Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1432ھ

9 - 19
***
بانیٴ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس
مولانا سید سلیمان ندوی
بانی تبلیغ حضرت اقدس مولانا محمد الیاس نور الله مرقدہ امام ربانی حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی نور الله مرقدہ کے مرید اور حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری نور الله مرقدہ کے خلیفہ مجاز تھے۔ آپ سے الله رب العزت نے دعوت وتبلیغ کی تجدید کا عظیم الشان کا م لیا، جس کی برکت سے ایک بڑے طبقہ کی اصلاح ہوئی۔ ان سے چند ملاقاتوں کا تذکرہ سید العلماء حضرت اقدس مولانا سید سلیمان ندوی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے۔
مولانا محمد الیاس صاحب کا ذکر خیر مدت سے سن رہا تھا، ہمارے مدرسہ دارالعلوم ندوة العلماء کے متعدد اساتذہ کرام، جن کے سرخیل مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تھے، کئی دفعہ بستی نظام الدین جاکر مولانا سے مل چکے تھے اور بابرکت فیض سے مستفیض ہو چکے تھے، بلکہ ہمارے یہاں سے کئی سال سے متواتر طلبہ کے وفود مولانا کے حلقہ مبلغین میں داخل ہو کر خدمت کیا کرتے تھے اور واپس آکر اپنے تاثرات بیان کرتے تھے، مگر خاکسار کو ذاتی طور پر نیاز کا شرف حاصل نہ تھا ، اتفاق دیکھیے کہ گزشتہ سال مولانا ابوالحسن علی صاحب ندوی نے مولانا اور ان کے ساتھیوں کو لکھنو اور ندوہ میں قیام کرنے کی دعوت دی ، چناں چہ شعبان کی بیچ کی تاریخ اس کے لیے مقرر ہوئی، ادھر رجب کے شروع میں جولائی کی بیچ کی تاریخیں تھیں ، خاکسار تھانہ بھون میں تھا کہ مولانا کی آمد کی اطلاع ملی او رتھوڑی دیر کے بعدمعلوم ہوا کہ وہ واپس دہلی کے لیے اسٹیشن روانہ ہو گئے، مجھے بھی دہلی جانا تھا اور اسی گاڑی سے مولانا ظفر احمد صاحب کے ساتھ اسٹیشن آیا، دیکھا کہ ایک دبلے پتلے، نحیف سے ،میانہ قد، بڑی داڑھی، کچھ کچی اور کچھ پکی، ہاتھ میں چھڑی، سر پر عمامہ، مگر کبھی وہ سر سے اترا اور کبھی سر پر رکھا ہوا، اسی طرح جسم پر لمبے کرتے کے اوپر ایک عباسا، مگر وہ بھی کبھی دربر او رکبھی باہر، ایک کمبل بچھائے ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہیں ، ہم دونوں بھی سلام کے بعد جاکر بیٹھ گئے، وہ اور مولانا ظفر احمد صاحب رفیق، ایک دوسرے کے محب اور دوست تھے، مولانا نے فوراً اپنی تبلیغ کی تقریر شروع کر دی او ران کے سامنے اپنے طریق دعوت کی توضیح بھی بیان فرماتے رہے، وہ مجھ سے بالکل نا آشنا ، مگر خود میں ان کی حقیقت سے نا آشنا تھا، میں ان کی باتوں کو چپ سنتا رہا، آخر میں نے یہ عرض کی کہ حضرت! ایسے لوگوں کو جو صرف دو چار دن آپ کی صحبت میں رہیں، ان کو تزکیہ اور تصفیہ کے بغیر مبلغ بنا کر بھیجنا کیوں کر مفید ہو گا؟ فرمایا ” مکتوبات مجدد الف ثانی پڑھیے، معلوم ہوجائے گا۔“ دوبارہ عرض کی:” میں نے ان کو پڑھا ہے مگر ان سے تو مشکل کا حل معلوم نہ ہوا۔ “ شاید مولانا کو کچھ اچنبھاسا ہوا، مولانا ظفر احمد صاحب سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ انہوں نے میرا نام لیا تو خوشی سے اچھل پڑے، کھڑے ہو گئے ، سینہ سے لگایا او رمجبور کیا کہ انہیں کے ساتھ انہیں کے ڈبہ میں سیکنڈ کلاس میں سفر کروں ، میرا ٹکٹ بدل وایا اور اس وقت سے لے کر کاندھلہ تک برابر ڈیڑھ دو گھنٹے بڑے جوش وخروش سے کلام فرماتے رہے، ان کی زبان میں لکنت تھی ، تقریر پر قادر نہ تھے ، تقریر الجھی ہوئی ہوتی تھی ، مگر جوش وخروش کا سمندر ان موانع کے سارے خس وخاشاک بہا لیے جاتا تھا #
واہ ری تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا وہ بھی میرے دل میں ہے 
جسمانی کمزوری اور ضعیف سینہ کے باوجود ان کے پھیپھڑے ان کی پر زور تقریر اور پر جوش گفتگو کے تسلسل اور تواتر کے سبب سے ہر وقت اس طرح ابھرا بھر کرا ٹھتے تھے کہ مجھے تو ڈر لگتا کہ کہیں یہ پھٹ نہ جائیں یا گلے کی رگیں، جو بار بار پھول پھول جاتی تھیں، وہ نہ پھٹ جائیں یہ سب سہی، مگر دریا اپنی روانی میں ہر خطرہ سے بے خبر اور ہر افتاد سے بے پروا۔
مولانا نے جو اس اثنا میں فرمایا میں نے اپنی استعداد کے مطابق اس کو پوری طرح سمجھ لیا، اتنے میں کاندھلہ آیا اور وہ اتر گئے ، مگر مجھ سے یہ وعدہ لے لیا کہ کل رات کو دہلی میں پھاٹک حبش خاں میں ان کا تبلیغی جلسہ ہے، میں اس میں شرکت کروں ، چناں چہ شریک بھی ہوا اور تقریر بھی کی اور مولانا نے اس کی تصدیق وتصویب بھی فرمائی۔
میں اس سفر سے لوٹ کر جب لکھنو آیا تو مولانا کے اہل تبلیغ مجاہدوں کی آمد لکھنو میں شروع ہو چکی تھی اور ندوہ کی مسجد میں ان کا قیام تھا الله الله! کیا سادگی کی شان پائی، سادہ، تکلف سے بری، شب زندہ دار، تہجد گزار، پچھلے پہر سے ذکروفکر میں مصروف، صبح کی نماز پڑھ کر اپنے کام کے لیے مستعد اور تیار۔
ایک دو روز کے بعد مولانا مع اپنے دوسرے رفقا کے آئے اور ندوہ کے مہمان خانہ میں ساتھ ہی قیام فرمایا اور تقریباً ایک ہفتہ تک دن رات ساتھ رہا، گفتگو میں شریک اورہر مجلس میں رفیق ، جیسے جیسے ملتا جاتا تھا، ان کی تاثیر بڑھتی جاتی ، مولانا کی تقریر گوالجھی ہوئی او ربیان ژولیدہ بدستور تھا، مگر میں نے دیکھا کہ جو آیا وہ اثر سے خالی نہ گیا #
ادھر کہتا گیا وہ اور ادھر آتا گیا دل میں
اثر یہ ہو نہیں سکتا کبھی دعوائے باطل میں
لکھنو میں کئی جلسے ہوئے اور بار بار تقریریں ہوئیں، لوگوں نے مطلب سمجھا، شرکت پر آمادہ ہوئے، کام کا آغاز ہوا، دلی سے مبلغین لکھنو کے کوچہ کوچہ میں پھرے او رمسلمانوں کو کلمہ او رنماز کی تلقین کی، ایک ہفتہ کے بعد کانپور کی جانب کوچ ہوا ، دو تین روز قیام رہا، خاکسار بھی ساتھ تھا، یہاں ہر وقت ان کی صحبت اٹھائی، ان کی تقریریں سنیں، ان کے کام کو جانچا، ان کی دھن کو دیکھا، ہر وقت مسلمانوں کی اصلاح، دین کی سر بلندی اور اعلائے کلمہ کے لیے درگاہ الہٰی میں دست نیاز دراز، آنکھیں پرنم، آواز دل گیر۔
زیادہ دیکھنے والوں او ربار بار ملنے والوں کو تو خدا جانے کیا کیا ادائیں پسند ہوں گی لیکن مجھے اس تھوڑی سے ملاقات میں ان کی تین ادائیں بہت پسند آئیں۔ صبح کی نماز کے بعد مقتدیوں کے رخ بیٹھ کر وہ کام کرنے والوں کو دن کا کام سمجھاتے تھے اور بار بار ان کی کامیابی کے لیے الله تعالیٰ سے دعائیں فرماتے تھے ، ان کی دعاؤں میں لفظ” الله“ ان کے دل کی گہرائی سے نکل کر دوسروں کے دلوں کی گہرائی میں گھر کر لیتا تھا #
ہر چہ از دل خیزد بر دل ریزد
مختلف اوقات میں ان کی زبان سے کسی قدر آواز سے یہ دعائے ماثورہ:”یا حی یا قیوم برحمتک استغیث اصلح لی شانی کلہ، ولا تکلنی الی نفسی طرفة عین“․( اے حی وقیوم خدا! میں تیری رحمت سے چاہتا ہوں کہ تو میری فریاد کو سنے تو میری حالت کی درستی فرما دے اور ایک لمحہ کے لیے بھی مجھے میرے نفس پر نہ چھوڑ ) نکلتی تھی اور ان کے فقر والتجا الی الله کی کیفیت کو ظاہر کرتی تھی وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہتے تھے اور ان میں کسی قسم کا امتیاز نہیں چاہتے تھے، وہ لکھنو سے کانپور اپنے ہمراہیوں کے ساتھ تھرڈ کلاس میں سوار تھے، ان کے بعض معتقد فرسٹ کلاس میں سوار تھے، بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ تھرڈ کلاس میں تو ہلنا بلکہ اپنی جگہ سے نکلنا مشکل تھا، سیکنڈ کلاس میں بیٹھنے کی جگہ تھی، مگر اندر جانے کی جگہ نہ تھی، فرسٹ کلاس میں گنجائش تھی، ہر اسٹیشن پر کوشش کی گئی کہ مولانا نکل کر فرسٹ کلاس میں آجائیں، مگر منظور نہیں فرمایا، آخر کانپور کے قریب پہنچ کر ظہر کی نماز اور کسی ضرورت کی بنا پر اس درجہ میں داخل ہوئے۔
لکھنو کے قیام میں ایک مرتبہ ایک دوست کے ہاں عصر کے وقت چائے کی دعوت تھی، پاس کوئی مسجد نہ تھی، ان کی کوٹھی میں ہی نماز باجماعت کا سامان ہوا ،خود کھڑے ہو کر اذان دی ، اذان کے بعد مجھ سے ارشاد ہوا کہ نماز پڑھاؤ، میں نے معذرت کی تو نماز پڑھائی، نماز کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”بھائیو! میں ایک ابتلا میں گرفتار ہوں دعا کیجیے کہ الله تعالیٰ مجھے اس سے نکال لیں جب سے میں یہ دعوت لے کر کھڑا ہوا ہوں ، لوگ مجھ سے محبت کرنے لگے ہیں، مجھے یہ خطرہ ہونے لگا ہے کہ مجھ میں اعجاب نفس نہ پیدا ہو جائے، میں بھی اپنے کو بزرگ نہ سمجھنے لگوں، میں ہمیشہ الله تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس ابتلا سے بسلامت نکال لیں، آپ بھی میرے حق میں دعا فرمائیں۔“
مجھے کبھی بستی نظام الدین جانے او ران کی مسجد میں قیام کا اتفاق نہیں ہوا ،مگر جانے والوں سے سنا ہے کہ پچھلے پہر رات کا سماں بڑا موثر ہوتا تھا، دن کے سپاہی رات کے راہب بن جاتے تھے، ہر طرف سے تہجد گزاروں ، ذاکروں او رتسبیح خوانوں کی آوازیں بلند ہوتی تھیں، کوئی سجدہ میں ہوتا تھا، کوئی رکوع میں، کوئی گریہ وبکا میں تھا تو کوئی دعاؤں میں ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سچائی کا ایک آفتاب کیوں کر متعدد ذروں کو اپنے پاس کھینچ کر روشن بنا دیتا ہے۔
مولانا کا جسمانی ضعف، پھر شب وروز کی یہ محنت او ردعوت کے کاموں میں ہمہ وقت کا یہ شدید انہماک، آرام وراحت کی ہر تدبیر سے کامل اعراض نے ادھر ان کو ضعیف بنا دیا تھا، مہینوں سے پیچش اور اسہال کا عارضہ پیدا کر دیا تھا اور ضعف روز بروز بڑھتا جاتا تھا، ہر علاج ناکام رہا، مگر اس حالت میں بھی کام کے انہماک اور دعوت کے جوش کا وہی عالم تھا، آخر میں یوں تو نشست وبرخاست دشوار ہو گئی تھی، سہارے سے اٹھتے بیٹھتے تھے ،مگر اس حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام اخیر تک رہا، بلکہ فرض نماز کھڑے ہوکر ادا فرماتے رہے اور خدا جانے اس وقت ان کے اندر کہاں سے طاقت آجاتی تھی!!
21 رجب1363ھ (بمطابق13 جولائی1944ء) کو وفات پائی اور اسی مقام بستی نظام الدین کی مسجد کے صحن کے باہر جنوبی مشرقی گوشہ میں اپنے والد وبرادر معظم کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے #
چپہ چپہ پے ہے واں گوہر یکتا تہِ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز

Flag Counter