Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1432ھ

ہ رسالہ

3 - 19
افراد سازی قرآن کریم کی روشنی میں
محترم اختر امام عادل قاسمی

قرآن دینِ کامل کی ایک نمائندہ کتاب ہے ، یہ ایسی کتابِ ہدایت ہے ، جو انسانیت کو سب سے سیدھی او رمعتبر راہ دکھاتی ہے :﴿ھذا القرآن یھدی للتي ھي أقوم﴾. (الاسراء:9)

ترجمہ: بے شک یہ قرآن سب سے سیدھے او رمضبوط راستے کی راہ نمائی کرتا ہے۔

یہ روشنی کا پیغام بر ہے ، یہ ایک مینارہٴ نور ہے ، جس سے سارا عالم رہتی دنیا تک تاریکی سے نجات پاتا رہے گا۔

﴿قد انزل الله إلیکم ذکراً، رسولاً یتلو علیکم آیت الله مبیناتٍ لیخرج الذین آمنواوعملوا الصٰلحٰت من الظلمٰت إلی النور﴾. ( الطلاق:11-10)

ترجمہ: الله نے تمہارے لیے قرآن نازل کیا، رسول تم پر الله کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں، تاکہ ایمان اورعمل صالح کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔

یہ ایک نسخہٴ کیمیا ہے، جو خاک کو کیمیا اور ذرہ کو جوہر بناتا ہے ، اس میں بیماروں کے لیے شفا اور صحت مندوں کے لیے سامانِ سکون ہے ، یہ خدا کا ایسا قیمتی اور عظیم الشان عطیہ ہے کہ اگر مضبوط اور بلند وبالا پہاڑوں پر اتارا جاتا تو وہ اس کا وزن برداشت نہ کر پاتے اور ہیبت سے ریزہ ریزہ ہو جاتے: ﴿ لو انزلنا ھذاالقرآن علی جبل لرأیتہ خاشعاً متصدعاً من خشیة الله﴾. ( الحشر:21)

ترجمہ:اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ لرزہ براندام ہے اور ہیبت الہٰی سے ریزہ ریزہ ہو چکا ہے ۔

قرآن آج بھی تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور ساری مشکلات کا حل ہے، جس طرح قرآن نے صدیوں پیشتر ایک حد سے زیادہ گری ہوئی قوم کو بلندیوں کے آسمان پر پہنچا دیا تھا اور اسی کتاب ہدایت کی بدولت ایک انتہائی پچھڑا ہوا معاشرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ او رمہذب معاشرے میں تبدیل ہو گیا، جن لوگوں کو کسی مہذب اور شریف آدمی کی نقل اتارنے کا سلیقہ نہیں تھا، وہ ساری مہذب اور تعلیم یافتہ دنیا کے لیے آئیڈیل بن گئے ، جن کو اپنا چھوٹا سا گاؤں چلانے کی لیاقت نہیں تھی ، ان میں پوری روئے زمین پرحکم رانی کی اہلیت پیدا ہو گئی ، جن کو ایک چھوٹی سی سوسائٹی پر کنٹرول نہیں تھا اور جو ساری دنیا میں اپنی خانہ جنگی اور سر پھٹول کے لیے بدنام تھے ، ان کو ایسا قانون مل گیا جس نے ساری انسانیت کو ایک لڑی میں پرو دیا… یہ سب اسی کتاب مقدس کا اعجاز تھا… اس کی معجزانہ قوتیں آج بھی زندہ ہیں ، ان کو برتنے او راستعمال میں لانے کی ضرورت ہے ، آج اس کتابِ ہدایت کو ہم نے سرد خانے میں ڈال دیا ہے او راس ہدایت وانقلاب والی کتاب کو صرف ایک برکت والی کتاب میں تبدیل کر دیا ہے ۔

ضرورت ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ وہ کیا چیزیں تھیں ، جن کو برت کر ایک گئی گذری قوم اتنی آگے بڑھ گئی اور وہ کیا باتیں تھیں ، جن کو چھوڑ کر آسمان کی بلندیوں سے باتیں کرنے والی قوم پستی کی گہرائیوں میں چلی گئی، بقول ڈاکٹر اقبال #
        وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہو کر
        اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

قرآن آج بھی قوموں اور افراد کو بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ، شخصیتوں کی تعمیر کانسخہ آج بھی پوری طرح کار گر ہے، قرآن کا دامن اس قسم کے شہ پاروں سے بھرا پڑا ہے، ہم ان میں سے بطورِ نمونہ چند کو ذکر کرتے ہیں۔

قوت ِ ایمانی
جہاں تک میں نے قرآن کو پڑھا ہے ، قرآن نے سب سے زیادہ زور ایمان ویقین پر دیا ہے، کسی فرد یا قوم کی تعمیر میں سب سے بڑا رول اسی قوت ایمان کا ہے ، ایمان کا درجہ فرد یا قوم کی زندگی کے لیے روح کا ہے ، یہ شخصیت بنتی ہے اسی بنیاد پر ، اس کو ہٹا کر کی جانے والی ہر کوشش فقط خسارہ کا سودا ہے ، جس کا نظارہ ہر دور میں چشم فلک نے کیا ہے او رجس پر ماہ وسال کی گردشیں گواہ ہیں، قرآنِ کریم نے صدیوں کے اسی تجربہ پر تصدیق کی مہر لگائی ہے:﴿والعصر ان الانسان لفی خسر، إلا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر﴾. ( العصر)

ترجمہ: قسم ہے زمانے کی ، بے شک انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ایمان والوں کے، جنہوں نے نیک اعمال کیے ، ایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کی۔

یہ سورت شخصیت سازی کے مسئلے میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتی ہے ، اس سورة کا موضوع ہی انسانیت کی تعمیر اور نفع ونقصان کے معیار کا تعین ہے ، قرآن پورے یقین کے ساتھ ( اور قرآن کا ہر بیان یقینی ہوتا ہے ) اورہر قسم کے شک وشبہ کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : جو لوگ ایمان و الے نہیں ہیں ، وہ گھاٹے میں ہیں ، اگر چہ کہ و ہ بہ ظاہر نفع میں دکھائی دیں اور اگر کوئی صاحبِ ایمان گھاٹے میں دکھائی دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے اپنے ایمان پر محنت کرنی چاہیے ، قرآن کریم نے ایسے ایمان والوں کو ہدایت کی ہے: ﴿ یایھاالذین آمنوا آمِنوا﴾. (اے ایمان والو! تجدید ایمان کرو)

قرآن اور صاحبِ قرآن نے نزول قرآن کے آغاز سے پوری مکی زندگی صرف ایمان کی محنت پرگزاری او رعمل کی جگہ پر نماز او رتلاوت قرآن کے علاوہ کوئی حکم شرعی، بندوں کو نہیں دیا گیا، بندوں میں یہ یقین بنایا گیا کہ اصل چیز الله کی رضا ہے ، ساری محنت اس لیے کی جانی چاہیے کہ الله ہم سے راضی ہو جائے، اس لیے زندگی کے ہر مسئلے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ الله کی مرضی کیا ہے ؟ الله کی مرضی او راس کا حکم جان لینے کے بعد پھر اپنی کوئی مرضی باقی نہیں رہ جاتی۔

ارشاد باری تعالی ہے :﴿ان الحکم الا لله علیہ توکلت وعلیہ فلیتوکل المتوکلون﴾. ( یوسف:8)
ترجمہ:فیصلہ صرف خدا کا چلے گا، اسی پر میرا بھروسہ ہے اوربھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔“

﴿ ومن لم یحکم بما انزل الله فاؤلئک ھم الفاسقون﴾. ( مائدہ)
ترجمہ: الله کے نازل کردہ قانون کے مطابق جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔

﴿ماکان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضی الله ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرة﴾.
ترجمہ: جب الله اور اس کے رسول نے کسی قضیہ میں فیصلہ سنا دیا تو پھر کسی مؤمن مرد یا عورت کے لیے اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔

نماز اور تلاوتِ قرآن بھی اگرچہ عمل کے درجہ کی چیز ہے، لیکن یہ بھی ایمان ہی کا تکملہ ہیں، ایمان کو غذا انہیں کے وسیلے سے ملتی ہے، خدا سے رابطہ کا یہی ذریعہ ہیں، بندہ انہیں واسطوں سے اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے ، یہ دونوں چیزیں عبد ومعبود کے رشتے کو مضبوط کرتی ہیں، اس طرح گویا یہ بھی ایمان ویقین ہی کا حصہ ہیں۔

ایمان نام ہے دل سے مان لینے کا او راسلام نام ہے سرِ تسلیم خم کر دینے کا، جس کو قرآن اتباع، اطاعت اور انقیاد وغیرہ اصطلاحات سے ذکر کرتا ہے، قرآن اپنے ماننے والوں کاشروع سے یہ ذہن بناتا ہے کہ رب کے سامنے اپنے کو ہر طرح جھکاکر دینا ہی بندگی ہے ، ایسے لوگوں کو قرآن رضوانِ الہٰی کا پروانہ دیتا ہے:﴿ رضی الله عنھم ورضوا عنہ ذلک لمن خشی ربہ﴾. ( سورہ بینہ:8)

ترجمہ:الله ان سے راضی ہے اور وہ الله سے راضی ہیں ، یہ سعادت رب سے ڈرنے والوں کو ملتی ہے۔

قرآن نے یہ فکر دی ہے کہ قوتوں کا سرچشمہ رب العالمین ہے ، موت وحیات کے تمام مسائل کی ڈوراسی کے ہاتھ میں ہے ، مال واسباب صرف ظاہری ذرائع ہیں، نہ یہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں اور نہ کسی مسئلے کو بنا سکتے ہیں ، فیصلے تمام تر احکم الحاکمین کے دربار سے ہوتے ہیں:﴿ أیحسب أن مالہ اخلدہ، کلا لینبذن فی الحطمة﴾. ( سورہٴ ہمزة:4,3)

ترجمہ:” کیا وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا، ہر گز نہیں یہ سارا مال جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

﴿ان ینصرکم الله فلا غالب لکم وان یخذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ وعلیہ فلیتوکل المتوکلون﴾. ( آل عمران)

ترجمہ: اگر الله تمہارا مدد گار ہو تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا او راگر الله تمہیں رسوا کریں تو پھر اس کے بعد تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا، پس بھروسہ صرف الله پر کرنا چاہیے۔“

اسی طرح کی بے شمار آیات ہیں ، جن میں قرآن نے بندہ کا رشتہ پروردگار سے جوڑنے پر زور دیا ہے او رجب بندہ کا تعلق اپنے رب سے ہو جاتا ہے ، تو دنیا کے سارے رشتے اس کے زیر سایہ چلے آتے ہیں ، انسان میں خدا اعتمادی سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے ، انسان کے دل میں اپنے پروردگار کی بنائی ہوئی ایک ایک چیز سے پیار جاگ جاتا ہے او رتمام وہ اچھی باتیں جو الله کو پسند ہیں ، وہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر ایسے کام سے ڈرتا ہے ، جن سے پروردگار ناراض ہوتا ہے ، اس طرح انسان فضائل واخلاق کاپیکر ، امن ومحبت کا پیکر، امن ومحبت کا پیام بر اور خدا شناسی وخود شناسی کا سنگم بن جاتا ہے ، اس کو دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے ، اس کی پیشانی میں خدا کا نورجھلکتا ہے ، اس کے پاس بیٹھنے کو جی چاہتا ہے ، اس کی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی ہیں ، اس طرح ایک معیاری اور تعمیر پسند سوسائٹی کی بنیاد پڑتی ہے…

تو انسان کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑا حصہ ایمان ویقین کا ہے ، یہ نہ ہو تو ساری چیزیں کھوکھلی ہیں۔

حسنِ عمل
انسان کی شخصیت کی تعمیر میں دوسرا اہم ترین درجہ عملِ صالح کا ہے، قرآن کریم نے سورہٴ العصر میں اس کو دوسرے مقام پر رکھا ہے ، جو لوگ آرزوؤں او رخوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں او رکام سے زیادہ منصوبے بنانے پر اپنے اوقات صرف کرتے ہیں او رچاہتے ہیں کہ دنیا میں ان کی تعریف ہو ، قرآن ان کو متوجہ کرتا ہے کہ اچھے کاموں کے بغیر دنیا یا آخرت میں کوئی اچھا انسان نہیں بن سکتا، اچھی شخصیت اچھے کاموں سے بنتی ہے ، پھر اچھے اعمال کی ایک طویل فہرست ہے ، جو قرآن میں بکھری پڑی ہے ، اہل علم ان سے بہ خوبی واقف ہیں، بطورنمونہ ایک دو آیات کا حوالہ دیتا ہوں:

سورہٴ مومنون کی درج ذیل آیات میں بعض اعمال کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو کام یابی کا مدار قرار دیا گیا ہے :﴿ قد افلح المؤمنون، الذین ھم فی صلاتھم خاشعون، والذین ھم عن اللغو معرضون، والذین ھم للزکوة فاعلون، والذین ھم لفروجھم حافظون،…،… والذین ھم لأماناتھم وعھدھم راعون والذین ھم علی صلواتھم یحافظون﴾. ( مؤمنون:9-1)

ترجمہ:بے شک ایمان والے کام یاب ہیں، جو اپنی نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں، جو بے کار باتوں سے پرہیز کرتے ہیں ، جو زکوٰة ادا کرتے ہیں ، جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،…،… جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ کر تے ہیں اور جو نمازوں کے پابند ہیں۔

سورہٴ بقرہ میں ہے:﴿لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن بالله والیوم الآخر والملئکة والکتٰب والنبیین، واتی المال علی حبہ ذوی القربیٰ والیتٰمی والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب، واقام الصلوٰة، واتی الزکوٰة، والموفون بعہدھم إذا عاھدوا، والصبرین فی الباساءِ والضراءِ وحین الباس، اولئک الذین صدقوا،وأؤلئک ھم المتقون﴾. ( بقرہ:22)

ترجمہ: نیکی یہی نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق ومغرب کی جانب کرو ، بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ الله پر، روز آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب اور نبیوں پر ایمان ہو ( اور اعمال میں) اور مال سے بے پناہ محبت کے باوجود اس کو اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لیے خرچ کرے ، نماز ادا کرے ، زکوٰة دے ، وعدہ کرے تو اس کو پورا کرے ، مصیبت وتکلیف او رجنگ میں صبر وثبات کا مظاہرہ کرے، یہی لوگ راست باز اور تقویٰ والے ہیں۔

سورہٴ فرقان میں ہے :﴿وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا وإذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلمٰاً، والذین یبیتون لربھم سجدا وقیاماً، والذین یقولون ربنا اصرف عنا عذاب جھنم ان عذابھا کان غراماً، إنھا ساء ت مستقراً ومقاماً، والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما والذین لا یدعون مع الله الھا آخر، ولا یقتلون النفس التی حرم الله إلا بالحق، ولا یزنون، ومن یفعل ذلک یلق اثاماً… والذین لا یشھدون الزور وإذا مرّوا باللغو مروا کراماً، والذین إدا ذکروا بآیت ربھم لم یخروا علیھا صما وعمیانا، والذین یقولون ربنا ھب لنا من أزواجنا وذریتٰنا قرة أعین واجعلنا للمتقین اماماً﴾.( فرقان:74-63)

ترجمہ: اور الله کے نیک بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں او رجب ناسمجھ لوگ ان کو مخاطب کرتے ہیں تو سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں، جو راتوں میں اٹھ کر پروردگار کے حضور سجدہ وقیام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ اے پروردگار! ہم سے جہنم کا عذاب دور فرما، اس کا عذاب پوری تباہی ہے اور وہ برا ٹھکانہ او رمقام ہے ، جو خرچ میں نہ بخل کرتے ہیں اور نہ فضول خرچی کرتے ہیں ، بلکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں ، جو الله کے علاوہ کسی معبود کو نہیں پکارتے ، جوکسی جان کا بے گناہ خون نہیں کرتے ، جس کو خدا نے منع کیا ہے، سوائے حق شرعی کے اور نہ بد کاری کرتے ہیں ، کہ جو ایسا کرے گا وہ گنہگار ہو گا …،…اور جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے او رجب کبھی لغویات سے گزرتے ہیں تو سنجیدگی او ر وقار سے گزر جاتے ہیں او رجب خدا کی آیات ان کو سنائی جائیں تو وہ اندھے او ربہرے نہیں ہو جاتے اور یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہمارے بیوی بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک بخش او رہم کو پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔“

اسی طرح سورہٴ شوریٰ ،آل عمران، قصص، دہر وغیرہ میں متعدد آیات میں اعمال خیر کی تفصیل دی گئی ہے۔

موافق ماحول
تیسرا اہم ترین محرک اچھا ماحول ہے ، جس کو قرآن نے ﴿وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر﴾ ( او رایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کریں ) سے تعبیر کیا ہے ،اس لیے کہ جس سوسائٹی میں حق بات کہی اور سنی جاتی ہو اور جس کی بنیاد محض جذباتیت اور اشتعال کے بجائے صبر وتحمل اور ایک دوسرے کے لیے برداشت کے جذبہ پر ہو ، اس سے بہتر سوسائٹی دنیا میں کیا ہو سکتی ہے؟

انسان کی ذہنی تشکیل اورشخصیت کی تعمیر میں ماحول کا بڑا حصہ ہے ، انسان کو اگر اچھا ماحول او رموافق گردوپیش میسر آجائے تو اس کی شخصیت بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کرتی ہے ، بہتر ماحول علم وعمل کی کمی کی بھی تلافی کر دیتا ہے ، یعنی علم وعمل میں انسان نسبتاً کمتر ہو ، لیکن اسے موافق ماحول او راچھی صحبت مل جائے تو علم وعمل کی کمی کے باوجود وہ اپنا مقام بنا لیتا ہے ، انسان کے آگے بڑھنے کے لیے ماحول سے بڑھ کر کوئی مددگار نہیں ہوتا ،علم وعمل کی تمام خوبیوں کے باوجود اگر انسان کو موافق ماحول اور بہتر مواقع میسر نہ ہوں تو اس کی ترقی وتعمیر میں بڑی مشکلات پیش آئیں گی ، علم وعمل کو ماحول ہی پروان چڑھاتا ہے ، اسی لیے نماز ، روزہ اور دیگر عبادت میں الله نے ماحول بنانے پر زور دیا ہے ، یہ نماز باجماعت ، رمضان کا اجتماعی روزہ ، حج کا اجتماع ، عید، جمعہ، کسوف، استسقا وغیرہ کا اجتماع ، یہ سب اسی لیے ہے کہ عمومی ماحول میں کوئی بڑا سے بڑا کام بھی آسان ہو جاتا ہے ، اس طرح سوسائٹی کے اکثر افراد کو نیک کاموں کی توفیق ہو جائے تو ایک شان دار معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ، قرآن کریم نے درج ذیل آیت میں اسی حقیقت کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے: ﴿کنتم خیر امة اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر﴾.

ترجمہ: تم ایک بہتر امت ہو جو اچھائیوں کی تلقین کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔

قرآن زندگی کے تمام معاملات میں اسی طرح کی وحدت کو پسند کرتا ہے اور معاشرے کی انار کی او رانتشار کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے ، آیت کریمہ ہے ﴿ واعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا﴾. (آل عمران)

ترجمہ: اور خدا کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور باہم انتشار مت پیدا کرو۔

ایک جگہ ارشاد ہے :﴿وأطعیوا الله ورسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم﴾. (انفال:6)

ترجمہ:الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ ہمت ہار بیٹھو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

قرآن چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرہ باہم محبت واخوت کی بنیاد پر ترقی کرے اور سب بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے کے مدد گار ہوں: ﴿انما المؤمنون إخوة فأصلحوا بین أخویکم﴾. (حجرات:10)

ترجمہ:سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں اس لیے اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ۔

قرآن حسب ونسب سے زیادہ دینی اخوت کا وکیل ہے:﴿ فان لم تعلموا آباء ھم فإخوانکم في الدین وموالیکم﴾.(احزاب:5)

ترجمہ: اگر تم کو ان کے خاندان کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے بھائی اوراہلِ تعلق ہیں۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

” سارے مسلمان مل کر ایک آدمی کے مثل ہیں کہ اگر اس کی آنکھ بھی دکھے توسارا بدن دکھ محسوس کرتا ہے او راگر سر میں درد ہو تو پورا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ( صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، ج2 ص:389 ،مصر)

آج یہی چیز مسلم سوسائٹی سے ختم ہو گئی اور وہ رنگ ونسل، خاندان، علاقہ او رزبان کی تنگ نظریوں میں مبتلا ہو گئی اور انسان کی ترقی اور اس کی شخصی تعمیر کا راستہ مشکل ہو گیا۔

حسنِ ادب
اسلام میں ادب کی بڑی اہمیت ہے ، ادب سے شخصیت میں نکھار، وقار او رزندگی میں جاذبیت او رمحبوبیت پیدا ہوتی ہے، اگر بچہ میں شروع سے ادب کی عادت ڈالی جائے او راچھے آداب اسے سکھائے جائیں تو وہ بڑا انسان بن سکتا ہے اور قوم وملت کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے، زندگی کے ہر مرحلے کے لیے قرآن نے ادب کا درس دیا ہے، ہم بطور نمونہ دو تین چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں:

◄   انسان جب ایک ساتھ رہتا ہے تو ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، ایسے موقع پر اگر انسان حدود کی رعایت نہ کرے تو بہت سے فتنے پیدا ہوں گے، اس لیے قرآن نے اس کے لیے کچھ حدود وآداب مقرر کیے ہیں، مثلاً اجازت لے کر جاؤ، نیز اجازت کا طریقہ یہ ہے کہ : دروازہ سے باہر سلام کرو! ذیل کی آیت کو پڑھیے:

﴿یٰایھا الذین آمنوا لا تدخلوا غیر بیوتاً بیوتِکم حتٰی تستأنسوا وتسلموا علی اھلھا ذلکم خیرلکم لعلکم تذکرون﴾. ( نور:27)

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں مت جاؤ ، مگر اجازت لے کر او رگھر والوں کو سلام کرکے، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، تاکہ تم سبق حاصل کرو۔

◄  اگر دوسرے کے گھر کی عورتوں سے کچھ لینا ہو تو اس کا ادب یہ بتایا گیا:﴿وإذا سألتموھن متاعا فاسألوھن من وراء حجاب ذلکم أطہر لقلوبکم وقلوبھن﴾. (احزاب:53)

ترجمہ: جب ان گھر والیوں سے کچھ مانگو تو پردہ کے پیچھے سے مانگو، اسی میں تمہارے او ران کے دلوں کے لیے پاکی ہے۔

◄   آپس میں سلام کا ادب قرآن نے یہ بتایا کہ سلام کا جواب سلام سے بہتر ہونا چاہیے:﴿واذاحییتم بتحیة فحیوا بأحسن منھا أو رُدّوھا﴾. (نساء)

ترجمہ: جب تم کو سلام کیا جائے تواس کا جواب او ربہتر پیرایے میں دو یا کم از کم اسی کو دہرادو۔

◄   حضور صلی الله علیہ وسلم سے خصوصی ملاقات کے آداب پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن کہتا ہے :﴿یایھا الذین آمنوا اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجوکم صدقة ذلک خیر لکم وأطھر فإن لم تجدوا فإن الله غفور رحیم﴾. ( مجادلة:12)

ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم رسول سے اکیلے میں ملنا چاہو تو پہلے صدقہ کرو، اس میں تمہارے لیے خیر او رپاکیزگی ہے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو الله بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔

اس حکم کا ایک مخصوص پس منظر تھا، جو کچھ دنوں کے بعد ختم کر دیا گیا، لیکن فی الجملہ اس سے بڑوں کے دربار میں جانے کے آداب پر روشنی پڑتی ہے او رچھوٹوں کو کیا تیاری کرنی پڑتی ہے اس کی حیثیت جھلکتی ہے او راس سے چھوٹوں میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔

◄   حضور صلی الله علیہ وسلم سے گفت گو کے آداب پر قرآن نے بتایا کہ آپ سے عام لوگوں کی طرح گفت گو نہ کرو، بلکہ اس کا دھیان رکھو کہ تمہاری آواز نبی صلی الله علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے:﴿یٰایھا الذین آمنوا لا ترفعو أصواتکم فوق صوتِ النبی﴾. (حجرات:2)

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آواز نبی صلی الله علیہ وسلم کی آواز سے اونچی نہ کرو۔

آپ کو مخاطب کرنے کا ادب قرآن نے یہ بتایا کہ عام لوگوں کی طرح نام لے کر نہ آواز دو، بلکہ آپ کے شایان شان القاب کا استعمال کرو: ﴿لا تجعلوا دعاءَ الرسول بینکم کدعاءِ بعضکم بعضاً﴾.

ترجمہ:رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس طرح نہ پکارو جس طرح باہم لوگوں کو پکارتے ہو۔

کسی مجلس میں ہو تو آپس میں کا ناپھوسی کرنے کو خلاف ادب قرار دیا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿انّما النجویٰ من الشیطٰن﴾. (مجادلة:10)

ترجمہ: کانا پھونسی کرنا شیطان کا کام ہے۔ ( جاری)
Flag Counter