Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1432ھ

6 - 19
***
عالمی تناظر میں تحمل مزاجی کی اہمیت
مولانا کرامت الله
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ”کسی بندے نے ایسا کوئی گھونٹ نہیں پیا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے بہتر ہو جس کو آدمی پی لے“۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے پروردگار! تیرے بندوں میں تیرے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ شخص کہ ”جب وہ قادر ہوجائے تو معاف کردے“۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے کہ”جس نے غصے کو روک لیاحالانکہ وہ اسے جاری کرسکتاتھا تواللہ تعالیٰ قیامت کے روز لوگوں کے سامنے بلاکر اُسے اختیاردے دے گاکہ جس حورکوچاہے لے لے“۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ”زورآوروہ نہیں جولوگوں کوپچھاڑسکے؛زورآوروہی ہے جوغصہ کے وقت اپنے آپ پرقابوپالے“۔جب کہ غصہ کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”غصہ ایمان کواس طرح خراب کردیتاہے جس طرح ایلوہ شہد کوخراب کرتاہے“۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ”لوگوں کی چال چلنے والے مت بنو،کہ ایساکہوکہ اگرلوگوں نے احسان کیاتوہم احسان کریں گے اوراگرانہوں نے ظلم کیاتوہم بھی ظلم کریں گے؛بلکہ اپنے آپ کواس پرجمائے رکھوکہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں گے تو تم بھی احسان کروگے اوراگروہ بُرائی کریں گے توتم ظلم نہیں کروگے“۔
اسی طرح کسی بات پرکسی کے ساتھ اختلاف یا جھگڑاہوجائے تومتعین حدسے زیادہ اس سے ترکِ تعلق جائز نہیں۔ جیساکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ” کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے (مسلمان) بھائی کوتین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے“۔ایک روایت میں اس طرح ہے کہ” کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے (مسلمان) بھائی کوتین دن سے زیادہ چھوڑدے، کہ جب دونوںآ پس میں ملیں تو یہ بھی منہ پھیررہاہواوروہ بھی منہ پھیررہاہواوران دونوں میں سے بہتر وہ ہے جوسلام میں پہل کرے“۔
اسی طرح تحمل مزاجی کے علاوہ عمومی طور جوحُسنِ خُلق یاخوش اخلاقی کارویہ ہے ،اس کی جتنی بھی اہمیت ذکرکی جائے کم ہے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ارشاد مروی ہے کہ” میرے نزدیک تمہارے بہترین لوگوں میں سے وہ ہیں جوتم میں سب سے اچھے اخلاق والے ہوں۔“ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ” قیامت کے دن مومن کی ترازومیں خوش خلقی سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی اور بے شک اللہ تعالیٰ فحش گواوربدزبان کوناپسندکرتاہے۔“
بُرائی کے بدلے میں اچھائی دکھانانہایت ہمت و عزیمت اور عالی ظرفی کی صفت ہے، جو ہر کسی کوعنایت نہیں کی جاتی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بُرائی کے بدلے میں اچھائی کاسلوک کرنے اوراس کی اہمیت کے متعلق ہدایت فرمائی ہے،وہاں یہ بھی فرمایاہے کہ یہ خصلت صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے، جوصبروتحمل والے اوربنیادی طور بہت زیادہ خوش قسمت واقع ہوں؛چناں چہ ارشاد ہے: 
”نیک برتاؤ سے (لوگوں کی برائی کو)دفع کیا کرو، پھر یکایک تم میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسے کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو صبر و تحمل والا ہے اور اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب قسمت ہے“۔
اس آیت کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہے کہ ”صبر و تحمل غضب کے وقت ہوتا ہے اور معافی (کسی کی طرف سے) برائی پہنچنے کے وقت ہوتی ہے۔ اگر لوگ اس طرح کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے گا اور ان کے دشمن کو ان کے سامنے مطیع کردے گا، گویا کہ وہ دلی دوست ہیں“۔
کسی کے ظلم وزیادتی کوبرداشت کرکے اس کاانتقام نہ لیناقرآن میں اولوالعزمی اوربلندہمتی قراردیا گیا ہے؛چناں چہ ارشاد ہے:”اورجوشخص صبرکرے اورمعاف کردے،یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے“۔ 
ایک حدیث کامفہوم ہے کہ جس بندہ پرظلم ہوااوراس نے محض اللہ کے واسطے اس سے در گذر کیا تو ضرور اللہ اس کی عزت بڑھائے گااور مدد کرے گا۔ 
اس طرح اسلامی مآخذ کے ضروری ادراک سے بخوبی معلوم ہوتاہے کہ تحمل مزاجی یاصبروبرداشت کو کیا مقام و مرتبہ حاصل ہے اور اسے اختیار کرنے اورہمہ وقت اس سے آراستہ رہنے کی کس قدر تاکید و ترغیب دی گئی ہے۔ چناں چہ اسلامی فکرکی پاس داری کرتے ہوئے اور ساتھ عقلی و وجدانی وغیرہ عوامل کو دیکھ کراس بہترین خصلت کوحرزجان کی حد تک عادت و شیوہ بناکرشاہراہ حیات کے ہرموڑپراس کوعمل میں لانے کے سواچارہ نہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل مسلمانوں میں دیگر اچھی خوبیوں کی طرح تحمل مزاجی بھی مفقود ہی ہے،جس کانتیجہ یہ ہے کہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پرشدیدردعمل ظاہرکرکے معاملہ بہت پیچیدہ اورپریشان کن حدتک پہنچانے کی نوبت دکھائی جاتی ہے ،گویادورِجاہلیت کی یادتازہ کی جارہی ہو جب صورتحال ایسی ہواکرتی تھی کہ # 
کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا کبھی گھوڑاآگے دوڑانے پہ جھگڑا 
تحمل مزاجی کی یہ بہترین صفت جو اس طرح ناپیدہے، تو گھروں، بازاروں،مختلف محفلوں اوراداروں میں جس طرح کی کیفیت رہتی ہے اگر وہ نہ ہوگی تواورکیاہوگا؟
اس میں بھی شک نہیں کہ ہرقسم کی مصیبت وآفت پر صبر کرنا اورخصوصاًانسانوں کی ایذارسانیوں اورغلط کارکردگیوں کو گوارا کرنا یقیناً بہت مشکل اور بڑے دل وگردے کاکام ہے، مگراسی لیے تواس میں اجروثواب بھی غیرمعمولی طور زیادہ ہے؛چناں چہ فرمان الٰہی ہے کہ” صابرین کوان کااجربلاحساب دیاجائے گا“۔ 
اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ”صبرکابدلہ اللہ کے نزدیک جنت کے سواکوئی نہیں“؛جیساکہ ایک جگہ آپ سے مروی ہے کہ ”قیامت کے روزجس وقت کہ مصیبت والوں کواجروثواب دیا جارہا ہوگا، خیروعافیت والے لوگ یہ آرزوکریں گے کہ کاش دنیامیں ان کی جلدیں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں“۔
مشہورمقولہ ہے کہ العطایابقدرالبلایا یعنی بخشش و انعامات ابتلاء ات وآزمائش کے بقدرہواکرتے ہیں۔جیسے عام قاعدہ یہ بھی ہے کہ''No pain,no gain''.(بغیردرداُٹھائے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا)۔چناں چہ جس قدر آلام ومصائب اوران کاصبروبرداشت زیادہ ہوگا،اسی قدرآخرت میں بدلہ اچھاملے گا،کہ جس سے محرومی انتہائی عظیم محرومی اورحقیقت میں یہی بہت مشکل عمل ہے،بقول شاعر #
الصبر فی النائبات صعب
لکن فوت الثواب اصعب
(مشکلات میں صبرکرنابہت دشوارہے،لیکن ثواب کافوت ہونا اور زیادہ دشوارہے)
مولانارومی نے بجافرمایاہے:
صدہزاراں کیمیاحق آفرید
کیمیائے ہمچوصبرآدم ندید
(حق تعالیٰ نے لاکھوں کیمیاپیداکیے ہیں،مگرصبرجیساکیمیابنی آدم نے نہیں دیکھا۔) 
اس کے ساتھ عقائدی میدان (dogmatic field)کے بہت بنیادی آرٹیکل عقیدئہ قضاوقدرکی جوحقیقت ہے کہ کائنات میں جوکچھ بھی وجودپذیرہوتاہے،بشمولِ افعال انسانی،وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے مقررومقدرشدہ (pre determined)اوراسی کی تخلیق وتکوین سے ہوتاہے،پس اسلامی ہدایت کے تحت اس کے اس پہلوکواگرسامنے رکھاجائے جس کے مطابق جوکچھ بھی ہو ،مصیبت وکلفت والی کوئی بات پیش آئے تواس کو تقدیریعنی خداکے سپرد کرکے صبراختیارکرلیاجائے،تواس سے بھی تسلی واطمینان کی ایک متاعِ بے بہاہاتھ آسکتی ہے۔چناں چہ( حتی الامکان حزم و احتیاط اورمطلوبہ تدابیرکے بعد بھی) کسی کی طرف سے مالی، جسمانی،ذہنی اورنفسیاتی وغیرہ کوئی ضررونقصان پہنچے توبجائے غیرضروری رد عمل ظاہرکرنے کے اسے دستِ تقدیرکی کارفرمائی اوراللہ تعالیٰ کے اٹل فیصلے اور ازلی مشیت وحکمت کانتیجہ سمجھ کربرداشت کی چادراوڑھ لی جائے۔ مولائے روم فرماتے ہیں: # 
ہیچ بغضے نیست درجانم زتو 
زانکہ ایں رامن نمیدانم زتو 
( میرے دل میں تیرے لیے کوئی بغض وعداوت نہیں،اس لیے کہ(تیری طرف سے پہنچی ہوئی)اس تکلیف کومیں تیری طرف سے نہیں سمجھتا۔)
اسی طرح تحمل مزاجی پیداکرنے کے لیے تمام لذتوں کوتوڑنے والی چیز ”موت“کااستحضارضروری ہے،کہ دنیاسے رخصت ہوتے وقت انسان کونہ مال ودولت کی تمناہوگی اورنہ عزت ومنصب اورطاقت وشوکت کی؛اگر کوئی آرزواور حسرت ہو گی توتحمل مزاجی جیسی عظیم نعمت اورموت کے بعد کام آنے والی دیگرصفات وعادات اوراعمالِ حسنہ ہی کی آرزواور حسرت ہوگی۔جب کہ موت توایسی چیز ہے کہ جس کے سامنے ہرعقل ومنطق فیل ہوجاتی ہے،ہرفلسفہ جواب دے دیتاہے اورہرفتح شکست میں بدل جاتی ہے۔موت یقیناً بہت دہشت ناک حقیقت ہے۔ایک غیر مسلم تک کوکہناپڑاہے:
Whether it comes sooner or later,the prospect of death and threat of nonbeing is a terrible horror.'' 
(خواہ جلدآئے یابدیر،موت کی توقع اورعدمِ وجودکی دھمکی ایک خطرناک دہشت ہے۔) 
اب یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ تحمل مزاجی توجیسی ہے ویسی ہے،تاہم تحمل مزاجی کی ایک حد بھی ضرور ہے اور ہونی چاہیے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تحمل مزاجی کی یہ عمدہ اور مطلوب و مندوب خصلت کہیں اس چیز میں تبدیل ہوجائے جس کی تعبیر و تفسیر کے لیے کتبِ لغت میں اور ہی قسم کے الفاظ موضوع ہیں۔یہ مثلاً ایسی حالت ہوگی جب تحمل مزاجی کی اس متعارف خوبی سے دست کشی کرناظلم و تشدد نہیں، بلکہ کسی اور مقدس نام سے پکارے جانے کی نوبت ہوگی۔یہ بلاشبہہ ایسی صورت حال ہوگی جہاں کسی عارض کی بنا پر مطلوبہ استعمال واطلاق میں تغیروالامعاملہ ناگزیر ہو گا،کہ جسے بہرحال مصداق اورپروسیجر کی تعیین ہی کے ایشوکے طورپرلیناہوگا۔یعنی مسئلہ تحقیق اور تشخیص وتنقیح کا ہے کہ کب وہ موقع ہے کہ تحمل مزاجی کا استعمال یا عدم استعمال اپنے محل پر ہے یا وہ غلط اور بے جا ہے۔ مطلب یہ کہ تحمل مزاجی فی الواقع اورintrincically ایک اچھی صفت اور اسلام کی ہدایت اور حکم ہے،تاہم کسی امر عارض(external factor) کی وجہ سے اگر اس کوچھوڑکر برعکس کچھ کرنا پڑے تو وہ اپنی جگہ جائزاورلازم ہوگا؛مگر وہ بھی اصل میں اسلام ہی کی تعلیم اور اسی کے تقاضے کی پاس داری والی بات ہوگی۔مثلاً کسی ظلم کوختم یاکم کرنے کے لیے کوئی درست اورمعقول طریقہ اورحکمت عملی اختیارکرناممکن ہوکہ جس کااُلٹاکوئی نقصان اورضمنی اثرنہ ہو،تواس کوضروراختیارکرناچاہیے۔نہ کہ ایسی صورت میں بھی تحمل مزاجی کے نام سے خود بھی ظلم وستم برداشت کرتے رہاجائے اوردوسرں کوبھی برداشت کرنے دیاجائے۔
آج کل عالمی طورپر جو فضا بنتی جارہی ہے اور اسلام اور اہل اسلام کو جو ایک خاص نظر سے دیکھا جارہاہے اس کے تحت غوروفکر کے لیے کئی طرح کے زاویے مل سکتے ہیں۔ منجملہ ان میں سے یہ ہے کہ دینِ اسلام اور اس کے حاملین کے متعلق جو غیر مسلم اقوام یا مغرب والوں کا رویہ ہے، جو ایک قسم کی نفرت اور کراہت کا آئینہ دار ہے، آخر اس کا منشا اور بنیادی سبب وباعث کیا چیز ہے؟ آیا وہ مسلمانوں کی طرف سے پہنچنے والے حقیقی یا وہمی خطرات و مشکلات کی بنا پر ہے یا محض کسی ایسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے، جو انسانی زندگی کے ایک بہت بڑے المیے کے طورپر ہر جگہ موثر ثابت ہوکرضرور ایسی کارستانی دکھانے میں کامیاب ٹھہرتی ہے کہ جس کے بارے میں پشتو کایہ شعر ہی سب سے موزوں ومناسب ہے:
غضب خو دا قیامت خودادے کنہ
چی ھم وژنی ھم م نہ پیژنی
(یعنی غضب اور قیامت تو یہی ہے کہ تو مجھے قتل بھی کررہاہے اور مجھے پہچانتا بھی نہیں ہے۔)
یا بہ الفاظ دیگرجو غیرلوگ ہیںآ یاوہ اسلام سے من حیث الاسلام،اس کی اصل روح و جوہر اور صورت و ہیئت کا ادراک و استحضا رکھ کر ہی متنفر و مجتنب ہیں، یا اسلام کی طرف منسوب اور اس کا حوالہ دے کر ادا کی جانے والی بعض چیزیں ان کی نفرت و عداوت کی بنیاد ہیں؟ یعنی کیا وہ حقیقی و اصلی اسلام اور اس کی تعلیمات اور کلیات و جزئیات کے مخالف اور دشمن ہیں یا وہ چیزیں ان کے لیے مذموم و مبغوض ہیں جو مسلمانوں کا شب و روز کا شیوہ اور اوڑھنا بچھونا ہونے کی وجہ سے گویا اسلام ہی کی تعلیمات اور اسی کے لوازم و ضوابط معلوم ہوتی ہیں؟ جب کہ نفس الامراورحقیقت میں ان کا اسلامی احکام اور نبوی ہدایات سے بہت دور کا بھی تعلق نہیں، بلکہ الٹا ان کی مخالفت اور ضد والی باتیں ہیں۔
اس ضمن میں کچھ اس طرف بھی اشارہ مناسب ہے کہ کیسی ہی سازش تھی یا کیا ہی اتفاق تھا کہ نائن الیون کے ایک منفرد واقعے نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی اورانسانی دنیا کے رائج نقشے کویکسرتبدیل کرکے رکھ دیا۔ بہرحال درست ہو یا نہ ہو یہ تجزیہ اب تقریباً اتفاقی بن گیا ہے کہ یہ واقعہ کرہ ارض پر بسنے والے مسلمانوں کے خلاف منفی سوچ پیدا کرنے کے لیے ایک سازشی منصوبہ تھا جس کے لیے مخالف قوتوں کو خود بڑی قربانی دینی پڑی۔اس حادثے کے بعد پیدا ہونے والے انتشاراور تناؤنے یقینا مسلمانوں اور غیر مسلموں کو ایک خاص پوزیشن پر لاکھڑا کیا اور ساتھ ساتھ ایک خاص لابی نے بین الاقوامی میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ایسے تبصرے کیے اور اصطلاحات وضع کردیں جو اس سازشی عمل میں کارآمد ٹھہریں۔ مخالفین نے مسلمانوں کی بدنامی اوررسوائی کے لیے ایسی رپورٹیں تیار کیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ مسلمانوں کو تند مزاجی اور بے تحملی پر مجبور کرنے کے لیے طرح طرح کے ٹوٹکے استعمال کیے گئے، تاکہ اہلِ اسلام کا کم از کم ایک فریق ایسا سامنے آسکے جومسلمانوں کے خلاف ہر قسم کی جارحیت اور الائنس کے لیے بہانہ بن سکے۔
چناں چہ تحمل مزاجی جہاں لذاتہ ایک خوبی ہی خوبی ہے،وہاں اس کی ضرورت و اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب متعلقہ حالات ایسے نازک موڑ پر پہنچ جائیں جب لمحہ بھر کی بے احتیاطی یا بے صبری کی سزا سالوں پر محیط ہوسکتی ہے اور خود مسلمانوں ہی کے لیے ایسی فضا نمودار ہوسکتی ہے جس میں نہ صرف یہ کہ محض دنیوی طورپر ان کا نصیب سوائے حسرت وفریاد اور کچھ نہ رہے، بلکہ دینی و اخروی لحاظ سے بھی ان کے حق میں کوئی اچھا شگون سامنے آنے والا نہ ہو۔ 
آج کل جو پوزیشن اورماحول ہے، کیا یہ بات محتاج بیان ہے کہ کون سا قدم کہاں رکھے جانے کا اقتضا کرتا ہے۔ کیا نہایت فکروتدبراوربہت زیادہ حکمت ومصلحت سے مالامال رہنے کی ضرورت نہیں؟ تو کیا ایسے میں کسی بھی حوالے سے دعوت بس یہی سامنے نہیںآ تی کہ نہایت مضبوطی وسنجیدگی سے جہاں دیگر احکامِ دین کی بجا آوری کے سوا کوئی صورت نہیں،وہاں خداکے لیے اس اہم حکم تحمل مزاجی سے نہایت اونچی سطح پر کام لینے کی پابندی کویقینی بنایاجائے؟ 
چشمِ فلک دیکھ رہی ہے، دشت و دریا گواہ ہیں کہ وہ کون سی چیز اورطرزو انداز ہے جس کے سبب مسلمان غیر ضروری اوربلامقصد مارکھار رہے ہیں۔ آیا وہ کیا کچھ ہے اور کون سا طریقہ و فارمولہ ہے جسے اپناکر وہ عبث اور فضول تباہی وبربادی سے بچ سکتے ہیں۔ کیا جس تحمل و برداشت سے ایک طرف اسلامی تقاضا بھی پورا ہوسکتا ہے اور دوسری طرف لاحاصل الجھن اور خودساختہ مصیبت کی بھی روک تھام ہوسکتی ہے، اس سے احتراز برتنے کا آخر کیا باعث وداعیہ ہے؟ اس سے زیادہ مناسب و موزوں اوربہتر موقع اور کون سا آسکتا ہے؟
آخر میں یہ عرض کرنا مقتضائے حال سمجھتاہوں کہ آج کل مسلمانوں کے لیے تحمل مزاجی کا معاملہ کتنا اہم ہے،یہ سوال اپنی جگہ صحیح، مگر جو اصل اہمیت کاحامل اورنہایت فکروتوجہ والا مسئلہ ان کی بابت درپیش ہے وہ یہ ہے کہ آخر یہ مسلمان کہلانے والے لوگ خداکی طرف سے آئی ہوئی تعلیمات وہدایات سے اس قدر بے زار اور کنارہ کش کیوں ہیں؟ وہ خودہی اسلام کے احکام کے اتنے برعکس کیوں چل رہے ہیں؟ غیر مسلموں کی اسلام سے نفرت ودوری تو اپنی جگہ مسلّم ہے ہی، مگر ان مسلمانوں کے طرز عمل اور دن رات کے انہماکات اورچل چلن سے یہ کیوں واضح طورپر ثابت ہورہاہے کہ ان کی بھی اصل مخالفت و مخاصمت بس اسلام اوردینی احکام ہی سے ہے۔یہ حقیقت کسی طرح بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت کم ہی مسلمان اسلام پر صحیح طورپر عمل پیرا ہوں گے؛باقی کو اسلام یاد تک بھی نہ ہوگا۔تقویٰ و پرہیزگاری نام کی چیز جو اسلام کی اصل روح ہے ،ان کی مصروفیات و ترجیحات سے کوسوں دور ہے۔ بس وہی کچھ ہم مسلمان بھی کررہے ہیں جو غیر مسلم کررہے ہیں۔ان کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ سارے معیارات اوررجحانات ومیلانات تقریباً ایک ہی ہیں۔ موت، حشرونشر، حساب وکتاب اور جنت و دوزخ کے ہو ل ناک اورسنگین مراحل سے وہ بھی سارے غافل اوربالکل بے خوف ہیں اور عملاً ہم بھی۔
تو مسئلہ دراصل مسلمان بننے یعنی دین دار ہو کر رہنے کا ہے کہ دین کے جتنے بھی شعبے ہیں، عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات اور معاشرت، جیساکہ ذکرکیاگیاتھا، ان سب کے سب کی عملی پاس داری کی جائے۔ تو جب یہ دین داری والی سوسائٹی قائم ہو گی تو خودبخود جس چیز کی جہاں ضرورت ہوگی وہ ہوتی جائے گی۔ جہاں مثلاً شعبہ اخلاق سے متعلق حکم ”تحمل مزاجی“ درکار ہوگی تو اس سے ذرہ برابر بھی اعراض نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ہر ہر عمل اور حکم کی بجا آوری کی نوبت ہوگی اور اس کے متعلق جملہ کیفیات ولوازم اور اس کے مضمرات و اثرات سے خود بخود خبر گیری کادوردورہ ہو گا۔
تو یہ دنیا ہے، اس میں سب سے پہلے نمبر پرحضرت انسان کو اپنے مقصد حیات اور نظریہ حیات کی تعیین کرنی ہے اوریہ کہ ممتازترین مقام و مرتبے کی حامل ہستی کا وجود آخرکیوں کر معنی خیزی کا تاثر پیش کرسکے ؟اور ایک بار کی ملی ہوئی زندگی آخر کس طرح سب سے بہتر استعمال کے لیے وقف کی جاسکے؟

Flag Counter