***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
اعزہ واقارب میں سے کس کو زکوٰة دینا افضل ہے؟
سوال…کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ کی بابت کہ مجھ پر سال میں ایک لاکھ کے قریب زکوٰة واجب ہوتی ہے میں یہ زکوٰة تاحال عزیز واقارب کے علاوہ دیگر مصارف میں دیتا رہاہوں اب صورت حال یہ ہے کہ میری ایک خالہ جوکہ بیوہ ہیں بمشکل یومیہ نان نفقہ پورا کرتی ہیں، اسی طرح ایک اور خالہ جو کہ بیوہ ہیں ملازمت کرکے اپنا گزر بسر کرتی ہیں جب کہ ایک ماموں ہیں جن کا گزر بسر بھی یومیہ آمدنی پر ہوتا ہے جو کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔
(الف) ان تینوں میں سے کس کو زکوٰة دینا افضل ہے اور آیا تینوں میں تقسیم کردینا جائز ہو گا یا نہیں ؟
(ب) عزیزواقارب میں زکوٰة کی ادائیگی پر اجروثواب سے متعلق کوئی دلیل ہو تو وہ بھی تحریر فرما دیجیے۔
جواب… (الف،ب)احادیث مبارکہ میں اعزہ واقارب کو زکوٰة دینے کی فضیلت وارد ہوئی ہے ، ایک حدیث شریف میں ہے کہ قرابت داروں کو زکوٰة دینے پر دو اجر ملتے ہیں: ایک صدقہ کرنے کا ، دوسرا صلہ رحمی کا ، اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص کا کوئی قریبی رشتے دار ضرورت مند وحاجت مند ہو لیکن وہ اس کو چھوڑ کر کسی اور کو زکوٰة یا صدقہ دے دے تو الله تعالیٰ اس کے صدقے کو قبول نہیں فرماتے اور قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائیں گے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ اپنے مذکورہ تینوں رشتہ داروں میں سے جس کو بھی چاہیں اپنی زکوٰة دے سکتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت حاصل نہیں، البتہ چوں کہ آپ کے مذکورہ تینوں رشتہ دار ضرورت مند ہیں ، لہٰذا ان تینوں میں زکوٰة کو تقسیم کرنا زیادہ افضل ہے۔
دل کو کاٹتے وقت تکبیر کہنا ضروری ہے یا نہیں؟
سوال… کسی جانور کو ذبح کیا جاتا ہے اس کے اندر سے دل نکال کر دوبارہ دل کو کاٹتے وقت تکبیر کہنا ضروری ہے ؟
جواب… جانور کو ذبح کرنے کے بعد دل نکال کر دوبارہ دل کو کاٹتے وقت تکبیر کہنا ضروری نہیں، اس لیے کہ تسمیہ وتکبیر کہنا صرف جانور کو ذبح کرتے وقت ضروری ہے اور ذبح گلے کے اوپر کی چاررگوں کے کاٹنے کا نام ہے ، اس کے علاوہ کسی اور جز کے کاٹنے پر ذبح کا اطلاق نہیں ہوتا ، لہٰذا دل کو کاٹتے وقت بھی تسمیہ وتکبیر کہنا ضروری نہیں ۔
نمازی کے سامنے گزرنے کی حد او راس کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ : نمازی کے سامنے سے گزرنے کا کیا حکم ہے؟ کتنا آگے سے گزر سکتے ہیں ؟ کیا نمازی کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟ حرم میں ہم نے دیکھا کہ سامنے سے گزرنے والے کو ہاتھ کے ذریعہ روک دیتے ہیں ، تو یہ صحیح ہے؟ کبھی اس طرح بھی ہوتا ہے کہ صف میں جگہ خالی ہوتی ہے، لیکن سامنے کوئی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟ ستر ہ کے شرائط واحکام کیا ہیں، اگر سترہ نہ مل سکے توکیا کریں؟
جواب… نمازی کے آگے سے گزرنا گناہ ہے ، کیوں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نمازی کے سامنے گزرنے میں کتنا گنا ہ ہے تو وہ سو سال کھڑا رہنے کو نماز ی کے سامنے گزرنے سے اچھا سمجھے گا۔“
بڑی مسجد میں یا کسی بڑے میدان میں نمازی کے کھڑے ہونے کی حالت میں سجدہ کی جگہ پر اگر نظر ہو تو جہاں تک نظر کی حدود ہیں، ان کے آگے سے گزرنا جائز ہے ، بعض حضرات نے اس کی تحدید دو صف (آٹھ فٹ) کے ساتھ کی ہے ، البتہ اگر چھوٹی مسجد یا کمرہ ہو یعنی جو چالیس ہاتھ (334.451 مربع میٹر) سے کم رقبہ پر مشتمل ہو تو اس میں نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں۔
کسی آدمی کے گزرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
گزرنے والے کو روکنا جائز ہے مگر نہ روکنا افضل ہے۔
صف کی تکمیل کے لیے اگر کسی نمازی کے سامنے سے گزرنا پڑے تو جائز ہے گناہ نہیں ہو گا۔
گھر یا میدان میں سترہ رکھنا مستحب ہے مسجد میں رکھنا ضروری نہیں ، سترے کی لمبائی کم از کم ایک ہاتھ (دو بالشت) اور موٹائی کم از کم ایک انگلی ہونی چاہیے، سترہ بالکل ناک کے سامنے نہ رکھا جائے بلکہ دائیں یا بائیں آنکھ کے سامنے رکھا جائے ، نیز امام کا سترہ سب مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ محض سترے کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز قضا کرنا جائز نہیں، نماز وقت پر ادا کی جائے۔ اگر کوئی شخص نمازی کے سامنے بیٹھا ہوا ہے تو دائیں یا بائیں جاسکتا ہے۔ ( کذا فی احسن الفتاوی)
حرم سے گری پڑی چیز کا اٹھانا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کی بابت ایک عورت حج کے لیے گئی، وہاں پر اس کو ایک موبائل فون مل گیا جسے بعد میں وہ اپنے ساتھ پاکستان لے آئی اورموبائل ایسی زبان کا ہے جسے وہ نہیں جانتی ، اب اس عورت پر اس کی وجہ سے کوئی دم وغیرہ آئے گا یا نہیں، نیز موبائل کا کیا کرے؟
جواب…گِری پڑی چیز ( خواہ حرم میں ہو یا کسی او رجگہ ہو ) کے اگر ضائع ہونے کا خطرہ ہو ، تو بطور حفاظت او رمالک تک پہنچانے کی غرض سے اٹھانا چاہیے اور حتی الوسع مالک تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اگر کسی طرح مالک تک پہنچانا ممکن نہ رہے ،تو اٹھانے والا خود بھی استعمال کر سکتا ہے او راپنے والدین یا اولاد کو بھی دے سکتا ہے ، بشرط کہ مستحق زکوٰة ہو ، بصورت دیگر کسی او رمستحقِ زکوٰة کو دے دیا جائے۔
واضح رہے کہ اس سے حج پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ دم لازم آتا ہے کیوں کہ یہ جنایات میں سے نہیں ہے۔
کپڑا جل جانے یا چوری ہونے کی صورت میں درزی ضامن ہو گا یا نہیں؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کر ام ا ن مسائل کے بارے میں جو مندرجہ ذیل ہیں:
ایک آدمی ٹیلر ماسٹر ہے اس نے اپنی دوکان کے کارڈ بنا کر اس کارڈ پر یہ شرائط لکھی ہیں: چوری ہونے کی صورت میں آگ لگنے کی صورت میں کپڑا ضائع ہو گیا تو دوکان دار ذمہ دار نہ ہو گا۔ ان میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر ایک مہینے تک یا دو مہینے تک اپنا کپڑا وصول نہیں کیا تو اس کے بعد دوکان دار ذمہ دار نہیں ہوگا کیا یہ شرائط صحیح ہیں یا نہیں؟
آخری شرط کی مدت ختم ہونے کے بعد دو کان دار کو اس کپڑے کے استعمال کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ آگے کسی پر فروخت کر سکتا ہے یا نہیں؟
کپڑے سے کچھ حصہ باقی رہ جاتا ہے جوکہ ایک میٹر یا اس سے کم یا زائد ہوتا ہے دوکان دار کے لیے اس کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب…، حفاظت کے بندوبست کے باوجود، کپڑا ٹیلر ماسٹر کے ہاں چوری ہو جائے یا آگ لگ جائے تو ٹیلر ماسٹر پر ضمان لازم نہیں، اس بات کی شرط لگانا جائز ہے ، البتہ متعینہ تاریخ تک کپڑا وصول نہ کرنے سے ٹیلر ماسٹر کا اس کپڑے پر مالکانہ تصرف کرنا جائز نہیں، لہٰذا آخری شرط لگانا درست نہیں۔
معمولی مقدار میں کپڑا بچ جائے تو عرفاً رضا مندی ہونے کی وجہ سے ٹیلر ماسٹر کا اس کو استعمال کرنا جائز ہے ، اگر معتدبہ حصہ بچ گیا تو مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، مالک کی صراحةً اجازت کے بغیر، ٹیلرماسٹر کا اس میں مالکانہ تصرف جائز نہیں۔