خواہشاتِ نفسانی اور ہدایاتِ ربّانی
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی
بدعا ت ورسوم کو روکنے کی بہترین ترکیب
اسی طرح ہماری او رباتیں بھی ہیں کہ ان میں زیادہ حصہ اتباع ہویٰ کا ہے، چناں چہ خرچ ہی کو دیکھ لو کہ چھوٹی چھوٹی تقریبوں میں کیسی دھوم دھام کرتے ہیں ۔ اس کا منشا صرف جوش مسرت ہی نہیں بلکہ تفاخر بھی مقصود ہوتا ہے، چناں چہ شادی کے علاوہ غمی میں دل توغم میں مبتلا ہوتا ہے، پھر چالیسواں اور چھ ماہی اور برسی وغیرہ سب کچھ دھوم دھام سے کیوں کیا جاتا ہے ، اگر اس کا سبب تفاخر نہیں تو اور کیا ہے؟
ایک رئیس نے ایک موقع پر خوب حقیقت کھولی، قصہ یہ ہے کہ ان کے باپ مر گئے اُس مقام پر چالیسویں کی رسم حسب حیثیت بڑے پیمانہ پر ادا کی جاتی تھی، چناں چہ ان کے یہاں بھی چالیسویں کا بڑا سامان ہوا، ان کے احباب اور قرابت دار جمع ہوئے، کوئی مہمان ہاتھی پر چڑھ کر آیا، کوئی گھوڑے پر کوئی رتھ میں، کوئی بہلی میں، کوئی پالکی میں ۔ ان کو مجبوراً سب کا سامان کرنا پڑا، کھانے کے لیے ایک وسیع ہال تجویز کیا گیا، فرش بچھا کر کھانا چننا شروع کیا۔ بہت دیر میں کھانا چنا گیا، عمدہ عمدہ اور نفیس رنگ برنگ کے کھانے تھے ،بسم الله کا وقت آیا تو ان رئیس نے کہا کہ صاحب! مجھے کچھ عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ آپ سب صاحبوں کو معلوم ہے کہ یہ کاہے کی تقریب ہے، آپ سب صاحب جانتے ہیں کہ میرے والد کا سایہ میرے سر پر سے اُٹھ گیا اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ کتنی بڑی مصیبت ہے، پس مجھ پر مصیبت پڑی ہے، کیوں صاحبو! کیا مصیبت زدہ کایہی حق ہے کہ اس کو اور مصیبت پہنچاؤ؟ کیوں صاحبو! کیا یہی ہمدردی ہے، کہ میرا تو باپ مرا اور تم آستینیں چڑھا کر کھانے کو تیار ہو بیٹھے پھر کہا اچھا بسم الله کیجیے ۔بھلا اس کے بعد کس کی غیرت تھی کہ کھانا کھاتا۔ سب عقلا تھے، سب نے اس بات پرغور کیا اور سب نے اس پر اتفاق کیا کہ آج سے یہ رسم موقوف کر دینی چاہیے، واقعی نہایت برُی اور بالکل ہمدردی کے خلاف حرکت ہے چناں چہ ایک عہد نامہ لکھا گیا او را سپر سب نے دستخط کیے۔ اور بغیر کھائے چل دیے۔ اس کے بعد ان رئیس زادہ نے خدمت گاروں سے کہا کہ مساکین اورمحتاجوں کو بلا لاؤ سب کھانا ان کو کھلا دیا گیا۔ ان کے تو سات پشت نے بھی ایسا کھانا نہ کھایا ہو گا۔ بہت دعائیں دیں۔
واقعی! اگر غور کرکے دیکھا جائے تو شادی غمی سب ہی میں، ہم نے تمام خرافات اور لغو رسمیں اختیار کر رکھی ہیں اور اس قدر لغو اور بے ہودہ رسوم ہیں جس کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں اور جس کا منشا محض اتباع ہوی ہے اور کچھ بھی نہیں۔
دین کے کاموں میں اتباع ہویٰ
یہ تو دنیا کے کام ہیں، مگر ہمارے اوپر یہاں تک اتباع ہوی کا غلبہ ہے کہ ہماری عبادت بھی اس سے خالی نہیں ۔ ٹٹول کر یکھ لیجیے، ہم جتنے کام دین کے کرتے ہیں ان کی کیا کیفیت ہے؟ مثلاً جیسے قومی مذہبی انجمن ہے، فی نفسہ دین کا کام ہے، طاعت کی چیز ہے، مگر اس میں بھی وہی اتباع ہویٰ ہے، دینی مدرسہ جاری کرنا۔ ظاہر بات ہے کہ یہ خدمت دین کے واسطے اور ثواب کے لیے ہے، مگر ہم کس لیے کرتے ہیں اس کا اندازہ امتحان سے ہو سکتا ہے۔
واقعی امتحان کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ للہیت سے مدرسہ جاری کیا ہے یا نفسانیت سے؟ وہ امتحان یہ ہے کہ اگر مقابلہ میں کوئی اور مدرسہ ہو جائے تو اب کارکنان مدرسہ کو دیکھو کہ اس کا ہونا ان کو گراں ہے یا نہیں ؟اگر الله تعالیٰ کے واسطے یہ کام ہے تو گرانی نہ ہونی چاہیے، اگرچہ یہ بھی اندیشہ ہو کہ ہمارا مدرسہ بند ہوجائے گا کیوں کہ اس کی جگہ دوسرا مدرسہ موجود ہے وہ بھی وہی کام کرے گا، جو یہ کرتا ہے او رکام ہی مقصود ہے اگر کسی کی نیت میں یہ بات ہے تو بے شک وہ کام الله کے واسطے ہے، مگر اس کا کہیں نشان بھی نہیں، خواب میں بھی اس کا منظر نظر نہیں آتا، بلکہ فوراً ان کو فکر پڑ جائے گی کہ بس جی! اب تو چندہ گیا گزرا ہوا، ہمارے مدرسہ کی شہرت بھی گئی گزری، اب اس کی فکر میں ہوں گے کہ دوسرے مدرسہ کی مذمت کریں گے، اس کا نام مدرسہ ضرار کہیں گے، اس کی عیب چینی کریں گے، رات دن اس کے اکھاڑنے کی فکر میں پڑ جائیں گے او راپنے مدرسہ کی بابت یہ فکر ہو گی کہ اس کا نام بڑھا رہے۔ اپنے مدرسہ کے طلبا کو بھیج کر دوسرے مدرسہ کے طلبا سے مباحثہ کرائیں گے اور نیت یہ ہو گی کہ یہ ان پر غالب ہوں، تاکہ یوں کہہ سکیں کہ وہاں خاک لیاقت نہیں ہوتی ،ہمارے مدرسہ کے طلبا ایسے لائق فائق ہیں اور یہ فکر ہو گی کہ ہمارے مدرسہ میں بہت سے طلبا کی دستاربندی ہو، تاکہ نام ہو کہ ہم نے اتنوں کو قابل کر دیا اور وہاں کچھ بھی نہیں، بس یہ ہے خلوص اور یہ دین ہے افسوس۔
حضرات !یہ حالت ہے ہماری دین کے کاموں کی کہ وہ کام بھی نفسانیت سے ہی کیے جاتے ہیں، اس کا نام تدین نہیں بلکہ اتباع ہویٰ ہے۔
پیِروں کی حالت
اسی طرح آج کے پیروں کی حالت دیکھیے کہ اگر ایک پیر ہو شہر میں او رکوئی دوسرا پیر آجائے تو اب وہ اس فکر میں ہیں کہ ان کی عیب جوئی کریں، کہیں خاص جلسہ میں ان کی مذمت کی جارہی ہے، کہیں مجمعوں میں ان کی برائیاں ہو رہی ہیں، بس ہر وقت یہی فکر رہتی ہے کہ یہاں سے یہ اکھڑ جائیں۔ حضرت! یہ دین ہے ؟ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کام میں خلوص ہو اور دوسرے شخص وہی کام کرنے لگے جو پہلا شخص کر رہا تھا تو یہ پہلا شخص خدا تعالیٰ کا شکرکرے گا کہ میرا اور مدد گار پیدا ہو گیا یہ تو خوش ہونے کی بات ہے، اس پر مسرت ہونی چاہیے کہ اپنا بوجھ ہلکا ہو گیا، مگر ایسے لوگ اب کہاں؟ بس اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصود دین نہیں، بلکہ اغراض ہیں اور یہی اتباع ہویٰ ہے۔
علامت خلوص
علی خوّاص رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ خلوص کی علامت یہ ہے کہ اگر دوسرا کام کرنے والا آجائے تو یہ اس کام کو چھوڑ دے اب دیکھ لیجیے کہ یہ علامت کہاں کہاں پائی جاتی ہے؟ الاماشآء الله اور ان مستثناؤں میں بعض خدا کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی بیعت ہونے آتا ہے تو یوں کہہ دیتے ہیں کہ دوسری جگہ جاؤ، بس جسے مقصود کام ہو گا وہ کام ہی چاہے گا، کوئی کرے ،کسی جگہ بھی ہو ، بس مخلصین کی علامت یہ ہے۔ مگر ہماری تو عام طور پر یہ حالت ہے کہ دین کاکام بھی کریں گے تو اس میں خواہش نفسانی ملی ہوئی ہو گی، غرض ہر چیز میں وہی اتباع ہویٰ کی علت ہے اور یہ سب تو اہل ظاہر کی کیفیت تھی، جس کو میں نے عرض کیا۔
باطنی اصلاح کے طالبین کی غلطی
اب اہلِ باطن کے متعلق ایک باریک بات رہ گئی ،اس کو عرض کرکے بیان ختم کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ استیعاب کی ضرورت نہیں، نمونہ کافی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ سب سے بڑا طبقہ مشائخ اور سالکین کا ہے، جو اہل باطن ہیں اور سب سے بڑا کام ذکر الله اور اصلاح نفس ہے، یہ تو بالکل صدق ہی پر مبنی ہونا چاہیے۔ اغراض کا اس میں کیا دخل؟! مگر افسوس اس میں بھی ہم لوگوں کی خرابی سے یہاں تک نوبت پہنچی ہے کہ یہ بھی اتباع ہویٰ سے خالی نہیں رہا، شرح اس کی یہ ہے کہ اول یہ سمجھنا چاہیے کہ مقصود اس طریق کا کیا ہے؟ سو وہ وصول الی الحق یعنی رضائے حق ہے اور ثمرہ اصلاح کایہی ہے مگر ہم لوگوں نے نادانی سے اس وقت اس ثمرہ کو چھوڑ کر اپنی طرف سے دوسرا ثمرہ اختراع کیا ہے، کسی نے لذات وانوار کو مقصود سمجھا ہے، کسی نے کشف وکرامت کو۔ یہ کیفیت تو مخلصین کی ہے اور دنیا پرستوں کا تو ذکر ہی کیا ہے، ان کا تو ہرحال میں مقصود دنیا ہی ہے، ان مخترع ثمرات کو مقصود بنانے میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ اگر وہ مقصود مرتب نہ ہوا تو ناکامی کا شبہ ہو کر بعض وقت تعطل کی نوبت آجاتی ہے، چناں چہ بعض کو کشف وکرامت وانوار وغیرہ نہ ہونے سے ایسے قبض کی نوبت آگئی کہ اپنے کو قتل کر لیا۔
خودرائی کی برائی
یہ سب خرابی تجویز کی ہے کہ ثمرات خود تجویز کر لیتے ہیں، عارف شیرازی رحمة الله علیہ اسی کی مذمت میں فرماتے ہیں #
فکر خود ورائے خود در عالم رندی نیست
کفر ست دریں مذہب خود بینی وخود رائی
دیکھیے! عارف نے خودرائی کو کفر طریق فرمایا ہے۔ اس طریق کا حاصل تفویض محض ہے، یعنی کام کرے اور ثمرات کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرے، حتی کہ یہ شان ہونی چاہیے #
ارید وصالہ یرید ھجری
فاترک ما ارید لما یرید
(ترجمہ: میں اس سے ملنا چاہتا ہوں وہ مجھ سے جدائی، میں نے اپنی خواہش کو محبوب کی خواہش پر قربان کر دیا۔)
مقصودِ اصلی رضائے دوست ہے
عارف شیرازی رحمة الله علیہ نے ترجمہ اس کا خواب کیا ہے #
میل من سوئے وصال ومیل او سوئے فراق
ترک کام خود گرفتم تا بر آید کام دوست
نیز عارف شیرازی رحمة الله علیہ کہتے ہیں #
فراق ووصل چہ باشد رضائے دوست طلب
کہ حیف باشد از او غیر او تمنائے
(ترجمہ: فراق ووصل کی کیا حقیقت ہے محبوب سے اس کی رضا مندی کو طلب کرو کہ اس سے اس کے غیر کو طلب کرنا شرمندگی کا باعث ہے۔)
اس شعر پر شاید کسی کو یہ شبہ کہ قیامت کا عذاب بھی تو فراق ہے جیسا خود حافظ رحمة الله علیہ ہی دوسری جگہ فرماتے ہیں #
شنیدہ ام سخن خوش کہ پیر کنعاں گفت
فراق یارنہ آں میکند کہ بتواں گفت
(ترجمہ: پیر کنعاں نے نہایت عمدہ بات کہی وہ یہ کہ فراق محبوب الہٰی ایسی مصیبت ہے جو کہ بیان نہیں کرسکتے واعظ شہر نے ہولِ قیامت کی جو حدیث ذکر کی ہے اس میں کہتا یہ ہے کہ اس نے زمانہ کی جدائی کا ذکر کیا ہے۔)
تو کیا اس کی بھی پروانہ کرنی چاہیے، حالاں کہ خود اس کلام میں اس فراق کا محذورعنہ ہونا مصرح ہے۔
جواب یہ ہے کہ ایک فراق حقیقی ہے او رایک فراق صوری ہے اور عارف کی مراد پہلے کلام میں فراق صوری ہے اور عذاب قیامت فراق حقیقی ہے، جو دوسرے کلام میں مذکور ہے۔ عارف شیرازی رحمة الله علیہ کے کلام سابق میں وہ مراد نہیں۔ مطلب یہ کہ جس فراق ووصل کے تم طالب ہو اس سے بحث نہ ہونی چاہیے، بلکہ دوست کی رضا کو دیکھنا چاہیے ،جیسی اس کی رضا ہو اسی کو گوارا کرنا چاہیے، گو طبع کو ناگواری ہو۔
حالتِ فراق میں حصولِ رضائے دوست کی مثال
اس کو ایک مثال میں یوں سمجھیے کہ مثلاً ایک محبوب سے عاشق کو وصل حسی میسر ہوا کہ بیٹھے ہوئے اس سے باتیں کر رہا ہے۔ ایسی ہی حالت میں اس نے جیب سے روپیہ نکال کر دیا کہ بازار سے فلاں شے خرید لاؤ۔ ظاہر ہے کہ اس دس منٹ کے عرصہ میں ظاہری وصل سے یہ محروم رہے گا، مگر عشاق کی شان کیا ہے ؟ شان یہی ہے کہ فوراً بازار چلا جائے او رمحبوب کے ظاہری فراق کو ظاہری وصل پر ترجیح دے، یعنی جو بُعد اس کا تجویز کیا ہوا ہے اس کو اختیار کرے، گو طبعا ناگوار ہو۔ اپنی تجویز کو ترجیح نہ دے، کیوں کہ حقیقی وصل رضائے محبوب ہے اور یہ فراق محض ظاہری ہے، حقیقی فراق نہیں۔ اب دونوں کلام میں تعار ض نہ رہا۔
مقصودِ اصلی
غرض مقصود رضا ہے، ہر حال میں راضی رہنا چاہیے، گو وہ حال طبعا ناگوار ہو۔ سالکین کو ایسی جہالتیں بہت پیش آتی ہیں مثلاً دلچسپی کے ساتھ ذِکر کرتا تھا، پھر اس سے دلچسپی جاتی رہی ،ذوق وشوق کم ہو گیا، پس خیال کرتا ہے کہ میں مردود ہو گیا، بڑا غمگین ہوتا ہے، بعض کو قبض کی حالت ایسی پیش آتی ہے کہ خود کشی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں سو اس کا کچھ خیال نہ کرنا چاہیے بلکہ جو حالت بھی پیش آئے اس پر راضی رہنا چاہیے، اپنی رائے کو دخل ہی نہ دے، مولانا فرماتے ہیں #
چوں کہ قبض آید تو در وے بسط بیں
تازہ باش وچیں میفگن بر جبین
چوں کہ قبضے آیدت اے راہ رو
آں صلاحِ تست آیس دل مشو
(ترجمہ:جب حالت قبض تجھ کو پیش آئے تو اس میں خوش رہ، ہشاش بشاش رہو اور پیشانی پر شکن نہ لاؤ، اے راہ سلوک کے مسافر !تجھے حالت قبض پیش آتی ہے اس سے مقصود تیری اصلاح ہے، اس حالت پر تو دل چھوٹا نہ کر۔)
اسی کو عارف شیرازی رحمة الله علیہ کہتے ہیں #
باغباں گرپنج روزے صحبت گل بایدش
برجفائے خار ہجراں صبر بلبل بایدش
(ترجمہ: باغباں اگرچند روز کے لیے پھولوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو ہجر کے کانٹوں کی بے وفائی پر بلبل بھی تو صبر کرتی ہے۔)
غرض کچھ بھی حال ہو عاشق کا مذہب یہ ہونا چاہیے #
زندہ کنی عطائے تو
ور بکشی فدائے تو
جاں شدہ مبتلائے تو
ہر چہ کنی رضائے تو
(ترجمہ: آپ زندہ رکھیں آپ کی مرضی مار دیں تو میں آپ پر قربان۔ میری جان تو آپ کے عشق میں مبتلا ہے ،جو آپ کی مرضی ہو کریں۔)
اور یہ مذہب ہونا چاہیے #
ناخوش تو خوش بود بر جان من
دل فدائے یار دل رنجان من
(ترجمہ: جس بات سے تو خوش ہو، چاہے مجھے ناپسند ہو میں وہ کرنے کو تیار ہوں، کیوں کہ میرا دل تجھ پر قربان ہے۔)
طالبِ لذات طالبِ حق نہیں ہے
اور جو شخص اس کے خلاف لذات کا طالب ہے وہ حق تعالیٰ کا طالب نہیں کیوں کہ لذت عین حق تو ہے نہیں، بس عاشق صادق و ہی ہے جوحق کا طالب ہو، نہ احوال کا نہ کیفیات کا ،کیوں کہ یہ باتیں نہ موعود ہیں، نہ لازم ہیں، کبھی ہوتی ہیں ،کبھی نہیں ہوتیں ،اس لیے ان کی طرف التفات ہی نہ کرنا چاہیے۔ توجہ صرف اُس چیز کی طرف کرو جو بوجہ موعود ہونے کے مرتب ہوتی ہے ،وہ کیا ہے توجہ حق الی العبد، چناں چہ حضرت حافظ محمد ضامن صاحب رحمة الله علیہ اسی کی نسبت فرماتے تھے کہ ہمارا مقصود تو ذکر سے یہ ہے ﴿فاذکرونی اذکرکم﴾ حق تعالیٰ فرماتے ہیں” تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا“ یہ ایسا ثمر ہے جس میں بوجہ وعدہ کے کبھی تخلف ہی نہیں ہوتا۔ یعنی ہم الله تعالیٰ کو اس لیے یاد کیا کریں کہ وہ ہمیں یاد کریں گے اس کے سوا حیات دنیا میں کس اور ثمر کے ہم طالب نہ ہوں، باقی اصل ثمرہ رضا ودخولِ جنت وہ تو آخرت میں ہو گا ہی، بس او رکیا چاہیے۔ ایسا شخص جس کا یہ مطلوب ہو کبھی پریشان نہیں ہوتا۔ یہ ہے حقیقت سلوک کی، مگر ہم اس میں بھی بدوں اتباع ہویٰ کیے ہوئے نہ رہے۔ بھلا بتلائیے جس طریق کا مبنی محض خلوص ہو جب اس میں بھی نفس کا اتباع ہو رہا ہے جیسا ابھی اوپر بیان ہوا ہے کہ مخترع ثمرات کو مقصود بنا رکھا ہے تو دیکھیے ہماری حالت کہاں سے کہاں پہنچی ہے؟
ہویٰ کی تعریف اور اُس کا اطلاق
پس اسی کی شکایت ہے اس آیت میں ﴿ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من الله﴾ ہر چند کہ ہویٰ لغةً خواہش محمود ومذموم دونوں کو عام ہے، مگر اکثر ہویٰ کا اطلاق ہوائے مذموم ہی پر ہوتا ہے، اس صورت میں ﴿بغیر ھدی من الله﴾ قید واقعہ ہو گی او رکبھی ہویٰ کا اطلاق ہوائے محمود پر بھی آتا ہے، چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ بعض عورتیں آپ سے کہتی تھیں کہ ہم نے اپنے نفس کو آپ کے لیے ہبہ کیا، یعنی اپنے کو بلا مہر کے آپ کے نکا ح میں دیتے ہیں۔ کیوں کہ آپ کا نکاح بلا مہر بھی صحیح ہو جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے ان عورتوں کو ایک بار بے حیا کہہ دیا، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ﴿وامراة مؤمنة ان وھبت نفسھا للنبی ان اراد النبی﴾ الی قولہ تعالیٰ ﴿ ترجی من تشاء منھن وتؤوی الیک من تشاء﴾ اس پر حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے آپ سے عرض کیا ”مااری ربک الا یسارع فی ھواک“ یہاں بھی لفظ ” ھوی“ آیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خواہش محمود ہی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ ”ھوی“ کا اطلاق ہوائے محمود پر بھی ہوتا ہے ۔ اس صورت میں ﴿بغیر ھدی من الله﴾ قید احترازی ہو گی۔
ھویٰ کی اقسام
فیصلہ یہ ہو گا کہ ہویٰ دو قسم کی ہے، ایک وہ جو تابع ہدی کے ہو اور ایک وہ جو تابع ہدیٰ کے نہ ہو۔ پس جو ہویٰ تابع ہدیٰ کی ہو وہ ہویٰ اہل الله کی ہے، ان کا نفس مطمئنہ ہوتا ہے، جس کا تعلق رضائے حق سے ہو چکا ہے۔
نفسِ مطمئنہ کا حال
یہ وہ بات ہے جو بہلول کی حکایت میں ہے، کسی بزرگ سے انہوں نے پوچھا کہ کس حال میں ہو ؟ ان بزرگ نے فرمایا اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو جس کی خواہش کے خلاف دنیا میں کچھ بھی نہ ہوتا ہو ، کہا یہ کیسے ؟ فرمایا یہ ایسے کہ میں نے اپنی خواہش کو حق تعالیٰ کی خواہش میں فنا کر دیا ہے، اب کوئی واقعہ میری خواہش کے خلاف ہوتا ہی نہیں، پھر مجھے راحت ہی راحت ہے، رنج کیوں ہو؟ واقعی جس نے اپنی خواہش کو فنا کر دیا ہو ۔ خدا تعالیٰ کی خواہش میں جو حاصل ہے فانی فی الحق ہونے کا وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے اور اس صورت میں جو چیز خدا کی خواہش اور ارادہ کے موافق ہو گی وہ اس کی خواہش کے موافق بھی ہو گی، پس دنیا میں تمام حوادث اور تمام واقعات اس کی مرضی کے موافق ہی ہوں گے پھر اس کو رنج کیوں ہو گا ؟ اس کا نفس ،نفس مطمئنہ ہو گا اور وہ کس پر مطمئن ہو گا؟ تعلق بہ محبوب پر مطمئن ہو گا، جیسا ارشاد ﴿الابذکر الله تطمئن القلوب﴾ ․
اسی واسطے وہ کسی حالت اور کسی چیز سے دل گیر نہیں ہو گا، کیوں کہ کوئی چیز اس کے خلاف ہی نہیں ہوتی ۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ دعا نہیں کرتا، وہ دعا ضرور کرتاہے ،کیوں کہ وہ دعا خود حق تعالیٰ کی خواہش کے موافق ہے اس دلیل سے۔ (جاری)