اسلامی تہذیب حقائق اور خصوصیات
محترم نایاب حسین
انسان کی مدنی زندگی اوراجتماعی زندگی کے لیے ، تہذیب ایک فطری اور لابدی چیز ہے ، دو آدمیوں کے باہمی ملاپ سے جو بچہ عالم وجود میں آتا ہے ، اس کے پروان چڑھنے کے لیے ماں کی گود ضروری ہے ، نیز اس کی نشو نما کے لیے خاندان، معاشرہ اور تعلیم گاہ بھی ضروری ہے ، مدنیت انسان کی فطرت ہے او رتہذیب اس کی اساس ہے، سویلائزیشن (تہذیب) کو آپ خواہ لفظی اعتبار سے دیکھیں، خواہ تاریخی اعتبار سے اس کا مطالعہ کریں ، ہر دو اعتبار سے اس کا تعلق سماجی او راجتماعی زندگی سے جڑا ہوانظر آئے گا ، عربی زبان میں اس کے لیے مدنیت ، حضارت اور ثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور انگریزی میں بھی Civic, City, Civil یہ سب Civilization کے مصدر کے طو رپر مستعمل ہے۔
تہذیب کیا ہے؟
یہ ایک ایسا گہوراہ ہے ، جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے ، انسان کا تشخص قائم ہوتا ہے ، اس کے لیے ترقی کی راہیں واہوتی ہیں او راس کو اپنا کر زندگی کے ہر موڑ پر انسان کام یاب وکام ران ہوتا ہے ۔ انسانوں کے درمیان خیالات، اقدار، ادارے، تعلقات او رنظام ہائے زندگی یہ سب اس کا نتیجہ ہیں۔
ثقافت اور تہذیب
ثقافت (کلچر) اورتہذیب ( سویلائزیشن) کی اصطلاحیں عمرانیات ( سوشیالوجی) تاریخ اور فلسفے کے مباحث میں استعمال ہوتی ہیں، البتہ ان کی تکنیکی تعریف میں شدید اختلاف پایاجاتا ہے ، نیز بعض دفعہ ان دونوں کو مترادف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
عقیدے، اقدار اور اصولِ حیات کی بنیادی قدریں ، جو کسی انسانی گروہ کی مشترکہ اساس ہوں او رجن کی بنیاد پر کسی قوم یا جماعت کو معاشرے میں ایک متمیز تشخص اور شناخت حاصل ہو ، وہ کلچر کہلاتا ہے، لیکن واضح رہے کہ کلچر عقیدہ، فکر ، عادات اور اخلاق واطوار کے ساتھ ساتھ سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی اداروں، حتی کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنے آثار چھوڑتا ہے ، جس کے نتیجے کے طور پر مختلف علوم وفنون وجود پذیر ہوتے ہیں ، آرٹ کی متنوع شکلیں معرض ظہور میں آتی ہیں ،فن تعمیر کے گونا گوں شاہ کار انسانی نگاہوں کو خیرہ کیے دیتے ہیں، معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں ، اسی مجموعی تشخص کو تہذیب ،حضارت اور سویلائزیشن کا نام دیا جاتا ہے اور علوم عمرانی کی اصطلاح میں ایک کو Mentafacts (ذہنی تشکیل) کہا جاتا ہے اور دوسرے کو Artefacts (سماجی مظاہر)، لیکن یہ دونوں باہم مربوط ہوتے ہیں او رایک کا تصور دوسرے کے بدون غیر ممکن ہے۔
تہذیب کے عناصرِ ترکیبی
کسی بھی تہذیب کے بنیادی طور پر چار عناصر ہوتے ہیں: اقتصادی ذرائع سیاسی نظام اخلاقی اقدار وروایات مختلف علوم وفنون پر گہری نظر ، نیزجس طرح کسی بھی تہذیب کے آگے بڑھنے اور ترقی کے منازل طے کرنے کے متعدد عوامل ہوتے ہیں، کچھ جغرافیائی، کچھ اقتصادی اور کچھ نفسیاتی، جیسے، مذہب ، زبان او راصول تعلیم وتربیت، بالکل اسی طرح کسی بھی تہذیب کے نیرِ اقبال کے گہنانے کے بھی چند ایک اسباب ہوتے ہیں، جو اس کی بقا او رترقی کی راہوں میں گام زن کرنے کے ذرائع سے معارض ہوتے ہیں مثلاً: اخلاقی وفکری زبوں حالی، بدنظمی، ظلم وجور اور فقر وتنگ دستی کا شیوع، مستقبل کے تئیں لاپروائی اور باصلاحیت راہ نما اورمخلص قائدین کی نایابی۔
تہذیبِ انسانی کی تاریخ
انسانی تہذیب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ، جتنا قدیم اس خاک دان ارضی میں خود انسان کا وجود ہے ، دراصل یہ سلسلہ ایسا ہے جو اوّل دن سے تا امروز دراز ہے۔
تہذیبِ انسانی کا حیطہٴ عمل
کسی بھی تہذیب کا تعلق کسی خاص خطہٴ ارضی یا کسی خاص نسلِ انسانی سے نہیں ہوتا، بل کہ وہ تمام دنیا اور دنیا کی تمام نسلوں کو محیط ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ظہور پذیر ہونے والی ہر قوم تہذیب وتمدن کے باب میں کچھ نہ کچھ صفحات رقم کرتی ہے ، گو بعض تہذیبیں اپنی ٹھوس بنیادیں، زبردست اثر انگیزی او رافادہٴ عام کی بنا پر دیگر تہذیبوں سے ممتاز ہو جاتی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہر وہ تہذیب جس کا پیغام عالم گیر ہو ، جس کا خمیر انسانیت نوازی پراٹھا ہو ، جس کی ہدایات وتوجیہات اخلاقی قدروں کے پاس دار ہوں اور جس کے اصول وضوابط حقیقت پسندی پر مبنی ہوں ، تاریخ میں ایسی تہذیب کو بقائے دوام حاصل ہوتی ہے ، مرورِ ایام کے باوصف انسانی زبانیں اس کے ذکر میں سر گرم رہتی ہیں اور ہر زمانے میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
اسلامی تہذیب
اسلامی تہذیب بھی ، انسانی تہذیبوں کے دراز سلسلہ کی ایک کڑی ہے، اس سے قبل بھی بہت سی تہذیبیں رونما ہوئیں اور اس کے بعد بھی تاقیامت ابھرتی رہیں گی۔
ہماری تہذیب کے ابھرنے، چمکنے اور عالم پر چھا جانے کے متعدد محرکات تھے او را س کے گم نام وبے نشان ہونے کے بھی مختلف اسباب ہیں، جن کی تفصیل میں جانا ہمارے موضوع سے خارج ہے ، ہمارا مقصد تو صرف انسانی ارتقا کی تاریخ میں اسلامی تہذیب کے عظیم الشان کردار اور دنیا کے مختلف اقوام پر علوم وفنون، عقائد، اخلاقیات، فلسفہ وحکمت اور ادب کے باب میں اس کے ناقابلِ فراموش احسانات کو ذکر کرنا ہے۔
اسلامی تہذیب کی خصوصیات
یوں تو اسلامی تہذیب اپنے جلو میں ہزار ہا خوبیوں اور خصوصیات کو سموئے ہوئے ہے ، مگر ہم صرف اس کی اہم، مرکزی او ربنیادی خصوصیات کو سپردِ قرطاس کریں گے اور ان شاء الله اسی سے تہذیب اسلامی کی تمام اگلی وپچھلی تہذیبوں پر برتری وبہتری عالم آشکار ا ہو جائے گی۔
پہلی خصوصیت
اسلامی تہذیب کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اساس کامل وحدانیت پر ہے ، یہی ایک ایسی تہذیب ہے جو یہ تصور پیش کرتی ہے کہ کائنات کی ایک ایک شے صرف اور صرف ایک ذات کی پیدا کردہ ہے ، اسی کے لیے عبادت اور پرستش ہے او راسی سے اپنی حاجات وضروریات بیان کرنی چاہئیں ﴿ایاک نعبد وایاک نستعین﴾ وہی عزت عطا کرتا ہے او راسی کے ہاتھ میں کسی کو بھی ذلیل وخوار کر دینا ہے، وہی دیتا ہے اور وہی محروم بھی رکھتا ہے اور زمین کی بے کراں وسعتوں اور آسمان کی بے پایاں بلندیوں پر جو کچھ ہے سب اسی کے قبضہٴ قدرت میں ہے ۔ ﴿ وھو علی کل شيء قدیر﴾․
عقیدے کے حوالے سے فکر کی اس بلند آہنگی کا طبقہٴ انسانیت کو اونچا اٹھانے، عوام کو بادشاہوں، سربراہانِ مملکت، شہ زوروں اور مذہب کے اجارہ داروں کے جور وقہر سے نجات دلوانے، حاکم ومحکوم کے درمیان صدیوں سے پائی جانے والی خلا کو پاٹنے او رانسانی ذہنوں کو ایک مالک حقیقی، کائنات کے خالق او رعالمین کے حقیقی رب کی طرف پھیرنے میں زبردست اثر رہا، نیز اسی عقیدے کی وجہ سے اسلامی تہذیب گزشتہ تمام تہذیبوں میں نمایاں رہی اور آئندہ بھی اس کی انفرادیت باقی رہے گی ( ان شاء الله) کیوں کہ اس کے عقیدے میں، طریقہٴ جہاں بانی میں ، علوم دفنون اور شعر وادب میں، غرض کہ معاشرتِ انسانی کے ہر شعبے میں بت پرستی ، اس کے آداب او راس کی پیچیدہ روایات کی ادنیٰ جھلک بھی نہیں پائی جاتی۔
اسلامی تہذیب میں رومن لٹریچر کے ترجمے سے اعراض اور بت پرست یونان کے ادبی شہ پاروں سے پہلوہتی کاراز یہی ہے او راسی وجہ سے ہماری تہذیب فن سنگ تراشی اور صورت گری میں دیگر تہذیبوں سے علیٰحدہ رہی، جب کہ نقش ونگاری او رتعمیری مہارت میں ا س کی نمائندگی قابل لحاظ ہے۔
اسلام ہی یکہ وتنہا ایسا مذہب ہے جس نے بت پرستی او راس کے تمام مظاہر کے خلاف کھلے بندوں جنگ چھیڑی او ربت پرستی کی ہر جھلک اور اس کی باقیات پر خط نسخ پھیر ڈالا، مثلاً: انبیا، اولیا، اصحابِ علم وفضل اور فاتحین کی تصویریں بہ طور یاد گار رکھنے کو منع کیا، واضح رہے کہ یہ رسم قدیم وجدید، ہر دو تہذیب میں رواجِ عام رکھتی ہے، اس لیے کہ ان تہذیبوں میں خدائے واحد کے حوالے سے وہ تصور مفقود ہے جو اسلامی تہذیب نے پیش کیا ہے۔
پھر اسی عقیدہٴ وحدانیت کے زیراثر وہ تمام قواعد وضوابط حیات وجود پذیر ہوئے جن پر اسلامی تہذیب مشتمل ہے ، چناں چہ اس کے پیغام، اس کے قوانین تشریعی، اس کے مقاصد واہداف، اس کے ذرائعِ معیشت اور طرز ہائے فکر، ہر ایک میں وحدت کا رنگ غالب ہے۔
دوسری خصوصیت
اسلامی تہذیب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اہداف اورپیغامات تمام کے تمام آفاقی ہیں، ارشاد ربانی ہے : ﴿یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند الله اتقاکم﴾․ (حجرات:13)
قرآن کریم نے تمام عالم کے انسانوں کو حق ، بھلائی اورخلقی شرافت وکرامت کی بنیاد پر ایک کنبہ قرار دیا، پھر اس نے اپنی لائی ہوئی تہذیب کو ایک قلا دے کے درجہ میں رکھا، جس میں ان تمام قبائل واقوام کے عمدہ گراں مایہ جواہر کو پرو دیا، جنہوں نے مذہب اسلامی قبول کیا، پھر اس کی اشاعت وترویج میں کوشاں رہے ،یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام تہذیبیں کسی ایک نسل اور قوم کے مردانِ کار پر ناز کرتی ہیں، مگر تہذیب اسلامی میں وہ تمام افراد مایہٴ افتخار ہیں، جنہوں نے اس کے قصر عظمت کو بلند کیا، چناں چہ ابوحنیفہ ، شافعی، احمد، خلیل وسیبویہ، کندی وغزالی اور فارابی وابن رشد ( جن کی نسلیں بھی مختلف تھیں اور جائے سکونت بھی الگ) کے ذریعہ اسلامی تہذیب نے پورے عالم کو انسانی فکر سلیم کے عمدہ نتائج سے ہم کنار کیا۔
تیسری خصوصیت
اسلامی تہذیب کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپنے تمام ضابطہ ہائے حیات اور زندگی کی سرگرمیوں میں اولیت کا مقام عطا کیا اور ان قدروں سے کبھی بھی خالی نہ رہی ، چناں چہ علم وحکمت، قوانین شرعیہ، جنگ ، مصالحت، اقتصادیات اور خاندانی نظام، ہر ایک میں ان کی قانوناً بھی رعایت کی گئی اور عملاً بھی اور اس معاملے میں بھی اسلامی تہذیب کا پلڑا تمام جدیدوقدیم تہذیبوں پر بھاری نظر آتا ہے ، کیوں کہ اس میدان میں ہماری تہذیب نے قابل فخر آثار چھوڑے ہیں اور دیگر تمام تہذیبوں سے انسانیت نوازی میں سبقت لے گئی ہے۔
چوتھی خصوصیت
ہماری تہذیب کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سچے اصولوں پر مبنی علم کو خوش آمدید کہا اور پکے مبادیات پر مبنی عقائد کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا ، چناں چہ عقل وقلب دونوں اس کے مخاطب ہیں اور فکر وشعور دونوں اس کی جولان گاہ اور یہ بھی تہذیب اسلامی کی ایسی خصوصیت ہے جس میں پوری انسانی تاریخ میں اس کا کوئی سہیم وشریک نظر نہیں آتا ، اس کے باعثِ افتخار ہونے کا راز یہ ہے کہ اسی کے ذریعہ سے اسلامی تہذیب نے ایسا نظام حکومت قائم کیا جو حق وانصاف پر مبنی ہو اور دین وعقیدے کی پختگی جس کا محور ہو ، ایسا نہیں کیا کہ دین کو حکومت اور تہذیب کی ترقیات سے الگ رکھے ، بلکہ ہر قسم کی ترقی میں دین کو اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی ، چناں چہ بغداد، دمشق، قاہرہ، قرطبہ اور غرناطہ کے منارہ ہائے مسجد سے علم ودانش کی کرنیں پھوٹیں اور عالم کے گوشے گوشے کو منور کر گئیں، اسلامی تہذیب تنہا ایسی تہذیب ہے جس میں دین وسیاست کا امتزاج بھی رہا، مگر وہ اس امتزاج کی زیاں کاریوں سے یکسر محفوظ رہی ،حکم راں، خلیفہ اور امیر المؤمنین ہوا کرتا تھا، لیکن فیصلہ ہمہ د م موافق ہوتا، شرعی فتاوی وہی لوگ صادر کرتے جو فقہ وفتاویٰ پر اتھارٹی ہوتے اور ہر کہ ومہ قانون اور فیصلے کے سامنے برابر ہوتا، کسی کو کسی پروجہ امتیاز حاصل نہ ہوتی، سوائے تقویٰ اور لوگوں کی عام نفع رسانی کے ، نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”والله لو ان فاطمة محمد سرقت لقطع محمد یدھا“ ( رواہ الشیخان)
دوسری جگہ فرمایا:” الخلق کلھم عیال الله، فاحبھم إلیہ أنفعھم لعیالہ“ (رواہ البخاری) اس مذہب پر ہماری تہذیب کی اساس ہے ، جس میں عام طبقہٴ انسانی پر نہ تو کسی حکم راں کو کوئی برتری حاصل ہے ، نہ کسی عالمِ شریعت کو ، نہ کسی اعلیٰ نسب والے کو اور ناہی تونگر وزور آور کو ﴿ قل إنما أنا بشر مثلکم﴾․
پانچویں خصوصیت
ہماری تہذیب کی ایک او راہم ترین خصوصیت اس کی کشادہ ظرفی او رانتہا سے زیادہ مسامحت ہے ، جو مذہب کی بنیاد پر قائم کسی بھی تہذیب میں ناپید ہے۔ کسی ایسے شخص کاجو نہ کسی مذہب کا پیرو ہو او رنہ کسی معبود کی پرستش کرتا ہو ،تمام مذاہبِ عالم کو ایک نگاہ سے دیکھنا او ران کے اتباع کے ساتھ معاملہٴ عدل کرنا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے ، لیکن ایک ایسا شخص جس کو اپنے دین کے برحق او راپنے عقیدے کے مبنی برصحت ہونے کا کامل یقین ہو، پھر اسے شمشیر بہ کف ہونے، اقطارِ عالم کو فتح کرنے، ان پر حکومت کرنے اور وہاں کے باشندوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا بھی موقع ملے، مگر اپنے دین کی حقانیت وصحت اسے فیصلے میں ظلم وجورکرنے، یا عدالت کی راہوں سے منحرف ہونے یا لوگوں کو اپنے دین کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینے پر مجبور کرنے پر برانگیختہ نہ کرے، تاریخ میں ایسا شخص یقینا عجیب وغریب ہی شمار کیا جائے گا۔
خیر یہ تو کسی ایک شخص کی بات ہے ، مگر ہماری تو پوری تہذیب کی بنیاد ہی مذہب او راس کے وضع کردہ اصولوں پر ہے ، لیکن یہ ایک ناقابل انکار سچائی ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ مسامحت، انصاف ، رحم وکرم اورانسانیت کی علم بردار صرف اور صرف ہماری تہذیب ہے اور ہمارے لیے یہ موجب صد افتخار ہے کہ ہماری تہذیب کا قوام صرف ایک مذہب پر ہے ، مگر اس کی لا محدود وسعتوں میں مذاہبِ عالم کی تہذیب کی سمائی ممکن ہے۔
عالمی تہذیبوں کی تاریخ میں ہماری تہذیب کی یہ چند امتیازی خصوصیات ہیں ، جب دنیا حکومت وسلطنت، علم وحکمت اور قیادت وسیادت ہر میدان میں ہمارے زیر نگیں تھی ، تو انہیں خصوصیات کی بنا پر ہماری تہذیب ہر قوم ومذہب کے باشعور اور ذہن رسا رکھنے والے افراد کے قلوب کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی تھی ، لیکن آج اس کا زور جاتا رہا ، اس کو گلے لگانے والے اپنی سیہ کاریوں کی وجہ سے پس ماندگی کا شکار ہو گئے او راس کے بالمقابل دوسری تہذیبیں رونما ہوئیں ، تو ہماری تہذیب کی قدر وقیمت پر دنیا کی نگاہیں مختلف انداز سے اٹھنے لگیں ، چناں چہ کچھ لوگ اس کی ہرزہ سرائی کرنے لگے ، تو کچھ مدح سرائی اور کچھ لوگ اس کے فضائل شمارکرانے لگے توکچھ لوگ اس کے رذائل، غرضے کہ جتنے منھ اتنی باتیں۔
ایساکیوں ہوا؟
اگر تہذیبوں کو پرکھنے کا آلہ فرماں روایان مغرب کے ہاتھوں میں نہ ہوتا او روہ دنیا کی رنگا رنگ طاقت وقوت کے مالک نہ ہوتے تو یہ کبھی بھی اس دریدہ دہنی کی جرأت نہ کرسکتے تھے ، کیوں کہ دنیا کا یہ اصول ہے کہ جب کوئی قوم اور اس کی تہذیب وتمدن کسی دوسری قوم کے زیر تسلط ہوتی ہے ، تو وہ قوم اپنے تئیں انتہائی ناتواں اور کمزور ہوتی ہے او راس پر فتح یاب قوم پورے نادیدے پن کے ساتھ اس کے منافع پر ہاتھ صاف کرتی اور ان پر حکومت کرتی ہے اور یہ بھی زمانے کا دستور رہا ہے کہ طاقت ور کمزور کی تحقیر وتنقیص کرتا ہے اورہمہ دن اس کو ذلیل وخوار کرتا رہتا ہے ، چناں چہ تہذیبِ جدید کے علم برداروں نے مسلمانوں او راسلامی تہذیب کے ساتھ اسی روایت کو دہرایا اور دہرارہے ہیں۔
حالاں کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب خطہ ہائے عالم پر ہماری فتح مندی کے پرچم لہرارہے تھے او رہم دنیا کی سپر پاور کی حیثیت میں تھے تو ہم نے کمرزور وشہ زور کے ساتھ انصاف کیا اور ہر صاحب فضل وکمال کے رتبے کو پہچانا او راسے اس کے لائق مقام ومرتبہ عطا کیا ، خواہ وہ دنیا کے مغربی خطے کا ہو یا مشرقی خطے کا او رحقیقت یہ ہے کہ تاریخ انسانی ہم جیسا منصف اور عدل گستر حکم راں اور پاک باز وصاف دل انسان پیش کرنے سے قاصر اور درماندہ ہے۔
لمحہٴ فکریہ
قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم اب تک بہ تمام وجوہ نہ سمجھ پائے کہ دنیا کی طاقت ور قومیں ہمارے خلاف کتنا متعصبانہ رویہ رکھتی ہیں او رکس طرح ہماری روشن اور بے غبار تہذیب کو اپنے ظلم وتعدی کا نشانہ بناتی ہیں ، ان میں سے بہت سے افراد تو وہ ہیں جو اپنے دین کے تئیں عصبیت بے جا کے شکار ہیں او ران کے دیدے حق بینی سے مرحوم ہو چکے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں ، جو قومی عصبیت میں مبتلا ہیں اور قومیت کے کبر وفخر کی وجہ سے وہ دوسری قوم کے فضل وکمال کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے، لیکن اُس وقت ہمیں مہر بہ لب ہونا پڑتا ہے اور ہمارے پاس کوئی عذر نہیں ہوتا ، جب مہم مسلمانوں ہی میں سے بعض سر پھروں کو دانایانِ فرنگ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ہم سے اس سوال کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا کہ آخر چند ایک فرزاندانِ اسلام بھی اس اسلامی تہذیب کی تحقیر کرتے ہوئے کیوں نظر آتے ہیں، جس کے سامنے دنیا نے صدیوں اپنے گھٹنے ٹیکے رکھے تھے؟
تہذیبِ اسلامی کا استحفاف کرنے والے ان نام نہاد مسلمانوں کا جواب شاید یہ ہو کہ تہذیبِ نو کے نقوش، جدید علوم کی دنیا میں اس کی نت نئی ایجادات اور فتوحات کے مقابلے میں ہماری تہذیب ہیچ ہے، لیکن ان کا جواب کسی حد تک درست ہو تب بھی دو وجہوں سے اسلامی تہذیب کا استخفاف کسی بھی طرح درست نہیں ہو سکتا۔
پہلی وجہ
یہ ہے کہ ہر تہذیب کے دو عنصر ہوتے ہیں، ایک اخلاقی ، دوسرا مادی ، جہاں تک مادی عنصر کی بات ہے ، تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ہر بعد کی تہذیب پہلے کی تہذیب سے اس باب میں سبقت رکھتی ہے ، زندگی اوراس کے وسائل کی ترقی کے حوالے سے سنت الله یہی رہی ہے ، لہٰذا تہذیبِ گزشتہ سے ان ترقیات کا مطالبہ کرنا، جو تہذیب حاضر کو حاصل ہیں فعل عبث ہے او راگر یہ درست ہو تو ، پھر ہمارے لیے اس بات کی پوری گنجائش ہے کہ ہم اسلامی تہذیب کے پیدا کردہ ان وسائل معیشت او رمظاہرِ تمدن کے باب میں جو گزری ہوئی تمام تہذیبوں میں نابود تھیں، ان کی تحقیر وتنقیص کریں، لہٰذ اس صداقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ دنیا کی تہذیبوں کے مابین فرق مراتب کے لیے مادی عنصر کو کبھی بھی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
رہا اخلاقی عنصر، تو حقیقت یہ ہے کہ یہی عنصر تہذیبوں کو حیاتِ جاوداں عطا کرتا ہے او راسی کو اپنا کر کوئی بھی تہذیب انسانیت کو خوش بختی سے ہم کنار کرنے او راسے زندگی کے مصائب اور ہلاکت کے اندیشوں سے نجات دلانے کا فریضہ انجام دے سکتی ہے او راس میدان میں ہماری تہذیب تمام تہذیب رفتہ وآئندہ پرسبقت رکھتی ہے او رکام یابی کی اس معراج پر پہنچی ہوئی ہے کہ تاریخ کے کسی بھی موڑ پر اس کی نظیر نایاب ہے اور ہمار ی تہذیب کو خلود بخشے کے لیے کافی ہے، کیوں کہ کسی بھی تہذیب کا آخری مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کی سعادت کا ہر ممکن سامان فراہم کرے اور یہ کام ہمار ی تہذیب نے ایسے احسن واکمل طریقے پر انجام دیے ہیں کہ شرق وغرب اور شمال وجنوب کی کوئی بھی تہذیب اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچ سکی۔
دوسری وجہ
ان مغرب زدہ ذہنوں کے جواب کے لچر اور نامعقول ہونے اور اس کی بنا پر اسلامی تہذیب کی تحقیر کے درست نہ ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تقابل کے لیے نہ تو مادی پیمانہ اختیار کرنا چاہیے، نہ کم وکیف اور عدد ومساحت کو معیار بنانا چاہیے اور ناہی خوراک وپوشاک ومعاش کو ،بلکہ ان کے درمیان تقابل ان کے آثار کے ذریعہ کیا جانا چاہیے، جو انسانی تاریخ میں اس تہذیب کی باقیات ہیں۔
تہذیبوں کے درمیان تقابل ایسا ہی ہے جیسے مختلف ملکوں اور حکومتوں کے درمیان باہمی آویزش، چناں چہ ان کے درمیان مقابلہ حدود مملکت کی وسعت اور شہریوں اور افواج کی تعداد سے نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ قرونِ قدیمہ ووسطیٰ کی فیصلہ کن جنگوں کو لشکر اور آلات حرب کے اعتبار سے اگر دوسری عالم گیر جنگ پر قیاس کیا جائے، تو گرشتہ جنگیں بالکل ہیچ معلوم ہوں گی ، لیکن اس کے باوجود ان جنگوں کو اپنے دور رس نتائج کی وجہ سے تاریخ میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔
چناں چہ تاریخ کی مشہور زمانہ جنگ جس میں قرطاجنی (Carthajion) سپہ سالار” ہنیال“ نے رومیوں کو شرم ناک شکست دی تھی، اس کے واقعات اب بھی یورپ کی تعلیم گاہوں میں زیر تدریس ہیں، اسی طرح حضرت خالد بن ولید کی شام کی فتوحاتی مہم کے معرکے تاہنوز مغربی ماہرین جنگ کی تحقیق کا میدان او ران کی حیرت وتعجب کا باعث ہیں، نیز یہ معرکے ہماری تہذیب کی جنگی فتوحات کی تاریخ کے سنہرے صفحات کی حیثیت رکھتے ہیں۔