Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1432ھ

ہ رسالہ

13 - 19
جنوبی ایشیا میں دینِ اسلام کی دو عظیم تحریکیں
محترم ابو اللیث الحسنی کھگڑیاوی

ہر چند کہ مشرق اسلامی کے اس علاقے میں بھی ، جو مطلع اسلام ، مہبط وحی الہٰی، بعثت گاہِ نبی اعظم صلی الله علیہ وسلم سے دور افتادہ ہے ، ماضی بعید سے ہی ، اسلامی تعلیمات وا حکامات پڑھنے، پڑھانے اور اسلامی تبلیغ ودعوت پھیلانے، اپنانے، آنکھوں سے لگانے، دل میں بسانے او راس کی ہمہ گیر خدمتوں کا پر عزم حوصلہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ، چناں چہ دینی شعور اوراسلامی تہذیب وتمدن اور اس کے تحفظ وبقا کے لیے اس روئے زمین پر دواہم او ربڑی تحریکیں ہیں:

دارالعلوم دیوبند تبلیغ ودعوت
بلا تعیین رتبہ دونوں اسلامی دنیا کی عظیم تحریکیں ہیں، بلکہ دونوں اغراض ومقاصد کے لحاظ سے انتہائی قریب تر ہیں۔ یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مکتب فکر کی وضاحت اور ان کے مقصد اولین کی طرف قدرے اشارہ کروں۔

دارالعلوم دیوبند اور اس کا نصب العین
دارالعلوم دیوبند بلاشک وشبہ کتاب وسنت کا امین، متاع دین ودانش کا نگہبان، اسلامی تعلیمات وروایات کا پاسبان، علم وعرفان کا سنگم، ہندوستان میں تحفظ دین کی اولیں کوشش کا مظہر جمیل، علمائے حق کے جذبہ ایثار وقربانی کی لازوال یادگار، اکابر کی آہ سحر گاہی ودعائے نیم شبی کا ثمرہ اور اسلام کے تحفظ وبقا کا مرکز ہے، یہی اس عظیم ادارے کی تحریک کے اغراض ومقاصد ہیں، جن کو بہ الفاظ دیگر، حضرات اکابر کی مختلف تحریرات اور دارالعلوم دیوبند کے قدیم دستور اساسی کی روشنی میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور اس جیسے دینی ادارے کا نصب العین قرآن کریم، حدیث، فقہ، عقائد ودیگر اسلامی علوم وفنون کی تعلیم دینا، مسلمانوں کو مکمل اسلامی معلومات فراہم کرنا، اسلامی اخلاق واعمال کو عام کرنا، طلبہ میں اسلامی روح پیدا کرنا، تقریر وتحریر کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ واشاعت کرنا، اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا، وغیرہ وغیرہ۔

دعوت وتبلیغ کی حقیقت وضرورت
وہ مقدس ہستیاں، جو لوگوں کو تاریکی سے نور کی طرف ، گمراہی سے ہدایت کی طرف ، تنگی سے کشادگی کی طرف، ظلم وزیادتی سے عدل وانصاف اور حیوانیت وشیطانیت سے ہٹا کر انسانیت واعزازیت کے طرف نکالنے کے لیے پیدا کی گئیں، ان کا دعوتی مشن، فکری کڑھن اور اصلاحی لگن وہی ہے ، جس کو ہم آج دعوت وتبلیغ کے عنوان سے موسوم کرتے ہیں۔ یقینا یہ دعوت وتبلیغ تمام انبیاء علیہم الصلاة والسلام کا طرہٴ امتیاز ہے او رپھر انسانی ، طبعی، عقلی او رشرعی جملہ حیثیتوں سے بھی یہ ضروری ہے کہ عام خلائق کی صلاح وفلاح او ران کی دنیاوی واخروی بہبودی کے لیے فکر کیا جائے او راس بہبودی وہم دردی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں کسی جاہ طلبی اور عہدہ مقصود نہ ہو ، تو اس میں اس قدر نفع عام ہو گا، خیریت وہدایت بڑھے گی اور نہ جانے کس قدر پر ورد گار عالم کے یہاں انعام واکرام میں اضافہ ہو گا۔

دارالعلوم دیوبند او رتبلیغ ودعوت
دارالعلوم دیوبند تاریخ کے لحاظ سے موجودہ دعوت وتبلیغ پر مقدم ہے، کیوں کہ دارالعلوم دیوبند کا قیام 15 محرم الحرام1283ھ مطابق30 مئی1866ء میں عمل میں آیا۔ جب کہ وہ تبلیغ ودعوت ، جو برسوں سے پژمردہ ہو گئی تھی، اسے الله نے دارالعلوم دیوبند ہی کے فرزند مبلغ اسلام حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کی محنت وکوشش کے نتیجے میں دوبارہ زندہ کیا، جو تقریباً تیرہویں صدی ہجری کا زمانہ ہے، گویا یہ تبلیغ کی موجودہ شکل دارالعلوم دیوبند کی ہی فکری اساس کی ایک عظیم تحریک ہے ، جو دوسری شکل میں وجود میں آئی ، خلاصہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور تبلیغ ودعوت اسلام ومسلمانوں کی ہمہ گیر خدمتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے کا ساجھے دار اور معاون ہے۔

دارالعلوم دیوبند کی پرواز
مادر علمی دارالعلو م دیوبند اپنے قیام کے بعد جن اسلامی علوم وفنون کی تعلیم واشاعت، ملک وملت کی دینی ودنیاوی قیادت، تزکیہٴ اخلاق، وعظ وتذکیر ، تصنیف وتالیف، صحافت وخطابت، دعوت وارشاد او رملک کی آزادی کے سلسلے میں ، جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا روشن باب اور خدمات کا حسین گل دستہ ہے ، علاوہ ازیں اس ادارے نے ایسے ایسے رجال کا رتیار کیے جو علم میں رسوخ، مطالعہ کی وسعت کے ساتھ ساتھ مؤمنانہ فراست ، حکیمانہ صلاحیت، ملہمانہ بصیرت، خلوص نیت، ولولہٴ دینی، جوش ایمانی، ایثار وقربانی، جذبہٴ خدمت کی فراوانی، تواضع وللہیت، اتباع سنت، انابت الی الله جیسے اوصاف وکمالات سے متصف تھے، جنہوں نے عالم اسلام میں ایسے ایسے نقوش ثبت کر دیے جو برسوں باقی او رجاری وساری رہیں گے ، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ دارالعلوم دیوبند نے اسلام کی تحریک او رنئی تاریخ دوہرائی، دینی علوم کو غذا پہنچائی او رامت مسلمہ کو صحیح دین سے اور قرآن وحدیث سے منشائے نبوی اور احکامِ الہیٰ سے روشناس کرایا۔

تبلیغ ودعوت اور اس کی نشو ونما
دعوت وتبلیغ کے متعلق خطیب العصر، علامہ عبدالشکور صاحب دین پوری نے یہ فرمایا، الیاس کی محنت ہے کہ جو لوگ فرض نہیں پڑھتے تھے آج ان کی تہجد قضا نہیں ہوتی ، جن لوگوں کی نگاہیں غلط تھیں ان کی ادائیں بھی بدل گئیں، جن کی فضائیں ابر آلود تھیں آج روشن وتاب نا کی کے آسمان میں بدل گئیں ، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں نے اس مشرب سے سیرابی حاصل کی ہے اور کر رہے ہیں ، اس جدوجہد کی برکت سے جو راہ راست سے دور تھے ، جنہیں کلمہ تک یا د نہیں تھا، جو قرآن کی عبارتوں ، حدیث کے ترجموں او ردین کی تعلیمات سے بے بہرہ تھے ، آج جب وہ اس دعوتی تحریک سے جڑ گئے تو ان تعلیمات واحکامات کی حصول یابی کے بعد دوسروں تک بھی اسے منتقل کرنے کی فکر میں لگ گئے اور لگے ہی رہے، بہ الفاظ دیگر الله کے حبیب حضرت محمد صلی الله علیہ کی لائی ہوئی شریعت واحکامات کو پہنچانے میں تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں او رلگاتے رہیں گے ، یہاں تک کہ نبی کایہ فرمان صادق آجائے: ”(عن المقداد أنہ) یقولُ: لا یَبقٰی علی ظہر الأرض بیتُ حدرٍ أو وَبرٍ إلا أدخلہ اللهُ کلمةَ الإسلام“ یعنی الله کے نبی کا یہ دین ہر پکے اورکچے گھر میں داخل ہو جائے۔

چناں چہ آج اس کا خوب خوب مشاہدہ ہو رہا ہے، مولانا محمد الیاس صاحب نے یہ جماعت جو تیار کی ہے ، اگر یہ اسی طرح ملک ملک، دیہات دیہات، شہر شہر، محلہ محلہ پھرتی رہی تو ان شاء الله ہر گھر مسلمانوں ، نمازیوں اور دین داروں سے بھر جائے گا، الله الله کی پکار، اسلام ہی اسلام کی صدا پوری دنیا میں گونجے گی۔

دارالعلوم دیوبند میں تبلیغی جماعت کی محنت
الله تعالیٰ کا بے پایاں کرم ہے کہ ما شاء الله طلبہ کے ساتھ بعض اساتذہ بھی ہر ہفتہ الله کے دین کی نشرواشاعت کے لیے قریہ قریہ پھرتے ہیں، بلکہ طلبہ چھٹیوں او ررمضان کے موقع پر چلہ اور فارغ ہونے کے بعد ایک سال لگاتے ہیں ، جس سے ان کے اندر دینی وعملی انقلاب آجاتا ہے بلکہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کو صراط مستقیم کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نبی کی دعوت ، جدوجہد اور قول و عمل کا سب سے بڑا محرک رضائے الہٰی پیدا ہو جائے، کوئی چیز الله کی رضا کے سوا ان کے سامنے نہیں ہوتی کہ یہ ملے یا وہ ملے ، بلکہ وہ صحیح معنوں میں خلوص وللہیت کا پیکر بن کر احکام خداوندی اور تعلیمات نبوی کو عام کرتے ہیں، ہدایت سے بے بہرہ لوگوں کو آب ہدایت سے سیراب کرتے ہیں، ان کی زندگی کے نوک وپلک درست کرنے میں دل وجان سے کوشش کرتے ہیں او راخلاص واستقلال، توکل واعتماد اور زہد وتقویٰ کے ساتھ ہر غریب وامیر ، چھوٹے، بڑے اور دین سے بے خبر،اَن پڑھ لوگوں کو ایمان وہدایت کی دعوت پیش کرتے ہیں ، اپنی دعا وتسبیح او رمحنت وکوشش کے ذریعہ ان کی زندگی کو اطاعت وسنت سے آراستہ وپیراستہ کرتے ہیں۔

اگر ان کی زندگی کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو ایسا معلوم ہو گا کہ یہ لوگ درحقیقت صحابہ کی زندگیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں، وہ اس منظر کی تاریخ دوہراتے ہیں #
        خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
        کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
Flag Counter