرم بھی اسی طرح ستر پوشی ودرگذر اور معافی کا استحقاق رکھتاہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں یہی وہ مطلوب تصور واستحضار ہے جو ہمیں کسی کی تحقیر وتذلیل سے روک سکتاہے۔