Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1432ھ

7 - 19
***
غازی عبدالقیوم، غازی علم الدین کو چیلنج کیوں؟
پروفیسر ابو طلحہ عثمان
یا رسول الله! میں ہوں اسے مارنے والا، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی، گستاخیاں کرتی تھی، میں اسے روکتا وہ رکتی نہ تھی، میں اسے دھمکاتا وہ باز نہ آتی تھی، وہ مجھ پر تو مہربان تھی، میرے اس سے دو بچے ہیں، جو موتیوں کی طرح ہیں مگر اس نے آج رات آپ کو گالیاں دینی اور بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر اُس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اُسے مار ڈالا… نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی عالی خدمت میں صبح کے وقت ایک باندی کے قتل کا ذکر کیا گیا، آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور الله کی قسم دے کر فرمایا کہ میرا تم پر حق ہے، میں قسم دے کر کہتا ہوں کہ جس نے اسے قتل کیا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ ایک نابینا صحابی آگے بڑھا، اُس پر خوف طاری تھا۔ عرض کیا یا رسول الله! یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور تفصیل بتائی۔ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”لوگو! گو اہ رہو، اس ( مقتولہ) کا خُون بے سزا ہے۔“ (مفہوم حدیث ابوداؤد، نسائی، کنزل العمال ودیگر)
ایک یہودی عورت نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کو سب وشتم کیا کرتی تھی۔ ایک صحابی نے اُس کا گلا دبا کر قتل کر دیا۔ اس کے خون کو بھی ناقابل باز پرس قرار دیا گیا۔ ( بحوالہ ابوداؤد)
ایک اور عورت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی ارشاد گرامی ہوا:”من یکفینی عدوی؟“ کون اس کی خبر لے گا؟ اس پر سیدنا خالد بن ولید رضی الله عنہ نے اُسے قتل کر دیا ۔ (بحوالہ الصارم المسلول)
خطمہ قبیلے کی ایک عورت عصماء نامی نے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی ہجوکی ارشاد ہوا ” اس سے کون نمٹے گا؟“ عمیر بن عدی اُسی کے رشتے دار تھے۔ بینائی بیحد کمزور کہ جہاد میں نہ جاسکتے تھے۔ نبی اور اصحاب نبی غزوہٴ بدر گئے ہوئے تھے۔ عمیر بن عدی نے منت مانی۔ یا الله! اگر تونے اپنے رسول علیہ السلام کو غزوہٴ بدر سے بخیروعافیت لوٹا دیا تو اس (خبیثہ) کو میں قتل کردو ں گا۔ نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ پہنچے۔ عمیر بن عدی آدھی رات کو اُس عورت کے گھر میں داخل ہوئے، اُس کے بچے اس کے اردگرد سوئے ہوئے تھے۔ عمیر رضی الله عنہ نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا تو پتا چلا کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ حضرت عمیر نے بچے کو اس کے سینے سے الگ کر دیا۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ اس کی پشت سے پار ہو گئی… نماز سے فارغ ہو کر نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا ” تم نے بنتِ مروان کو قتل کیا ہے ؟“ عمیر کہتے ہیں مجھے ڈر لگا کہ کہیں میں نے خلافِ مرضی رسول تو یہ قتل نہیں کیا… عرض کیا ” جی ہاں، اے الله کے رسول! کیا اس معاملے میں مجھ پر کچھ (سزا) واجب ہے ؟“ … ارشاد گرامی ہوا ” اس معاملے میں تو دو بکریاں بھی سینگ نہ ٹکرائیں“ پھر لوگوں سے فرمایا“ تم لوگ اگر اُس شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے الله اور رسول کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔ “ … جب حضرت عمر فاروق اعظم نے کہا کہ ” یہ نابینا ہم سے بازی لے گیا“ تو ارشاد نبوی ہوا ”یہ نابینا نہیں بینا ہے۔“
ابن خطل نبی مکرم کی ہجو میں اشعار کہتا۔ اُس کی باندیاں ارنب اور قرتنا اُن اشعار کو گاکر پڑھتیں۔ قرتنا کی طلب معافی اور زاری پر اسے داخلہٴ اسلام کی اجازت مل گئی مگر ارنب فتح مکہ کے موقعہ پر قتل کی گئی … عبدالعزی ابن خطل مذکور کعبہ کے پردوں پر چھپ گیا، مگر اُسے وہاں بھی پناہ نہ دی گئی، اصحاب رسول کو حکم ہوا اُسے وہیں قتل کر دو، چناں چہ قتل کر دیا گیا۔ فتح مکہ ہی کے موقعہ پر ایک او رگستاخ رسول حویرث کو سیدنا علی نے قتل کیا… فتح مکہ کے موقعہ پر جب ” لا تثریب علیکم الیوم“ عام معافی کا اعلان ہوا، ابن خطل سمیت5 گستاخان رسول کو رحمتِ عامہ اور عفوعامہ سے محرومی ہی ملی اور نارجحیم ان کا مقدر ہوا… ابو عفک یہودی 120 سال کا بوڑھا تھا، مگر بیحد گستاخِ رسول۔ سالم بن عمیر ایک عاشق رسول نے سوتے میں اسے بستر پر ہی حوالہ تیغ کر دیا… انس بن زینم دیلمی کو بنی خزاعہ کے ایک بچے نے زخمی کر دیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کو واقعہ کا علم ہوا توکوئی باز پرس نہ فرمائی … دشمن رسول، یہودی سردار ابو رافع کو سیدنا عبدالله بن عتیک رضی الله عنہ اور ان کے رضا کار ساتھیوں کے ذمہ کرکے اہل حجاز کے اس بڑے تاجر کو قتل کر وا دیا گیا۔ ایک اور بڑے گستاخِ رسول یہودی سردار کے بارے میں ارشاد رسول ہوا”کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ الله اور اس کے رسول کو بہت ستارہا ہے!“ محمد بن مسلمہ انصاری نے اجازت رسول سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسے جہنم رسید کر دیا… یہ واقعات موجودگی رسول کے وقت کے ہیں، عورت ہو یا مرد، بوڑھا ہو یا جوان، عام آدمی ہو یا سردار، ایک ہی سلوک کا مستحق ہے۔ پہلی شریعتوں میں بھی یہی حکم تھا۔ کسی بھی نبی کی توہین پر اب بھی یہی حکم ہے، حتی کہ نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط بدر کے جنگی قیدی تھے۔ انہیں بھی تہہ تیغ کیا گیا۔ ارشاد رسول ہوا”اس الله کی تعریف ہے جس نے تجھے قتل کرکے میری آنکھیں ٹھنڈی کیں۔“
آئین پاکستان میں شریعت کورٹ کے فیصلے کو قومی اسمبلی نے 1984ء میں قانونی شکل دے کر آئین کا حصہ بنایا، پھر 2 جون 1992ء کو متفقہ طور پر توہین رسالت پر سزائے موت کا قانون بنایا گیا۔ گستاخ نتھورام کو جہنم رسید کرنے والے غازی عبدالقیوم نے انگریز جج کے سوال پر دیوار پر لگی جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا تھا” اگر کوئی اسے گالی دے، تمہارا خون جوش نہیں مارے گا؟ “ اور اب آج کے پاکستان میں آئینی قانونی کارروائی کو کسی کے دباؤ پر معطل کرکے محمدی دیوانوں غازیوں غازی عبدالقیوم، غازی علم الدین اور ان کے ساتھیوں کو کیوں چیلنج کیا جا رہا ہے؟!

Flag Counter