کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
ایصال ثواب کے چند ضروری احکام
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں:
میت کے ایصال ثواب کے لیے اجتماعی ختم قرآن کروانا شرعاً کیسا ہے؟
ختم قرآن کرنے والوں کو کھانا کھلانا یا پیسے دینا شرعاً کیسا ہے؟
میت کے ایصال ثواب کے لیے تیجہ ، جمعراتہ اور فقط چالیس دن تک ایام کے تعین کے ساتھ صدقہ وخیرات کرنا کیسا ہے ؟
ایصال ثواب میت کے مال میں سے تقسیم میراث سے قبل کرنا شرعاً کیسا ہے ؟ نیز اگر ورثاء میں نابالغ بچے ہوں تو اس صورت میں حکم کیا ہے؟
جواب… جواب سے قبل بطور تمہید کے چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔
(الف) ایصال ثواب کی حقیقت شریعت مطہرہ میں فقط اتنی ہی ہے، کہ کسی آدمی نے کوئی نیک کام کیا، اس پر اس کو جو کچھ ثواب ملا، اس نے اپنی طرف سے وہ ثواب اپنے کسی فوت شدہ عزیز واقارب کو بخش دیا، وہ اس طرح کہ یا الله میرے اس عمل کا ثواب جو آپ نے مجھے عطا کیا ہے، وہ میرے فلاں رشتہ دار وغیرہ کو پہنچا دیجیے ، مثلا کسی نے الله کی راہ میں کچھ کھانا، یانقد رقم دے دی ، یانفل نمازیں پڑھیں، یا نفل روزے رکھے، یا نفل حج وعمرہ کیا، کلام پاک کی تلاوت کی ، یا تسبیحات وکلمہ طیبہ کا ورد کیا یا مستقل خیرات جاریہ قائم کیں، مثلاً تعمیر مساجد، دینی مدرسہ کا قیام ،مسافر خانہ وغیرہ بنایا، پھر اس کے بعد بارگاہ الہٰی میں دعا کرے کہ اے الله جو کچھ ثواب مجھے ملا، وہ ثواب میرے فلاں عزیز واقارب کو پہنچا دیجیے، اس کے علاوہ جو مختلف رسمیں او رمختلف صورتیں ایصال ثواب کی لوگوں نے ایجاد کر رکھی ہیں، سب بے بنیاد ہیں ، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، بلکہ بدعت ہیں جن کا ترک کرنا لازم اور ضروری ہے۔
(ب)ایصال ثواب کے لیے شرعاً نہ کوئی خاص وقت یا دن مقرر ہے کہ اس کے علاوہ ایصال ثواب نہ ہو سکتا ہو اور نہ ہی کوئی خاص جگہ ، نہ کوئی خاص عبادت، نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ایصال ثواب کے لیے بہت سارے لوگ جمع ہوں اور کھانے کی کوئی چیز مٹھائی وغیرہ سامنے رکھی جائے یا اس پر دم کیا جائے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ کسی عالم دین یا حافظ قرآن کو بلایا جائے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ پورے قرآن کریم کو ختم کیا جائے ، یا کوئی خاص سورت یا دعا مخصوص تعداد تک پڑھی جائے ، بلکہ لوگوں نے اپنی طرف سے ایجاد کرکے یہ رسمیں اور پابندیاں بڑھا دی ہیں، اگر ان بدعات اور رسومات سے قطع نظر دیکھا جائے، تو شریعت مطہرہ نے ایصال ثواب کو بہت ہی آسان کر دیا ہے ، جس کو غریب وامیر، مردوعورت، رشتہ دار وغیر رشتہ دار ہر شخص کر سکتا ہے ، وہ یہ کہ جس وقت جس دن چاہے کوئی سی بھی نفلی عبادت کرکے اس کا ثواب اپنے فوت شدہ عزیز واقارب کو بخش سکتاہے ۔
مذکورہ بالا تمہید کے بعد جوابات کو ترتیب وار ملاحظہ فرمائیں:
بدعت ہے، جس کا خیر القرون جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی الله عنہم، تابعین وتبع تابعین رحمھم الله کے دور میں کوئی ثبوت نہیں۔
ناجائز ہے ، ایسا ختم کرنے والوں کو خود ثواب نہیں ملتا تو ان کے ذریعے سے مردے کو کیا ثواب ملے گا، نیز قرآن کریم کے پڑھنے پر اجرت دینے اور لینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے۔
بدعت ہے، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس کو ترک کرنا ضروری ہے۔
اگر میت نے اپنے مال میں سے ایصال ثواب کی وصیت کی ہو، تو تجہیز وتکفین کے بعد ایک تہائیمال میں سے میت کے لیے ایصال ثواب کرنا جائز ہے، اگر وصیت نہیں کی تو ایسی صورت میں تجہیز وتکفین کے بعد جو مال بچ جائے گا، اس کے ساتھ ورثاء کا حق متعلق ہوتا ہے ، اگر تمام ورثاء باہم رضا مندی کے ساتھ ایصال ثواب کی اجازت دے دیں تو پھر جائز ہے، بشرطیکہ کوئی وراث نابالغ نہ ہو، اگر کوئی وارث نابالغ ہے ، تو اس کی اجازت کے ساتھ بھی تقسیم میراث سے پہلے میت کے مال میں سے ایصال ثواب کرنا جائز نہیں۔
بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:
کہ میری شادی کے تقریباً کم وبیش آٹھ سال گزر گئے ہیں ، میرے گھر میں کسی قسم کی کوئی بھی کسی اعتبار سے پریشانی نہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ جب میری بیوی سسرال جاتی ہے یعنی اپنے میکے تو وہ وہاں کے گن گانے لگتی ہے ، سسر کا کہنا ہے کہ ، کہیں آنا جانا ہو تو یہ ( یعنی میری بیٹی ) تم سے بغیر پوچھے جاسکتی ہے ، اس لیے کہ یہ یعنی میری بیٹی تمہارے گھر میں نہیں بلکہ یہاں پر ہے ( یعنی اپنے میکے میں)
فون کرکے پوچھوں کہ کہاں ہے ؟ گھر والے جواب دیتے ہیں پتہ نہیں ۔ بیوی سے کہو تو کہتی ہے کہ تم میرے باپ نہیں ، تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم میری مان کر چلو یا اپنے والد کی، اس وقت میرے چار بچے ہیں تین بچے او رایک بچی ، جب میں غصہ کرتا ہوں تو بیوی کا شوگر ہائی ہو جاتا ہے او رکہنے لگتی ہے کہ مجھ پر شک مت کرو، مجھ پر شک مت کرو ، کسی اور کے بارے میں کیوں سوچوں گی، اماں نہیں اس لیے ابا کے ساتھ کام کاج کے لیے جانا پڑتا ہے میں نے کہا اجازت لے کر جاؤ، پوچھ کر جاؤ، کم از کم بتاؤ کہ وہاں جارہی ہوں اسلام کی روشنی میں نوعیت کے اعتبار سے بہتر مشورہ اور جواب عنایت فرمائیں۔
جواب…جواب سے قبل بطور تمہید کے چند باتوں کا جاننا ضروری ہے:
(الف) الله تبارک وتعالیٰ نے شوہر کا بڑا حق بتایا ہے اور شوہر کو بہت زیادہ بزرگی دی ہے ، بلکہ شوہر کا راضی اورخوش رکھنا بڑی عبادت ہے اور شوہر کو ناراض کرنا بہت بڑا گناہ ہے، حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت پانچ وقت کی نماز اداکرے اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھے اوراپنی آبرو کی حفاظت کرے یعنی پاک دامن رہے او راپنے شوہر کی تابع داری کرے تو اس عورت کو اختیار ہے چاہے جس دروازے سے جنت میں داخل ہو جائے ، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس عورت کی موت اس حالت میں آئے کہ اس کا شوہر اس سے خوش او رراضی ہو، وہ عورت جنتی ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تبارک وتعالیٰ کے سوا اگر کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں شوہر کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے ۔
(ب) شوہر کی نافرمانی پر بیوی کے لیے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں نے دوزخ میں عورتوں کی کثرت دیکھی، عورتوں نے سوال کیا کہ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم دوزخ میں عورتیں کیوں زیادہ ہوں گی ؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورتیں اوروں پر لعنت بہت کرتی ہیں او راپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں۔
مذکورہ بالا تمہید کے بعد واضح رہے کہ بیوی پر شوہر کے بہت سارے حقوق ہیں، ان ہی جملہ حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کی اجازت سے گھر سے باہر جائے او راگر بیوی اپنے میکے جانا چاہے تب بھی اپنے شوہر سے اجازت لے کر جائے ، بغیر اجازت کے گھر سے باہر جانا یا اپنے شوہر کو ناراض کرکے گھر سے باہر جانا یا اپنے میکے میں جانا شرعاً جائز اور درست نہیں ، بلکہ سخت گناہ ہے اور بیوی کے والد صاحب کا یہ کہنا کہ اب یہ میرے گھر میں ہے ، اس کو اختیار ہے جہاں جانا چاہے جاسکتی ہے جائز اور درست نہیں بلکہ لغو اور فضول بات ہے۔
نیز اگر بیوی مسلسل اپنے شوہر کو ناراض کرے گی او راس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے گی ، تو بسا اوقات نفرتیں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ شوہر مجبوراً طلاق دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور دو خاندانوں میں لڑائی جھگڑا اور فساد پیدا ہو جاتا ہے ، لہٰذا بیوی پر لازم ہے اور ضروری ہے کہ وہ توبہ و استغفار کرے او راپنے شوہر کو ہمیشہ خوش اور راضی رکھے او راپنی کی ہوئی غلطیوں کی شوہر سے معافی طلب کرے اور آئندہ شوہر کی اجازت کے بغیر، بغیر کسی شرعی ضرورت کے گھر سے باہر ہر گز ، ہرگز نہ جائے ان شاء الله دنیا وآخرت میں سرخروئی حاصل ہو گی۔
عورتوں کا بال کتروانا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ: کیا عورت کا بال کتروانا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں تو کیا کوئی حدیث اس کی ممانعت پر ہے؟
جواب… چوں کہ سر کے بال کم کرنے اور کٹوانے کا معمول مردوں کا ہے اور عورتوں کی مشابہت مردوں کے ساتھ حرام ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے : الله کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو مردوں کے ساتھ مشابہت کرتی ہیں ، اسی وجہ سے عمرہ کے موقعے پر بال کتروانے کی اجازت کے باوجود فقہائے کرام نے ایک پورے سے زائد کاٹنے کی اجازت نہیں دی ، لہٰذا عورتوں کا بال کاٹنانا جائز وحرام ہے ، البتہ کسی بیماری یا عذر کی وجہ سے بال کاٹنے کی گنجائش ہے۔