***
خواتین اورمخلوط تعلیم
مولانا محمد جہان یعقوب
عورتوں کی تعلیم کیسی ہونی چاہیے؟ اور کہا ں ہونی چاہیے؟ اس کی صورت اور کیفیت کیسی ہونی چاہیے؟ چناں چہ الله تعالیٰ نے اس کے متعلق صاف کہ دیا ہے کہ﴿واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکنّ من آیات الله والحکمة﴾․ (سورة الاحزاب : 34/ 22)
اور یاد کرو جو پڑھی جاتی ہیں تمہارے گھروں میں الله کی باتیں اور عقلمندی کی - چوں کہ خواتین سے متعلق احکامات عفت پردہ وغیرہ سورہ نور میں قدرے تفصیل سے مذکور ہیں، اس لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے سورة نور کی تعلیم کی خصوصی ”ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ﴿علمو انسائکم﴾ (سور ة النور) اپنی عورتوں کو سورة نور کی تعلیم دو۔ اب کتاب و سنت میں بیان فرمودہ خدا اور رسول کی پاکیزہ تعلیمات سے مسلم بچیوں کو محروم کر کے، کالجوں ، یونیورسٹیوں وغیرہ میں پڑھنے کے لیے بھیجنا نا معلوم کو نسی غیرت وحمیت اور عظمت وترقی ہے ایسا کرنا مسلم بچیوں کے ساتھ یقینا ظلم وزیادتی ہے اور ان کے دین وایمان اور شرم وحیا کو برباد کرنے کی ایک عظیم سازش ہے۔ دنیوی علوم وفنون اور معلومات عامہ کے لیے عورت ذات کا تو ان سے بے خبر ہونا ہی حق تعالیٰ کے نزدیک اس کی خوبی ہے، جس پر﴿الغافلات المؤمنات﴾ (سورہ نور پ18) کی نص صریح موجود ہے، اس کے مقابلہ میں آج کے اس جنون ترقی پر ایک نظر ڈالیے کہ نوجوان بچیوں کو اس دنیوی تعلیم وادب کی تربیت کے لیے اندرون ملک تو کیا بیرون ملک یورپ وامریکہ اور فرانس وبرطانیہ تک کی یونیور سٹیوں کے چکر لگوائے جارہے ہیں ۔
خداوند کریم ہی ہدایت وغیرت کی نعمت عطا فرمائے اس کے باوجود کیا کہا جا سکتا ہے جب کہ خواتین کے لیے تعلیم کی نوعیت متعین ہوگئی کہ فقط قرآن وحدیث کی تعلیم ہی سے انہیں روشناس کرایا جائے۔ اب سوال یہ رہا کہ خواتین کے لیے تعلیم گاہ کہاں ہو، گھروں کی پاکیزہ وباپردہ فضا میں یا اسکولوں، کالجوں اور یونیور سٹیوں وغیرہ کے آوارہ مزاج و ماحول میں چناں چہ ﴿وقرن فی بیوتکن﴾ کہہ کر بتلا دیا گیا کہ خواتین دینی تعلیم گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر حاصل کریں، تاکہ ستر وحجاب کے باعث ، شرم وحیا اور عزت وعفت محفوظ رہے۔
اس کے متعلق صحیح بات یہی ہے کہ خواتین اپنے گھر میں رہتے ہوئے محرم مردوں مثلاً والد، دادا، چاچا ،تایا ، نانا، بھائی ، ماموں، وغیرہ اور اسی طرح پختہ علم رکھنے والی عورتوں سے علم دین حاصل کریں۔ البتہ اگر بدقسمتی سے پورے گھرانے میں کوئی ایک بھی متقی وپرہیز گارعالم دین موجود نہ ہو اور نہ ہی کوئی متقی وپرہیز گار عالمہ فاضلہ عورت ہو تو اس صورت میں دینی مسائل کی تحقیق کیلئے اھل حق علماء کے پاس اپنے کسی محرم کے ساتھ باپردہ جانا درست ہے، جیسا کہ تحقیق مسائل کے لیے بہت سے مواقع پر حضرات صحابہ کرام کی عورتوں کا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا ثابت ہے، یہاں تک کہ عورتوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ان کی درخواست پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ہفتہ میں ایک دن بھی ان کے لیے مقرر فرما دیا تھا۔ (صحیح بخاری) اب خوب غور فرمائیں کہ جو نام نہاد تعلیم پردہ اور چار دیواری ختم کیے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی اور جس کی بنیاد ہی پردہ شکنی کے اصول پر ہو ،اس کا حصول کسی مسلمان لڑکی کے لیے کہاں تک جائز ہو سکتا ہے؟ بلکہ لڑکیوں کے حق میں اسے تعلیم کہنا ہی دھوکہ اور فریب ہے کہ تخریب اخلاق وکردار کو تعلیم کا نام دیا گیا۔
عورت ذات کا ستر وحجاب اور ا س کے جوہر شرم وحیا کا تحفظ شریعت مطہرہ کو اس حد تک مطلوب ہے کہ بہت سے وہ احکامات شرعیہ جن کی بجا آوری کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے، مثلاً مسجد کی نماز باجماعت ، جمعہ کی نماز، عیدین کی نماز ، جنازہ کی نماز ، تدفین میت ، جہاد فی سبیل الله ، امامت صغریٰ، امامت کبریٰ وغیرہ سب کی طرف سے عورت ذات کو سبک دوش کردیا تاکہ وہ چشم غیرت زیادہ سے زیادہ پوشیدہ رہے اور یہ اس لیے کہ عورت ذات اپنی اصل کے اعتبار سے چھپی رہنے کی چیز ہے، جیسا کہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ”المرأة عورة، فاذا اخرجت استشرقھا الشیطان“․ (الحدیث رواہ الترمذی)
عورت تو چھپے رہنے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تاکتا ہے۔ یعنی شیطانی مزاج لوگوں کو ابھار کر اس کے پیچھے لگا نے کی کوشش کرتا ہے، ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا ”ویل للرجال من النساء، وویل للنساء من الرجال“ (الحدیث رواہ ابن ماجہ)
ہلاکت ہے مردوں کے لیے عورتوں کی وجہ سے اور ہلاکت ہے عورتوں کے لیے مردوں کی وجہ سے چناں چہ تمام شرور اور فتن کا دروازہ بند کرنے کے لیے الله جل جلالہ نے یہ حکیمانہ ارشاد جاری فرمایا کہ ﴿وَقَرْن فی َ بُیُوْتِکُن﴾ (سورة احزاب : 33/ 22)
اے عورتو! اپنے گھروں میں ٹکی بیٹھی رہو۔ کہ نہ گھر سے باہر نکلیں گی نہ کوئی فتنہ فساد ہوگا، البتہ بوقت ضرورت مکمل پردہ کے ساتھ اپنے کسی محرم کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت شریعت میں ضرور موجود ہے۔
اورحقیقت یہ ہے کہ ان جدید تعلیم یافتہ ماڈرن قسم کی لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کی صورت میں بے پروائی ”نمائش “ فضول خرچی وغیرہ ان کی طبیعت بن جاتی ہے اور یہ کیوں نہ ہوگا؟ جو بچی بچپن سے لے کر بیس پچیس سال کی عمر تک آزادی اور آوارگی کی زندگی گزارے، اب خود اندازہ لگائیے کہ جب نوجوان لڑکیوں کا اپنے جیسے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ اختلاط ہوگا تو کیا اس صورت میں جانبین کے جذبات میں جوش وہیجان پیدا نہیں ہوگا جب کہ فطری طور پر بھی مرد اور عورت میں ایک دوسرے کی طرف کشش کا مادہ طبعا موجود ہے۔
چناں چہ مخلوط تعلیم کے حوالے سے یہ کہنے پر ہم مجبور ہیں کہ آج کل عموماً دوران تعلیم ہی اکثر طلبہ وطالبات کے مابین عشق وفا کے عہد وپیمان اور کہانیاں شروع ہو جاتی ہیں اور اس نتیجے میں وہ سب کچھ گزرتا ہے جس کا تصور شادی بیاہ ہوجانے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ناجائز تعلقات اور حرام کاری کا یہ غلیظ دھندہ اپنی روز افزوں ترقی کے باعث اب اس قدر عام ہونے لگا ہے کہ اس کے بھیانک انجام کو سوچتے ہوئے دل ودماغ ماؤف ہونے لگتے ہیں کہ خدا یا! بعد چندے نامعلوم کیا کچھ سامنے آنے والاہے۔
کتنے معزز گھرانوں کی نیک سیرت ونیک صورت بچیاں اس مخلوط تعلیم ہی کی وجہ سے بدنام زمانہ ہوئیں۔ مگر ان جدید تعلیم وتہذیب کے مقابلہ میں وہ لڑکیاں جو قرآن کریم اور دینی مسائل کی چند ابتدائی کتابیں مثلاً تعلیم الاسلام ، بہشتی زیور ، بزرگان دین کے رسائل وغیرہ پڑھتی ہیں، ان میں عموماً شرم وحیا اور عزت وعفت کا جوہر موجود ہوتا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شریف الطبع انسان ہمیشہ ایسی ہی نیک بخت اور سادہ طبیعت والی لڑکی کو ازدواجی رشتہ کے لیے زیادہ پسند کرتا ہے۔
اس لیے حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر وبیشتر انگریزی اور جدید تعلیم وتہذیب ہی شادی بیاہ کے سلسلہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اگر ان تمام مندرجہ بالا بدیہاِت وحقائق پر یقین نہ آئے تو شہروں اور دیہاتوں کا سروے کر کے دیکھ لیا جائے کہ انگریزی خواندہ لڑکیاں بغیر نکاح کے گھر میں بیٹھی ہیں یا دینی تعلیم یافتہ لڑکیاں گھر میں بغیر نکاح کے بیٹھی ہیں ،اس کی حقیقت سب کے سامنے کھلی ہوئی ہے۔
اسلام نے اندرون خانہ انتظام وانصرام کا فریضہ عورت کے سپرد کیا ہے اور بیرون خانہ اکتساب رزق کی جدوجہد کا فریضہ مردوں کے ذمّہ رکھا ہے، چناں چہ بچوں کی پرورش ، ان کے غور وفکر ، ان کو دودھ پلانا ، عورت ہی کی ذمّہ داری ہے ۔
﴿وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَھُنَّ﴾ (سورة البقرہ، 3/233)
اور مائیں ہی اپنے بچوں کو دودھ پلائیں۔ دوھ پلانا پرورش کی سب سے پہلی منزل ہے، اس کے بعد کی منزلیں بھی عورت ہی کی ذمّہ داری ہے، جب تک بچہ اس قابل نہ ہو جائے کہ وہ اپنا کام خود کر سکے۔
قرآن کریم نے عورتوں کو گھر کی محافظ ونگران قرار دیا: ﴿فالصالحات قانتات حافظات للغیب بما حفظ الله﴾․
اصل حفاظت تو الله ہی کر تے ہیں لیکن گھر کی محافظ ونگراں ظاہری طور پر عورتیں ہی ہوتی ہیں، کیوں کہ مرد اکتساب رزق کی جدوجہد اور ذمہ داریوں کی وجہ سے ہر وقت گھروں میں نہیں رہتے، مردوں کی غیر حاضری کی صورت میں گھر کے سازو سامان اور اولاد کی نگرانی اور حفاظت عورتوں ہی کی ذمہ داری ہے، حضور علیہ السلام کا بھی یہی ارشاد ہے کہ:”والمرأة راعیة علی اہل بیت زوجھا وولدہ، وھی مسئولة عنھم“․ (مشکوٰة 320۔ مسلم 122)
کہ اس کا فرض ہے کہ ان کے حقوق اور مفادات کی نگہداشت کرے اور ان کو راہ راست پر چلائے اور غلط روی سے باز رکھے اور ان کے نفع وضرر کی اس طرح نگرانی کرے جس طرح ایک چرواہا جنگل میں بھیڑ بکریوں کی نگرانی کرتا ہے۔