عید کا پیغام
مولانا محمدخالد
آج عید کا دن ہے ، خوشیوں اورمسّرتوں کا دن ، نئے خوب صورت رنگا رنگ کپڑوں نے ایک سماں باندھ دیا ہے، بڑے چھوٹے، جوان بوڑھے، معصوم بچے، مرد اور عورت ہر ایک چہرے کھلے ہوئے ایک دوسرے کو مسکراہٹوں کی سوغات پیش کرتے ہوئے، سیویاں اور شیر خورما کی تو گویا برسات آگئی ، بڑے ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں اور ننھے منھے بچے گلی کوچوں میں کوئل کی طرح چہچہا رہے ہیں اور رنگین وخوب صورت تتلیوں کی طرح اُڑتے پھر رہے ہیں ، لیکن عید کا حاصل کیا صرف یہی ہے ؟ کیا عید محض ایک ساعت مسرت ہے جو آئے اورگزر جائے؟ شاید ایسا نہیں ! اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ ہر عمل سے پیغام دیتا ہے ، عبرت وموعظت کے پہلوؤں کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے اور زندگی کے ہر واقعہ کو مشعل راہ بنا دیتا ہے ، جس کی روشنی سے اندھے بھی دیکھنے لگیں اور لنگڑے بھی چلنے لگیں، عبادت وبندگی ہو یا لوگوں کے باہمی معاملات، اسلام کا ہر طریقہ ایک ”بولتاہوا“ عمل ہے کہ بہرہ بھی اس کو سننے سے محروم نہ رہے۔
عید بھی سراپا”پیغام“ ہے ، دعوت ہے ، عید سب سے پہلے ہمیں اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کو خوشی اور مسرت کے لمحات کس طرح گزارنے چاہییں۔ غور کیجیے کہ مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا کوئی دن نہیں، لیکن نہ رقص وسرور ہے ، نہ نغمہ و رباب ہے اورنہ مستی وشراب ، نہ پٹاخوں کی ادھم، نہ نعروں کا شورغوغا، نہ آتش بازیوں کا سیلاب، بلکہ ہر مسلمان صبح دم اٹھتا ہے، نمازِ فجر ادا کرتا ہے ، پھر نہاتا ہے ، صاف ستھرے اور میسر ہوں تو نئے کپڑے بدلتا ہے اور شانہ بہ شانہ نمازِ عید کے لیے رواں ہے ، آنکھیں جھکی ہوئیں اورزبان پر الله کی کبریائی اور حمد وثنا کے کلمات ، عید گاہ پہنچ کر دوگانہ شکر ادا کرتا ہے اوراپنی پیشانی خدا کے سامنے مٹی پر رکھ کر اپنے عجزونیاز کا اظہار کرتا ہے ، خوشی کے مواقع پر آدمی میں کسی قدر کبر کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، اس لیے بار بار اپنی بڑائی کی نفی اورخدا کی بڑائی کا اقرار واعتراف کرتا ہے۔
معلوم ہوا کہ اصل صاحب ایمان وہ ہے کہ جو خوشی ومسرت کے وقت اترانے نہ لگے ، اس کی گردن مارے کبر کے اونچی نہ ہو، اس کی زبان پر اپنی بڑائی کا کلمہ نہ ہو ، بلکہ وہ خدا کے سامنے جھکتا ہوا ہو ، خوشی نے اس کے تواضع وانکسار کو بڑھایا اوراپنی بڑائی کے احساس کو گھٹایا ہو اور اس وقت بھی اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور اس کی پیشانی خدا کی چوکھٹ پر خم، شادی بیاہ ہو ، بچہ کی پیدائش ہو ، نیا مکان خدا نے دیا ہو ، دکان اور روز گار کا سامان میسر آیا ہو ، کوئی بات خوشی کی پیش آئی ہو تو مسرت کے اظہار کا وہی طریقہ الله کو پسند ہے کہ مؤمن کا سر شکر کے جذبے سے سر شار ہو کر خدا کے سامنے جھک جائے اوراس کی زبان الله کے ذکراورحمد وثنا سے تر ہو ۔ عید مسلمانوں کے لیے اجتماعیت اور وحدت کا بھی پیغام ہے ، مال دار ہو یا غریب ، آقا ہو یا غلام ، فرماں روا ہو یا رعایا، سماج کا معزز اورمعروف شخص ہو یا کوئی معمولی اورغیر معروف آدمی، گورا ہو یا کالا اور عربی ہو یا عجمی ، ایک ساتھ شانہ بہ شانہ خدا کے حضور کھڑے ہیں اورا س کے کرم کے سوالی ہیں، یہاں کوئی امتیاز نہیں، خدا کے دربار میں سب برابر ہیں ، علامہ اقبال کے الفاظ میں #
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے وحدت کا اورکیا پیغام ہو گا؟؟ یہ سب مسلمان ہیں، کلمہ توحید پڑھنے والے ، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دامنِ نبوت سے وابستہ، آخرت میں سب کا یقین ، قرآن مجید پر ایمان رکھنے والے، جیتے اورمرتے ایک قبلے کے حامل ، فکر ونظر کا کچھ اختلاف ضرور ہے، لیکن اس کے باوجود آج یہ شانہ بہ شانہ اور قدم بہ قدم کھڑے ہیں، کاش! دوسرے دِنوں میں بھی اس وحدت ملی کو محسوس کریں اور سوچیں کہ کس قدر دین کی بنیادی باتوں میں ان کے درمیان اشتراک واتفاق ہے اوراگر کچھ اختلاف ہے تو اس لائق ہے کہ ان کو نظر انداز کیا جائے اورایک دوسرے کی رائے کے احترام کے ساتھ ان کو برداشت کیا جائے۔
” عید“ ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ وہ خوشی خوشی نہیں جس میں پورے سماج کو شامل نہ کیا جائے ، آپ کے گھر میں مسرت کا چراغ جلے بلکہ چراغاں ہو اور آپ کا پڑوسی غم کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہو، اس سے زیادہ نامبارک کوئی مسرت نہیں ہو سکتی۔ اسی حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم نے نماز عید الفطر کے ساتھ ساتھ ” صدقة الفطر“ کا بھی حکم دیا ہے کہ ہر صاحبِ گنجائش مسلمان اپنی اوراپنے زیر پرورش لوگوں کی طرف سے گیہوں کی ایک خاص مقدار یا اس کی قیمت اپنے غریب بھائی کو پہنچائے اورعید سے پہلے پہلے پہنچا دینے کی کوشش کرے ، تاکہ سماج کے غریب اورپریشان حال لوگ بھی عید کی خوشی میں شامل ہو سکیں۔ ” صدقة الفطر“ ایک علامتی عمل ہے ، یہ صرف عید ہی کے دن کے لیے مخصوص نہیں۔ یہ اس بات کی تعلیم ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ہر خوشی میں سماج کے غریب بھائیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔ وہ خوشی ادھوری اورناکام ہے جو اپنے گھر تک محدود ہے اور جس میں اپنے ان پڑوسیوں کو شامل نہ کیا گیا ہو جن کو خدا نے آپ کی نگاہِ لطف کا محتاج بنایا ہے۔
اس لیے اسلام میں بچہ کی پیدائش کے ساتھ ” عقیقہ“ اورشادی کے موقع سے ” ولیمہ“ رکھا گیا ہے اورپھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں سماج کے غریب لوگوں کو شریک نہ رکھا جائے ۔ مسلمان وہ ہے کہ جسے دوسروں کی فکر تڑپاتی ہو، جس کو دوسروں کی پریشانی بے قرار کر دیتی ہو، جس کے لیے دوسروں کا غم اپنا غم بن جاتا ہے ، جو دوسرے بھائیوں کے درد کی کسک اپنے دل میں پاتا ہو، اسے اپنی لڑکیوں کے ساتھ دوسرے غریب بھائیوں کی لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ بھی متفکر رکھتا ہو ، اسے اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ قوم کے دوسرے بچوں کی تعلیم کی فکر بھی بے چین رکھتی ہو ، جوان بیواؤں، یتیموں اوربیماروں کے لیے بھی اپنے دل کو بے سکون پاتا ہو جن کے یہاں فاقوں سے گزرتی ہے اورجو اپنی بنیادی غذا اور دوا کے لیے بھی کسی نگاہ کرم کے منتظر ہیں، عید اپنی ” زبان بے زبانی“ سے ہر شخص کو یہ پیغام دیتی ہے۔ کاش! ہم اسے دل کے کانوں سے سن سکیں!!